پاکستانی اردو شاعری پر چند اہم آرا
میرے ایک اور معزز قاری جناب شاہ نواز سواتی کی رائے کا ذکر بھی بہت ضروری ہے
پچھلے ایک کالم بعنوان'' پاکستانی اردو شاعری '' پر بہت سے احباب نے اپنی رائے سے نوازا۔ان میں اردو،انگریزی،فارسی ادب کے اساتذہ و طلبا، اور شاعروں کی آراء خصوصی طور پر اہمیت کی حامل ہیں،ان سب آراء کا بصد احترام اور بغور جائزہ لینے سے ایک گونہ مسرت کے احساس نے جنم لیا کہ ہمارے معزز قارئین کتنے آگاہ ہیں اور کتنی نگاہَ تیز رکھتے ہیں۔موصول ہونے والی تمام آراء کو ایک کالم میں پیش کرنا ممکن نہیں اس لیے پہلے آئیں پہلے پائیں کے مصداق سب سے پہلے موصول ہونے والی چند آراء کو سامنے لاتے ہیں۔
میرے پہلے کرم فرما اور دوست جناب موسیٰ رضا آفندی نے جہاں کالم کو سراہا وہیں جناب احمد فراز کا تذکرہ نہ ہونے کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ عرض ہے کہ فراز صاحب ایک نہایت ہی ہردلعزیز شاعر اور اکیڈمی ادبیات پاکستان میں سربراہ کی حیثیت سے میرے پیش رو رہے ہیں، میں ان کا بہت احترام کرتا ہوں۔
میرے معزز قاری جناب ناصر اسلام صاحب نے بہت ہی عالمانہ اور مفصل تبصرے سے نوازا۔ ان کی رائے میں آزادی کے فوراً بعد بہت سے خوبصورت لہجے کے شاعروں نے اپنے گھر بار کو چھوڑا اور پاکستان کی جانب ہجرت کی۔اُن کے اس دلیرانہ قدم کو بہت تحسین کی نظر سے دیکھنا چاہیے اور ساتھ ہی ان کی اپنے نئے وطن پاکستان کے لیے محبت کو سراہا جانا چاہیے۔
ان شعرائے کرام میں جناب سیماب اکبر آبادی، آرزو لکھنوی، استاد قمر جلالوی، جناب ماہرالقادری،جناب جمیل الدین عالی، جناب بہزاد لکھنوی، جناب تابش دہلوی اور جناب جوش ملیح آبادی شامل ہیں،ہمارے پاکستان کی پاک دھرتی سے چند خوبصورت لہجے کے جو شعراء تقسیم کے نتیجے میں بھارت ہجرت کر گئے ان میں گوپی چند نارنگ، تلوک چند محروم ،جگن ناتھ آزاد،عرش ملیسانی،مالک رام، رجندرا کرشنا، اور آخر میں ساحر لدھیانوی جیسے قادرالکلام شاعر تھے۔
کاش ان کو رکنے پر قائل کر لیا جاتا۔جناب ناصر اسلام نے ایک گونہ گلے کے انداز میں فرمایا کہ کالم میں یوں تو بہت سے شعراء کا ذکر کیا گیا لیکن جناب احمد فراز، جناب محسن احسان اور جناب اختر مسعود رضوی کا ذکر نہیں اسی طرح جناب شکیب جلالی کا ذکر بھی نہیں کیا گیا۔فلم سے وابستہ شعرائے کرام میں جناب قتیل شفائی،جناب احمد راہی، جناب شہیر کاظمی، جناب فیاض ہاشمی،جناب طفیل ہوشیار پوری، جناب کلیم عثمانی اور جناب سیف الدین سیف کے نام بہت نمایاں ہیں لیکن ان کا ذکر بھی کالم میں نہیںکیا گیا۔ان کے ساتھ ساتھ جناب ساحر لدھیانوی، جناب شکیل بدایونی، جناب کرشن چندر، ،جناب کیفی اعظمی، راجہ مہدی علی خان،جناب جان نثار اختر، آنند بخشی اور مجروح سلطان پوری جیسے با کمال شعرا بھی تذکرے سے محروم رہے جنھوں نے بہت ہی خوبصورت فلمی شاعری سے نوازا۔
جناب ڈاکٹر مقصود جعفری کی آبزرویشن جنرل ضیاء الحق کے دورِ استبداد میں مزاحمتی ادب اور خاص کر مزاحمتی شاعری سے متعلق ہے۔ڈاکٹر مقصود جعفری نے ٹیکساس امریکا سے پی ایچ ڈی کی۔آپ ایک Prolific رائٹر، وسیع مطالعہ رکھنے والے مفکر،روشن خیال سیاستدان، ادیب اور نہایت خوبصورت لہجے کے شاعر ہیں۔ایک عالم ان کے اشعار اور نگارشات کا گرویدہ ہے۔
آپ کے شعری مجموعوں میں شعلہء کشمیر،گوشہء قفس،جبر مسلسل، میخانہ،نخلِ آرزو،متاعِ درد،اوجِ دار اور آوازِ عصر کے علاوہ بھی متعدد کتابیں شامل ہیں،آپ نے اردو کے علاوہ انگریزی اور فارسی میں بھی بہت لکھا،جنرل ضیاء الحق کے استبدادی دور میں آپ مسلسل بے باکانہ نعرہٗ مستانہ بلند کرتے بھی رہے اور دوسروں کی بھی ہمت بندھاتے رہے۔اس دور میں آپ گورڈن کالج راولپنڈی کے شعبہء انگریزی سے وابستہ تھے لیکن روزگار کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ غاصبانہ حکومت کے جبر کے خلاف اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔
آپ کی کتاب گوشہء قفس اسی دور میں شایع ہوئی ۔اس کتاب کی دو نظمیں بعنوان "زنجیرِ ظلم اور آمریت "بہت مشہور ہوئیںجس پر انتظامیہ نے ان کو اور ان کے خاندان کو بہت پریشان رکھا لیکن وہ اپنی قلم اور آواز کو آزادیء اظہار کے لیے وقف کیے رہے۔ مزاحمتی شاعروں میں آپ کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
میرے ایک اور معزز قاری جناب شاہ نواز سواتی کی رائے کا ذکر بھی بہت ضروری ہے۔ان کی رائے اس حوالے سے بہت اہم ہے کیونکہ سواتی صاحب خود خوبصورت لہجے کے شاعر ہیں۔عمومی طور پر انھیں رومانوی شاعر گردانا جاتا ہے۔سواتی صاحب کی آبزرویشن یہ تھی کہ کالم میں کلاسیکی اور رومانوی شاعری کے حوالے سے بھی دیکھا جانا چاہیے۔خود اس حوالے سے ان کی رائے کچھ یوں ہے،
'' شاعری کسی سوچی سمجھی کوشش سے وجود میں نہیں آ سکتی۔بڑے شاعروں پر آمد کے وقت اشعار یوں نازل ہوتے ہیں جس طرح برسات میں موسلا دھار باش کے قطرے زمین پر گرتے ہیں۔تخلیقِ شعر کا عمل اختیاری نہیں بلکہ اضطراری عمل ہے۔شاعری محض اوزان اور قافیہ ردیف کا نام نہیں۔یہ صرف ظاہری پیکر ہیں،اس پیکر میں شاعری کا جادو بھی موجود ہے جس کا آہنگ اور مٹھاس قاری یا سامع کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور پھر سب سے بڑی خوبی اندازِ بیان ہے۔سیف اندازِ بیان رنگ بدل دیتا ہے ، ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں،)سیف الدین سیف(
اچھے شعر کو بار بار پڑھنے یا گنگنانے کو جی چاہتا ہے،جیسے دلفریب خوشبو کو بار بار سونگھنے کو جی چاہے۔ اصل اہمیت اندازِ بیان کی ہے کیونکہ شعر ایک حُسن پارہ ہے۔شعر دراصل ہیں وہی حسرت،سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں)حسرت موہانی( یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ شعر میں شعر کے معانی سے ماورا کوئی غیر مرئی چیز بھی ہوتی ہے۔
معانی سے زیادہ اہم وہی ہے۔کلاسیک اس ادبی شاہکار کو کہتے ہیں جو اپنے تاثر اور مقبولیت کے حوالے سے زماں و مکان کی سرحدوں سے ماورا ہوتا ہے اور جسے ہر عہد میں شہرتِ عام اور بقائے دوام حاصل ہوتی ہے،جوں جوں وقت گزرتا ہے وہ ادب پارہ جسے ہم کلاسیک کا نام دیتے ہیں اپنے تاثر میں زیادہ گہرا اور اپنی ہردلعزیزی میں زیادہ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔ہر عہد کے پڑھنے والے یہی محسوس کرتے ہیں کہ یہ خاص انھی کے لیے لکھا گیا ہے اور انھی سے مخاطب ہے۔آج سے سیکڑوں، ہزاروں برس پہلے لکھی گئی باتیں کچھ الفاظ متروک ہو جانے کے باوجود آج بھی یہ احسا س دلا رہی ہیں کہ ابھی کل ہی کسی نے یہ لکھا ہے"۔
شاہ نواز سواتی صاحب کی رائے میں "شاعری میں دیوانِ غالب کی طرف خیال جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بعد کے زمانے میں اُسے جو شہر ت اور مقبولیت حاصل ہوئی،جتنے خوبصورت نسخے اس مجموعے کے شایع ہوئے ،یہ اعزاز دنیا میں چند گنی چنی کتابوں کو حاصل ہوا۔زماں و مکاں کی سرحدیں رکاوٹ بننے کے بجائے اس کی نشرو اشاعت میں سنگ ہائے میل ثابت ہوئی ہیں۔
ایسی کئی مثالیں کلاسیکی ادب کی دی جا سکتی ہیں چاہے جس زمانے کا ہویاجس مکاں کا ہو۔ جس عہد میں کلاسیک کی تخلیق ہو رہی ہو وہ ا س حقیقت سے بے خبر ہوتا ہے کہ کوئی غیر معمولی عظمت و رفعت کا حا مل ادب پارہ تخلیق پا رہا ہے اگرچہ جدت کا عمل بھی جای و ساری ہے لیکن کلاسیکی شعر کی مقبولیت و اہمیت میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی۔اردو غزل کی مثال لے لیجیے۔ہمارے بہت سے شعراء غزل میںجدت کی طبع آزمائی میں مصروف ہیں۔
لیکن جس نے بھی روایت کو نظر اندازکیا وہ جلد ہی منظر سے غائب ہو گیا،صدیاں گزر جانے کے باوجود کلاسیکی غزل آج بھی اسی طرح تر و تازہ ہے اور موسیقی کی رونق بھی وہی ہے۔لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ روایت اور جدت کا ایک حسین امتزاج ہی اردو شاعری اور خاص کر غزل پر جچتا ہے''۔میں نے اپنے چند کرم فرماؤں کی میرے کالم پاکستانی اردو شاعری پر آرا ء من و عن پیش کر دی ہیں۔ان شا اﷲ بھر کسی کالم میں ان پر بھی بات ہو سکے گی اور شاعری پر بھی۔ WHOکی رائے میں اگلے دو مہینے وائرس کا پاکستان میں شدید حملہ ہو گا۔اپنی حفاظت کریں۔اﷲ ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھے۔
میرے پہلے کرم فرما اور دوست جناب موسیٰ رضا آفندی نے جہاں کالم کو سراہا وہیں جناب احمد فراز کا تذکرہ نہ ہونے کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ عرض ہے کہ فراز صاحب ایک نہایت ہی ہردلعزیز شاعر اور اکیڈمی ادبیات پاکستان میں سربراہ کی حیثیت سے میرے پیش رو رہے ہیں، میں ان کا بہت احترام کرتا ہوں۔
میرے معزز قاری جناب ناصر اسلام صاحب نے بہت ہی عالمانہ اور مفصل تبصرے سے نوازا۔ ان کی رائے میں آزادی کے فوراً بعد بہت سے خوبصورت لہجے کے شاعروں نے اپنے گھر بار کو چھوڑا اور پاکستان کی جانب ہجرت کی۔اُن کے اس دلیرانہ قدم کو بہت تحسین کی نظر سے دیکھنا چاہیے اور ساتھ ہی ان کی اپنے نئے وطن پاکستان کے لیے محبت کو سراہا جانا چاہیے۔
ان شعرائے کرام میں جناب سیماب اکبر آبادی، آرزو لکھنوی، استاد قمر جلالوی، جناب ماہرالقادری،جناب جمیل الدین عالی، جناب بہزاد لکھنوی، جناب تابش دہلوی اور جناب جوش ملیح آبادی شامل ہیں،ہمارے پاکستان کی پاک دھرتی سے چند خوبصورت لہجے کے جو شعراء تقسیم کے نتیجے میں بھارت ہجرت کر گئے ان میں گوپی چند نارنگ، تلوک چند محروم ،جگن ناتھ آزاد،عرش ملیسانی،مالک رام، رجندرا کرشنا، اور آخر میں ساحر لدھیانوی جیسے قادرالکلام شاعر تھے۔
کاش ان کو رکنے پر قائل کر لیا جاتا۔جناب ناصر اسلام نے ایک گونہ گلے کے انداز میں فرمایا کہ کالم میں یوں تو بہت سے شعراء کا ذکر کیا گیا لیکن جناب احمد فراز، جناب محسن احسان اور جناب اختر مسعود رضوی کا ذکر نہیں اسی طرح جناب شکیب جلالی کا ذکر بھی نہیں کیا گیا۔فلم سے وابستہ شعرائے کرام میں جناب قتیل شفائی،جناب احمد راہی، جناب شہیر کاظمی، جناب فیاض ہاشمی،جناب طفیل ہوشیار پوری، جناب کلیم عثمانی اور جناب سیف الدین سیف کے نام بہت نمایاں ہیں لیکن ان کا ذکر بھی کالم میں نہیںکیا گیا۔ان کے ساتھ ساتھ جناب ساحر لدھیانوی، جناب شکیل بدایونی، جناب کرشن چندر، ،جناب کیفی اعظمی، راجہ مہدی علی خان،جناب جان نثار اختر، آنند بخشی اور مجروح سلطان پوری جیسے با کمال شعرا بھی تذکرے سے محروم رہے جنھوں نے بہت ہی خوبصورت فلمی شاعری سے نوازا۔
جناب ڈاکٹر مقصود جعفری کی آبزرویشن جنرل ضیاء الحق کے دورِ استبداد میں مزاحمتی ادب اور خاص کر مزاحمتی شاعری سے متعلق ہے۔ڈاکٹر مقصود جعفری نے ٹیکساس امریکا سے پی ایچ ڈی کی۔آپ ایک Prolific رائٹر، وسیع مطالعہ رکھنے والے مفکر،روشن خیال سیاستدان، ادیب اور نہایت خوبصورت لہجے کے شاعر ہیں۔ایک عالم ان کے اشعار اور نگارشات کا گرویدہ ہے۔
آپ کے شعری مجموعوں میں شعلہء کشمیر،گوشہء قفس،جبر مسلسل، میخانہ،نخلِ آرزو،متاعِ درد،اوجِ دار اور آوازِ عصر کے علاوہ بھی متعدد کتابیں شامل ہیں،آپ نے اردو کے علاوہ انگریزی اور فارسی میں بھی بہت لکھا،جنرل ضیاء الحق کے استبدادی دور میں آپ مسلسل بے باکانہ نعرہٗ مستانہ بلند کرتے بھی رہے اور دوسروں کی بھی ہمت بندھاتے رہے۔اس دور میں آپ گورڈن کالج راولپنڈی کے شعبہء انگریزی سے وابستہ تھے لیکن روزگار کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ غاصبانہ حکومت کے جبر کے خلاف اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔
آپ کی کتاب گوشہء قفس اسی دور میں شایع ہوئی ۔اس کتاب کی دو نظمیں بعنوان "زنجیرِ ظلم اور آمریت "بہت مشہور ہوئیںجس پر انتظامیہ نے ان کو اور ان کے خاندان کو بہت پریشان رکھا لیکن وہ اپنی قلم اور آواز کو آزادیء اظہار کے لیے وقف کیے رہے۔ مزاحمتی شاعروں میں آپ کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
میرے ایک اور معزز قاری جناب شاہ نواز سواتی کی رائے کا ذکر بھی بہت ضروری ہے۔ان کی رائے اس حوالے سے بہت اہم ہے کیونکہ سواتی صاحب خود خوبصورت لہجے کے شاعر ہیں۔عمومی طور پر انھیں رومانوی شاعر گردانا جاتا ہے۔سواتی صاحب کی آبزرویشن یہ تھی کہ کالم میں کلاسیکی اور رومانوی شاعری کے حوالے سے بھی دیکھا جانا چاہیے۔خود اس حوالے سے ان کی رائے کچھ یوں ہے،
'' شاعری کسی سوچی سمجھی کوشش سے وجود میں نہیں آ سکتی۔بڑے شاعروں پر آمد کے وقت اشعار یوں نازل ہوتے ہیں جس طرح برسات میں موسلا دھار باش کے قطرے زمین پر گرتے ہیں۔تخلیقِ شعر کا عمل اختیاری نہیں بلکہ اضطراری عمل ہے۔شاعری محض اوزان اور قافیہ ردیف کا نام نہیں۔یہ صرف ظاہری پیکر ہیں،اس پیکر میں شاعری کا جادو بھی موجود ہے جس کا آہنگ اور مٹھاس قاری یا سامع کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور پھر سب سے بڑی خوبی اندازِ بیان ہے۔سیف اندازِ بیان رنگ بدل دیتا ہے ، ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں،)سیف الدین سیف(
اچھے شعر کو بار بار پڑھنے یا گنگنانے کو جی چاہتا ہے،جیسے دلفریب خوشبو کو بار بار سونگھنے کو جی چاہے۔ اصل اہمیت اندازِ بیان کی ہے کیونکہ شعر ایک حُسن پارہ ہے۔شعر دراصل ہیں وہی حسرت،سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں)حسرت موہانی( یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ شعر میں شعر کے معانی سے ماورا کوئی غیر مرئی چیز بھی ہوتی ہے۔
معانی سے زیادہ اہم وہی ہے۔کلاسیک اس ادبی شاہکار کو کہتے ہیں جو اپنے تاثر اور مقبولیت کے حوالے سے زماں و مکان کی سرحدوں سے ماورا ہوتا ہے اور جسے ہر عہد میں شہرتِ عام اور بقائے دوام حاصل ہوتی ہے،جوں جوں وقت گزرتا ہے وہ ادب پارہ جسے ہم کلاسیک کا نام دیتے ہیں اپنے تاثر میں زیادہ گہرا اور اپنی ہردلعزیزی میں زیادہ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔ہر عہد کے پڑھنے والے یہی محسوس کرتے ہیں کہ یہ خاص انھی کے لیے لکھا گیا ہے اور انھی سے مخاطب ہے۔آج سے سیکڑوں، ہزاروں برس پہلے لکھی گئی باتیں کچھ الفاظ متروک ہو جانے کے باوجود آج بھی یہ احسا س دلا رہی ہیں کہ ابھی کل ہی کسی نے یہ لکھا ہے"۔
شاہ نواز سواتی صاحب کی رائے میں "شاعری میں دیوانِ غالب کی طرف خیال جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بعد کے زمانے میں اُسے جو شہر ت اور مقبولیت حاصل ہوئی،جتنے خوبصورت نسخے اس مجموعے کے شایع ہوئے ،یہ اعزاز دنیا میں چند گنی چنی کتابوں کو حاصل ہوا۔زماں و مکاں کی سرحدیں رکاوٹ بننے کے بجائے اس کی نشرو اشاعت میں سنگ ہائے میل ثابت ہوئی ہیں۔
ایسی کئی مثالیں کلاسیکی ادب کی دی جا سکتی ہیں چاہے جس زمانے کا ہویاجس مکاں کا ہو۔ جس عہد میں کلاسیک کی تخلیق ہو رہی ہو وہ ا س حقیقت سے بے خبر ہوتا ہے کہ کوئی غیر معمولی عظمت و رفعت کا حا مل ادب پارہ تخلیق پا رہا ہے اگرچہ جدت کا عمل بھی جای و ساری ہے لیکن کلاسیکی شعر کی مقبولیت و اہمیت میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی۔اردو غزل کی مثال لے لیجیے۔ہمارے بہت سے شعراء غزل میںجدت کی طبع آزمائی میں مصروف ہیں۔
لیکن جس نے بھی روایت کو نظر اندازکیا وہ جلد ہی منظر سے غائب ہو گیا،صدیاں گزر جانے کے باوجود کلاسیکی غزل آج بھی اسی طرح تر و تازہ ہے اور موسیقی کی رونق بھی وہی ہے۔لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ روایت اور جدت کا ایک حسین امتزاج ہی اردو شاعری اور خاص کر غزل پر جچتا ہے''۔میں نے اپنے چند کرم فرماؤں کی میرے کالم پاکستانی اردو شاعری پر آرا ء من و عن پیش کر دی ہیں۔ان شا اﷲ بھر کسی کالم میں ان پر بھی بات ہو سکے گی اور شاعری پر بھی۔ WHOکی رائے میں اگلے دو مہینے وائرس کا پاکستان میں شدید حملہ ہو گا۔اپنی حفاظت کریں۔اﷲ ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھے۔