پاکستان اسٹیل ملزگولڈن ہینڈ شیک اسکیم خوش آئند فیصلہ
پاکستان اسٹیل ملز ’’گولڈن ہینڈ شیک اسکیم‘‘ یقیناً ایک اچھا فیصلہ ہے
گزشتہ3،4دہائیوں سے جنگیں مہلک ہتھیاروں، بڑی بڑی توپوں، ٹینکوں ، تلواروں یا طاقتور سورماؤں کے ذریعے نہیں لڑی جا رہیں، بلکہ ان کے لیے ''اسمارٹ ورک ، اسمارٹ اکانومی اور اسمارٹ لابنگ'' کا ہونا بہت ضروری ہے۔ آج کے دور میں اگر آپ کسی ملک کو فتح کرنا چاہتے تو اُس کی اکانومی پر کنٹرول حاصل کرلیں، بغیر خون بہائے وہ ملک آپ کے زیر عتاب آجاتا ہے۔
اس نام نہاد جنگ کا پہلا ہدف ملکی اداروں کو کمزور کرنا ہوتا ہے، اس کے لیے بسا اوقات کئی دہائیاں بھی درکار ہوتی ہیں، پتہ آپ کو اُس وقت چلتا ہے جب ادارے آپ کی معیشت پر بوجھ بن جاتے ہیں اور آپ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب ہرادارہ منافع سے خسارے تک پہنچتا ہے تو پھر اس پر قرض بھی چڑھتے ہیں اور ہر سال قومی بجٹ کا ایک حصہ ان خساروں اور قرضہ جات کو ادا کرنے میں خرچ ہوتا ہے۔ اس طرح کی تمام جنگوں کے پیچھے ذرایع پیداوار، وسائل اور منڈیوں پر قبضوں کا بنیادی مقصد دکھائی دیتا ہے۔ جدید سرمایہ داری اپنے سامراجی مقاصد کے لیے اپنے طریقوں کو جدت دے چکی ہے۔
منڈی پرقبضے کے لیے عالمی سامراج نے عالمی بینک، آئی ایم ایف، ورلڈاکنامک فورم کی طرح کے کئی ادارے قائم کرلیے ہیں جو کمپنیوں کے مفادات کے حصول کے لیے، حکمرانوں کے لیے پالیسیاں تیارکرتے ہیں۔اس وقت بھی جب سے پاکستان دشمن عناصر کی بدولت تنزلی کی طرف رواں دواں ہے ، پاکستان اسٹیل ملز ، ریلوے اور قومی ایئر لائن جیسے ادارے حکومت کے لیے سفید ہاتھی بن چکے ہیں۔ اورپچھلے دور حکومت میں ان اداروں میں میرٹ کے بجائے سیاسی بھرتیوں نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
لہٰذااب کے بار بجٹ میں ایک بار پھر تیار ہوجائیں کہ آپ کو اور مجھے اس سال ایک بار پھر 55 ارب روپے اس ایئرلائن کو دینے ہیں، جو ایک دھیلا نہیں کما سکتی۔ پھر آپ نے اس بجٹ میں 24ارب روپے پاکستان اسٹیل ملز کے لیے بھی رکھنے ہیں، یقین مانیں دو سال ہوگئے ایک کلو بھی لوہا پیدا کیے بغیر اسٹیل مل وہیں ہے ، پھر ریلوے کے لیے بھی پچھلے سال 39ارب روپے دیے گئے تھے جب کہ اس بار 40ارب روپے سے زائد کی رقم درکار ہوگی۔ یہی حال واپڈا کا ہے جس میں حکومت کو اچھی خاصی سبسڈی دینا پڑے گی اور کنڈے والے اور ملی بھگت سے بچلی چوری کرنے والے بھی ہم ہی بھگتائیں گے۔
گزشتہ مہینے سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرڈر جاری کیے تھے کہ جب پاکستان اسٹیل ملز میں کام ہی نہیں ہو رہا تو 10ہزار ملازمین کو تنخواہیں کس بنیاد پر دی جا رہی ہیں۔ اسی اثنا ء میں گزشتہ روز اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اسٹیل ملز کے 9 ہزار 350 ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک کی منظوری دی اور فیصلہ کیا گیا کہ ان ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک دے کر ایک ماہ کے نوٹس پر فارغ کیا جائیگا۔فارغ ہونے والے ہر ملازم کو کم و بیش 23لاکھ معاوضہ دیا جائیگا، کچھ ملازمین پلان پر عملدرآمد کے لیے 3ماہ تک کام کرتے رہیں گے۔
پاکستان اسٹیل ملز ''گولڈن ہینڈ شیک اسکیم'' یقیناً ایک اچھا فیصلہ ہے۔ اگر اس طرح کے فیصلے نہ لیے گئے تو وہ دن دور نہیں جب کرپٹ اداروں میں مزید ادارے بھی شامل ہو جائیں گے۔ پاکستان اسٹیل ملز کی مشکلات ہر نئے دن کے ساتھ بڑھتی ہی جا رہی ہیں ،اب اس کے ذمے مجموعی واجبات ریکارڈ200ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں ۔پاکستان اسٹیل ملز کے نقصانات میں ہر ماہ ایک ارب 40کروڑ روپے کا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، حالات تو یہ ہیں کہ یہ ادارہ بجلی کے بل دینے سے بھی قاصر ہے۔
یعنی پاکستان کا سب بڑا فولاد ساز کارخانہ گزشتہ دوسال سے بلوں کی عدم ادائیگی پر بند پڑا ہے۔ قیام پاکستان کے فوری بعدملک میں اسٹیل سمیت دیگر اہم ضروریات پوری کرنے کے لیے قائد ملت لیاقت علی خان کے حکم پر کام کا آغاز ہوا، پاکستان کونسل آف سائینٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (PCSIR) پنج سالہ منصوبہ 1955-60تشکیل دیا گیا، اس دوران روس کی کمپنی۔ نیکو لائی کینن۔ نے وزیر اعظم پاکستان کو اسٹیل ملز لگا کر دینے کی آفر کی، وزیر اعظم حسین سہروردی اور صدر ایوب خان نے مشاورت کے بعد پاکستان اسٹیل ملز کمپنیز ایکٹ 1913کے تحت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسٹیل ملز کے قیام میں امریکی مداخلت کی وجہ سے تاخیر ہوئی تاہم 1969میں ایگریمنٹ فائنل جب کہ 1971میں پاکستان اور روس نے اسٹیل ملز کے منصوبے پر دستخط کر دیے، 30دسمبر1973میں وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں باقاعدہ کام کا آغاز ہوا جس میں روسی اور پاکستانی انجینئر شامل تھے۔
یہ منصوبہ کراچی شہر سے جنوب مشرق میں 40 کلومیٹر فاصلے پر بن قاسم پورٹ کے نزدیک 18660 ایکڑزمین پر قائم کیا گیا جو 75.5مربع کلومیٹر پر محیط تھا،پاکستان اسٹیل ملز کے نام سے قائم شدہ ملز جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مل تھی ،مشرق میں یہ ملز سندھ کے ضلع ٹھٹھہ سے منسلک ہے،ملز نے1984میں باقاعدہ اپنی پروڈکشن کا آغاز کیا تب اس کے ملازمین کی تعداد 15274، 20صنعتی یونٹس کے ساتھ11لاکھ ٹن اسٹیل پیدا کرنے کا ہدف مقرر ہوا،پاکستان اسٹیل ملز 2008 تک منافع میں جا رہی تھی جب کہ اس کا منافع 19ارب 40کروڑ روپے سے بھی تجاوز کر گیا۔
اس دوران جون 2006میں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے اس منافع بخش ملز کو 121ارب60کروڑ روپے میں سعودی کنسورشیم کو فروخت کرنے کی کوشش کی جسے سپریم کورٹ نے روک دیا،2008کے آخر اور2009کے آغاز پر اچانک یہ پاکستان اسٹیل ملز اچانک غیر متوقع طور پر خسارے میں جانے لگی ،صرف ایک سال میں ہی اس کا خسارہ اور واجبات26ارب روپے تک جا پہنچے جو اس وقت 500ارب تک پہنچ چکے ہیں۔
لہٰذا میرے خیال میں جب آپ کے ذاتی کاروبار دن دوگنی ترقی کر رہے ہوں اور سرکار کے ادارے کھربوں روپے خسارے میں جارہے ہوں تو پھر ایسے کام کو بند کرنا بہتر ہوتا ہے اور ویسے بھی پاکستان اسٹیل مل کے اثاثوں کے مطابق اس وقت کراچی اسٹیل ملز کی قیمتی زمین، گودی، رہائشی کالونی، سات کلومیٹر کا کنوینر بیلٹ، بنا ہوا سامان اور (2008ء کے مارکیٹ نرخوں کے مطابق)تقریباََ 22ارب روپے کا بکھرا ہوا لوہا موجود ہے، اس کے علاوہ سارانفرااسٹرکچر اورمختلف قسم کے پلانٹس پر سرمایہ داروں کی رالیں ٹپک رہی ہیں۔
موجودہ اسٹیل ملز کو اب عہد حاضر سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے ایک اندازے کے مطابق 100ارب روپے کی سرمایہ کاری درکار ہے۔ یہ سرمایہ کاری موجودہ حکومت اور ریاست کی ترجیحات دیکھتے ہوئے بہت بڑی رقم ہے۔ حکومت کو ملازمین کی فراغت کے بعد اسے نجکاری کی طرف لے جانا چاہیے تاکہ کم از کم حکومت کو پلے سے کچھ لگانے کے بجائے ماہانہ کچھ نہ کچھ ٹیکس ہی آتا رہے۔
اس نام نہاد جنگ کا پہلا ہدف ملکی اداروں کو کمزور کرنا ہوتا ہے، اس کے لیے بسا اوقات کئی دہائیاں بھی درکار ہوتی ہیں، پتہ آپ کو اُس وقت چلتا ہے جب ادارے آپ کی معیشت پر بوجھ بن جاتے ہیں اور آپ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب ہرادارہ منافع سے خسارے تک پہنچتا ہے تو پھر اس پر قرض بھی چڑھتے ہیں اور ہر سال قومی بجٹ کا ایک حصہ ان خساروں اور قرضہ جات کو ادا کرنے میں خرچ ہوتا ہے۔ اس طرح کی تمام جنگوں کے پیچھے ذرایع پیداوار، وسائل اور منڈیوں پر قبضوں کا بنیادی مقصد دکھائی دیتا ہے۔ جدید سرمایہ داری اپنے سامراجی مقاصد کے لیے اپنے طریقوں کو جدت دے چکی ہے۔
منڈی پرقبضے کے لیے عالمی سامراج نے عالمی بینک، آئی ایم ایف، ورلڈاکنامک فورم کی طرح کے کئی ادارے قائم کرلیے ہیں جو کمپنیوں کے مفادات کے حصول کے لیے، حکمرانوں کے لیے پالیسیاں تیارکرتے ہیں۔اس وقت بھی جب سے پاکستان دشمن عناصر کی بدولت تنزلی کی طرف رواں دواں ہے ، پاکستان اسٹیل ملز ، ریلوے اور قومی ایئر لائن جیسے ادارے حکومت کے لیے سفید ہاتھی بن چکے ہیں۔ اورپچھلے دور حکومت میں ان اداروں میں میرٹ کے بجائے سیاسی بھرتیوں نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
لہٰذااب کے بار بجٹ میں ایک بار پھر تیار ہوجائیں کہ آپ کو اور مجھے اس سال ایک بار پھر 55 ارب روپے اس ایئرلائن کو دینے ہیں، جو ایک دھیلا نہیں کما سکتی۔ پھر آپ نے اس بجٹ میں 24ارب روپے پاکستان اسٹیل ملز کے لیے بھی رکھنے ہیں، یقین مانیں دو سال ہوگئے ایک کلو بھی لوہا پیدا کیے بغیر اسٹیل مل وہیں ہے ، پھر ریلوے کے لیے بھی پچھلے سال 39ارب روپے دیے گئے تھے جب کہ اس بار 40ارب روپے سے زائد کی رقم درکار ہوگی۔ یہی حال واپڈا کا ہے جس میں حکومت کو اچھی خاصی سبسڈی دینا پڑے گی اور کنڈے والے اور ملی بھگت سے بچلی چوری کرنے والے بھی ہم ہی بھگتائیں گے۔
گزشتہ مہینے سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرڈر جاری کیے تھے کہ جب پاکستان اسٹیل ملز میں کام ہی نہیں ہو رہا تو 10ہزار ملازمین کو تنخواہیں کس بنیاد پر دی جا رہی ہیں۔ اسی اثنا ء میں گزشتہ روز اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اسٹیل ملز کے 9 ہزار 350 ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک کی منظوری دی اور فیصلہ کیا گیا کہ ان ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک دے کر ایک ماہ کے نوٹس پر فارغ کیا جائیگا۔فارغ ہونے والے ہر ملازم کو کم و بیش 23لاکھ معاوضہ دیا جائیگا، کچھ ملازمین پلان پر عملدرآمد کے لیے 3ماہ تک کام کرتے رہیں گے۔
پاکستان اسٹیل ملز ''گولڈن ہینڈ شیک اسکیم'' یقیناً ایک اچھا فیصلہ ہے۔ اگر اس طرح کے فیصلے نہ لیے گئے تو وہ دن دور نہیں جب کرپٹ اداروں میں مزید ادارے بھی شامل ہو جائیں گے۔ پاکستان اسٹیل ملز کی مشکلات ہر نئے دن کے ساتھ بڑھتی ہی جا رہی ہیں ،اب اس کے ذمے مجموعی واجبات ریکارڈ200ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں ۔پاکستان اسٹیل ملز کے نقصانات میں ہر ماہ ایک ارب 40کروڑ روپے کا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، حالات تو یہ ہیں کہ یہ ادارہ بجلی کے بل دینے سے بھی قاصر ہے۔
یعنی پاکستان کا سب بڑا فولاد ساز کارخانہ گزشتہ دوسال سے بلوں کی عدم ادائیگی پر بند پڑا ہے۔ قیام پاکستان کے فوری بعدملک میں اسٹیل سمیت دیگر اہم ضروریات پوری کرنے کے لیے قائد ملت لیاقت علی خان کے حکم پر کام کا آغاز ہوا، پاکستان کونسل آف سائینٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (PCSIR) پنج سالہ منصوبہ 1955-60تشکیل دیا گیا، اس دوران روس کی کمپنی۔ نیکو لائی کینن۔ نے وزیر اعظم پاکستان کو اسٹیل ملز لگا کر دینے کی آفر کی، وزیر اعظم حسین سہروردی اور صدر ایوب خان نے مشاورت کے بعد پاکستان اسٹیل ملز کمپنیز ایکٹ 1913کے تحت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسٹیل ملز کے قیام میں امریکی مداخلت کی وجہ سے تاخیر ہوئی تاہم 1969میں ایگریمنٹ فائنل جب کہ 1971میں پاکستان اور روس نے اسٹیل ملز کے منصوبے پر دستخط کر دیے، 30دسمبر1973میں وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں باقاعدہ کام کا آغاز ہوا جس میں روسی اور پاکستانی انجینئر شامل تھے۔
یہ منصوبہ کراچی شہر سے جنوب مشرق میں 40 کلومیٹر فاصلے پر بن قاسم پورٹ کے نزدیک 18660 ایکڑزمین پر قائم کیا گیا جو 75.5مربع کلومیٹر پر محیط تھا،پاکستان اسٹیل ملز کے نام سے قائم شدہ ملز جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مل تھی ،مشرق میں یہ ملز سندھ کے ضلع ٹھٹھہ سے منسلک ہے،ملز نے1984میں باقاعدہ اپنی پروڈکشن کا آغاز کیا تب اس کے ملازمین کی تعداد 15274، 20صنعتی یونٹس کے ساتھ11لاکھ ٹن اسٹیل پیدا کرنے کا ہدف مقرر ہوا،پاکستان اسٹیل ملز 2008 تک منافع میں جا رہی تھی جب کہ اس کا منافع 19ارب 40کروڑ روپے سے بھی تجاوز کر گیا۔
اس دوران جون 2006میں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے اس منافع بخش ملز کو 121ارب60کروڑ روپے میں سعودی کنسورشیم کو فروخت کرنے کی کوشش کی جسے سپریم کورٹ نے روک دیا،2008کے آخر اور2009کے آغاز پر اچانک یہ پاکستان اسٹیل ملز اچانک غیر متوقع طور پر خسارے میں جانے لگی ،صرف ایک سال میں ہی اس کا خسارہ اور واجبات26ارب روپے تک جا پہنچے جو اس وقت 500ارب تک پہنچ چکے ہیں۔
لہٰذا میرے خیال میں جب آپ کے ذاتی کاروبار دن دوگنی ترقی کر رہے ہوں اور سرکار کے ادارے کھربوں روپے خسارے میں جارہے ہوں تو پھر ایسے کام کو بند کرنا بہتر ہوتا ہے اور ویسے بھی پاکستان اسٹیل مل کے اثاثوں کے مطابق اس وقت کراچی اسٹیل ملز کی قیمتی زمین، گودی، رہائشی کالونی، سات کلومیٹر کا کنوینر بیلٹ، بنا ہوا سامان اور (2008ء کے مارکیٹ نرخوں کے مطابق)تقریباََ 22ارب روپے کا بکھرا ہوا لوہا موجود ہے، اس کے علاوہ سارانفرااسٹرکچر اورمختلف قسم کے پلانٹس پر سرمایہ داروں کی رالیں ٹپک رہی ہیں۔
موجودہ اسٹیل ملز کو اب عہد حاضر سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے ایک اندازے کے مطابق 100ارب روپے کی سرمایہ کاری درکار ہے۔ یہ سرمایہ کاری موجودہ حکومت اور ریاست کی ترجیحات دیکھتے ہوئے بہت بڑی رقم ہے۔ حکومت کو ملازمین کی فراغت کے بعد اسے نجکاری کی طرف لے جانا چاہیے تاکہ کم از کم حکومت کو پلے سے کچھ لگانے کے بجائے ماہانہ کچھ نہ کچھ ٹیکس ہی آتا رہے۔