سادگی اپنائیے فلاح پائیے

سادگی ہی وقت کی ضرورت ہے جس سے ہم ملک و قوم کو سربلند کر سکتے ہیں

۔ فوٹو: فائل

سادگی، اسلام کا حُسن اور انسان کی خُوش حالی کی ضامن ہے۔ لباس و کردار، گفتار و افعال، معاشرتی و معاشی اعمال سمیت وہ کون سا شعبہ ہے جسے ہم سادگی کے حُسن سے مزیّن نہیں کرسکتے؟ قرآن کریم و احادیث نبویؐ میں تو سادگی کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: ''اور اﷲ تعالیٰ نے تمہیں اپنی بنائی ہوئی چیزوں سے سائے دیے اور تمہارے لیے پہاڑوں میں چُھپنے کی جگہ بنائی اور تمہارے لیے کچھ پہناوے بنائے کہ تمہیں گرمی سے بچائیں اور کچھ پہناوے کہ لڑائی میں تمہاری حفاظت کریں۔'' (ترجمہ کنزالایمان)

فرمانِ خدا وندی میں انسان کے لیے بنائی گئی اشیاء کا ذکر بہت سادے پیرائے میں کیا گیا ہے۔ پروردگار عالم نے اپنی دی ہوئی نعمتیں کھانے پینے اور اپنے دیے ہوئے مال بہ رضائے و رغبت، نمود و نمائش اور احسان جتائے بغیر صدقہ کرنے اور سادہ لباس پہننے کا حکم دیا ہے۔ رسول کائنات ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ کھاؤ اور پیو اور صدقہ کرو اور پہنو جب تک اسراف و تکبّر کی آمیزش نہ ہو یعنی سادگی اپناؤ۔ (ابن ماجہ) آپؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جو شخص باوجود قدرت کے اچھے کپڑے پہننا، تواضع (عاجزی) کے طور پر چھوڑ دے اﷲ تعالیٰ اس کو کرامت کا حلہ (جنّتی لباس) پہنائے گا۔''

(ابُوداؤد) لہٰذا لباس میں سادگی کا حکم ہمیں فرمانِ رسولؐ سے ملتا ہے۔ لیکن سادگی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھا جائے۔ سادگی وقت کی ضرورت ہے اور یہ سادگی صرف لباس کی نہیں بل کہ کھانے پینے، رہائش و سواری اور دیگر امور زندگی میں بھی ضروری ہے۔ سادگی اپنانے والا فضول خرچی سے بچ سکتا ہے کیوں کہ فضول خرچ کو قرآن حکیم نے شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔

حضرت ابُوسعید خدریؓ نے روایت فرمایا کہ ایک سفر میں ہم حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس زاید سواری ہو وہ اُس شخص کو دے جس کے پاس سواری نہیں۔ جس کے پاس زیادہ زادراہ ہے وہ اُس آدمی کو دے، جس کے پاس زاد راہ نہیں۔ اسی طرح مختلف اقسام مال کا ذکر فرمایا۔ یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ زاید چیزوں پر ہمارا کوئی حق نہیں۔


مذکورہ حدیث مبارک سے پتا چلتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ اشیاء جمع رکھنا اور پھر اُن پر اترانا نامناسب ہے، جب کہ سادگی یہ ہے کہ ضرورت کے مطابق ہر چیز کو استعمال میں لایا جائے۔ سادگی اپنا نے والا اپنا پاؤں اتنا ہی پھیلاتا ہے جتنا اُس کی چادر ہو ۔

سادگی سے انسان بے نیازی کی صفت سے متصف ہوتا ہے اور قرض کے بوجھ سے بھی بچ جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے کا طبقۂ اشرافیہ سادگی کو باعثِ عار سمجھتا ہے۔ شادی بیاہ اور دیگر تقاریب میں فیشن اور نمود و نمائش نے ہماری رسومات سے لفظ سادگی کو بیگانہ کر دیا ہے۔ قرض لے کر رسومات کی ادائی اور غمی و خوشی کے معاملات سرانجام دیے جاتے ہیں تاکہ معاشرہ میں مصنوعی عزت رہ جائے۔ لیکن اگر سادگی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا جائے تو انسان بہت سی قباحتوں سے بچ جاتا ہے۔ حکم ران طبقہ بھی سادگی سے ناآشنا ہے۔

پاکستان جو سادہ طور و اطوار کے حامل قائدین کی شبانہ روز محنت اور قربانیوں کا ثمر ہے۔ اس میں تو سادگی کو اولیت حاصل ہونی چاہیے تھی۔ مدینہ منورہ کے بعد اسلامی نظریاتی مملکت پاکستان معرض وجود میں آیا۔ مگر حصول پاکستان کی تحریک میں جتنے سادگی پر ست راہ نما تھے اتنے ہی شاہ خرچ حکم ران بعد میں میسر آتے رہے۔ جس قوم پر اربوں ڈالر قرض ہو، جس قوم میں فاقہ کشی سے افراد ملت خود کشی کر رہے ہوں، جس قوم کے افراد ڈگریاں گلے میں لٹکا کر سڑکوں پر ملازمت کی تلاش میں در بہ در چکر لگاتے ہوں۔

جس قوم کے لوگ خود سوزی کر کے انصاف نہ ملنے پر موت کو گلے لگا رہے ہوں، جس ملک کے عوام بجلی، گیس کے بحرانوں اور اشیائے خور و نوش قیمت ادا کرنے کے باوجود حاصل نہ ہونے پر پھندوں سے جُھول جائیں، کیا اُس قوم کے سربراہان کو شاہ خرچیاں زیب دیتی ہیں۔

کیا لاکھوں روپے کے روزانہ کی بنیادوں پر اخراجات کے اجلاسز اور کانفرنسز مناسب ہیں۔ اگر حکم ران اور سربراہان ملک و قوم سادگی کی نعمت کو اپنائیں اور ملک و ملت کی فلاح کی طرف متوجہ ہوں تو انقلاب مدینہ کی یاد تازہ ہو سکتی ہے۔ لہٰذا سادگی ہی وقت کی ضرورت ہے جس سے ہم ملک و قوم کو سربلند کر سکتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے سرمایۂ حیات جمع کرکے اُن کو اسلام کے اعلیٰ و حسین عمل سادگی کی تلقین کر سکتے ہیں۔
Load Next Story