ساحلی مقامات بند ہونے پر شہری مبارک ولیج کا رخ کرنے لگے
10ہزار نفوس پر مشتمل ماہی گیروں کی آبادی میں کورونا پھیلنے کا خدشہ
شہر میں 144کی دفعہ نافذ ہونے اور ساحلی مقامات سمیت تمام تفریح گاہیں بند ہونے کے باوجود شہریوں کی بڑی تعداد ہاکس بے سے متصل ماہی گیروں کی سب سے قدیم بستی مبارک ولیج کا رخ کررہے ہیں،لاک ڈاؤن کی وجہ سے مشکلات کا شکار 10ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل ماہی گیروں کی آبادی غیرمحفوظ ہوگئی۔
ماہی گیروں میں کرونا وائرس پھیلنے کا خطرہ بڑھ رہا ہے، مبارک ولیج کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ماڑی پور پولیس شہر سے تفریح کے لیے ساحل سمندر جانے والے شہریوں کو نذرانے وصول کرکے مبارک ولیج کی جانب چھوڑ رہی ہے،شہری نجی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے علاوہ بڑی کوچز اور منی بسوں میں پکنک منانے مبارک ولیج پہنچ رہے ہیں جس سے مقامی آبادی کو خطرہ لاحق ہورہا ہے۔
مبارک ولیج کے کونسلر سرفراز ہارون کی جانب سے ماڑی پور تھانے کو دی جانے ولی درخواست میں پولیس کی غفلت کی توجہ دلاتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ مبارک ولیج جانے والے راستوں سے تفریح کے لیے جانے والے شہریوں کو روکا جائے ،مبارک ولیج کے ماہی گیروں کو تحفظ فراہم کیا جائے، سرفراز ہارون نے ایکسپریس کو بتایا کہ مبارک ولیج ایک رہائشی ساحلی بستی ہے جہاں پکنک منانے والوں کی آمد سے مقامی آبادی کو روزگار ملتا ہے لیکن کرونا کی وبا میں ماہی گیروں کی آبادی کے لیے شہر سے پکنک منانے والوں کی آمد سنگین خطرہ ہے۔
مبارک ولیج میں شہر سے پکنک منانے والوں کی آمد اور رش لگنے سے مقامی آبادی کے کسی ایک فرد میں بھی وائرس کی منتقلی سے نہ صرف مبارک ولیج بلکہ اردگرد کے 20سے25 دیگر ماہی گیروں کی بستیوں میں بھی منتقل ہوسکتا ہے کیونکہ ماہی گیروں کی آبادیوں میں سماجی میل جول ایک روایت ہے، دوسری جانب ماہی گیروں کی آبادیاں پانی بجلی گیس اور دیگر بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں شہر کا قریب ترین سول اسپتال بھی مبارک ولیج سے 60 سے 70کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ایسی صورتحال میں کرونا کی وباپھیلنے کی صورت میں ماہی گیروں کی بستیوں کو سیل کرنا پڑے گا اور بنیادی سہولتوں سے محروم اس آبادی کے لیے اس صورتحال کا سامنا کرنا انتہائی مشکل ہوگااور کرونا سے زیادہ بھوک سے نقصان پہنچے گا۔
سرفراز ہارون نے کہا کہ ماہی گیروں کی بستیوں کو جانے و الے راستوں پر لگی ہوئی پولیس کی چنگیوں پر پکنک منانے کے لیے آنے والوںسے پیسے وصول کرکے انھیں چھوڑ دیا جاتا ہے دن کے علاوہ رات میں بھی موٹرسائیکلوں پر نوجوانوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے جس سے ماہی گیروں کی آبادیاں شدید خطرات میں گھری ہوئی ہیں۔
سندھ حکومت نے بے آسرا چھوڑ دیا، کونسلر
سرفراز ہارون کے مطابق مبارک ولیج کے مکینوں کا کہنا ہے کہ کرونا کی وبا اور لاک ڈاؤن کے دوران سندھ حکومت نے انھیں بے آسرا چھوڑ دیا،دیہہ مند وارڈ نمبر دو میں ساتھ گوٹھ ہیں لیکن سندھ حکومت یا شہری انتظامیہ نے ایک گھر میں بھی راشن نہیں پہنچایا، ایم این اے قادر پٹیل نے ذاتی طور پر 100افراد اور ایم پی اے لیاقت علی آسکانی نے 50 گھروں کے لیے ذاتی طور پر راشن فراہم کیے ، ڈپٹی کمشنر کی جانب سے کوئی امداد نہیں ملی۔
اسی طرح 700 گھرانوں کی تفصیلات اور فہرست فشریز ڈپارٹمنٹ میں جمع کرائے جانے کے باوجود فشرمین کوآپریٹیو سوسائٹی نے ماہی گیروں کی آبادی میں ایک کلو آٹا تک فراہم نہیں کیا۔ مقامی آبادی کے لیے وفاقی حکومت کے احساس پروگرام کے تحت ملنے والی 12000 روپے کی امداد نے گزربسر جاری رکھنے میں مدد دی ہے اور آبادی میں اکثر افرادکو یہ امداد موصول ہوئی ہے، مقامی آبادی کی گزر بسر کا اہم ذریعہ ماہی گیری اور شہر سے مچھلی کا شکار کرنے کے لیے آنے والے افرد ہیں گزشتہ دو ماہ سے شکاریوں کی آمد بند ہے جو کشتیاں کرائے پر لیتی اور ماہی گیروں کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔
اسی طرح ماہی گیر خود جو مچھلی پکڑتے ہیں اس کے خریدار نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر ہیں بھی تو قیمت انتہائی کم مل رہی ہے، ماہی گیروں کی بستی میںاسکول بندہیں جس کی وجہ سے بستی کے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ بھی رک گیا ہے۔
ماہی گیروں میں کرونا وائرس پھیلنے کا خطرہ بڑھ رہا ہے، مبارک ولیج کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ماڑی پور پولیس شہر سے تفریح کے لیے ساحل سمندر جانے والے شہریوں کو نذرانے وصول کرکے مبارک ولیج کی جانب چھوڑ رہی ہے،شہری نجی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے علاوہ بڑی کوچز اور منی بسوں میں پکنک منانے مبارک ولیج پہنچ رہے ہیں جس سے مقامی آبادی کو خطرہ لاحق ہورہا ہے۔
مبارک ولیج کے کونسلر سرفراز ہارون کی جانب سے ماڑی پور تھانے کو دی جانے ولی درخواست میں پولیس کی غفلت کی توجہ دلاتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ مبارک ولیج جانے والے راستوں سے تفریح کے لیے جانے والے شہریوں کو روکا جائے ،مبارک ولیج کے ماہی گیروں کو تحفظ فراہم کیا جائے، سرفراز ہارون نے ایکسپریس کو بتایا کہ مبارک ولیج ایک رہائشی ساحلی بستی ہے جہاں پکنک منانے والوں کی آمد سے مقامی آبادی کو روزگار ملتا ہے لیکن کرونا کی وبا میں ماہی گیروں کی آبادی کے لیے شہر سے پکنک منانے والوں کی آمد سنگین خطرہ ہے۔
مبارک ولیج میں شہر سے پکنک منانے والوں کی آمد اور رش لگنے سے مقامی آبادی کے کسی ایک فرد میں بھی وائرس کی منتقلی سے نہ صرف مبارک ولیج بلکہ اردگرد کے 20سے25 دیگر ماہی گیروں کی بستیوں میں بھی منتقل ہوسکتا ہے کیونکہ ماہی گیروں کی آبادیوں میں سماجی میل جول ایک روایت ہے، دوسری جانب ماہی گیروں کی آبادیاں پانی بجلی گیس اور دیگر بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں شہر کا قریب ترین سول اسپتال بھی مبارک ولیج سے 60 سے 70کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ایسی صورتحال میں کرونا کی وباپھیلنے کی صورت میں ماہی گیروں کی بستیوں کو سیل کرنا پڑے گا اور بنیادی سہولتوں سے محروم اس آبادی کے لیے اس صورتحال کا سامنا کرنا انتہائی مشکل ہوگااور کرونا سے زیادہ بھوک سے نقصان پہنچے گا۔
سرفراز ہارون نے کہا کہ ماہی گیروں کی بستیوں کو جانے و الے راستوں پر لگی ہوئی پولیس کی چنگیوں پر پکنک منانے کے لیے آنے والوںسے پیسے وصول کرکے انھیں چھوڑ دیا جاتا ہے دن کے علاوہ رات میں بھی موٹرسائیکلوں پر نوجوانوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے جس سے ماہی گیروں کی آبادیاں شدید خطرات میں گھری ہوئی ہیں۔
سندھ حکومت نے بے آسرا چھوڑ دیا، کونسلر
سرفراز ہارون کے مطابق مبارک ولیج کے مکینوں کا کہنا ہے کہ کرونا کی وبا اور لاک ڈاؤن کے دوران سندھ حکومت نے انھیں بے آسرا چھوڑ دیا،دیہہ مند وارڈ نمبر دو میں ساتھ گوٹھ ہیں لیکن سندھ حکومت یا شہری انتظامیہ نے ایک گھر میں بھی راشن نہیں پہنچایا، ایم این اے قادر پٹیل نے ذاتی طور پر 100افراد اور ایم پی اے لیاقت علی آسکانی نے 50 گھروں کے لیے ذاتی طور پر راشن فراہم کیے ، ڈپٹی کمشنر کی جانب سے کوئی امداد نہیں ملی۔
اسی طرح 700 گھرانوں کی تفصیلات اور فہرست فشریز ڈپارٹمنٹ میں جمع کرائے جانے کے باوجود فشرمین کوآپریٹیو سوسائٹی نے ماہی گیروں کی آبادی میں ایک کلو آٹا تک فراہم نہیں کیا۔ مقامی آبادی کے لیے وفاقی حکومت کے احساس پروگرام کے تحت ملنے والی 12000 روپے کی امداد نے گزربسر جاری رکھنے میں مدد دی ہے اور آبادی میں اکثر افرادکو یہ امداد موصول ہوئی ہے، مقامی آبادی کی گزر بسر کا اہم ذریعہ ماہی گیری اور شہر سے مچھلی کا شکار کرنے کے لیے آنے والے افرد ہیں گزشتہ دو ماہ سے شکاریوں کی آمد بند ہے جو کشتیاں کرائے پر لیتی اور ماہی گیروں کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔
اسی طرح ماہی گیر خود جو مچھلی پکڑتے ہیں اس کے خریدار نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر ہیں بھی تو قیمت انتہائی کم مل رہی ہے، ماہی گیروں کی بستی میںاسکول بندہیں جس کی وجہ سے بستی کے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ بھی رک گیا ہے۔