آئی ایم ایف کا سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھانے کا مطالبہ
حکومت پرائمری بجٹ خسارے کا ہدف برائے نام رکھے، عالمی مالیاتی فنڈ
عالمی مالیاتی فنڈ نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ آئندہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھائے اور بجٹ میںپرائمری بجٹ خسارے کے برائے نام ہدف کے اعلان کے ساتھ مالی استحکام کی پالیسیوں پر گامزن رہے، تاہم حکومت کے لیے آئی ایم ایف کے دونوں مطالبات پر عمل درآمد بہت مشکل ہوگا۔
پاکستان کا قرض ملکی معیشت کی قدر کے 90فیصد تک پہنچ جانے کا امکان ہے، اسی تناظر میں آئی ایم ایف حکومت سے خسارہ اور قرض کم کرنے کی پالیسیوں پر گامزن رہنے کا مطالبہ کررہا ہے۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق موجودہ مشکل اقتصادی صورتحال، بڑھتے ہوئے سرکاری قرضے اور پاکستان کے جی 20 ممالک سے قرض ریلیف حاصل کرنے کے فیصلے کی وجہ سے آئی ایم ایف اسلام آباد پر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھانے پر زور دے رہا ہے۔ تاہم حکومت بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے یہ مطالبہ تسلیم کرنے کے معاملے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔
حکومت اخراجات مزید کم کرنے کے لیے ایک سال سے خالی 67ہزار اسامیاں ختم اور گاڑیوں کی خریداری پر پابندی عائد کرسکتی ہے۔ آئی ایم ایف کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ حکومت پرائمری بجٹ خسارے کے طور پر 184 بلین ڈالر (جی ڈی پی کا 0.4 فیصد) کے ہدف کا اعلان کرے۔ ذرائع کے مطابق حکومت کو موجودہ اقتصادی صورتحال کی وجہ سے آئندہ مالی سال میں ریونیو وصولیوں میں نمایاں اضافے کی توقع نہیں ہے۔ دوسری جانب مہنگائی کی وجہ سے وہ تنخواہوں میں 10 سے 15 فیصد اور پنشن میں 10فیصد اضافے کا ارادہ رکھتی ہے۔
آئی ایم ایف کے مطالبے کے برعکس حکومت نے تجویز دی ہے کہ بجٹ خسارے کا پرائمری ہدف جی ڈی پی 1.9 فیصد یعنی 875 بلین روپے رکھا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آئی ایم ایف کے مطابق بجٹ خسارے کا ہدف جی ڈی پی کا 7فیصد ہوگا جبکہ وفاقی حکومت بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 8.4 فیصد یا 3.9 ٹریلین روپے دیکھ رہی ہے۔
پاکستان کا قرض ملکی معیشت کی قدر کے 90فیصد تک پہنچ جانے کا امکان ہے، اسی تناظر میں آئی ایم ایف حکومت سے خسارہ اور قرض کم کرنے کی پالیسیوں پر گامزن رہنے کا مطالبہ کررہا ہے۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق موجودہ مشکل اقتصادی صورتحال، بڑھتے ہوئے سرکاری قرضے اور پاکستان کے جی 20 ممالک سے قرض ریلیف حاصل کرنے کے فیصلے کی وجہ سے آئی ایم ایف اسلام آباد پر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھانے پر زور دے رہا ہے۔ تاہم حکومت بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے یہ مطالبہ تسلیم کرنے کے معاملے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔
حکومت اخراجات مزید کم کرنے کے لیے ایک سال سے خالی 67ہزار اسامیاں ختم اور گاڑیوں کی خریداری پر پابندی عائد کرسکتی ہے۔ آئی ایم ایف کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ حکومت پرائمری بجٹ خسارے کے طور پر 184 بلین ڈالر (جی ڈی پی کا 0.4 فیصد) کے ہدف کا اعلان کرے۔ ذرائع کے مطابق حکومت کو موجودہ اقتصادی صورتحال کی وجہ سے آئندہ مالی سال میں ریونیو وصولیوں میں نمایاں اضافے کی توقع نہیں ہے۔ دوسری جانب مہنگائی کی وجہ سے وہ تنخواہوں میں 10 سے 15 فیصد اور پنشن میں 10فیصد اضافے کا ارادہ رکھتی ہے۔
آئی ایم ایف کے مطالبے کے برعکس حکومت نے تجویز دی ہے کہ بجٹ خسارے کا پرائمری ہدف جی ڈی پی 1.9 فیصد یعنی 875 بلین روپے رکھا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آئی ایم ایف کے مطابق بجٹ خسارے کا ہدف جی ڈی پی کا 7فیصد ہوگا جبکہ وفاقی حکومت بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 8.4 فیصد یا 3.9 ٹریلین روپے دیکھ رہی ہے۔