خفیہ اثاثوں کیلیے نادرا ریکارڈ ایف بی آر سے شیئر کرنے پرغور
پروانشل لینڈ،ہاؤسنگ سوسائٹیزڈیٹا بروقت حاصل کرنے کی بھی تجویز
وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اس تجویز پر غور کررہی ہے کہ نادرا کے ڈیٹابیس کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ساتھ شیئرکردیاجائے تاکہ شہریوں کے خفیہ اثاثوں کے بارے میں معلوم کیا جاسکے جس کا مقصد ریونیو میں اضافہ کرنا ہے۔
ایف بی آر کے ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ بجٹ تجاویز میں یہ بھی شامل ہے کہ پروانشل لینڈ اینڈ ٹیکس اتھارٹیز،ہاؤسنگ سوسائٹیزاورٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کا ڈیٹا بروقت حاصل کیا جائے تاکہ ٹیکس دہندگان کی جانب سے سالانہ ٹیکس اور ویلتھ ریٹرن جمع کرانے کا تخمینہ پہلے ہی لگانے میں مدد مل سکے۔
ایف بی آر افسران کا کہنا ہے کہ انہوں نے حکومت کو یہ تجویز پیش کی ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس2001 اور سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 میں نئی آئینی شقیں متعارف کرائی جائیں تاکہ ایف بی آر کو نادرا کے ڈیٹا بیس تک رسائی حاصل ہوسکے۔
نئی بجٹ تجاویز کے تحت، نادرا، پنجاب لینڈ ریونیو اتھارٹی، صوبائی محکمہ سیلز ٹیکس ادارے، ہاؤسنگ اتھارٹیز، کارپوریٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز، پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اور ٹیلی کام کمپنیاں ایف بی آر کو تمام ڈیٹا بروقت فراہم کریں گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ سال چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے دعویٰ کیاتھا کہ ادارے کے پاس ان ساڑھے پانچ کروڑ افراد کی معلومات ہیں جن سے ٹیکس وصول کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ایسے تمام افراد کے سفری اور بینک کی معلومات بھی موجود ہیں تاہم نہ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہوا نہ ہی ریونیو پر کوئی فرق پڑا۔
2018 میں ٹیکس دہندگان کی تعداد 20لاکھ 82 ہزار تھی جبکہ 2019 میں یہ تعداد مزید کم ہو کر 20لاکھ 50ہزار رہ گئی تھی۔
ایف بی آر کے ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ بجٹ تجاویز میں یہ بھی شامل ہے کہ پروانشل لینڈ اینڈ ٹیکس اتھارٹیز،ہاؤسنگ سوسائٹیزاورٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کا ڈیٹا بروقت حاصل کیا جائے تاکہ ٹیکس دہندگان کی جانب سے سالانہ ٹیکس اور ویلتھ ریٹرن جمع کرانے کا تخمینہ پہلے ہی لگانے میں مدد مل سکے۔
ایف بی آر افسران کا کہنا ہے کہ انہوں نے حکومت کو یہ تجویز پیش کی ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس2001 اور سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 میں نئی آئینی شقیں متعارف کرائی جائیں تاکہ ایف بی آر کو نادرا کے ڈیٹا بیس تک رسائی حاصل ہوسکے۔
نئی بجٹ تجاویز کے تحت، نادرا، پنجاب لینڈ ریونیو اتھارٹی، صوبائی محکمہ سیلز ٹیکس ادارے، ہاؤسنگ اتھارٹیز، کارپوریٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز، پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اور ٹیلی کام کمپنیاں ایف بی آر کو تمام ڈیٹا بروقت فراہم کریں گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ سال چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے دعویٰ کیاتھا کہ ادارے کے پاس ان ساڑھے پانچ کروڑ افراد کی معلومات ہیں جن سے ٹیکس وصول کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ایسے تمام افراد کے سفری اور بینک کی معلومات بھی موجود ہیں تاہم نہ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہوا نہ ہی ریونیو پر کوئی فرق پڑا۔
2018 میں ٹیکس دہندگان کی تعداد 20لاکھ 82 ہزار تھی جبکہ 2019 میں یہ تعداد مزید کم ہو کر 20لاکھ 50ہزار رہ گئی تھی۔