لامحدود حق ملکیت
نیب نے ہر کام تحقیق اور یقین کے بعد کیا ہماری ایلیٹ کہتی ہے کہ نیب ایلیٹ کی دشمن ہے لہٰذا اسے ختم ہوناچاہیے۔
ایک بات جو سمجھ سے باہر ہے وہ یہ ہے کہ اہل سیاست پر اربوں روپوں کی کرپشن کے الزامات ہیں اور وہ غلط بھی نہیں کیونکہ میڈیا میں اس کرپشن کی تفصیلات بھی آ رہی ہیں۔
اس ضمن میں یہ انکشاف بھی ضروری ہے کہ لٹیری کلاس نے کرپشن کے اربوں روپوں کو ملک کے اندر اور ملک کے باہر بڑی بڑی جائیدادیں خریدنے میں صرف کیا کہ دولت بچانے کا یہ ایک محفوظ طریقہ ہے۔ نیب نے ایسی جائیدادوں کے بارے میں معلومات بھی حاصل کی ہیں، نیب کی ان کارروائیوں کی وجہ سے ہماری ایلیٹ نیب کے سخت خلاف ہوگئی ہے اور اسے ختم کرنے کے زور شور سے مطالبے کر رہی ہے۔
عام آدمی سوال کر رہا ہے کہ اربوں روپے کی لوٹ مارکی میڈیا پر جو داستانیں سنائی گئیں، وہ اربوں روپے کہاں گئے یا تو کرپشن کا پروپیگنڈا غلط تھا یا پروپیگنڈا درست تھا تو پھر اربوں روپوں کو زمین کھا گئی یا پھر آسمان نگل گیا۔ نیب اس وقت تک قابل اعتبار تھی جب تک اس نے سیاسی چوروں کے خلاف تحقیق کا آغاز نہیں کیا تھا ، اس وقت تک لٹیری کلاس قابل اعتماد اور قابل بھروسہ تھی جیسے ہی نیب نے لٹیری کلاس کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا وہ قابل گردن زنی ہوگئی۔
نیب نے ہر کام تحقیق اور یقین کے بعد کیا ہماری ایلیٹ کہتی ہے کہ نیب ایلیٹ کی دشمن ہے لہٰذا اسے ختم ہوناچاہیے۔ماضی میں تحقیقاتی ادارے ایلیٹ کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے اسی لیے ایلیٹ تحقیقاتی اداروں کی سپورٹر تھی اور قابل اعتبار تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحقیقاتی ادارے ایلیٹ کے ملازم ہیں کہ ایلیٹ کی مرضی کے مطابق کام کریں۔ اگر نیب قومی اور عوامی مفادات کے مطابق کام کر رہی اور کرپٹ عناصر کے خلاف گھیرا تنگ کر رہی ہے تو اس کی تعریف اور حمایت کی جانی چاہیے۔
ہماری ایلیٹ عمران خان کی آمد سے پہلے 10سال بلا خوف و خطر اربوں کی لوٹ مار کا ارتکاب کر رہی تھی اور تحقیقاتی ادارے خاموش تھے۔ پاکستان اکیلا ملک نہیں جہاں ایلیٹ کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہے بلکہ جہاں جہاں کرپشن کا ارتکاب کیا گیا وہاں وہاں کوئی نہ کوئی نیب متحرک ہے اور ایلیٹ کی کرپشن کو بے نقاب کر رہی ہے۔ لوٹا ہوا پیسہ ایلیٹ کا ذاتی نہیں بلکہ غریب عوام کی محنت کی کمائی ہے۔ یہ کس قدر ظلم اور انیائے ہے کہ قومی دولت کو تشکیل دینے والے عوام بھوک، بیماری اور ناخواندگی کے شکار ہیں اور عوام کی محنت سے پیدا ہونے والے سرمائے پر ایلیٹ قابض ہے کیا یہ قرین انصاف ہے؟
ایلیٹ کی لوٹ مار کی وجہ سے غریب اور غریب، امیر اور امیر ہو رہا ہے۔ ماضی قریب میں بڑی دلچسپ وارداتیں ہوئیں۔ معلوم یا نامعلوم چوروں نے چوری کے لاکھوں کروڑوں روپوں کو مزدوروں، رکشہ ڈرائیوروں، پھل فروشوں جیسے غریب عوام کے اکاؤنٹس میں ڈال دیا، ہر روز میڈیا میں ایک نئی خبر آتی کہ آج ایک مزدور کے اکاؤنٹ سے پچاس کروڑ برآمد ہوئے، ایک رکشہ ڈرائیور کے اکاؤنٹ سے دس کروڑ نکلے ایک پھل فروش حیران تھا کہ اس کے اکاؤنٹس میں لاکھوں روپے کہاں سے آئے۔ کیا ان پراسرار وارداتوں کی تحقیق ہوئی،کیا ان نامعلوم حاتموں کو پکڑا گیا؟
جوکچھ آج ہو رہا ہے یہ آج کی بات نہیں بلکہ یہ ناقابل یقین اور شرمناک اونچ نیچ صدیوں سے جاری ہے، ہر دور میں غریب طبقات کے حامی اس ظالمانہ نظام کو بدلنے کی کوشش کرتے رہے لیکن یہ غیر معمولی مستحکم نظام ٹس سے مس ہوکر نہیں دیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ اس ظالمانہ نظام کو بدلنے والے عوام کو مختلف خانوں میں بانٹ کر ان کی اجتماعی طاقت کو پارہ پارہ کردیا۔
سوال یہ ہے کہ عوام کی اجتماعی طاقت کو بے شمار حصوں میں بانٹ دیا گیا لیکن عوام دشمن طاقتیں آج پہلے سے زیادہ مستحکم کیوں ہیں؟
سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے خلاف عوام میں سخت نفرت رہی لیکن بٹے ہوئے عوام اس نظام کا خاتمہ نہیں کرسکے۔ 1917 میں روس نے سوشلسٹ نظام کا راستہ اپنایا دنیا میں یہ نظام اس لیے یادگار رہے گا کہ 1917 میں روس نے سوشلسٹ انقلاب برپا کرکے سرمایہ دارانہ نظام کا ایک بہتر متبادل پیش کیا۔
روسی انقلاب کے بعد دنیا کے آبادی کے حوالے سے سب سے بڑے ملک چین نے روس کی پیروی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کا ایک تہائی حصہ نے سوشل ازم کو اپنا لیا۔ اس حوالے سے تفصیل اس کالم میں ممکن نہیں البتہ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی لوٹ کھسوٹ اور اقتصادی ناانصافیوں کے نتیجے میں جلد یا بدیر دنیا سوشلسٹ حقیقت کو اپنا لیگی اور ساری ناانصافیوں کی جڑ لامحدود حق ملکیت کا خاتمہ ہو جائے گا اور انسانی ضرورت کے مطابق حق ملکیت دیا جائے گا ارب پتیوں کا دور ختم ہو جائے گا۔
اس ضمن میں یہ انکشاف بھی ضروری ہے کہ لٹیری کلاس نے کرپشن کے اربوں روپوں کو ملک کے اندر اور ملک کے باہر بڑی بڑی جائیدادیں خریدنے میں صرف کیا کہ دولت بچانے کا یہ ایک محفوظ طریقہ ہے۔ نیب نے ایسی جائیدادوں کے بارے میں معلومات بھی حاصل کی ہیں، نیب کی ان کارروائیوں کی وجہ سے ہماری ایلیٹ نیب کے سخت خلاف ہوگئی ہے اور اسے ختم کرنے کے زور شور سے مطالبے کر رہی ہے۔
عام آدمی سوال کر رہا ہے کہ اربوں روپے کی لوٹ مارکی میڈیا پر جو داستانیں سنائی گئیں، وہ اربوں روپے کہاں گئے یا تو کرپشن کا پروپیگنڈا غلط تھا یا پروپیگنڈا درست تھا تو پھر اربوں روپوں کو زمین کھا گئی یا پھر آسمان نگل گیا۔ نیب اس وقت تک قابل اعتبار تھی جب تک اس نے سیاسی چوروں کے خلاف تحقیق کا آغاز نہیں کیا تھا ، اس وقت تک لٹیری کلاس قابل اعتماد اور قابل بھروسہ تھی جیسے ہی نیب نے لٹیری کلاس کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا وہ قابل گردن زنی ہوگئی۔
نیب نے ہر کام تحقیق اور یقین کے بعد کیا ہماری ایلیٹ کہتی ہے کہ نیب ایلیٹ کی دشمن ہے لہٰذا اسے ختم ہوناچاہیے۔ماضی میں تحقیقاتی ادارے ایلیٹ کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے اسی لیے ایلیٹ تحقیقاتی اداروں کی سپورٹر تھی اور قابل اعتبار تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحقیقاتی ادارے ایلیٹ کے ملازم ہیں کہ ایلیٹ کی مرضی کے مطابق کام کریں۔ اگر نیب قومی اور عوامی مفادات کے مطابق کام کر رہی اور کرپٹ عناصر کے خلاف گھیرا تنگ کر رہی ہے تو اس کی تعریف اور حمایت کی جانی چاہیے۔
ہماری ایلیٹ عمران خان کی آمد سے پہلے 10سال بلا خوف و خطر اربوں کی لوٹ مار کا ارتکاب کر رہی تھی اور تحقیقاتی ادارے خاموش تھے۔ پاکستان اکیلا ملک نہیں جہاں ایلیٹ کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہے بلکہ جہاں جہاں کرپشن کا ارتکاب کیا گیا وہاں وہاں کوئی نہ کوئی نیب متحرک ہے اور ایلیٹ کی کرپشن کو بے نقاب کر رہی ہے۔ لوٹا ہوا پیسہ ایلیٹ کا ذاتی نہیں بلکہ غریب عوام کی محنت کی کمائی ہے۔ یہ کس قدر ظلم اور انیائے ہے کہ قومی دولت کو تشکیل دینے والے عوام بھوک، بیماری اور ناخواندگی کے شکار ہیں اور عوام کی محنت سے پیدا ہونے والے سرمائے پر ایلیٹ قابض ہے کیا یہ قرین انصاف ہے؟
ایلیٹ کی لوٹ مار کی وجہ سے غریب اور غریب، امیر اور امیر ہو رہا ہے۔ ماضی قریب میں بڑی دلچسپ وارداتیں ہوئیں۔ معلوم یا نامعلوم چوروں نے چوری کے لاکھوں کروڑوں روپوں کو مزدوروں، رکشہ ڈرائیوروں، پھل فروشوں جیسے غریب عوام کے اکاؤنٹس میں ڈال دیا، ہر روز میڈیا میں ایک نئی خبر آتی کہ آج ایک مزدور کے اکاؤنٹ سے پچاس کروڑ برآمد ہوئے، ایک رکشہ ڈرائیور کے اکاؤنٹ سے دس کروڑ نکلے ایک پھل فروش حیران تھا کہ اس کے اکاؤنٹس میں لاکھوں روپے کہاں سے آئے۔ کیا ان پراسرار وارداتوں کی تحقیق ہوئی،کیا ان نامعلوم حاتموں کو پکڑا گیا؟
جوکچھ آج ہو رہا ہے یہ آج کی بات نہیں بلکہ یہ ناقابل یقین اور شرمناک اونچ نیچ صدیوں سے جاری ہے، ہر دور میں غریب طبقات کے حامی اس ظالمانہ نظام کو بدلنے کی کوشش کرتے رہے لیکن یہ غیر معمولی مستحکم نظام ٹس سے مس ہوکر نہیں دیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ اس ظالمانہ نظام کو بدلنے والے عوام کو مختلف خانوں میں بانٹ کر ان کی اجتماعی طاقت کو پارہ پارہ کردیا۔
سوال یہ ہے کہ عوام کی اجتماعی طاقت کو بے شمار حصوں میں بانٹ دیا گیا لیکن عوام دشمن طاقتیں آج پہلے سے زیادہ مستحکم کیوں ہیں؟
سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے خلاف عوام میں سخت نفرت رہی لیکن بٹے ہوئے عوام اس نظام کا خاتمہ نہیں کرسکے۔ 1917 میں روس نے سوشلسٹ نظام کا راستہ اپنایا دنیا میں یہ نظام اس لیے یادگار رہے گا کہ 1917 میں روس نے سوشلسٹ انقلاب برپا کرکے سرمایہ دارانہ نظام کا ایک بہتر متبادل پیش کیا۔
روسی انقلاب کے بعد دنیا کے آبادی کے حوالے سے سب سے بڑے ملک چین نے روس کی پیروی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کا ایک تہائی حصہ نے سوشل ازم کو اپنا لیا۔ اس حوالے سے تفصیل اس کالم میں ممکن نہیں البتہ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی لوٹ کھسوٹ اور اقتصادی ناانصافیوں کے نتیجے میں جلد یا بدیر دنیا سوشلسٹ حقیقت کو اپنا لیگی اور ساری ناانصافیوں کی جڑ لامحدود حق ملکیت کا خاتمہ ہو جائے گا اور انسانی ضرورت کے مطابق حق ملکیت دیا جائے گا ارب پتیوں کا دور ختم ہو جائے گا۔