افغانستان کی پیچیدہ صورتحال

اگر مکمل جنگ بندی ہوتی ہے تو کیا طالبان کے فیلڈ کمانڈر اور جنگجو اس بات کو ماننے کےلیے تیار ہوں گے؟


سمیع اللہ June 08, 2020
امریکا کے جانے کے بعد افغانستان پر حکومت کون کرے گا اور کس طرح کرے گا؟ (فوٹو: فائل)

عیدالفطر کے موقع پر طالبان کی طرف سے تین دن کےلیے جنگ بندی کا اعلان کیا گیا، جس کا افغان حکومت نے خیر مقدم کیا اور جذبہ خیر سگالی کے تحت 2000 طالبان قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا۔ جس میں سے 710 قیدی اب تک رہا ہوچکے ہیں۔ اس طرح رہائی پانے والے طالبان کی کل تعداد 2700 ہوگئی ہے۔ طالبان نے بھی عید کے موقع پر حکومت کے 73 قیدیوں کو رہا کیا۔

فروری میں امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے میں یہ طے کیا گیا تھا کہ افغان حکومت بین الافغانی مذاکرات شروع ہونے سے پہلے 5000 طالبان قیدیوں کو رہا کرے گی۔ لیکن اشرف غنی اس بات کو ماننے کےلیے تیار نہیں ہیں کیونکہ ان مذاکرات میں افغان حکومت براہ راست فریق نہیں اور یہ اشرف غنی کےلیے کسی بھی قیمت پر قابل قبول نہیں۔ غنی حکومت کو شروع ہی سے طالبان امریکا مذاکرات سے مسئلہ تھا، کیونکہ انھیں اور ان کے ساتھ پوری افغان اشرافیہ کو اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کو افغانستان اور اس کے غریب عوام سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ سارے امریکا، برطانیہ اور کینیڈا کے نیشنلٹی ہولڈرز ہیں۔ یہ آج ادھر ہوں گے کل انہوں نے جانا ہے، اس لیے مذاکرات کے راستے میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔

اب یہاں پر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر مکمل جنگ بندی ہوتی ہے تو کیا طالبان کے فیلڈ کمانڈر اور جنگجو اس بات کو ماننے کےلیے تیار ہوں گے؟ نچلے لیول پر اگر کسی طالبان سے بات کی جائے تو ان کی یہ خواہش ہے کہ امریکا نہ نکلے۔ ان کے مطابق اگر امریکی فوجی یہاں سے نکلتے ہیں تو وہ جہاد کن کے ساتھ کریں گے؟ طالبان جو لمبے عرصے یا مکمل جنگ بندی کےلیے تیار نہیں، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ طالبان لیڈرشپ زیادہ عرصے تک اپنے جنگجوؤں کو لڑے بغیر فیلڈ میں نہیں رکھ سکتی۔

امریکا طالبان امن معاہدہ بنیادی طور پر دو وجوہات کی بنا پر ہوا ہے۔ پہلا یہ کہ واپسی کو محفوظ بنایا جاسکے، ان کے فوجی قافلوں پر طالبان حملے نہ کریں۔ دوسری افغانستان میں نوے کے عشرے والی صورتحال پیدا نہ ہوجائے۔ سوویت یونین نے افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑا جس کے بعد خانہ جنگی شروع ہوگئی تھی۔ اور پھر طالبان دور میں القاعدہ جیسی امریکا مخالف تنظیموں کو جگہ مل گئی، جنہوں نے نائن الیون کر ڈالا۔ اس لیے امریکا چاہتا ہے کہ افغانستان میں ایسا کوئی سیٹ اپ بن جائے جو امریکا مخالف نہ ہو۔

صدر ٹرمپ الیکشن سے پہلے تمام فوجیوں کے انخلا کے خواہشمند ہیں تاکہ وہ اپنے اس عمل کو الیکشن میں کیش کرسکیں۔ ان کے مطابق امریکا افغانستان میں فوج رکھنے پر جو خرچ اٹھاتا ہے وہ اربوں ڈالرز اپنے ملک میں خرچ کرنے چاہئیں۔ اس وقت ٹرمپ اور ڈیفنس اسٹبلشمنٹ کے درمیان ایک کشمکش چل رہی ہے، کیونکہ پینٹاگون فوج کے اتنی جلدی اور فوری انخلا سے خوش نہیں ہے۔ اس کے مطابق ایسا کرنے سے طالبان کو ایک نفسیاتی برتری ملے گی جو ان کےلیے قابلِ قبول نہیں۔ دوسری یہ بات کہ وائٹ ہاؤس اس چیز کی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ افغانستان کی سرزمین دوبارہ امریکا کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔

اب آتے ہیں افغانستان کی اندرونی صورتحال کی طرف۔ افغانستان میں ستمبر 2019 میں ہونے والے متنازع انتخاب کے بعد اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں نے افغان قیادت کے طور پر منتخب ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ اور اپریل 2020 میں دونوں نے حلف برداری تقریبات بھی منعقد کیں اور متوازی حکومتوں کا اعلان کیا۔ امریکا ان کے اس اقدام سے ناخوش تھا۔ امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے دونوں کے درمیان صلح کرانے کی کافی کوشش کی، لیکن یہ نہیں مانے۔ اس کے بعد مارچ میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو افغانستان آئے۔ انہوں نے بھی دونوں رہنماؤں کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن وہ بھی ناکام رہے۔

افغان رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات میں ناکامی کے بعد پومپیو نے افغانستان کی مالی امداد میں ایک بلین ڈالر تک کمی کا اعلان کیا۔ وزارت خارجہ سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ امریکا کو اس بات پر شدید افسوس ہے کہ افغان رہنما اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کابل میں حکومت سازی پر اتفاق رائے پیدا نہ کرسکے۔ مائیک پومپیو کے مطابق ان کی اس ناکامی سے جہاں امریکا اور افغانستان کے باہمی تعلقات کو نقصان پہنچا، وہیں اس سے ان افغان، امریکیوں اور اتحادیوں کی بھی بے توقیری ہوئی جنھوں نے افغانستان کےلیے جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں۔

اس اعلان کے بعد افغان رہنما کچھ سوچنے پر مجبور ہوگئے اور بالآخر 17 مئی کو دونوں رہنماؤں کے درمیان اقتدار میں شرکت کا معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت اشرف غنی ہی ملک کے صدر رہیں گے، جبکہ دونوں فریق مساوی تعداد میں اپنے اپنے وزیر منتخب کریں گے۔ اور اس کے ساتھ عبداللہ عبداللہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی رہنمائی کریں گے۔

یہاں پر اصل توجہ طلب بات یہ ہے کہ عبداللہ عبداللہ جو کہ ایک تاجک ہیں، نے سارا ڈرامہ اس بات کےلیے رچایا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں غیر پشتون کو کوئی خاص نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔ ان کے مطابق سارے معاملات پشتونوں کے درمیان طے پا رہے ہیں، کیونکہ طالبان بھی پشتون ہیں اور حکومت کی طرف سے جو مذاکراتی ٹیم ہے اس میں بھی اکثریت پشتونوں کی ہے۔ تو ایسا نہ ہو کہ غیر پشتون کو نظر انداز کیا جائے۔

افغانستان میں نسل پرستی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 1880 میں خان عبدالرحمٰن خان نے اقتدار سنبھالا تو سب سے پہلے انھوں نے غیر پشتونوں کو زیر کرنا شروع کردیا۔ ان کے دور میں ایک لاکھ سے زائد غیر پشتونوں کا قتل عام ہوا اور بہتوں کو اپنے علاقے چھوڑنے پڑے۔ یہیں سے افغانستان کی تباہی کے دن شروع ہوگئے۔

اب بھی اصل مسئلہ یہی ہے کہ امریکا کے جانے کے بعد کون حکومت کرے گا؟ کس طرح کرے گا؟ کیا افغانستان پھر ایک اور خانہ جنگی کی طرف جائے گا؟ موجودہ حکومت تو امریکی معاونت اور سپورٹ کے بغیر زیادہ عرصہ کنٹرول نہیں رکھ سکتی۔ ان سارے سوالات کے جواب وقت دے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں