’’ لہو کا رنگ ایک ہے‘‘
میں نے بھی اس خبر کے حوالے سے ایک نظم لکھی ہے جس کا عنوان اس کالم کا سرنامہ بھی ہے
اطلاعات کے مطابق جارج فلوئیڈ نامی ایک سیہ فام شخص کی موت کی جو تفصیلات ہم تک پہنچی ہیں اُس میں سے اُس کی موت کے منظر والا حصہ تو اب دنیا کی بیشتر آبادی کی نظروں سے ایک ویڈیو کی معرفت گزر چکا ہے لیکن اس پورے واقعے کے پس منظر سے شاید سب لوگوں کو آگاہی نہیں ہے۔
بتایا یہ جاتا ہے کہ جارج فلوئیڈ نامی اس شخص نے ایک اسٹور سے کچھ خریداری کی اور ادائیگی کے وقت جو رقم اسٹور کے مالک یا کیشیئرکو دی اُس میںسے20 ڈالر کا ایک نوٹ جعلی تھا (مرنے والا یہ نوٹ جان بوجھ کر اور ایک فراڈ کے طور پر چلانے کی کوشش کر رہا تھا یا وہ خود بھی اس کے جعلی ہونے سے بے خبر تھا یہ بات شاید کبھی معلوم نہیں ہو سکے گی کہ اب اس راز سے پردہ اُٹھانے و الا خود بھی اس دنیا سے پردہ کر گیا ہے یا یہ پردہ اُس کی زندگی پر گرا دیا گیا ہے) پولیس کو اطلاع کی گئی وہ آئی اور اس بندے کو اپنی حراست میں لے کر مزید تفتیش کے لیے اپنی مخصوص گاڑی میں پولیس اسٹیشن لے جانے لگی ۔
حسبِ قاعدہ اُس کے دونوں ہاتھ کمرکے پیچھے بذریعہ ہتھکڑی باندھ دیے گئے تھے اُس نے پولیس افسران سے درخواست کی کہ تنگ جگہ پر اُس کا سانس گُھٹتا ہے اس لیے اُسے اس طرح سے لے جایا جائے کہ وہ اس تکلیف سے محفوظ رہ سکے۔ اطلاعات کے مطابق اُس کا یہ اصرار نسلی تکبرّ میں ڈوبے سفید فام پولیس افسران کو اس قدر گراں گزرا کہ اُسے چلتی سڑک پر لٹا کر ایک لحیم شحیم افسر اُس کی گردن پر اس طرح سے گھٹنا رکھ کر کھڑا ہو گیا کہ اُس کے لیے سر کو جنبش دینا یا سانس لینا بھی مشکل ہو گیا۔
اُس نے بار بار مِنتیں کیں اور بتایا کہ اُس کا سانس رک رہا ہے اور وہ سخت تکلیف میں ہے اُسے پانی کا ایک گلاس دیا جائے کیونکہ اُس کا سانس بُری طرح سے رُک رہا ہے اور وہ مرنے والا ہو رہا ہے ۔ ویڈیو کے مطابق یہ منظر دیکھنے و الے کچھ لوگوں کی آوازیں بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں جو پولیس والوں سے رحم کی درخواست کر رہے تھے مگر نہ تو اُس کی گردن سے گھٹنا ہٹایا گیا اور نہ کسی بھی پولیس والے کے کانوں پر جُوں رینگی وہ سب (اُس گُھٹنے سے جارج فلوئیڈ کی گردن دبانے والے سُورما سمیت) انتہائی سنگدلی سے اس مشقِ ستم کو جاری رکھے رہے یہاں تک کہ کوئی تین منٹ کے بعد جارج فلوئیڈ کی آواز آنا بند ہو گئی اور وہ مر گیا لیکن اس کے باوجود اگلے چھ منٹ تک نہ تو وہ گُھٹنا اُس کی مردہ گردن سے ہٹایا گیا اور نہ کسی نے اِردگرد کھڑے لوگوں کی آواز پر کان دھرا ۔ عام طور پر امریکن پولیس میں سیہ فام لوگ بھرتی کیے جاتے ہیں مگر یہ سب کے سب لوگ سفید فام تھے اور ان کے تشدد میں ضابطے کی کارروائی سے کہیں زیادہ نسلی تعصب جھلک رہا تھا۔
امریکی ریاست منی ایپلس میں ہونے والے اس واقعے کی ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی نہ صرف پورے امریکا میں اس کے خلاف احتجاجی بیانات اور ہنگاموں کا سلسلہ شروع ہو گیا بلکہ اس کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دینے لگی اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اس ظالمانہ اور متعصبانہ کارروائی کے خلاف آواز اُٹھائی ۔ اس حوالے سے بہت سی نئی اور پرانی نظمیں بھی سامنے آ رہی ہیں ۔ ستّر کی دہائی میں خود میں نے سیہ فام لوگوں کی شاعری کے جو تراجم ''کالے لوگوں کی روشن نظمیں'' کے عنوان سے کیئے تھے اُن میں بھی زیادہ تر نظمیں اسی رنگ اور نسل کے تعصب کے بارے میں ہیں ۔
میں نے بھی اس خبر کے حوالے سے ایک نظم لکھی ہے جس کا عنوان اس کالم کا سرنامہ بھی ہے اور اس کے آخر میں رسول پاکؐ کے اُس آخری خطبے کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں آپؐ نے بڑی وضاحت سے فرمایا تھا کہ کسی کو کسی پر رنگ و نسل یا قوم کی وجہ سے کوئی فوقیت حاصل نہیں اور اس دنیا میں پیدا ہونے والا ہر فرد جن پیدائشی حقوق کا حق دار ہے، اُن میں یہ مساوات اور برابری مرکزی حیثیت رکھتے ہیں اور واضح رہے کہ یہ بات انسانی حقوق کے لیے آواز اُٹھانے والی تنظیموں کے قیام سے بھی ایک ہزار سال پہلے بلند کی گئی تھی۔ جارج فلوئیڈ کی موت نے پوری دنیا کو ایک بار پھر رنگ و نسل کے تعصب کے خلاف یک دل اور یک زبان کر دیا ہے جو ایک بہت امید افزا بات ہے کہ بوجوہ اس ''لازمی'' عمل کو ایک ذاتی رویئے یا انتخاب کی شکل دے دی گئی تھی یہ نظم جارج فلوئیڈ جیسے ہر اُس شخص کے نام ہے جو کسی بھی طرح کے تعصب کا نشانہ بنے یا بنایا جائے۔
ایک طاقتور، تکبرّ سے بھرے گُھٹنے تلے
چیختا ، فریاد کرتا، بِلبلاتا ایک سر
جس کے گِردا گرد پھرتے بے حس و سفّاک آنکھوں
سے یہ منظر دیکھتے آدمی کا روپ دھارے جانور
امن ا ور قانون کے ضامن وہ پتھر سے خدا
اپنی رنگت کی فضیلت کے نشے میں مبتلا
سب وہ قاتل بھیڑیئے
کھردری کالی سڑک پر بَین کرتا
ہتھکڑی میں بند ہاتھوں کو بمشکل جوڑنا
رات جیسی کھال کا اک آدمی
مانگتا تھا بھیک کے انداز میں
سانس لینے کا وہ حقِ دائمی
جس میں رنگ و نسل کی تفریق ہو سکتی نہیں
اُس کی چیخوں اور دہائیوں کا مگر کوئی اثر
اُن کے نخوت سے بھرے کانوں تلک آتا نہ تھا
اُس کی آنکھوں کی چمک بجھتی گئی
پھر بھی وہ گُھٹنا وہیں ٹھہرا رہا
موت سارے راستے دھند لا گئی
کالی چمڑی کو سفیدی کھا گئی
اُس تعصّب سے بھرے گھٹنے تلے
بے حس و حرکت پڑے اُس ایک سر کی خامشی
کس طرح سڑکوں پہ آنکھوں اور سینوں میں
ہوئی ہے لب کشا
ظالموں نے یہ کبھی سوچا نہ تھا
آج دنیا بھر میں مل کر چیختی خلقِ خدا
کر رہی ہے پھر سے اُس بُھولے سبق کی ابتدا
(جو کبھی گونجا تھا جلتے دشت کی پنہائی میں)
''کوئی گورا ہو کہ کالا
فرق ان میں کچھ نہیں ہے رنگ کی بنیاد پر
ایک ہی آدم کی ہیں اولاد سب
ساری مخلوقات کا ہے ایک رّب''
کیسے اس پیغام عالی شان کی یادِ عزیز
مرتی آنکھیں زندگی سے بھر گئی
کس طرح اک آن میں لاکھوں چراغ
بُجھ کے اک آواز ، روشن کرگئی!!
بتایا یہ جاتا ہے کہ جارج فلوئیڈ نامی اس شخص نے ایک اسٹور سے کچھ خریداری کی اور ادائیگی کے وقت جو رقم اسٹور کے مالک یا کیشیئرکو دی اُس میںسے20 ڈالر کا ایک نوٹ جعلی تھا (مرنے والا یہ نوٹ جان بوجھ کر اور ایک فراڈ کے طور پر چلانے کی کوشش کر رہا تھا یا وہ خود بھی اس کے جعلی ہونے سے بے خبر تھا یہ بات شاید کبھی معلوم نہیں ہو سکے گی کہ اب اس راز سے پردہ اُٹھانے و الا خود بھی اس دنیا سے پردہ کر گیا ہے یا یہ پردہ اُس کی زندگی پر گرا دیا گیا ہے) پولیس کو اطلاع کی گئی وہ آئی اور اس بندے کو اپنی حراست میں لے کر مزید تفتیش کے لیے اپنی مخصوص گاڑی میں پولیس اسٹیشن لے جانے لگی ۔
حسبِ قاعدہ اُس کے دونوں ہاتھ کمرکے پیچھے بذریعہ ہتھکڑی باندھ دیے گئے تھے اُس نے پولیس افسران سے درخواست کی کہ تنگ جگہ پر اُس کا سانس گُھٹتا ہے اس لیے اُسے اس طرح سے لے جایا جائے کہ وہ اس تکلیف سے محفوظ رہ سکے۔ اطلاعات کے مطابق اُس کا یہ اصرار نسلی تکبرّ میں ڈوبے سفید فام پولیس افسران کو اس قدر گراں گزرا کہ اُسے چلتی سڑک پر لٹا کر ایک لحیم شحیم افسر اُس کی گردن پر اس طرح سے گھٹنا رکھ کر کھڑا ہو گیا کہ اُس کے لیے سر کو جنبش دینا یا سانس لینا بھی مشکل ہو گیا۔
اُس نے بار بار مِنتیں کیں اور بتایا کہ اُس کا سانس رک رہا ہے اور وہ سخت تکلیف میں ہے اُسے پانی کا ایک گلاس دیا جائے کیونکہ اُس کا سانس بُری طرح سے رُک رہا ہے اور وہ مرنے والا ہو رہا ہے ۔ ویڈیو کے مطابق یہ منظر دیکھنے و الے کچھ لوگوں کی آوازیں بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں جو پولیس والوں سے رحم کی درخواست کر رہے تھے مگر نہ تو اُس کی گردن سے گھٹنا ہٹایا گیا اور نہ کسی بھی پولیس والے کے کانوں پر جُوں رینگی وہ سب (اُس گُھٹنے سے جارج فلوئیڈ کی گردن دبانے والے سُورما سمیت) انتہائی سنگدلی سے اس مشقِ ستم کو جاری رکھے رہے یہاں تک کہ کوئی تین منٹ کے بعد جارج فلوئیڈ کی آواز آنا بند ہو گئی اور وہ مر گیا لیکن اس کے باوجود اگلے چھ منٹ تک نہ تو وہ گُھٹنا اُس کی مردہ گردن سے ہٹایا گیا اور نہ کسی نے اِردگرد کھڑے لوگوں کی آواز پر کان دھرا ۔ عام طور پر امریکن پولیس میں سیہ فام لوگ بھرتی کیے جاتے ہیں مگر یہ سب کے سب لوگ سفید فام تھے اور ان کے تشدد میں ضابطے کی کارروائی سے کہیں زیادہ نسلی تعصب جھلک رہا تھا۔
امریکی ریاست منی ایپلس میں ہونے والے اس واقعے کی ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی نہ صرف پورے امریکا میں اس کے خلاف احتجاجی بیانات اور ہنگاموں کا سلسلہ شروع ہو گیا بلکہ اس کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دینے لگی اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اس ظالمانہ اور متعصبانہ کارروائی کے خلاف آواز اُٹھائی ۔ اس حوالے سے بہت سی نئی اور پرانی نظمیں بھی سامنے آ رہی ہیں ۔ ستّر کی دہائی میں خود میں نے سیہ فام لوگوں کی شاعری کے جو تراجم ''کالے لوگوں کی روشن نظمیں'' کے عنوان سے کیئے تھے اُن میں بھی زیادہ تر نظمیں اسی رنگ اور نسل کے تعصب کے بارے میں ہیں ۔
میں نے بھی اس خبر کے حوالے سے ایک نظم لکھی ہے جس کا عنوان اس کالم کا سرنامہ بھی ہے اور اس کے آخر میں رسول پاکؐ کے اُس آخری خطبے کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں آپؐ نے بڑی وضاحت سے فرمایا تھا کہ کسی کو کسی پر رنگ و نسل یا قوم کی وجہ سے کوئی فوقیت حاصل نہیں اور اس دنیا میں پیدا ہونے والا ہر فرد جن پیدائشی حقوق کا حق دار ہے، اُن میں یہ مساوات اور برابری مرکزی حیثیت رکھتے ہیں اور واضح رہے کہ یہ بات انسانی حقوق کے لیے آواز اُٹھانے والی تنظیموں کے قیام سے بھی ایک ہزار سال پہلے بلند کی گئی تھی۔ جارج فلوئیڈ کی موت نے پوری دنیا کو ایک بار پھر رنگ و نسل کے تعصب کے خلاف یک دل اور یک زبان کر دیا ہے جو ایک بہت امید افزا بات ہے کہ بوجوہ اس ''لازمی'' عمل کو ایک ذاتی رویئے یا انتخاب کی شکل دے دی گئی تھی یہ نظم جارج فلوئیڈ جیسے ہر اُس شخص کے نام ہے جو کسی بھی طرح کے تعصب کا نشانہ بنے یا بنایا جائے۔
ایک طاقتور، تکبرّ سے بھرے گُھٹنے تلے
چیختا ، فریاد کرتا، بِلبلاتا ایک سر
جس کے گِردا گرد پھرتے بے حس و سفّاک آنکھوں
سے یہ منظر دیکھتے آدمی کا روپ دھارے جانور
امن ا ور قانون کے ضامن وہ پتھر سے خدا
اپنی رنگت کی فضیلت کے نشے میں مبتلا
سب وہ قاتل بھیڑیئے
کھردری کالی سڑک پر بَین کرتا
ہتھکڑی میں بند ہاتھوں کو بمشکل جوڑنا
رات جیسی کھال کا اک آدمی
مانگتا تھا بھیک کے انداز میں
سانس لینے کا وہ حقِ دائمی
جس میں رنگ و نسل کی تفریق ہو سکتی نہیں
اُس کی چیخوں اور دہائیوں کا مگر کوئی اثر
اُن کے نخوت سے بھرے کانوں تلک آتا نہ تھا
اُس کی آنکھوں کی چمک بجھتی گئی
پھر بھی وہ گُھٹنا وہیں ٹھہرا رہا
موت سارے راستے دھند لا گئی
کالی چمڑی کو سفیدی کھا گئی
اُس تعصّب سے بھرے گھٹنے تلے
بے حس و حرکت پڑے اُس ایک سر کی خامشی
کس طرح سڑکوں پہ آنکھوں اور سینوں میں
ہوئی ہے لب کشا
ظالموں نے یہ کبھی سوچا نہ تھا
آج دنیا بھر میں مل کر چیختی خلقِ خدا
کر رہی ہے پھر سے اُس بُھولے سبق کی ابتدا
(جو کبھی گونجا تھا جلتے دشت کی پنہائی میں)
''کوئی گورا ہو کہ کالا
فرق ان میں کچھ نہیں ہے رنگ کی بنیاد پر
ایک ہی آدم کی ہیں اولاد سب
ساری مخلوقات کا ہے ایک رّب''
کیسے اس پیغام عالی شان کی یادِ عزیز
مرتی آنکھیں زندگی سے بھر گئی
کس طرح اک آن میں لاکھوں چراغ
بُجھ کے اک آواز ، روشن کرگئی!!