ڈرنا نہیں تو مرنا ہے
مجھے حیرت ہوتی ہے ان لوگوں کو سن کر جو کہ اب بھی کہتے ہیں کہ کورونا کچھ ہے ہی نہیں
'' ڈرنا نہیں... لڑنا ہے! '' کی تکرار آپ نے بھی ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا پر سنی ہو گی۔ ہمارے جیسے جاہل عوام کو اگر آپ ایسے مجاہدانہ نعرے سنائیں گے تو ہم تو یوں بھی ہر وقت شہادت کے طالب ہوتے ہیں، ہم نہ ڈرنے کا مظاہرہ باہر نکل کر اور کوروناکو چھو چھو کر ، '' ڈرتے نہیں ہم تم سے ! '' کہہ کر ہی کریں گے نا۔ اچھا خاصا یہ جن بوتل میں بند تھا، جانے حکومتی ارکان کو کس نے یہ ' مت ' دی کہ یہ لوگ تو ڈر نہیں رہے، اس جن کو باہر نکالو، آدھے مریں گے تو آدھے ڈریں گے... اور حکومت نے اعلان کر کے سب کچھ کھول دیا۔
کچھ کسر رہ گئی تھی کہ ابھی تک پارک بند تھے، جمعے کو وہ بھی کھول دیے گئے، اس وقت تک مبتلا لوگوں کی تعداد نوے ہزارکا ہندسہ چھو رہی تھی اور اس روز ایک دن میں لگ بھگ پانچ ہزار نئے کیس سامنے آئے تھے۔ ( یہ وہ کیس ہے جنھیں ٹسٹ کیا جاتا ہے اور ان کی رپورٹ پبلک ہوتی ہے) اب ہم سب ایک دوسرے سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آج کا figure کیا ہے، مجھے وہ وقت یاد آ جاتا ہے جب بم دھماکے اس ملک میں ہر روز کا معمول تھے۔ ٹیلی وژن آن کرنے سے پہلے ہم سوچا کرتے تھے، جانے آج کا کیا count ہے اور کہاں کا ہے۔ اس وقت بھی حالات بم دھماکوں جیسے ہی ہیں مگر اب بم پوشیدہ ہیں اور ہم میں سے کون اسے لیے پھر رہا ہے اور کہاں جا پھٹے گا، اس کا علم نہیں۔
میں تو کئی راتوں کو خوف سے سو نہیں پاتی، بہادری کا عالم یہ ہے کہ کورونا کے پھیلاؤ کا آغاز ہوتے ہی میں نے اپنے گھر پر ایک کمرہ خاص طور پر اس لیے تیار کر لیا کہ اگر اللہ نہ کرے کوئی مبتلا ہوجائے تو اس کو بہترین حالات میں گھر میں علیحدہ کیا جا سکے۔ کمرہ گھر میں بالکل باہر کی طرف ہے اور اس میں روشنی اور ہوا کا گزر سب سے زیادہ ہے ۔ تمام بنیادی سہولیات کے ساتھ ساتھ ، اس کمرے سے منسلک ایک علیحدہ غسل خانہ بھی ہے ۔
گھر میں ہم کل چار افراد رہتے ہیں اور احتیاطی تدابیر کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم چہل قدمی کو بھی نکلتے ہیں اور اشیائے ضروریہ کی خریداری کے لیے بھی۔ بچے اپنے کام اور ضرورت سے اسپتال اور بازار وغیرہ بھی جاتے ہیں تو کس وقت کیا بے احتیاطی ہو جائے، اس کا امکان بہر حال ہوتا ہے ۔ ایک بیٹی لاہور میں ہے اور ایک کینیڈا میں... لاہور کے بارے میں خبریں سن کر دل لرزتا ہے تو کبھی کینیڈا اور امریکا کے بارے میں سن کر پریشانی کہ بچوں کے علاوہ آدھا خاندان بھی کینیڈا اور امریکا میں آباد ہے ۔ اسی خدشے سے کئی بار رات کو نیند اڑتی ہے تو صبح کی خبر لاتی ہے ۔
مجھے حیرت ہوتی ہے ان لوگوں کو سن کر جو کہ اب بھی کہتے ہیں کہ کورونا کچھ ہے ہی نہیں، خواہ مخواہ میں افواہیں پھیلا کر خوف پیدا کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی ہے نا، اسی سے دعا کریں ، اسی سے مدد مانگیں ۔ اس ایک بات میں نہ مجھے اور نہ کسی اور کو کوئی شک ہے مگر اللہ تعالی بھی انھی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ جنھیں اپنی حالت آپ بدلنے کا خیال نہ ہو، ان کی حالت اللہ تعالی نہیں بدلتا ۔ ہمارے ملک میں عوام کا غیر سنجیدہ رویہ تو کورونا کے پھیلاؤ کا ایک بڑا سبب ہے ہی، مگر اس سے بڑھ کر جو وجہ ہے وہ ہماری حکومت کا غیر سنجیدہ رویہ اور معاملے کی گھمبیرتا سے ناآشنائی ہے ۔ ہمارے وزیر اور مشیر، خود بھی کئی کورونا کا شکار ہو چکے ہیں اور بفضل خدا ، ان میں سے زیادہ تر صحت یاب بھی ہو چکے ہیں، ان کی قسمت اچھی ہے کہ وہ ایسی پوزیشن میں ہیں کہ انھیں علاج کی اولین ترجیحات پر سہولت میسر ہے مگر عام آدمی شکار ہو کر کیا کرے؟
آپ کو غریب آدمی کے بھوک سے مرنے کا ڈر تھا مگر سننے میں نہیں آیا کہ ایسا ہوا ہو۔ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام نے بھی غرباء اور مساکین کا بہت خیال کیا۔ چھوٹے موٹے کاروباریوں کے لیے اور عام آدمی کی سہولت کی خاطر آپ نے چھوٹی دکانیں کھولنے کی اجازت دی اور اس سے سب کا کام چلنے لگا ۔ عید سے چند دن قبل آپ نے وہ سانپ پٹاری سے نکال دیا جو کہ اب آپ کے قابو سے بھی نکل چکا ہے، اب آپ نے پارکس کھولنے کی اجازت دے دی ہے، اس کی کیا مجبوری تھی؟ کسر رہ گئی ہے تو تعلیمی ادارے بھی کھول دیں ، بچے تو یوں بھی بازاروں میں گھوم پھر رہے ہیں۔
اس عوام کاباہر نکلنا، آپ نے ماسک پہننے سے مشروط کر دیا ہے، انھیں تو ماسک بھی سیدھا پہننا نہیں آتا، دو منٹ میں ماسک اتار کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں کہ کہیں چیکنگ ہو گئی تو اٹھا کر پہن لیں گے۔ یہ تو وہ جی دار قوم ہے جو موٹر سائیکل چلاتے ہوئے، ہیلمٹ بھی اس لیے پہنتے ہیں کہ قانون خوش ہو جائے ورنہ انھیں اپنی جان کی ایسی پروا نہیں ہوتی۔
ان کے خیال میں موت کا ایک دن معین ہے تو پھر ڈرنا کیا، مرنا تو ہے ہی تو باہر نکل کر مریں، کھا پی کر مریں، اپنوں کو ملتے رہیں اور جاتے ہوئے دو چار اور کو بھی ساتھ لے جائیں۔ اس قوم کو آپ ہاتھ دھونے کا کہتے ہیں ، جس کے مرد حضرات، اب بھی، سڑک کے کنارے حوائج ضروریہ سے فارغ ہو کر، اگلے ہی لمحے گول گپوں کی ریڑھی سے گول گپے خریدکر کھا رہے ہوتے ہیں!! ہاتھ دھونے کے پیغام کی ایسی تیسی۔ اسی لیے ہم میں سے جس کسی کو ہلکاپھلکا بخار ہوتا ہے یا کھانسی کی شکایت ہے، اس کے پاس گھر میں جو ادویات موجود ہیں، ان میں سے خود ہی کچھ نہ کچھ لے لیتے ہیں، ایک نہیں تو دوسری اور دوسری اثر نہ کرے تو تیسری۔ اگر کسی کو کورونا کی علامات ہوں بھی تو وہ انھیں یوں چھپاتا ہے جیسے پہلے پہل لوگ ایڈز کے بارے میںچھپاتے تھے، جب تک ان کو یہ علم تھا کہ ایڈز کی بیماری فقط غلط جسمانی تعلقات کے نتیجے میں ہوتی ہے۔
اگر کسی کو کورونا کی شکایت ہو تو بھی لوگ اس سے پہلا سوال یہ کرتے ہیں، '' آپ کو کہاں سے... '' جیسے کہ کورونا ایک بڑا سا جانور ہے جو آپ سے چپکے گا تو نظر آئے گا۔ اگر کوئی گھر پر بھی قیام کر رہا ہو اور ہر طرح سے میل جول میں احتیاط کر رہا ہو اور پھر بھی کورونا وائرس کا شکار ہو جائے تو اس پر بھی ' ' شک'' کیا جاتا ہے کہ کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے... چوبیسوں گھنٹے ہم اپنے ہاتھوں میں پکڑے فون سے نہ صرف اس کے بارے میں مختلف پوسٹ وصول کرتے اور ان میں سے کچھ پڑھتے یا دیکھتے ہیں بلکہ انھیں دوسروں کو بھی بھیجتے ہیں ۔ جب عمل کی باری آتی ہے تونہ ہمیں پوسٹ بھجوانے والا کرتا ہے، نہ ہم اور نہ وہ جسے ہم وہ پوسٹ بھیجتے ہیں۔
جب تک کسی جاننے والے کو کورونا نہیں ہوا، تب تک ذہن میں بہت سے سوال تھے... کہ میری دو سو سہیلیوں ، چھ سو رشتے داروں اورکئی ہزارجاننے والوں میں سے کسی کو نہیں ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں بھی نہیں ہوگا اور شاید کورونا ہے بھی نہیں۔ اب تو ایسی پریشان کن خبریں آ رہی ہیں اور ایسی پوسٹ کہ کورونا جلد یا بدیر سب کو ہونا ہے، اب آپ اس سے مقابلے کی تیاری کر لیں، بچنا تو ممکن نہیں رہا۔ بچت ہوئی ہے تو ان ممالک کی اور ان لوگوں کی جنھوں نے اس کے خطرے کو اول دن سے ہی سمجھا اور اس کے مقابلے کے لیے فوراً عمل درآمد کیا، اولین اقدام کے طور پر اپنے ملک سے لوگوں کا اخراج اور ملک میں داخلہ بند کر دیا۔
ان کے ہاں کورونا کے مریضوں کی شرح بہت کم رہی۔ ایک ہم ایسے جنگجو ہیں کہ کورونا عروج پر ہے۔ یہاں سے بیرون ملک جانے والے سمجھتے ہیں کہ وہ موت کے منہ سے بچ کر جا رہے ہیں اور واپس آنیوالوں کا کہنا ہے کہ مرنا ہے تو اپنے ملک میں اور اپنے پیاروں کے پاس مرو... ( ساتھ کسی اور کو بھی لے جانا ہو تو آسان ہے)
اب بھی حکومت کو تجویز پیش کی جا سکتی ہے کہ ٹڈی دل کے مقابلے کے لیے فوج نے اپنی خدمات پیش کر دی ہیں، انھیں ایک اضافی کام کورونا کے مقابلے کا بھی دے دیں ۔ شاید ان کے پاس کوئی بہتر تجویز ہو، آ پ نے تو '' ہینڈز اپ '' کر دئے ہیں اور لوگوں سے کہہ دیا ہے، '' ساڈے تے نہ رہنا!!''
کچھ کسر رہ گئی تھی کہ ابھی تک پارک بند تھے، جمعے کو وہ بھی کھول دیے گئے، اس وقت تک مبتلا لوگوں کی تعداد نوے ہزارکا ہندسہ چھو رہی تھی اور اس روز ایک دن میں لگ بھگ پانچ ہزار نئے کیس سامنے آئے تھے۔ ( یہ وہ کیس ہے جنھیں ٹسٹ کیا جاتا ہے اور ان کی رپورٹ پبلک ہوتی ہے) اب ہم سب ایک دوسرے سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آج کا figure کیا ہے، مجھے وہ وقت یاد آ جاتا ہے جب بم دھماکے اس ملک میں ہر روز کا معمول تھے۔ ٹیلی وژن آن کرنے سے پہلے ہم سوچا کرتے تھے، جانے آج کا کیا count ہے اور کہاں کا ہے۔ اس وقت بھی حالات بم دھماکوں جیسے ہی ہیں مگر اب بم پوشیدہ ہیں اور ہم میں سے کون اسے لیے پھر رہا ہے اور کہاں جا پھٹے گا، اس کا علم نہیں۔
میں تو کئی راتوں کو خوف سے سو نہیں پاتی، بہادری کا عالم یہ ہے کہ کورونا کے پھیلاؤ کا آغاز ہوتے ہی میں نے اپنے گھر پر ایک کمرہ خاص طور پر اس لیے تیار کر لیا کہ اگر اللہ نہ کرے کوئی مبتلا ہوجائے تو اس کو بہترین حالات میں گھر میں علیحدہ کیا جا سکے۔ کمرہ گھر میں بالکل باہر کی طرف ہے اور اس میں روشنی اور ہوا کا گزر سب سے زیادہ ہے ۔ تمام بنیادی سہولیات کے ساتھ ساتھ ، اس کمرے سے منسلک ایک علیحدہ غسل خانہ بھی ہے ۔
گھر میں ہم کل چار افراد رہتے ہیں اور احتیاطی تدابیر کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم چہل قدمی کو بھی نکلتے ہیں اور اشیائے ضروریہ کی خریداری کے لیے بھی۔ بچے اپنے کام اور ضرورت سے اسپتال اور بازار وغیرہ بھی جاتے ہیں تو کس وقت کیا بے احتیاطی ہو جائے، اس کا امکان بہر حال ہوتا ہے ۔ ایک بیٹی لاہور میں ہے اور ایک کینیڈا میں... لاہور کے بارے میں خبریں سن کر دل لرزتا ہے تو کبھی کینیڈا اور امریکا کے بارے میں سن کر پریشانی کہ بچوں کے علاوہ آدھا خاندان بھی کینیڈا اور امریکا میں آباد ہے ۔ اسی خدشے سے کئی بار رات کو نیند اڑتی ہے تو صبح کی خبر لاتی ہے ۔
مجھے حیرت ہوتی ہے ان لوگوں کو سن کر جو کہ اب بھی کہتے ہیں کہ کورونا کچھ ہے ہی نہیں، خواہ مخواہ میں افواہیں پھیلا کر خوف پیدا کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی ہے نا، اسی سے دعا کریں ، اسی سے مدد مانگیں ۔ اس ایک بات میں نہ مجھے اور نہ کسی اور کو کوئی شک ہے مگر اللہ تعالی بھی انھی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ جنھیں اپنی حالت آپ بدلنے کا خیال نہ ہو، ان کی حالت اللہ تعالی نہیں بدلتا ۔ ہمارے ملک میں عوام کا غیر سنجیدہ رویہ تو کورونا کے پھیلاؤ کا ایک بڑا سبب ہے ہی، مگر اس سے بڑھ کر جو وجہ ہے وہ ہماری حکومت کا غیر سنجیدہ رویہ اور معاملے کی گھمبیرتا سے ناآشنائی ہے ۔ ہمارے وزیر اور مشیر، خود بھی کئی کورونا کا شکار ہو چکے ہیں اور بفضل خدا ، ان میں سے زیادہ تر صحت یاب بھی ہو چکے ہیں، ان کی قسمت اچھی ہے کہ وہ ایسی پوزیشن میں ہیں کہ انھیں علاج کی اولین ترجیحات پر سہولت میسر ہے مگر عام آدمی شکار ہو کر کیا کرے؟
آپ کو غریب آدمی کے بھوک سے مرنے کا ڈر تھا مگر سننے میں نہیں آیا کہ ایسا ہوا ہو۔ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام نے بھی غرباء اور مساکین کا بہت خیال کیا۔ چھوٹے موٹے کاروباریوں کے لیے اور عام آدمی کی سہولت کی خاطر آپ نے چھوٹی دکانیں کھولنے کی اجازت دی اور اس سے سب کا کام چلنے لگا ۔ عید سے چند دن قبل آپ نے وہ سانپ پٹاری سے نکال دیا جو کہ اب آپ کے قابو سے بھی نکل چکا ہے، اب آپ نے پارکس کھولنے کی اجازت دے دی ہے، اس کی کیا مجبوری تھی؟ کسر رہ گئی ہے تو تعلیمی ادارے بھی کھول دیں ، بچے تو یوں بھی بازاروں میں گھوم پھر رہے ہیں۔
اس عوام کاباہر نکلنا، آپ نے ماسک پہننے سے مشروط کر دیا ہے، انھیں تو ماسک بھی سیدھا پہننا نہیں آتا، دو منٹ میں ماسک اتار کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں کہ کہیں چیکنگ ہو گئی تو اٹھا کر پہن لیں گے۔ یہ تو وہ جی دار قوم ہے جو موٹر سائیکل چلاتے ہوئے، ہیلمٹ بھی اس لیے پہنتے ہیں کہ قانون خوش ہو جائے ورنہ انھیں اپنی جان کی ایسی پروا نہیں ہوتی۔
ان کے خیال میں موت کا ایک دن معین ہے تو پھر ڈرنا کیا، مرنا تو ہے ہی تو باہر نکل کر مریں، کھا پی کر مریں، اپنوں کو ملتے رہیں اور جاتے ہوئے دو چار اور کو بھی ساتھ لے جائیں۔ اس قوم کو آپ ہاتھ دھونے کا کہتے ہیں ، جس کے مرد حضرات، اب بھی، سڑک کے کنارے حوائج ضروریہ سے فارغ ہو کر، اگلے ہی لمحے گول گپوں کی ریڑھی سے گول گپے خریدکر کھا رہے ہوتے ہیں!! ہاتھ دھونے کے پیغام کی ایسی تیسی۔ اسی لیے ہم میں سے جس کسی کو ہلکاپھلکا بخار ہوتا ہے یا کھانسی کی شکایت ہے، اس کے پاس گھر میں جو ادویات موجود ہیں، ان میں سے خود ہی کچھ نہ کچھ لے لیتے ہیں، ایک نہیں تو دوسری اور دوسری اثر نہ کرے تو تیسری۔ اگر کسی کو کورونا کی علامات ہوں بھی تو وہ انھیں یوں چھپاتا ہے جیسے پہلے پہل لوگ ایڈز کے بارے میںچھپاتے تھے، جب تک ان کو یہ علم تھا کہ ایڈز کی بیماری فقط غلط جسمانی تعلقات کے نتیجے میں ہوتی ہے۔
اگر کسی کو کورونا کی شکایت ہو تو بھی لوگ اس سے پہلا سوال یہ کرتے ہیں، '' آپ کو کہاں سے... '' جیسے کہ کورونا ایک بڑا سا جانور ہے جو آپ سے چپکے گا تو نظر آئے گا۔ اگر کوئی گھر پر بھی قیام کر رہا ہو اور ہر طرح سے میل جول میں احتیاط کر رہا ہو اور پھر بھی کورونا وائرس کا شکار ہو جائے تو اس پر بھی ' ' شک'' کیا جاتا ہے کہ کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے... چوبیسوں گھنٹے ہم اپنے ہاتھوں میں پکڑے فون سے نہ صرف اس کے بارے میں مختلف پوسٹ وصول کرتے اور ان میں سے کچھ پڑھتے یا دیکھتے ہیں بلکہ انھیں دوسروں کو بھی بھیجتے ہیں ۔ جب عمل کی باری آتی ہے تونہ ہمیں پوسٹ بھجوانے والا کرتا ہے، نہ ہم اور نہ وہ جسے ہم وہ پوسٹ بھیجتے ہیں۔
جب تک کسی جاننے والے کو کورونا نہیں ہوا، تب تک ذہن میں بہت سے سوال تھے... کہ میری دو سو سہیلیوں ، چھ سو رشتے داروں اورکئی ہزارجاننے والوں میں سے کسی کو نہیں ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں بھی نہیں ہوگا اور شاید کورونا ہے بھی نہیں۔ اب تو ایسی پریشان کن خبریں آ رہی ہیں اور ایسی پوسٹ کہ کورونا جلد یا بدیر سب کو ہونا ہے، اب آپ اس سے مقابلے کی تیاری کر لیں، بچنا تو ممکن نہیں رہا۔ بچت ہوئی ہے تو ان ممالک کی اور ان لوگوں کی جنھوں نے اس کے خطرے کو اول دن سے ہی سمجھا اور اس کے مقابلے کے لیے فوراً عمل درآمد کیا، اولین اقدام کے طور پر اپنے ملک سے لوگوں کا اخراج اور ملک میں داخلہ بند کر دیا۔
ان کے ہاں کورونا کے مریضوں کی شرح بہت کم رہی۔ ایک ہم ایسے جنگجو ہیں کہ کورونا عروج پر ہے۔ یہاں سے بیرون ملک جانے والے سمجھتے ہیں کہ وہ موت کے منہ سے بچ کر جا رہے ہیں اور واپس آنیوالوں کا کہنا ہے کہ مرنا ہے تو اپنے ملک میں اور اپنے پیاروں کے پاس مرو... ( ساتھ کسی اور کو بھی لے جانا ہو تو آسان ہے)
اب بھی حکومت کو تجویز پیش کی جا سکتی ہے کہ ٹڈی دل کے مقابلے کے لیے فوج نے اپنی خدمات پیش کر دی ہیں، انھیں ایک اضافی کام کورونا کے مقابلے کا بھی دے دیں ۔ شاید ان کے پاس کوئی بہتر تجویز ہو، آ پ نے تو '' ہینڈز اپ '' کر دئے ہیں اور لوگوں سے کہہ دیا ہے، '' ساڈے تے نہ رہنا!!''