ہائے کیا لوگ تھے جو چلے گئے
ان کی بیٹی نے مجھے کہا ہے کہ کسی کو بھی اطلاع نہیں دینی ہے بس جو ہونا تھا سو ہو گیا۔
یاد آتے ہیں وہ دوست جو دسمبر 1999 تا مئی 2020کے دوران اپنے ہزاروں، لاکھوں چاہنے والوں اور پاکستان کے پسے ہوئے عوام محنت کشوں، ہاریوں، کسانوں اور اپنے مظلوم دوستوں کو چھوڑ کر دام اجل میں آئے۔ ان ساتھیوں، دوستوں کے ساتھ ساتھ ہمارے استاد بھی رہے یہ منحوس وبا کورونا کی وجہ سے نہیں گئے نہ انھوں نے اس وبا کو دیکھا اور نہ ہی سنا مگر ہمیں چھوڑ گئے۔
سب سے پہلے دسمبر 1999 میں محنت کشوں کے دوست سابق پی پی پی کے رہنما راحیل اقبال خاموش گمنامی کی موت کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ نہ کوئی خبر اخبار کی زینت بنی اور نہ ہی دوستوں کو اطلاع ملی حالانکہ وہ میرے قریبی دوست اور ساتھی تھے، نہ ان کی بیٹی اور نہ بیٹے نے اطلاع دی میری ان سے ایک ماہ قبل فون پر بات ہوئی تھی کہا کہ'' رضی بھائی میں ایک ماہ سے اسپتال میں تھا اور اب ٹھیک ہوکر گھر آگیا ہوں، جلد ہی ملاقات ہوگی'' اور پھر مجھے ایک دن بعد صحافی نجم الحسن عطا نے اطلاع دی کہ راحیل اقبال ہمیں چھوڑ کر چلے گئے، آج ان کا سوئم ہے۔
ان کی بیٹی نے مجھے کہا ہے کہ کسی کو بھی اطلاع نہیں دینی ہے بس جو ہونا تھا سو ہو گیا۔ گزشتہ روز اتوار کا دن تھا ایک اخبار میں معروف صحافی محمود شام کا مضمون تھا، کارکن کارکن ہی ہوتا ہے، جس میں دیگر کے علاوہ راحیل اقبال کا بھی نام تھا۔ لیکن میرے دل میں راحیل اقبال کی بیٹی جو خود بھی ایک انگریزی اخبار میں صحافت کرتی ہیں جو مجھے جانتی بھی تھیں ان کے گھر بھی کئی دفعہ گیا تھا اور ایک مرتبہ راحیل کے ساتھ کراچی یونیورسٹی بھی انھیں لینے گیا تھا جس نے میرے دل میں بڑی ٹھیس پہنچائی بڑا دکھ رہا؟ علی یاور جو NSF کے رہنما بھی تھے محنت کشوں کے اتحادی بھی خوبصورت، خوب سیرت۔ پینٹ اور کوٹ اور ٹائی پہنے ہوئے ہر ترقی پسند تقریب میں حاضر ہو جاتے میں ان کے بارے میں کیا لکھوں کتنے بڑے انسان تھے۔
پھر ان کے بعد ہمارے استاد کمیونسٹ پارٹی کے رہنما پیپلز پارٹی بنوانے میں اہم کردار طالب علموں NSF میں اہم کردار محنت کشوں کے رہنما PIA ایئرویز ایمپلائیز یونین کے بانی محنت کشوں کے میگزین یا رسالہ منشور کے ایڈیٹر اور پبلشر کامریڈ طفیل عباس بھی رخصت ہوئے۔ انھوں نے بھی طویل عمر پائی اور اپنے موقف پر ڈٹے رہے کہ جب تک یہ نظام قائم ہے محنت کشوں کی حالت بدل نہیں سکتی۔ لہٰذا اس نظام کے خلاف بغاوت کر کے اس پر محنت کاروں، دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، فنکاروں اور ترقی پسند رہنماؤں کا قبضہ نہیں ہوگا پاکستان کے عوام کی حالت نہیں بدلے گی۔
وہ کارل مارکس، اینگلز، لینن، ہوچی منہ اور اسٹالن ازم کے بھی پرستار تھے لیکن سب سے زیادہ چینی انقلاب اور ان کے رہنما ماؤزے تنگ، چو این لائی سے بے حد متاثر تھے اور ان کے نظریات یعنی سرخ کتاب جسے عرف عام میں لال کتاب کہا جاتا تھا وہ اپنے ہر کارکن کو فراہم کی اس زمانے میں یہ کتاب بڑی مشہور تھی اور ہر کامریڈ کو لال کتاب اور ماہنامہ منشور ہر ترقی پسند مزدور، کسان، طالب علم اور نوجوانوں کے پاس ہوتی تھیں اور ہر سیاسی کارکن اسے ضرور پڑھتا تھا، خیر بابا طفیل عباس چلے گئے، ذکی عباس چلے گئے اور ان کے بعد پی پی پی کراچی کے صدر مڈوے ہوٹل ایئرپورٹ کے منیجر اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنما اظہر عباس بھی سدھار گئے۔
کس کس کو یاد کریں سب ہی کامریڈ اپنے اپنے وقت پر کام کرتے ہوئے چلے گئے۔ ہاں مجھے یاد آیا ہمارے بہت پیارے خوبصورت نوجوان NSF کراچی کے صدر محنت کشوں کے دوست اردو کالج کے پروفیسر سعید احمد تنولی بھی رخصت ہوئے۔ خوبصورت چہرے پر کالی اور سفید بڑی بڑی مونچھیں رکھنے والا پروفیسر سعید احمد تنولی رخصت ہوئے ابھی غم اور دکھ کم نہ ہوئے تھے۔ امن کے پرچارک، انڈیا پاکستان کی دوستی کے علم بردار پائلر کے ڈائریکٹر کرامت علی کے ساتھی محنت کشوں کے دوست اور استاد محترم (B.M Kulty) بی ایم کٹی بھی ہمیں چھوڑ گئے۔
راستہ دشوار تھا مگر وہ اس پر قائم رہے انھیں بھی سرخ سلام۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ کمیونسٹ پارٹی اور مزدور دوست امداد قاضی ، لانڈھی کے ساتھی رشید خان اور جہانگیر آزاد بھی ساتھ چھوڑ گئے۔ میں کس کس دوست اور ساتھی کا ذکر کروں۔
پھر ایک اور عظیم رہنما ہالینڈ سے آکر لاہور، کراچی، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کے نوجوانوں بھی ڈنکا بجانے والے، ہر سال کانگریس منعقد کرنے والے 65 سالہ جواں مرد بلکہ نوجوانوں کے استاد، طبقاتی جدوجہد کے بانی کہیں کہیں پی پی پی کی نمایندگی کرنے ایک عظیم استاد جو اپنے وطن میں آکر طبقاتی جدوجہد کے حوالے سے جنگ لڑنیوالے ایک فوجی افسر کے بیٹے ہوتے بھی بغاوت پر اتر آئے یعنی ملک میں محنت کشوں کا راج لانیوالے کینسر کی بیماری سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار گئے تھے ،یہ تھے ہمارے دوست اور ساتھی ڈاکٹر لال خان (تنویر گوندل) بھی ہمیں چھوڑ گئے کہاں تک لکھوں ہاتھ کانپ رہے ہیں۔
اپنے ساتھی اور دوست صحافیوں کی تحریکوں کے بانی، اظہار آزادی، صحافت کی آزادی، انسانی حقوق کے علم بردار گلے میں کینسر کے شکار بہت پیارے اسمارٹ خوبصورت چہرے والے ہمارے احفاظ الرحمن بھائی بھی رخصت ہوئے ان کی اہلیہ مہ ناز رحمن اب بھی جدوجہد میں مصروف اور عورتوں کے حقوق اور انسانی حقوق کی علم بردار جنگ لڑ رہی ہیں اور لڑتی رہیں گی۔ ابھی کچھ اور دوستوں اور استادوں کا ذکر ہوجائے۔
ہمارے استاد رؤف وارثی اور ان کے بھائی کمال وارثی کے بڑے بھائی پوسٹل یونین کے رہنما لال خان اور ہمارے دوست جنت خان کے دوست محمد احمد وارثی بیماری کے باعث لانڈھی کے اسپتال میں انتقال کرگئے۔ اور پھر ایک اور ساتھی اور ہمارے دوست مرزا محمد ابراہیم کے ساتھی ریلوے ورکرز یونین ورکشاپ کے رہنما لاہور میں یوسف بلوچ عین عید کے دن بیماری کے باعث 80 برس کی عمر میں چل بسے انھوں نے ساری عمر محنت کشوں کے راج کے لیے جدوجہد کی ۔ ابھی یہ غم تھمے نہیں تھے کہ عید کے دوسرے دن مظلوم اور محکوم کی آواز،1970 کی کسان کانفرنس کے بانی بابائے کسان اور مزدور جدوجہد کے استاد۔ مولانا عبدالحمید بھاشانی کے ساتھی، کمیونسٹ پارٹی کے بانی چوہدری فتح محمد ساری عمر جدوجہد کرتے ہوئے چند سال کی بیماری اور طویل عمر 97 برس کی عمر ہمیں چھوڑ گئے انھوں نے کئی کتابیں لکھیں 18 برس جیل کاٹی، مرزا ابراہیم، فیض احمد فیض، ایرک سپرین کے ساتھی چوہدری فتح محمد کی جدوجہد کو سلام! یہ سب وہ استاد اور ساتھی تھے جو کورونا جیسی وبا سے نہیں گئے۔
یہ اپنی موت سے قبل ہی جدوجہد کرتے ہوئے دنیا چھوڑ گئے اچھا ہی ہوا کورونا کو نہیں دیکھا اور خاموشی سے دنیا سے سدھار گئے۔ ہاں مگر ہمارے ایک دوست ملتان کے رہائشی مرزا ابراہیم اور ہمارے ساتھی 62 سال کی عمر میں کورونا سے متاثر ہوکر چلے گئے۔ باقی ابھی سب زندہ ہیں اپنے اپنے نظریات اور مزدور کسان راج کے نعرے لگاتے ہوئے نہ جانے کب رخصت ہوں گے۔ خیر! ابھی زندہ ہیں۔ سوچا کہ ان دنوں فرصت میں ہیں گھر پر ہیں۔ کچھ پرانے دوستوں کے بارے میں ہی لکھ لیں۔ اس لیے تو غالب نے کہا تھا:
ڈھونڈا تھا آسمان نے جنھیں خاک چھان کر
ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے
سب سے پہلے دسمبر 1999 میں محنت کشوں کے دوست سابق پی پی پی کے رہنما راحیل اقبال خاموش گمنامی کی موت کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ نہ کوئی خبر اخبار کی زینت بنی اور نہ ہی دوستوں کو اطلاع ملی حالانکہ وہ میرے قریبی دوست اور ساتھی تھے، نہ ان کی بیٹی اور نہ بیٹے نے اطلاع دی میری ان سے ایک ماہ قبل فون پر بات ہوئی تھی کہا کہ'' رضی بھائی میں ایک ماہ سے اسپتال میں تھا اور اب ٹھیک ہوکر گھر آگیا ہوں، جلد ہی ملاقات ہوگی'' اور پھر مجھے ایک دن بعد صحافی نجم الحسن عطا نے اطلاع دی کہ راحیل اقبال ہمیں چھوڑ کر چلے گئے، آج ان کا سوئم ہے۔
ان کی بیٹی نے مجھے کہا ہے کہ کسی کو بھی اطلاع نہیں دینی ہے بس جو ہونا تھا سو ہو گیا۔ گزشتہ روز اتوار کا دن تھا ایک اخبار میں معروف صحافی محمود شام کا مضمون تھا، کارکن کارکن ہی ہوتا ہے، جس میں دیگر کے علاوہ راحیل اقبال کا بھی نام تھا۔ لیکن میرے دل میں راحیل اقبال کی بیٹی جو خود بھی ایک انگریزی اخبار میں صحافت کرتی ہیں جو مجھے جانتی بھی تھیں ان کے گھر بھی کئی دفعہ گیا تھا اور ایک مرتبہ راحیل کے ساتھ کراچی یونیورسٹی بھی انھیں لینے گیا تھا جس نے میرے دل میں بڑی ٹھیس پہنچائی بڑا دکھ رہا؟ علی یاور جو NSF کے رہنما بھی تھے محنت کشوں کے اتحادی بھی خوبصورت، خوب سیرت۔ پینٹ اور کوٹ اور ٹائی پہنے ہوئے ہر ترقی پسند تقریب میں حاضر ہو جاتے میں ان کے بارے میں کیا لکھوں کتنے بڑے انسان تھے۔
پھر ان کے بعد ہمارے استاد کمیونسٹ پارٹی کے رہنما پیپلز پارٹی بنوانے میں اہم کردار طالب علموں NSF میں اہم کردار محنت کشوں کے رہنما PIA ایئرویز ایمپلائیز یونین کے بانی محنت کشوں کے میگزین یا رسالہ منشور کے ایڈیٹر اور پبلشر کامریڈ طفیل عباس بھی رخصت ہوئے۔ انھوں نے بھی طویل عمر پائی اور اپنے موقف پر ڈٹے رہے کہ جب تک یہ نظام قائم ہے محنت کشوں کی حالت بدل نہیں سکتی۔ لہٰذا اس نظام کے خلاف بغاوت کر کے اس پر محنت کاروں، دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، فنکاروں اور ترقی پسند رہنماؤں کا قبضہ نہیں ہوگا پاکستان کے عوام کی حالت نہیں بدلے گی۔
وہ کارل مارکس، اینگلز، لینن، ہوچی منہ اور اسٹالن ازم کے بھی پرستار تھے لیکن سب سے زیادہ چینی انقلاب اور ان کے رہنما ماؤزے تنگ، چو این لائی سے بے حد متاثر تھے اور ان کے نظریات یعنی سرخ کتاب جسے عرف عام میں لال کتاب کہا جاتا تھا وہ اپنے ہر کارکن کو فراہم کی اس زمانے میں یہ کتاب بڑی مشہور تھی اور ہر کامریڈ کو لال کتاب اور ماہنامہ منشور ہر ترقی پسند مزدور، کسان، طالب علم اور نوجوانوں کے پاس ہوتی تھیں اور ہر سیاسی کارکن اسے ضرور پڑھتا تھا، خیر بابا طفیل عباس چلے گئے، ذکی عباس چلے گئے اور ان کے بعد پی پی پی کراچی کے صدر مڈوے ہوٹل ایئرپورٹ کے منیجر اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنما اظہر عباس بھی سدھار گئے۔
کس کس کو یاد کریں سب ہی کامریڈ اپنے اپنے وقت پر کام کرتے ہوئے چلے گئے۔ ہاں مجھے یاد آیا ہمارے بہت پیارے خوبصورت نوجوان NSF کراچی کے صدر محنت کشوں کے دوست اردو کالج کے پروفیسر سعید احمد تنولی بھی رخصت ہوئے۔ خوبصورت چہرے پر کالی اور سفید بڑی بڑی مونچھیں رکھنے والا پروفیسر سعید احمد تنولی رخصت ہوئے ابھی غم اور دکھ کم نہ ہوئے تھے۔ امن کے پرچارک، انڈیا پاکستان کی دوستی کے علم بردار پائلر کے ڈائریکٹر کرامت علی کے ساتھی محنت کشوں کے دوست اور استاد محترم (B.M Kulty) بی ایم کٹی بھی ہمیں چھوڑ گئے۔
راستہ دشوار تھا مگر وہ اس پر قائم رہے انھیں بھی سرخ سلام۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ کمیونسٹ پارٹی اور مزدور دوست امداد قاضی ، لانڈھی کے ساتھی رشید خان اور جہانگیر آزاد بھی ساتھ چھوڑ گئے۔ میں کس کس دوست اور ساتھی کا ذکر کروں۔
پھر ایک اور عظیم رہنما ہالینڈ سے آکر لاہور، کراچی، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کے نوجوانوں بھی ڈنکا بجانے والے، ہر سال کانگریس منعقد کرنے والے 65 سالہ جواں مرد بلکہ نوجوانوں کے استاد، طبقاتی جدوجہد کے بانی کہیں کہیں پی پی پی کی نمایندگی کرنے ایک عظیم استاد جو اپنے وطن میں آکر طبقاتی جدوجہد کے حوالے سے جنگ لڑنیوالے ایک فوجی افسر کے بیٹے ہوتے بھی بغاوت پر اتر آئے یعنی ملک میں محنت کشوں کا راج لانیوالے کینسر کی بیماری سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار گئے تھے ،یہ تھے ہمارے دوست اور ساتھی ڈاکٹر لال خان (تنویر گوندل) بھی ہمیں چھوڑ گئے کہاں تک لکھوں ہاتھ کانپ رہے ہیں۔
اپنے ساتھی اور دوست صحافیوں کی تحریکوں کے بانی، اظہار آزادی، صحافت کی آزادی، انسانی حقوق کے علم بردار گلے میں کینسر کے شکار بہت پیارے اسمارٹ خوبصورت چہرے والے ہمارے احفاظ الرحمن بھائی بھی رخصت ہوئے ان کی اہلیہ مہ ناز رحمن اب بھی جدوجہد میں مصروف اور عورتوں کے حقوق اور انسانی حقوق کی علم بردار جنگ لڑ رہی ہیں اور لڑتی رہیں گی۔ ابھی کچھ اور دوستوں اور استادوں کا ذکر ہوجائے۔
ہمارے استاد رؤف وارثی اور ان کے بھائی کمال وارثی کے بڑے بھائی پوسٹل یونین کے رہنما لال خان اور ہمارے دوست جنت خان کے دوست محمد احمد وارثی بیماری کے باعث لانڈھی کے اسپتال میں انتقال کرگئے۔ اور پھر ایک اور ساتھی اور ہمارے دوست مرزا محمد ابراہیم کے ساتھی ریلوے ورکرز یونین ورکشاپ کے رہنما لاہور میں یوسف بلوچ عین عید کے دن بیماری کے باعث 80 برس کی عمر میں چل بسے انھوں نے ساری عمر محنت کشوں کے راج کے لیے جدوجہد کی ۔ ابھی یہ غم تھمے نہیں تھے کہ عید کے دوسرے دن مظلوم اور محکوم کی آواز،1970 کی کسان کانفرنس کے بانی بابائے کسان اور مزدور جدوجہد کے استاد۔ مولانا عبدالحمید بھاشانی کے ساتھی، کمیونسٹ پارٹی کے بانی چوہدری فتح محمد ساری عمر جدوجہد کرتے ہوئے چند سال کی بیماری اور طویل عمر 97 برس کی عمر ہمیں چھوڑ گئے انھوں نے کئی کتابیں لکھیں 18 برس جیل کاٹی، مرزا ابراہیم، فیض احمد فیض، ایرک سپرین کے ساتھی چوہدری فتح محمد کی جدوجہد کو سلام! یہ سب وہ استاد اور ساتھی تھے جو کورونا جیسی وبا سے نہیں گئے۔
یہ اپنی موت سے قبل ہی جدوجہد کرتے ہوئے دنیا چھوڑ گئے اچھا ہی ہوا کورونا کو نہیں دیکھا اور خاموشی سے دنیا سے سدھار گئے۔ ہاں مگر ہمارے ایک دوست ملتان کے رہائشی مرزا ابراہیم اور ہمارے ساتھی 62 سال کی عمر میں کورونا سے متاثر ہوکر چلے گئے۔ باقی ابھی سب زندہ ہیں اپنے اپنے نظریات اور مزدور کسان راج کے نعرے لگاتے ہوئے نہ جانے کب رخصت ہوں گے۔ خیر! ابھی زندہ ہیں۔ سوچا کہ ان دنوں فرصت میں ہیں گھر پر ہیں۔ کچھ پرانے دوستوں کے بارے میں ہی لکھ لیں۔ اس لیے تو غالب نے کہا تھا:
ڈھونڈا تھا آسمان نے جنھیں خاک چھان کر
ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے