سپریم کورٹ14لاپتہ افراد آج پیش کرنے کا حکمکھیل ابھی ختم نہیں ہوا باقی پرسوں پیش کیے جائیں گے چیف جسٹس
2حراستی مراکزمیں،3وزیرستان،7کاپتہ نہیں،8 افغانستان چلے گئے،وزیردفاع،بیان نہیں مانتے،چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری
سپریم کورٹ نے 35لاپتہ افرادکے متعلق انکوائری کیلیے آزاد کمیشن بنانے کی تجویزایک بار پھر مستردکردی اور 14 لاپتہ افرادکوآج جسٹس امیرہانی مسلم کے سامنے ان کے چیمبرمیں پیش کرنے جبکہ افغانستان کے صوبے کنڑاور وزیرستان میں مبینہ طورپرگئے لاپتہ 15افراد پیر کو عدالت کے رو برو پیش کرنے کا حکم دیاہے۔
عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ یہ تمام افراد بادی النظرمیں فوج کی تحویل میں تھے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا، 9 دسمبر کو باقی ماندہ افراد بھی پیش کیے جائیں، لاپتہ افراد کا معاملہ جہاں سے چلا تھااب تک وہیں پر کھڑاہے، تمام افراد کو ایک ساتھ لے جایا گیایہ تتر بترکیسے ہوگئے، عدالت کوجو فہرست دی ان میں وہ تمام افراد بھی شامل تھے جن کے بارے میں اب کہا جا رہاہے کہ ان کا کچھ معلوم نہیں، وزارت دفاع ان افراد کو لے کر گئی تھی، پیش کرنابھی ان کی ذمے داری ہے، اگر انھیں آپ لے کر گئے تھے تو چھوڑا کیوں تھا، مفروضے بیان کیے جارہے ہیں، عدالت مفروضوں پریقین نہیں کرے گی،لاپتہ افراد کو ہر صورت عدالت میں پیش کیا جائے، اگر میرے خلاف ریفرنس کے وقت میرے والدکی قبر کاپتہ چلایا جاسکتاہے تو پھرزندہ لوگوں کے رشتے داروں کو بھی تلاش کیا جاسکتاہے،کنڑ والی کہانی تسلیم نہیں کریں گے، حکومت نے لاپتہ افراد کامعاملہ حل کردیا توان کو تاریخی حیثیت حاصل ہوجائے گی، جمہوری دور میں غیر یقینی صورتحال برقرار رہنا قابل افسوس ہے۔
اس معاملے کاتعلق انسانی آزادیوں کے ساتھ ہے اورانسانی آزادی کے تحفظ کے لیے ہم چھٹی والے دن بھی عدالت لگانے کیلیے تیار ہیں،بہتر ہے کہ بندے پیش کردیں،ایف آئی آر درج ہو گی تو سب کیلیے مسئلہ بنے گا، پاکستان واحد ملک نہیں جہاں بدامنی ہے یہ بد امنی ختم ہوجائے گی پھر سب کا ٹرائل ہو گا،انسانی آزادی غصب کرنے پر پنوشے کا ٹرائل 40سال بعد ہوا تھا۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ آرٹیکل نو کی خلاف ورزی کو عام انداز میں نہیں لیا جاسکتا،بندے پیش نہ کرنے سے تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ فوج کا اثاثہ ہیں۔جمعے کو چیف جسٹس افتخارچوہدری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس امیر ہانی مسلم پر مشتمل 3رکنی بینچ نے لاپتہ افراد کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔ وزیرِ دفاع نے عدالت میں 35 لاپتہ افرادکی فہرست تو پیش کی تاہم کسی لاپتہ شخص کو عدالت میں نہیں لایا گیا۔
خواجہ آصف نے لاپتہ افراد کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ 2 افراد اس وقت حراستی مرکزمیں قیدہیں جبکہ ایک شخص سعودی عرب،3افراد شمالی وزیرستان میں ہیں جن کی لوکیشن دیکھ رہے ہیں، 5 افراد کی معلومات نامکمل جبکہ 7 افراد کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں، 8 افراد رہائی کے بعد افغانستان چلے گئے تھے اگر عدالت کہے گی تو انھیں ہم پیش کردیں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس بات کی کیا شہادت ہے کہ 8 افراد افغانستان میں ہیں اس کی شہادت لے کرآئیں۔ خواجہ آصف نے کہاکہ لاپتہ افراد میں سے کوئی ایک بھی فوج کی تحویل میں نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ 35 افراد کی فوج کو حوالگی کے ثبوت موجودہیں،یہ موقف قابل قبول نہیں، حکم کے مطابق لوگوں کو پیش کریں۔ وزیر دفاع نے مزید وقت کی استدعاکرتے ہوئے کہاکہ اگر وقت مل جائے تو جو افراد رہ گئے ان کی تفصیلات سے بھی عدالت کو آگاہ کردیں گے تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہمیں کل بھی بیٹھنا پڑاتو بیٹھیں گے، آپ یہ نہ سمجھیں کھیل یہاں ختم ہوگیایہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔
خواجہ آصف نے کہاکہ بازیاب ہونے والے افرادکوجہاں عدالت کہے گی پیش کر دیں گے جس پرچیف جسٹس نے کہاکہ آپ انھیں سپریم کورٹ میں پیش کریں،ان افراد کو کابل سے لائیں یا کنڑ سے، بس لے کر آئیں اورآدھے گھنٹے میں عدالت میں پیش کریں، جو شخص آپ کو لاپتہ افراد سے متعلق تفصیلات فراہم کرتاہے اسے بھی عدالت میں پیش کریں۔نمائندہ ایکسپریس کے مطابق وزیر دفاع نے کہاکہ سیکیورٹی کا مسئلہ ہے 7افراد کی شناخت کو خفیہ رکھنا ضروری ہے۔ جسٹس جواد نے کہا اس سے تو لگتاہے کہ یہ لوگ فوج کا اثاثہ ہیں اوروہ ان کا تحفظ کررہی ہے۔خواجہ آصف نے مزید بتایا کہ 8 افراد سرحد پار کنڑ میں موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا جب یہ لوگ فوج کی حراست میں تھے تو وزیرستان اور کنڑ کیسے چلے گئے۔ وزیر دفاع نے کہاکہ 7 افراد کے بارے ابھی تک پتہ نہیں چل سکا اور یاسین شاہ ان افراد میں شامل ہے۔ چیف جسٹس نے کہا بات جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں پر آکرختم ہوگئی۔ آن لائن کے مطابق خواجہ آصف نے کہا کہ کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔جسٹس جواد نے کہا کہ 26ستمبر کو یہ بات واضح ہوئی تھی کہ ان سب لوگوں کو فوج لے گئی تھی،غلط فہمی کیسے ہوسکتی ہے۔
نمائندہ ایکسپریس کے مطابق چیف جسٹس نے کہاکہ وزارت دفاع کے اس بیان کو نہیں مانتے کہ کوئی کنڑ گیا اور کوئی وزیر ستان، بندے آپ کے پاس تھے اور آپ نے دینے ہیں، اگر ان کو چھوڑا گیاتو وہ فیصلہ بھی آپ کا تھا، لوگ کابل سے لاؤ یا وزیرستان سے،کوئی یہ نہ سوچے کہ یہ غیر یقینی ہمیشہ رہے گی،نظام پختہ ہو گا تو پھر نہ استثنٰی ملے گی اور نہ کوئی بچ سکے گا۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ بازیاب ہونے والے افراد کی سیکیورٹی ایک مسئلہ ہے، ایک آزاد کمیشن کو یہ معاملہ سونپ دیاجائے۔ جسٹس جواد نے کہا اب جو بھی کرناہے ہم نے خود کرنا ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ وہ7افراد جو آزاد ہیں ،زیر حراست 2قیدیوں اور5افراد جن کے بارے معلومات ابھی نامکمل ہیں انھیں آج صبح جسٹس امیر ہانی مسلم کے سامنے ان کے چیمبر میں پیش کیاجائے، ان افراد کی تصدیق کے لیے رشتہ داروں اور مالاکنڈ کے حراستی مرکز کے سپرنٹنڈنٹ عطااللہ کو بھی پیش کیا جائے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ جو لوگ دوران حراست وفات پا گئے ہیں ان کے رشتے داورں کو بھی چیمبر میں پیش کیا جائے تاکہ اس بات کی تصدیق ہو سکے کہ ان افراد کی موت طبعی تھی۔کنڑ اوروزیرستان میں موجود افراد پیر کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔اگر ایسا نہ کیا گیاتو عدالت حتمی حکم جاری کرے گی۔مقدمے کی مزید سماعت 9 دسمبرتک ملتوی کر دی گئی۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کیس کی سماعت کے بعد میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا کے حراستی مراکز میں سے اوررہائی کے بعد عام زندگی گزارنے والوں کوآج عدالت کے سامنے پیش کردیا جائے گا جبکہ بقیہ افراد کو بھی2 سے 4 روز میں عدالت کے سامنے پیش کردیا جائے گا،نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔
عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ یہ تمام افراد بادی النظرمیں فوج کی تحویل میں تھے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا، 9 دسمبر کو باقی ماندہ افراد بھی پیش کیے جائیں، لاپتہ افراد کا معاملہ جہاں سے چلا تھااب تک وہیں پر کھڑاہے، تمام افراد کو ایک ساتھ لے جایا گیایہ تتر بترکیسے ہوگئے، عدالت کوجو فہرست دی ان میں وہ تمام افراد بھی شامل تھے جن کے بارے میں اب کہا جا رہاہے کہ ان کا کچھ معلوم نہیں، وزارت دفاع ان افراد کو لے کر گئی تھی، پیش کرنابھی ان کی ذمے داری ہے، اگر انھیں آپ لے کر گئے تھے تو چھوڑا کیوں تھا، مفروضے بیان کیے جارہے ہیں، عدالت مفروضوں پریقین نہیں کرے گی،لاپتہ افراد کو ہر صورت عدالت میں پیش کیا جائے، اگر میرے خلاف ریفرنس کے وقت میرے والدکی قبر کاپتہ چلایا جاسکتاہے تو پھرزندہ لوگوں کے رشتے داروں کو بھی تلاش کیا جاسکتاہے،کنڑ والی کہانی تسلیم نہیں کریں گے، حکومت نے لاپتہ افراد کامعاملہ حل کردیا توان کو تاریخی حیثیت حاصل ہوجائے گی، جمہوری دور میں غیر یقینی صورتحال برقرار رہنا قابل افسوس ہے۔
اس معاملے کاتعلق انسانی آزادیوں کے ساتھ ہے اورانسانی آزادی کے تحفظ کے لیے ہم چھٹی والے دن بھی عدالت لگانے کیلیے تیار ہیں،بہتر ہے کہ بندے پیش کردیں،ایف آئی آر درج ہو گی تو سب کیلیے مسئلہ بنے گا، پاکستان واحد ملک نہیں جہاں بدامنی ہے یہ بد امنی ختم ہوجائے گی پھر سب کا ٹرائل ہو گا،انسانی آزادی غصب کرنے پر پنوشے کا ٹرائل 40سال بعد ہوا تھا۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ آرٹیکل نو کی خلاف ورزی کو عام انداز میں نہیں لیا جاسکتا،بندے پیش نہ کرنے سے تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ فوج کا اثاثہ ہیں۔جمعے کو چیف جسٹس افتخارچوہدری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس امیر ہانی مسلم پر مشتمل 3رکنی بینچ نے لاپتہ افراد کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔ وزیرِ دفاع نے عدالت میں 35 لاپتہ افرادکی فہرست تو پیش کی تاہم کسی لاپتہ شخص کو عدالت میں نہیں لایا گیا۔
خواجہ آصف نے لاپتہ افراد کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ 2 افراد اس وقت حراستی مرکزمیں قیدہیں جبکہ ایک شخص سعودی عرب،3افراد شمالی وزیرستان میں ہیں جن کی لوکیشن دیکھ رہے ہیں، 5 افراد کی معلومات نامکمل جبکہ 7 افراد کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں، 8 افراد رہائی کے بعد افغانستان چلے گئے تھے اگر عدالت کہے گی تو انھیں ہم پیش کردیں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس بات کی کیا شہادت ہے کہ 8 افراد افغانستان میں ہیں اس کی شہادت لے کرآئیں۔ خواجہ آصف نے کہاکہ لاپتہ افراد میں سے کوئی ایک بھی فوج کی تحویل میں نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ 35 افراد کی فوج کو حوالگی کے ثبوت موجودہیں،یہ موقف قابل قبول نہیں، حکم کے مطابق لوگوں کو پیش کریں۔ وزیر دفاع نے مزید وقت کی استدعاکرتے ہوئے کہاکہ اگر وقت مل جائے تو جو افراد رہ گئے ان کی تفصیلات سے بھی عدالت کو آگاہ کردیں گے تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہمیں کل بھی بیٹھنا پڑاتو بیٹھیں گے، آپ یہ نہ سمجھیں کھیل یہاں ختم ہوگیایہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔
خواجہ آصف نے کہاکہ بازیاب ہونے والے افرادکوجہاں عدالت کہے گی پیش کر دیں گے جس پرچیف جسٹس نے کہاکہ آپ انھیں سپریم کورٹ میں پیش کریں،ان افراد کو کابل سے لائیں یا کنڑ سے، بس لے کر آئیں اورآدھے گھنٹے میں عدالت میں پیش کریں، جو شخص آپ کو لاپتہ افراد سے متعلق تفصیلات فراہم کرتاہے اسے بھی عدالت میں پیش کریں۔نمائندہ ایکسپریس کے مطابق وزیر دفاع نے کہاکہ سیکیورٹی کا مسئلہ ہے 7افراد کی شناخت کو خفیہ رکھنا ضروری ہے۔ جسٹس جواد نے کہا اس سے تو لگتاہے کہ یہ لوگ فوج کا اثاثہ ہیں اوروہ ان کا تحفظ کررہی ہے۔خواجہ آصف نے مزید بتایا کہ 8 افراد سرحد پار کنڑ میں موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا جب یہ لوگ فوج کی حراست میں تھے تو وزیرستان اور کنڑ کیسے چلے گئے۔ وزیر دفاع نے کہاکہ 7 افراد کے بارے ابھی تک پتہ نہیں چل سکا اور یاسین شاہ ان افراد میں شامل ہے۔ چیف جسٹس نے کہا بات جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں پر آکرختم ہوگئی۔ آن لائن کے مطابق خواجہ آصف نے کہا کہ کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔جسٹس جواد نے کہا کہ 26ستمبر کو یہ بات واضح ہوئی تھی کہ ان سب لوگوں کو فوج لے گئی تھی،غلط فہمی کیسے ہوسکتی ہے۔
نمائندہ ایکسپریس کے مطابق چیف جسٹس نے کہاکہ وزارت دفاع کے اس بیان کو نہیں مانتے کہ کوئی کنڑ گیا اور کوئی وزیر ستان، بندے آپ کے پاس تھے اور آپ نے دینے ہیں، اگر ان کو چھوڑا گیاتو وہ فیصلہ بھی آپ کا تھا، لوگ کابل سے لاؤ یا وزیرستان سے،کوئی یہ نہ سوچے کہ یہ غیر یقینی ہمیشہ رہے گی،نظام پختہ ہو گا تو پھر نہ استثنٰی ملے گی اور نہ کوئی بچ سکے گا۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ بازیاب ہونے والے افراد کی سیکیورٹی ایک مسئلہ ہے، ایک آزاد کمیشن کو یہ معاملہ سونپ دیاجائے۔ جسٹس جواد نے کہا اب جو بھی کرناہے ہم نے خود کرنا ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ وہ7افراد جو آزاد ہیں ،زیر حراست 2قیدیوں اور5افراد جن کے بارے معلومات ابھی نامکمل ہیں انھیں آج صبح جسٹس امیر ہانی مسلم کے سامنے ان کے چیمبر میں پیش کیاجائے، ان افراد کی تصدیق کے لیے رشتہ داروں اور مالاکنڈ کے حراستی مرکز کے سپرنٹنڈنٹ عطااللہ کو بھی پیش کیا جائے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ جو لوگ دوران حراست وفات پا گئے ہیں ان کے رشتے داورں کو بھی چیمبر میں پیش کیا جائے تاکہ اس بات کی تصدیق ہو سکے کہ ان افراد کی موت طبعی تھی۔کنڑ اوروزیرستان میں موجود افراد پیر کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔اگر ایسا نہ کیا گیاتو عدالت حتمی حکم جاری کرے گی۔مقدمے کی مزید سماعت 9 دسمبرتک ملتوی کر دی گئی۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کیس کی سماعت کے بعد میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا کے حراستی مراکز میں سے اوررہائی کے بعد عام زندگی گزارنے والوں کوآج عدالت کے سامنے پیش کردیا جائے گا جبکہ بقیہ افراد کو بھی2 سے 4 روز میں عدالت کے سامنے پیش کردیا جائے گا،نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔