بابری مسجد سے مشابہہ 550 سال قدیم مسجد کی بحالی کے لیے اقدامات
گوجرانوالہ کے علاقہ ایمن آباد میں واقع مسجد کو 1451 میں لودھی خاندان نے تعمیر کرایا تھا
KARACHI:
گوجرانوالہ کا قصبہ ایمن آباد، مسلم، سکھ اور ہندو تہذیب اور فن تعمیر کا وارث ہے، یہاں تینوں مذاہب کے مقدس مقامات کے قدیم آثار موجود ہیں۔ جن میں تین قدیم ترین شیومندر، گورودوارہ روڑی صاحب اورعثمانیہ مسجد شامل ہے۔ اس وقت گورودوارہ روڑی صاحب تو آباد ہے تاہم مسجد اور مندروں کی حالت انتہائی خستہ حال ہے۔
ایمن آباد کے رہائشی عدیل احمد نے بتایا کہ یہ قدیم مسجد 550 سال پہلے لودھی خاندان نے تعمیرکروائی تھی، یہ مسجد فن تعمیرکا شاہکار ہے کیونکہ اس کی تعمیر میں کوئی پلر اور لینٹر استعمال نہیں ہوا ہے، آج اس مسجد کا صرف مرکزی حصہ موجود ہے جس پر بنا گنبد میلوں دور سے دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قیام پاکستان سے پہلے ہی مسجد کے کھنڈرات اسی طرح تھے، اس مسجد کا شمار پاکستان میں موجود چند قدیم ترین مساجد میں ہوتا ہے، اس مسجد کے قریب ہی ایک بڑا تالاب ہے جبکہ اس سے تالاب سے چندفرلانگ کے فاصلے پرشاہی مہمان خانے کے کھنڈرات ہیں۔ تالاب کے چاروں طرف پختہ اینٹوں سے دیوار بنائی گئی ہے جبکہ ایک طرف سیڑھیاں اس تالاب کی اندر جاتی ہیں، مسجد کا درمیانی درواذہ بڑا جبکہ دائیں بائیں قدرے چھوٹے دو دروازے ہیں، دائیں طرف سیڑھیاں مسجد کے چھت تک جاتی ہیں۔
اس مسجد کے حوالے سے کئی روایات بھی مشہور ہیں، یہ ''ایمن'' نام کی ایک لڑکی کا مقبرہ ہے جو کہ کسی لڑائی میں فوجیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی- وہ لڑائی کون سی تھی؟ اور کن کے درمیان لڑی گئی؟ اس حوالے سے کوئی بات معلوم نہیں ہے- مقامی روایات کے مطابق اسی ایمن کے نام پر اس قصبہ کا نام ''ایمن آباد'' رکھا گیا تاہم آثار قدیمہ کے ماہرین ان روایات کو درست نہیں مانتے ہیں۔
چھٹی کے روز مقامی سیاح ان کھنڈرات کو دیکھنے آتے ہیں یا پھر جب بھارت سمیت مختلف ممالک سے سکھ یاتری گورو دواری روڑی صاحب کے درشن کے لئے آتے ہیں تو وہ ان کھنڈرات کو بھی دیکھتے ہیں، سیاحت کے شوقین کئی نوجوان بھی یہاں آتے رہتے ہیں اور یہاں اپنی سیلفیاں بناتے ہیں، تاریخی مقامات سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے لئے ایک مسجد ایک اہم سیاحتی مقام کا درجہ رکھتی ہے۔
گوجرانوالہ سے آنے والے ایک نوجوان فرقان احمد نے بتایا کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ یہاں تفریح کے لئے آئے ہیں، یہ قدیم آثار اس خطے کی ثقافت اور تاریخ کا حصہ ہیں، انہیں محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے، اس شاندار مسجد کا جو حصہ باقی ہے اس کے ساتھ مزید حصے کو بحال کردیا جاتا تو آج یہ مسجد بھی آباد ہوتی اور یہاں نماز ادا کی جاسکتی تھی، یہاں آنے والے سیاحوں کا کہنا ہے کہ جس طرح وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں سیاحت کو فروغ دیا جائے گا تو ایمن آباد میں جس طرح تین مختلف مذاہب کے مقدس مقامات کے آثار موجود ہے اس علاقے کو مذہبی سیاحتی مقام کے حوالے سے ڈویلپ کیا جاسکتا ہے۔
اس مسجد کی کچھ حصوں کی بحالی کا کام بھی محکمہ آثار قدیمہ نے انجام دیا ہے جب کہ اس کی ایک دیوار پر محکمہ کی طرف سے ایک بورڈ بھی لگایا گیا ہے- جس میں اس مسجد کو تاریخی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ پنجاب کے ڈائریکٹر ملک مقصود نے بتایا کہ پنجاب کی سرزمین پر سیکڑوں عمارتوں کے آثارموجود ہیں، ان میں سے جو زیادہ اہمیت کے حامل تھے ان کو محفوظ کیا گیا جبکہ ان کی آرائش وتزئین بھی کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ قدیم لودھی مسجد ایک نجی اراضی پر ہے لیکن اس کے باوجود ہم نےاس کے باقی ماندہ حصے کو محفوظ کرکے اسے آثار قدیمہ کا درجہ دیا ہے ۔ ہم نے رواں مالی سال کے دوران اس مسجد کے حوالے سے فنڈز مختص کئے تھے، ہمارا پروگرام ہے کہ مسجد کے گرد ایک چاردیواری کرکے گیٹ لگادیا جائے تاکہ موجودہ آثار کو محفوظ رکھاجاسکے، جیسے ہی فنڈز جاری ہوں گے یہ کام شروع ہوجائے گا۔
گوجرانوالہ کا قصبہ ایمن آباد، مسلم، سکھ اور ہندو تہذیب اور فن تعمیر کا وارث ہے، یہاں تینوں مذاہب کے مقدس مقامات کے قدیم آثار موجود ہیں۔ جن میں تین قدیم ترین شیومندر، گورودوارہ روڑی صاحب اورعثمانیہ مسجد شامل ہے۔ اس وقت گورودوارہ روڑی صاحب تو آباد ہے تاہم مسجد اور مندروں کی حالت انتہائی خستہ حال ہے۔
ایمن آباد کے رہائشی عدیل احمد نے بتایا کہ یہ قدیم مسجد 550 سال پہلے لودھی خاندان نے تعمیرکروائی تھی، یہ مسجد فن تعمیرکا شاہکار ہے کیونکہ اس کی تعمیر میں کوئی پلر اور لینٹر استعمال نہیں ہوا ہے، آج اس مسجد کا صرف مرکزی حصہ موجود ہے جس پر بنا گنبد میلوں دور سے دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قیام پاکستان سے پہلے ہی مسجد کے کھنڈرات اسی طرح تھے، اس مسجد کا شمار پاکستان میں موجود چند قدیم ترین مساجد میں ہوتا ہے، اس مسجد کے قریب ہی ایک بڑا تالاب ہے جبکہ اس سے تالاب سے چندفرلانگ کے فاصلے پرشاہی مہمان خانے کے کھنڈرات ہیں۔ تالاب کے چاروں طرف پختہ اینٹوں سے دیوار بنائی گئی ہے جبکہ ایک طرف سیڑھیاں اس تالاب کی اندر جاتی ہیں، مسجد کا درمیانی درواذہ بڑا جبکہ دائیں بائیں قدرے چھوٹے دو دروازے ہیں، دائیں طرف سیڑھیاں مسجد کے چھت تک جاتی ہیں۔
اس مسجد کے حوالے سے کئی روایات بھی مشہور ہیں، یہ ''ایمن'' نام کی ایک لڑکی کا مقبرہ ہے جو کہ کسی لڑائی میں فوجیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی- وہ لڑائی کون سی تھی؟ اور کن کے درمیان لڑی گئی؟ اس حوالے سے کوئی بات معلوم نہیں ہے- مقامی روایات کے مطابق اسی ایمن کے نام پر اس قصبہ کا نام ''ایمن آباد'' رکھا گیا تاہم آثار قدیمہ کے ماہرین ان روایات کو درست نہیں مانتے ہیں۔
چھٹی کے روز مقامی سیاح ان کھنڈرات کو دیکھنے آتے ہیں یا پھر جب بھارت سمیت مختلف ممالک سے سکھ یاتری گورو دواری روڑی صاحب کے درشن کے لئے آتے ہیں تو وہ ان کھنڈرات کو بھی دیکھتے ہیں، سیاحت کے شوقین کئی نوجوان بھی یہاں آتے رہتے ہیں اور یہاں اپنی سیلفیاں بناتے ہیں، تاریخی مقامات سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے لئے ایک مسجد ایک اہم سیاحتی مقام کا درجہ رکھتی ہے۔
گوجرانوالہ سے آنے والے ایک نوجوان فرقان احمد نے بتایا کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ یہاں تفریح کے لئے آئے ہیں، یہ قدیم آثار اس خطے کی ثقافت اور تاریخ کا حصہ ہیں، انہیں محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے، اس شاندار مسجد کا جو حصہ باقی ہے اس کے ساتھ مزید حصے کو بحال کردیا جاتا تو آج یہ مسجد بھی آباد ہوتی اور یہاں نماز ادا کی جاسکتی تھی، یہاں آنے والے سیاحوں کا کہنا ہے کہ جس طرح وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں سیاحت کو فروغ دیا جائے گا تو ایمن آباد میں جس طرح تین مختلف مذاہب کے مقدس مقامات کے آثار موجود ہے اس علاقے کو مذہبی سیاحتی مقام کے حوالے سے ڈویلپ کیا جاسکتا ہے۔
اس مسجد کی کچھ حصوں کی بحالی کا کام بھی محکمہ آثار قدیمہ نے انجام دیا ہے جب کہ اس کی ایک دیوار پر محکمہ کی طرف سے ایک بورڈ بھی لگایا گیا ہے- جس میں اس مسجد کو تاریخی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ پنجاب کے ڈائریکٹر ملک مقصود نے بتایا کہ پنجاب کی سرزمین پر سیکڑوں عمارتوں کے آثارموجود ہیں، ان میں سے جو زیادہ اہمیت کے حامل تھے ان کو محفوظ کیا گیا جبکہ ان کی آرائش وتزئین بھی کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ قدیم لودھی مسجد ایک نجی اراضی پر ہے لیکن اس کے باوجود ہم نےاس کے باقی ماندہ حصے کو محفوظ کرکے اسے آثار قدیمہ کا درجہ دیا ہے ۔ ہم نے رواں مالی سال کے دوران اس مسجد کے حوالے سے فنڈز مختص کئے تھے، ہمارا پروگرام ہے کہ مسجد کے گرد ایک چاردیواری کرکے گیٹ لگادیا جائے تاکہ موجودہ آثار کو محفوظ رکھاجاسکے، جیسے ہی فنڈز جاری ہوں گے یہ کام شروع ہوجائے گا۔