پاکستانی ماہرین نے سال میں 2 مرتبہ پھل دینے والے شہتوت کے پودوں کی نئی اقسام تیار کرلیں

شہتوت کے پھل سے ایسی چینی تیار کی جاسکتی ہے جو شوگر کے مریضوں کے لئے نقصان دہ نہیں ہوگی


آصف محمود June 07, 2020
شہتوت کے پودوں کو گھروں اور چھتوں پر گملوں میں بھی کاشت کیا جاسکتا ہے فوٹو: فائل

محکمہ جنگلات پنجاب کے شعبہ سیری کلچر نے چین سے درآمد کئے گئے شہتوت کے پودے کی پیوند کاری سے ایسی قسم تیار کی ہے جسے گھروں اور چھتوں پر گملوں میں بھی کاشت کیا جاسکتا ہے۔

وزیراعظم کے بلین ٹری منصوبے کے تحت جہاں ملک بھرمیں محکمہ جنگلات کی نرسریوں میں لاکھوں پودے کاشت کئے جارہے ہیں وہیں پنجاب میں شعبہ سیری کلچر نے چین سے درآمد کیے گئے جاپانی ہائبرڈ شہتوت کے پودے کی پیوند کاری کرکے مقامی طور پر شہتوت کا ایسا پودا تیار کیا ہے جس کی اونچائی شہتوت کے عام درختوں کے مقابلے میں کم ہوگی تاہم یہ درخت سال میں 2 بار پھل دے گا، شہتوت کے اس پودے پرانگلی جتنی لمبائی کے کالے اور سبز شہتوت آتے ہیں جو انتہائی میٹھے اور مہنگے ہیں۔

شعبہ سیری کلچر کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد فاروق بھٹی نے کہتے ہیں یہ پودا ایک سال میں پھل دینے کے قابل ہوجاتا ہے ، اگرآپ اسے فروری میں لگاتے ہیں تو آئندہ سال فروری میں اورمارچ میں یہ پھل دینا شروع کردے گا، پہلا پھل لینے کے بعد اس کی شاخ تراشی کردی جائے تو پھر برسات کے موسم میں اس پر پتے آجائیں گے اور یہ پھر پھل دے گا، ایک پودا تقریبا 260 پونڈ آکسیجن پیدا کرتا ہے اور اسی تناسب سے کاربن ڈائی آکسائیڈجذب کرتا ہے۔ایک پودے پرعموما ایک سے دومن تک پھل آتا ہے ۔اسے گھرکے اندراورچھتوں پرایک سے ڈیڑھ فٹ کے گملے میں لگایاجاسکتاہے۔



محمد فاروق بھٹی کہتے ہیں شہتوت کے پودے امرود اور کینو کے باغات میں بھی لگائے جاسکتے ہیں جبکہ ان کا الگ سے بھی باغ لگایا جاسکتا ہے، یہ پودے پنجاب کے تمام اضلاع میں کاشت ہوسکتے ہیں ، خاص طورپر 25 سے 30 درجہ حرارت والے علاقوں میں زیادہ تیزی سے پروان چڑھتے ہیں۔ بلین ٹری منصوبے کے تحت بھی ہم یہ پودے تیار کررہے ہیں ، مارکیٹ میں یہ پودا 200 سے 300 روپے میں ملتا ہے، بڑے سائز کا پودا ایک ہزار روپے تک میں فروخت ہوتا ہے لیکن ہم یہ پودا صرف 20 روپے میں فروخت کرتے ہیں۔ اس پودے کی تیاری پر 13 روپے خرچ ہوتے ہیں۔ پہلےمرحلے میں ہم نے 15 ہزار پودے تیار کئے تھے جو فروخت ہوگئے اب مزید 15 ہزار پودے تیار ہورہے ہیں۔

شہتوت کے پتوں اور پھل سے کئی ایک مصنوعات بھی تیار کی جارہی ہے خاص طور پر کھانسی اور گلے کی خرابی دور کرنے کے شربت شہتوت تو کئی برسوں سے تیارہورہا ہے تاہم اب شعبہ سیری کلچر نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہورکے ساتھ اشتراک سے اس کے پتوں اورپھل سے ناصرف گرین ٹی تیار کی ہے بلکہ اس سے سفوف اور چینی تیارکرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔



اس منصوبے پر کام کرنے والے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر نے بتایا کہ شہتوت اینٹی آکسیڈنیٹ ہوتا ہے جو ناصرف انسان کی قوت مدافعلت کوبڑھاتا ہے بلکہ انسانی جسم کو بہت سی بیماروں سے بچاتا بھی ہے۔ اس کے پتوں اورپھل سے گرین ٹی تیارکی گئی ہے جسے شوگر کے مریض بھی استعمال کرسکتے ہیں اسی طرح شہتوت کے پھل سے ایسی چینی تیار کی جاسکتی ہے جس میں مٹھاس تو ہوگی لیکن یہ شوگر کے مریضوں کے لئے نقصان دہ نہیں ہوگی۔

ڈاکٹر محمد طاہر نے بتایا کہ پاکستان میں شہتوت کے پتوں اور پھل سے بائی پراڈکٹ تیار کرنے پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی ، ہمارے یہاں وافر مقدارمیں یہ پھل پیدا ہوتا ہے حکومت چاہے تو 2 سے 3 سال میں شہتوت سے چینی تیار کی جاسکتی ہے جسے ناصرف ادویات کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے بلکہ معمول کی خوراک میں بھی استعمال ہوسکتی ہے۔ شہتوت کے پتوں اورپھل سے تیارکی جانے والی گرین ٹی مارکیٹ میں موجود دیگرگرین ٹی کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مند ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں