جمہوریت کا لطف لیجیے
عوام جمہوریت کی قیمت ہمیشہ سے ادا کرتے چلے آرہے ہیں اور کرتے ہی رہیں گے
اگر ہم ایوب خان کے دور کو سنہری دور بھی کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ مشکلات میں گھرے ہوئے پاکستان میں آج کل بھی پاکستان کے پہلے فوجی حکمران کے دور کو بہت یاد کیا جاتا ہے اور یہ بات ہمارے موجودہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنے کئی انٹرویوز میں گاہے بگاہے کہی کہ ایوب دور میں ہونے والا ترقی کا سفر اگر جاری رہتا تو آج پاکستان ترقی یافتہ ممالک میں نمایاں مقام حاصل کرچکا ہوتا۔
اور یہ بات قدرے درست بھی ہے، کیونکہ ایوب دور میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو 8 سال تک بڑھنے نہیں دیا۔ 18 روپے من آٹا 8 سال مسلسل رہا مگر آٹا جیسے ہی 2روپے مزید مہنگا ہوا تو لوگوں نے ایوب خان کو کتا کہہ کر نعرے لگادیے۔ اور جب چینی میں چار آنے فی کلو اضافہ ہوا تو لوگ احتجاج کرنے سڑکوں پر نکل آئے۔ اس وقت کی بڑھتی ہوئی مہنگائی پر حبیب جالب بھی خاموش نہ رہ سکے۔ مہنگائی پر نظم کچھ یوں لکھی
20روپے من ہے آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا
اشیائے خورونوش کو تو کنٹرول میں رکھا ہی تھا مگر ایوب خان نے اپنے دور میں ڈالر کو بھی جیسے گریبان سے جکڑ رکھا ہو، ڈالر بھی 5 روپے سے اوپر نہیں جانے دیا۔ ایوب دور میں مغربی پاکستان کی گورنری پر امیر محمد خان نواب آف کالا باغ براجمان تھے۔ امیر محمد خان کی دبنگ شخصیت کی تاریخ گواہ ہے۔ امیر محمد خان بڑے انداز سے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے ایک فقرہ کستے تھے کہ میری دائیں مونچھ قانون اور میری بائیں مونچھ آرڈر ہے۔ تب بھی جمہوری معیار یہ تھا اور اب بھی یقیناً ایسا ہی ہے۔ ان کے اقتدار کے دور میں چینی کا ریٹ ڈھائی آنے فی کلو ہوا تو چینی مارکیٹ سے غائب ہوگئی۔
پھر اس کے بعد مہنگائی کا اصل ریلا ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں آیا۔ صنعتوں پر قبضہ کرلیا گیا، بے روزگاری بڑھ گئی اور مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا۔ صنعتوں کو تحویل میں لینے سے پہلے بناسپتی گھی جو کہ 4 روپے فی کلو فروخت ہورہا تھا، اس کی قیمت دگنی ہوگئی۔ اس کے بعد بھٹو نے راشن کارڈ قائم کرکے پوری قوم کو قطاروں میں لگا دیا۔ آٹا، چینی، گھی، راشن ڈپو پر ملنے لگا اور قوم ایک عجیب سی صورت حال میں مبتلا ہوگئی۔ تب سے اب تک بزنس مین اور کاروباری طبقہ اس جماعت کو ناپسند کرنے لگا اور پنجاب میں تب سے اب تک اس جماعت کی صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ ان چیزوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کاروباری پالیسیز ملک کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے وجود کو قائم رکھنے کےلیے اہم ہوتی ہیں۔
1987-88 سے لے کر 1999 تک پی پی پی اور ن لیگ نے مسلسل باریاں لیں۔ مہنگائی کا شدید طوفان آگیا۔ یہ سب پاکستان پر جمہوریت کے ثمرات تھے۔ مہنگائی روزانہ کے حساب سے بڑھنا شروع ہوگئی۔ مگر وہ سیاستدان ہی کیا جو اپنے چمچوں کو خوش نہ کرے۔ پھر ان کے ان نااہل چمچوں نے ملک کے اندر کرپشن کا نیا نظام متعارف کروایا، جو آج تک رائج ہے۔ خود بھی کھاؤ اور کچھ دوسروں کو بھی دو۔ جب مشرف کا دور آیا تو اس نے غربت پر کافی حد تک قابو پالیا۔ ڈالر کی قیمت کو کنٹرول میں رکھا، 60 روپے سے بڑھنے نہیں دیا مگر پٹرول کی قیمتوں کو کنٹرول میں نہ رکھ سکے۔ باوجود اس کے اشیائے خورونوش اور چیزوں کی قیمتوں میں ٹھہراؤ رہا۔ میں یہاں فوجی دور کو بہت اچھا نہیں کہہ رہی، بلکہ یہ کہہ رہی ہوں کہ ان کے دور میں عوام خوش تھے اور اگر ناخوش تھے تو وہ سیاستدان اور ان کے چمچے، جن کی کرپشن بند ہوگئی تھی۔
مگر مجموعی طور پر اگر آپ دیکھیں تو جمہوری دور میں جو مشکلات رہیں وہ ہمیشہ سے عوام کی رہی ہیں اور وہ آج بھی برقرار ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے وزرا اور مشیران ایک دوسرے کی کرپشن کی داستانیں ہمیشہ سے عوام کو سنا کر محظوظ کرتے رہے اور خود اپنا کام بیک ڈور سے ماضی سے لے کر اب تک جاری ہے۔ اشرافیہ، چینی مافیا، آٹا مافیا، آج بھی وہ نہ صرف حکمرانی میں ہیں، بلکہ ملک کو لوٹنے میں متحرک ہیں اور عوام آج بھی ان کو برداشت کررہے ہیں۔ آج اگر کسی سیاستدان سے آپ کہتے ہیں کہ آپ چینی چور ہو تو کہتا ہے یہ تو میرے بھائی کا کاروبار ہے۔ لیکن جب الیکشن ہوتا ہے تو وہی بھائی اس پر سارے الیکشن کے پیسے انویسٹ کررہا ہوتا ہے۔ میں یہاں ایک مثال دوں گی ہماری پنجاب پولیس کی۔ اگر ایک بھائی کوئی جرم کرتا ہے اور وہ بھاگ جائے تو ہماری پولیس اس کے سارے خاندان کو گرفتار کرلیتی ہے کہ مجرم کو پیش کرو۔ مگر سیاستدان جس کا اپنے بھائی کی چینی چوری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اس کو گرفتار نہیں ہونے دیتا۔ جس طرح چینی مہنگی ہونے پر ایوب دور میں لوگ سراپا احتجاج ہوئے تھے آج عوام ایک بار پھر سے قیمتوں کو نیچے لانے کےلیے اگر اپنی آواز بلند نہیں کریں گے تو یہ قیمتیں کبھی نیچے نہیں جائیں گی، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ان میں کمی کے بجائے مزید اضافہ ہی ہوگا۔
ایک بار 2006 میں بھی چینی کے بدترین بحران کا سامنا عوام نے کیا۔ اگر قارئین کو یاد ہو تب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین ملک اللہ یار خان تھے، جنہوں نے بڑی جرأت سے نہ صرف چینی مالکان اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف آواز اٹھائی بلکہ انہوں نے ناموں کی فہرست بھی فراہم کی۔ ان لوگوں کو نہ اس وقت فرق پڑا تھا اور نہ ہی آج فرق پڑنے والا ہے۔
شوگر ملز مافیا ہمیشہ سے اپنی ذخیرہ اندوزی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ماضی میں بھی اس طرح ہوتا رہا ہے اور اب بھی ایسا ہورہا ہے۔ ایک اہم بات میں قارئین کے ساتھ شیئر کرتی چلوں۔ شوگر ایکٹ کے تحت شوگر ملز مالکان کی ذخیرہ اندوزی ناقابل ضمانت جرم ہے۔ شوگر ایکٹ کے تحت کوئی بھی مل اپنی پیداوار کا صرف25 فیصد ذخیرہ کرسکتی ہے، اس سے زائد ذخیرہ کرنا بھی جرم ہے۔ مگر بدقسمتی سے آج تک نہ تو اس ایکٹ کو مدنظر رکھا گیا اور نہ ہی کبھی اس ایکٹ کو لاگو کرنے کےلیے ان کی صنعتوں کا آڈٹ کیا گیا۔ کیونکہ وہ ملز مالکان تو خود اہم عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔ اگر ان کے خلاف آواز اٹھائی بھی جائے تو ہمیشہ کی طرح ان کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ وہ ہر عمل سے باآسانی نکل بھی جاتے ہیں۔
اب موجودہ صورتحال کو ہی دیکھ لیجیے۔ 55روپے سے چینی 80 روپے کلو ہوئی، مگر وہ واپس 55 روپے کلو نہیں ہوئی۔ پہلے تو اس کی وجہ یہی بتائی جاتی رہی کہ پٹرول بہت مہنگا ہوگیا ہے اور ہماری بہت سی مشینری پٹرول پر چلتی ہے، لہٰذا ہم چینی کی قیمت کم نہیں کرسکتے۔ پٹرول اب مسلسل سستا ہوتا رہا، تقریباً 90 دن میں 43 روپے سستا ہوا۔ باوجود اس کے چینی کی قیمت وہیں اور وہ چیزیں جن میں پٹرول مہنگا ہونے کی مد میں اضافہ ہوا تھا، ان کی قیمتوں میں کمی نہیں آئی۔
عوام جمہوریت کی قیمت ہمیشہ سے ادا کرتے چلے آرہے ہیں اور کرتے ہی رہیں گے۔ صحیح مزے جمہوریت کے مہنگائی کی صورت میں عوام ادا کرتے رہے ہیں۔ اب اور مزے لو جمہوریت کے۔ میں جمہوریت کے خلاف نہیں ہوں، مگر چند بے شرموں کے خلاف ہوں جو ہر بار عوام کو بے وقوف بنا کر اقتدار میں آجاتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اور یہ بات قدرے درست بھی ہے، کیونکہ ایوب دور میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو 8 سال تک بڑھنے نہیں دیا۔ 18 روپے من آٹا 8 سال مسلسل رہا مگر آٹا جیسے ہی 2روپے مزید مہنگا ہوا تو لوگوں نے ایوب خان کو کتا کہہ کر نعرے لگادیے۔ اور جب چینی میں چار آنے فی کلو اضافہ ہوا تو لوگ احتجاج کرنے سڑکوں پر نکل آئے۔ اس وقت کی بڑھتی ہوئی مہنگائی پر حبیب جالب بھی خاموش نہ رہ سکے۔ مہنگائی پر نظم کچھ یوں لکھی
20روپے من ہے آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا
اشیائے خورونوش کو تو کنٹرول میں رکھا ہی تھا مگر ایوب خان نے اپنے دور میں ڈالر کو بھی جیسے گریبان سے جکڑ رکھا ہو، ڈالر بھی 5 روپے سے اوپر نہیں جانے دیا۔ ایوب دور میں مغربی پاکستان کی گورنری پر امیر محمد خان نواب آف کالا باغ براجمان تھے۔ امیر محمد خان کی دبنگ شخصیت کی تاریخ گواہ ہے۔ امیر محمد خان بڑے انداز سے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے ایک فقرہ کستے تھے کہ میری دائیں مونچھ قانون اور میری بائیں مونچھ آرڈر ہے۔ تب بھی جمہوری معیار یہ تھا اور اب بھی یقیناً ایسا ہی ہے۔ ان کے اقتدار کے دور میں چینی کا ریٹ ڈھائی آنے فی کلو ہوا تو چینی مارکیٹ سے غائب ہوگئی۔
پھر اس کے بعد مہنگائی کا اصل ریلا ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں آیا۔ صنعتوں پر قبضہ کرلیا گیا، بے روزگاری بڑھ گئی اور مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا۔ صنعتوں کو تحویل میں لینے سے پہلے بناسپتی گھی جو کہ 4 روپے فی کلو فروخت ہورہا تھا، اس کی قیمت دگنی ہوگئی۔ اس کے بعد بھٹو نے راشن کارڈ قائم کرکے پوری قوم کو قطاروں میں لگا دیا۔ آٹا، چینی، گھی، راشن ڈپو پر ملنے لگا اور قوم ایک عجیب سی صورت حال میں مبتلا ہوگئی۔ تب سے اب تک بزنس مین اور کاروباری طبقہ اس جماعت کو ناپسند کرنے لگا اور پنجاب میں تب سے اب تک اس جماعت کی صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ ان چیزوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کاروباری پالیسیز ملک کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے وجود کو قائم رکھنے کےلیے اہم ہوتی ہیں۔
1987-88 سے لے کر 1999 تک پی پی پی اور ن لیگ نے مسلسل باریاں لیں۔ مہنگائی کا شدید طوفان آگیا۔ یہ سب پاکستان پر جمہوریت کے ثمرات تھے۔ مہنگائی روزانہ کے حساب سے بڑھنا شروع ہوگئی۔ مگر وہ سیاستدان ہی کیا جو اپنے چمچوں کو خوش نہ کرے۔ پھر ان کے ان نااہل چمچوں نے ملک کے اندر کرپشن کا نیا نظام متعارف کروایا، جو آج تک رائج ہے۔ خود بھی کھاؤ اور کچھ دوسروں کو بھی دو۔ جب مشرف کا دور آیا تو اس نے غربت پر کافی حد تک قابو پالیا۔ ڈالر کی قیمت کو کنٹرول میں رکھا، 60 روپے سے بڑھنے نہیں دیا مگر پٹرول کی قیمتوں کو کنٹرول میں نہ رکھ سکے۔ باوجود اس کے اشیائے خورونوش اور چیزوں کی قیمتوں میں ٹھہراؤ رہا۔ میں یہاں فوجی دور کو بہت اچھا نہیں کہہ رہی، بلکہ یہ کہہ رہی ہوں کہ ان کے دور میں عوام خوش تھے اور اگر ناخوش تھے تو وہ سیاستدان اور ان کے چمچے، جن کی کرپشن بند ہوگئی تھی۔
مگر مجموعی طور پر اگر آپ دیکھیں تو جمہوری دور میں جو مشکلات رہیں وہ ہمیشہ سے عوام کی رہی ہیں اور وہ آج بھی برقرار ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے وزرا اور مشیران ایک دوسرے کی کرپشن کی داستانیں ہمیشہ سے عوام کو سنا کر محظوظ کرتے رہے اور خود اپنا کام بیک ڈور سے ماضی سے لے کر اب تک جاری ہے۔ اشرافیہ، چینی مافیا، آٹا مافیا، آج بھی وہ نہ صرف حکمرانی میں ہیں، بلکہ ملک کو لوٹنے میں متحرک ہیں اور عوام آج بھی ان کو برداشت کررہے ہیں۔ آج اگر کسی سیاستدان سے آپ کہتے ہیں کہ آپ چینی چور ہو تو کہتا ہے یہ تو میرے بھائی کا کاروبار ہے۔ لیکن جب الیکشن ہوتا ہے تو وہی بھائی اس پر سارے الیکشن کے پیسے انویسٹ کررہا ہوتا ہے۔ میں یہاں ایک مثال دوں گی ہماری پنجاب پولیس کی۔ اگر ایک بھائی کوئی جرم کرتا ہے اور وہ بھاگ جائے تو ہماری پولیس اس کے سارے خاندان کو گرفتار کرلیتی ہے کہ مجرم کو پیش کرو۔ مگر سیاستدان جس کا اپنے بھائی کی چینی چوری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اس کو گرفتار نہیں ہونے دیتا۔ جس طرح چینی مہنگی ہونے پر ایوب دور میں لوگ سراپا احتجاج ہوئے تھے آج عوام ایک بار پھر سے قیمتوں کو نیچے لانے کےلیے اگر اپنی آواز بلند نہیں کریں گے تو یہ قیمتیں کبھی نیچے نہیں جائیں گی، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ان میں کمی کے بجائے مزید اضافہ ہی ہوگا۔
ایک بار 2006 میں بھی چینی کے بدترین بحران کا سامنا عوام نے کیا۔ اگر قارئین کو یاد ہو تب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین ملک اللہ یار خان تھے، جنہوں نے بڑی جرأت سے نہ صرف چینی مالکان اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف آواز اٹھائی بلکہ انہوں نے ناموں کی فہرست بھی فراہم کی۔ ان لوگوں کو نہ اس وقت فرق پڑا تھا اور نہ ہی آج فرق پڑنے والا ہے۔
شوگر ملز مافیا ہمیشہ سے اپنی ذخیرہ اندوزی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ماضی میں بھی اس طرح ہوتا رہا ہے اور اب بھی ایسا ہورہا ہے۔ ایک اہم بات میں قارئین کے ساتھ شیئر کرتی چلوں۔ شوگر ایکٹ کے تحت شوگر ملز مالکان کی ذخیرہ اندوزی ناقابل ضمانت جرم ہے۔ شوگر ایکٹ کے تحت کوئی بھی مل اپنی پیداوار کا صرف25 فیصد ذخیرہ کرسکتی ہے، اس سے زائد ذخیرہ کرنا بھی جرم ہے۔ مگر بدقسمتی سے آج تک نہ تو اس ایکٹ کو مدنظر رکھا گیا اور نہ ہی کبھی اس ایکٹ کو لاگو کرنے کےلیے ان کی صنعتوں کا آڈٹ کیا گیا۔ کیونکہ وہ ملز مالکان تو خود اہم عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔ اگر ان کے خلاف آواز اٹھائی بھی جائے تو ہمیشہ کی طرح ان کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ وہ ہر عمل سے باآسانی نکل بھی جاتے ہیں۔
اب موجودہ صورتحال کو ہی دیکھ لیجیے۔ 55روپے سے چینی 80 روپے کلو ہوئی، مگر وہ واپس 55 روپے کلو نہیں ہوئی۔ پہلے تو اس کی وجہ یہی بتائی جاتی رہی کہ پٹرول بہت مہنگا ہوگیا ہے اور ہماری بہت سی مشینری پٹرول پر چلتی ہے، لہٰذا ہم چینی کی قیمت کم نہیں کرسکتے۔ پٹرول اب مسلسل سستا ہوتا رہا، تقریباً 90 دن میں 43 روپے سستا ہوا۔ باوجود اس کے چینی کی قیمت وہیں اور وہ چیزیں جن میں پٹرول مہنگا ہونے کی مد میں اضافہ ہوا تھا، ان کی قیمتوں میں کمی نہیں آئی۔
عوام جمہوریت کی قیمت ہمیشہ سے ادا کرتے چلے آرہے ہیں اور کرتے ہی رہیں گے۔ صحیح مزے جمہوریت کے مہنگائی کی صورت میں عوام ادا کرتے رہے ہیں۔ اب اور مزے لو جمہوریت کے۔ میں جمہوریت کے خلاف نہیں ہوں، مگر چند بے شرموں کے خلاف ہوں جو ہر بار عوام کو بے وقوف بنا کر اقتدار میں آجاتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔