ٹیلی کوم اسپیکٹرم فیس کے ایک ارب ڈالر پر عدم توجہ
مشکل معاشی صورتحال میں 1 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کرنے کا موقع
کورونا کی وجہ سے ملکی معیشت کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں تاہم اس مشکل صورتحال میں حکومت ایک ارب ڈالر کی آمدن سے صرف نظر کیے ہوئے ہے جب کہ یہ رقم ٹیلی کوم کمپنیوں سے اسپیکٹرم فیس کی مد میں حاصل ہوسکتی ہے۔
کووڈ 19 کی صورتحال کی وجہ سے دنیا بھر میں غیرملکی سرمایہ کاری سرمایہ لگانے سے گریزاں ہیں تاہم پاکستان خوش قسمت ہے کہ ان حالات میں اس کے پاس ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کرنے کا موقع موجود ہے۔
ٹیلی کوم اسپیکٹرم کی فیس کے قضیے سے جڑ ے کچھ ایشوز یہ ہیں کہ پرانے اسپیکٹرم کی تجدید کی فیس پرانی ہی ہو یا بڑھائی جائے، ایک اور ایشو یہ ہے کہ اسپیکٹرم فیس امریکی ڈالر میں ہو جبکہ ریونیو پاکستانی روپے میں لیا جاتا ہے؟
کیا عدالت میں معاملہ ہونے کے باوجود لیٹ فیس کا اطلاق ہونا چاہیے؟ نیز اقساط پر شرح سود کیا ہوگی؟ علاوہ ازیں فوری طور پر صوبوں اور گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں اضافی اسپیکٹرم کیسے الاٹ کی جائے۔
ایک طرف حکومت نجی کاروباروں پر ہر قسم کے ٹیکس اور لیویز کے نفاذ کو جائز سمجھتی ہے تو دوسری جانب ٹیلی کوم سروسز کی فراہمی کے لیے اس کا مکمل انحصار بھی انھی نجی کاروباروں پر ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ نجی ٹیلی کوم کمپنیوں کا اہم مقصد اپنے نفع میں اضافہ کرنا ہے۔ اگر وہ آپریٹ نہیں کرپاتیں تو انھیں نقصان ہوگا۔ مگر بدقسمتی سے اس صورت میں ملک کو زیادہ نقصان ہوگا۔ گلوبل آئی سی ٹی انڈیکس میں پاکستان کی نچلی رینکنگ ظاہر کرتی ہے کہ ٹیلی کوم سیکٹر کی صورتحال بہت زیادہ اچھی نہیں۔
حکومت اور ٹیلی کوم کمپنیوں کے درمیان کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مذاکرات کے ذریعے طے پا جانے چاہیے تھے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ثالثی ٹریبیونل تشکیل دیا جائے۔ اگر ملک کا وزیراعظم نصف ارب روپے اکٹھے کرنے کے لیے گھنٹوں تک ٹی وی کیمروں کے سامنے بیٹھ سکتا ہے توپھر یقیناً کھربوں روپوں کے لیے محب وطن حکام بھی سرمایہ کاروں کے ساتھ بیٹھ کر گفت و شنید کر سکتے ہیں۔
کووڈ 19 کی صورتحال کی وجہ سے دنیا بھر میں غیرملکی سرمایہ کاری سرمایہ لگانے سے گریزاں ہیں تاہم پاکستان خوش قسمت ہے کہ ان حالات میں اس کے پاس ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کرنے کا موقع موجود ہے۔
ٹیلی کوم اسپیکٹرم کی فیس کے قضیے سے جڑ ے کچھ ایشوز یہ ہیں کہ پرانے اسپیکٹرم کی تجدید کی فیس پرانی ہی ہو یا بڑھائی جائے، ایک اور ایشو یہ ہے کہ اسپیکٹرم فیس امریکی ڈالر میں ہو جبکہ ریونیو پاکستانی روپے میں لیا جاتا ہے؟
کیا عدالت میں معاملہ ہونے کے باوجود لیٹ فیس کا اطلاق ہونا چاہیے؟ نیز اقساط پر شرح سود کیا ہوگی؟ علاوہ ازیں فوری طور پر صوبوں اور گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں اضافی اسپیکٹرم کیسے الاٹ کی جائے۔
ایک طرف حکومت نجی کاروباروں پر ہر قسم کے ٹیکس اور لیویز کے نفاذ کو جائز سمجھتی ہے تو دوسری جانب ٹیلی کوم سروسز کی فراہمی کے لیے اس کا مکمل انحصار بھی انھی نجی کاروباروں پر ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ نجی ٹیلی کوم کمپنیوں کا اہم مقصد اپنے نفع میں اضافہ کرنا ہے۔ اگر وہ آپریٹ نہیں کرپاتیں تو انھیں نقصان ہوگا۔ مگر بدقسمتی سے اس صورت میں ملک کو زیادہ نقصان ہوگا۔ گلوبل آئی سی ٹی انڈیکس میں پاکستان کی نچلی رینکنگ ظاہر کرتی ہے کہ ٹیلی کوم سیکٹر کی صورتحال بہت زیادہ اچھی نہیں۔
حکومت اور ٹیلی کوم کمپنیوں کے درمیان کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مذاکرات کے ذریعے طے پا جانے چاہیے تھے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ثالثی ٹریبیونل تشکیل دیا جائے۔ اگر ملک کا وزیراعظم نصف ارب روپے اکٹھے کرنے کے لیے گھنٹوں تک ٹی وی کیمروں کے سامنے بیٹھ سکتا ہے توپھر یقیناً کھربوں روپوں کے لیے محب وطن حکام بھی سرمایہ کاروں کے ساتھ بیٹھ کر گفت و شنید کر سکتے ہیں۔