حفاظتی تدابیر ہی بچاؤ کا واحد راستہ
کیا یہ ملک مافیاز کے لیے جنت ثابت ہورہا ہے یہ وہ ملین ڈالر سوال ہے جس کا جواب موجودہ حکومت نے دینا ہے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ ہمیں وبا کے پھیلاؤکوکم کرنا ہے، سب سے کامیاب طریقہ کار یہ ہے کہ ہم اپنے طرزعمل کو تبدیل کریں اورخود حفاظتی تدابیر اپنائیں۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے این سی او سی کے اجلاس کی صدارت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
بلاشبہ وفاقی وزیرکی بات میں وزن ہے، عوام کو اب اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ ہم نے کورونا کے ساتھ زندگی احتیاط کا دامن تھام کرگزارنی ہے۔ ایک لاکھ کے قریب کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد انتہائی الارمنگ صورتحال کی نشاندہی کر رہی ہے جب کہ دوہزارقیمتی جانیں بھی ہم گنواچکے ہیں۔ حکومت ہرگلی، محلے، قصبے یا شہرمیں قدم قدم پر پولیس اہلکار تعینات نہیں کرسکتی ، عوام کوشعورکا ثبوت دینا ہے۔یہ نہیں ہوسکتا کہ حکومت ہرجگہ دیکھے کہ لوگ احتیاطی تدابیر نہیں اپنا رہے ہیں۔
ایک جانب توکورونا وائرس کے حوالے سے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جا رہے ہیں تو دوسری جانب اس پر تنقید کا عمل بھی پوری شدومد سے جاری و ساری ہے۔گزشتہ روز پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سندھ اسمبلی آڈیٹوریم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس زبردستی پھیلایا گیا ہے، وزیراعلیٰ سندھ اور کارکنوں نے کورونا وبا کوکنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کیے لیکن وفاقی حکومت نے کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کی سندھ حکومت کی کوششوں کوسبوتاژکیا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے جوابی پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات شبلی فراز کے ہمراہوفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے بھرپور وار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت نے راشن پہنچانے کا وعدہ کیا تھا آج تک کسی کو پتہ نہیں راشن کسے ملا لیکن بھاشن روزانہ ملتا ہے۔ کہتے ہیںسندھ میں غربت سے کوئی نہیں مرتا حالانکہ سندھ میں ساڑھے چار تا پانچ سو لوگ ہر سال بھوک سے مرتے ہیں۔ سندھ میں بچوں کو خوراک نہیں ملتی ۔پیسہ آپ کا نہیں قوم کا ہے ہم نے پیسے دے دیے، ہرسہولت دی۔
مقام افسوس ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پورے ملک کو ایک خطرناک وبا کا سامنا ہے لوگ سیاست کرنا نہیں بھول رہے ہیں۔اس نازک ترین وقت میں وفاق اور صوبہ سندھ کے درمیان سیاسی بیان بازی ،چپقلش اور الزامات در الزامات کا چلن اس بات کا غمازہے کہ ہم سیاسی طور پر تاحال پوائنٹ اسکورنگ پر یقین رکھتے ہیں حقیقت سے نظریں چرانے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ، اپنی دنیا میں مگن رہنے کی عادت کا شکار ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں چار لاکھ اموات اس وائرس کی وجہ سے ہوچکی ہیں اور پاکستان میں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مریض سامنے آرہے ہیں اور ہم سیاسی لڑائی جھگڑوں میں مصروف نظرآتے ہیں، یقیناً آنے والے وقت کا مورخ یہ بات تاریخ کے باب میں ضروررقم کرے گا کہ ایک عالمی وبا کے نتیجے میں قوم مصائب وآلام کا شکار تھی اوراس کے سیاسی رہنما آپس میں لڑ رہے تھے۔ خدارا،ہوش کے ناخن لیجیے، یہ وقت سیاست کرنے کا نہیں بلکہ پوری قومی سیاسی قیادت کوایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر قوم کو یکجہتی کا پیغام دینا چاہیے۔
اسی تناظر میں پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر وقائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا ہے کہ اموات کی شرح اور متاثرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وفاق اورصوبے مل کر حالات کا جائزہ لیں اورمشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلایا جائے، یہ تجویزصائب ہے،اب یہ حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ سنجیدگی سے اس پر غورکرے۔ درحقیقت غیرسنجیدہ طرزعمل اختیارکرنے کی روش نے ملک کو ایک مشکل صورتحال سے دوچارکردیا ہے، یہی عالم رہا تو کچھ پتہ نہیں کہ ہمیں کتنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
ہر شخص کواب کورونا وائرس کے ساتھ ایک لمبے عرصے تک زندگی گزارنی ہے، جب تک اس سے بچاؤکی ویکسین تیار نہیں ہوجاتی ،اس وقت تک احتیاط کا دامن تھامے رکھنا ہے۔ اسی پس منظرمیں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ عوام کورونا وائرس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں، ٹائیگر فورس کے رضاکار ایس او پیز پر عمل کرائیں، احتیاطی تدابیر پر مکمل عملدرآمد ہی بڑی مصیبت سے بچا سکتا ہے، ٹائیگر فورس کو اب باقاعدگی سے ہدایات کا اجراء کیا جائے گا۔ عملی طور یہ رضاکارفورس جتنی جلدی میدان عمل میں آجائے تو یہ عوام کے لیے اچھی بات ہے۔
ان سطورکے ذریعے ہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی توجہ متعدد بار اس امرکی جانب مبذول کراچکے ہیں کہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو ہرحال میں عوام کی دسترس میں رکھا جائے،انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ نرخ نامے کو نظر اندازکرنے والا کسی رعایت کا مستحق نہیں ہے، تاجر برادری اپنے درمیان سے کالی بھیڑوں کو نکال باہرکرے کیونکہ اس وقت ملک بھر میں عوام ناجائزمنافع خوروں کے رحم وکرم پر ہیں، عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
آٹا فی بوری کی قیمت میں سو سے دو سو روپے اضافہ ہوا ہے جب کہ گندم کی دستیابی ممکن نظر نہیں آرہی ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں بھی اپنا کام سرانجام نہیں دے رہی ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام کو مختلف مافیازکے رحم وکرم پرچھوڑ دیا گیا ہے۔لاکھوں لوگ اس وباکی وجہ سے بے روزگار ہوچکے ہیں لیکن منافع خورمافیا کو رتی برابر احساس نہیں، وہ روز بروزمہنگائی میں اضافہ کرکے دولت جمع کرنے میں مصروف ہے۔
ایک جانب کورونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں تو دوسری جانب ملک کے تمام چھوٹے، بڑے شہروں میں پٹرول کی قلت بدستور برقرارہے،سستے پٹرول کا حصول عوام کے لیے اذیت بن چکا ہے۔ یکم جون سے نرخوں میں کمی کے بعد پٹرول کی قلت تاحال برقرارہے، جن پمپس پر پٹرول دستیاب ہے، وہاں شہریوں کی طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں، لوگوں کو ان کی طلب کے بجائے مخصوص مقدار میں پٹرول مل رہا ہے، بیشتر شہروں میں پمپ مالکان نے پٹرول پمپس کو سپلائی نہ ملنے کا بہانا بناکر مکمل طور پر بندکردیا ہے ۔
عوام نے کہا ہے کہ عوام خوار ہو رہے ہیں ، وزیراعظم عمران خان معاملے کا نوٹس لیں ۔زیادہ تر پیٹرول پمپس پر فنی خرابی کے بورڈزآویزاں کر کے پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت نہیں کی جا رہی۔ اک دکا سرکاری پمپس میں گھنٹوں انتظارکے بعد ایک لیٹر پیٹرول سرکاری نرخ سے کہیں زیادہ پر فروخت ہورہا ہے۔ یہ سب کیا ہورہا ہے اور اس مسئلے کے حل سے حکومت بے خبر ہے یا بے بس ہے، یہ وہ سوالات ہیں جو عوام کے ذہنوں میں جنم لے رہے ہیں۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے باوجود مہنگائی کی شدت برقرار رہنا دراصل حکومتی نااہلی سے عبارت ہے۔ ملک میں یہ چلن تو عام ہے کہ پٹرول کی قیمت میں اضافے کا اعلان ہوتے ہی تاجر طبقے کی جانب سے اشیائے خورونوش کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں تاہم قیمت میں کمی کے اعلان کے بعد بھی مہنگائی کا بدستور بڑھنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ بجلی اور عام اشیا کی قیمتوں میں کمی نہ ہونا دراصل اس مافیا کی بالادستی کو ظاہرکرتا ہے جو خود کو ہرانتظامی طاقت سے بالا سمجھتا ہے۔
کیا یہ ملک مافیاز کے لیے جنت ثابت ہورہا ہے یہ وہ ملین ڈالر سوال ہے جس کا جواب موجودہ حکومت نے دینا ہے۔ بجلی اور روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ نیپرا اور پرائس کنٹرول اتھارٹی کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، حکومتی اداروں کی غفلت کا چلن عوام کے لیے درد سر بن چکا ہے۔ یہ تو بات ہوئی پیٹرولیم مصنوعات کی قلت اور عوام کی در درٹھوکریں کھانے کی۔ مرے پر سو درے کے مصداق ایک اورخبر کہ عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے رجحان کی وجہ سے وفاقی حکومت نئے مالی سال کے بجٹ میں پیٹرولیم قیمتوں میں فی لٹر 20 روپے جی ایس ٹی عائد کرنے پر غورکررہی ہے۔
اس تجویز کی وزیراعظم نے منظوری دیدی تو صارفین کو فی لٹر 50 روپے ٹیکس ادا کرنا ہوگا،جن میں 20 روپے جی ایس ٹی اور 30 روپے دیگر ٹیکسوں کے شامل ہونگے۔ اس خبرکی تفصیلات اور مندرجات انتہائی پریشان کن ہیں کیونکہ حکومت پہلے ہی پیٹرول، ہائی اسپیڈ ڈیزل، مٹی کے تیل، لائٹ ڈیزل اوردیگر پیٹرولیم مصنوعات پر 17 فیصد جی ایس ٹی وصول کررہی ہے۔ ہم توسمجھتے ہیں کہ سرے سے حکومت کو ایسا اقدام بجٹ میں اٹھانا نہیں چاہیے،کیونکہ اس طرح عوامی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا۔
کورونا وائرس سے بچاؤکے لیے آگاہی کا ہونا بھی ایک لازمی امر ہے، ماہرین طب کے مطابق اگر ایک خاندان میں کسی کوکھانسی یا بخار ہے توسب سے پہلے تو متاثرہ مریض کوآئیسولیشن اختیارکرنی چاہیے اور اگر علامات بڑھ جائیں تو پھر ٹیسٹ کروالیں، اس مرض میں آئیسولیشن بہت اہمیت کی حامل ہے، اس کے علاوہ اچھی غذا ، وٹامن سی ، بہتر نیند اور بہتر ورزش بہت مفید ہے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کا ہرگز مطلب یہ نہیںہے کہ کورونا وائرس کا خاتمہ ہوچکا ہے اور ہمیں ہرطرح کے کام کرنے کی آزادی مل چکی ہے۔
سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹیں اورویڈیوز موجود ہیں جن میں اس وبا کا انکارکیا گیا ہے۔ ہماری عوام سے مودبانہ اپیل ہے کہ وہ ان باتوں پرقطعاً یقین نہ کریں، دنیا میںاب تک چارلاکھ افراد اس وبا کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ماہ جون کورونا وائرس کے پھیلاؤکے حوالے سے انتہائی خطرناک ترین مہینہ ہے، خدارا،جہل کا راستہ اختیارنہ کیجیے کیونکہ یہ صرف تباہی وبربادی کی راہ ہے، ہم اگر ایک زندہ قوم ہیں تو ہمیں احتیاطی تدابیرکولازمی اختیارکرنا ہوگا،اسی میں ہماری بقا کا راز مضمر ہے۔
بلاشبہ وفاقی وزیرکی بات میں وزن ہے، عوام کو اب اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ ہم نے کورونا کے ساتھ زندگی احتیاط کا دامن تھام کرگزارنی ہے۔ ایک لاکھ کے قریب کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد انتہائی الارمنگ صورتحال کی نشاندہی کر رہی ہے جب کہ دوہزارقیمتی جانیں بھی ہم گنواچکے ہیں۔ حکومت ہرگلی، محلے، قصبے یا شہرمیں قدم قدم پر پولیس اہلکار تعینات نہیں کرسکتی ، عوام کوشعورکا ثبوت دینا ہے۔یہ نہیں ہوسکتا کہ حکومت ہرجگہ دیکھے کہ لوگ احتیاطی تدابیر نہیں اپنا رہے ہیں۔
ایک جانب توکورونا وائرس کے حوالے سے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جا رہے ہیں تو دوسری جانب اس پر تنقید کا عمل بھی پوری شدومد سے جاری و ساری ہے۔گزشتہ روز پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سندھ اسمبلی آڈیٹوریم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس زبردستی پھیلایا گیا ہے، وزیراعلیٰ سندھ اور کارکنوں نے کورونا وبا کوکنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کیے لیکن وفاقی حکومت نے کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کی سندھ حکومت کی کوششوں کوسبوتاژکیا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے جوابی پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات شبلی فراز کے ہمراہوفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے بھرپور وار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت نے راشن پہنچانے کا وعدہ کیا تھا آج تک کسی کو پتہ نہیں راشن کسے ملا لیکن بھاشن روزانہ ملتا ہے۔ کہتے ہیںسندھ میں غربت سے کوئی نہیں مرتا حالانکہ سندھ میں ساڑھے چار تا پانچ سو لوگ ہر سال بھوک سے مرتے ہیں۔ سندھ میں بچوں کو خوراک نہیں ملتی ۔پیسہ آپ کا نہیں قوم کا ہے ہم نے پیسے دے دیے، ہرسہولت دی۔
مقام افسوس ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پورے ملک کو ایک خطرناک وبا کا سامنا ہے لوگ سیاست کرنا نہیں بھول رہے ہیں۔اس نازک ترین وقت میں وفاق اور صوبہ سندھ کے درمیان سیاسی بیان بازی ،چپقلش اور الزامات در الزامات کا چلن اس بات کا غمازہے کہ ہم سیاسی طور پر تاحال پوائنٹ اسکورنگ پر یقین رکھتے ہیں حقیقت سے نظریں چرانے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ، اپنی دنیا میں مگن رہنے کی عادت کا شکار ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں چار لاکھ اموات اس وائرس کی وجہ سے ہوچکی ہیں اور پاکستان میں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مریض سامنے آرہے ہیں اور ہم سیاسی لڑائی جھگڑوں میں مصروف نظرآتے ہیں، یقیناً آنے والے وقت کا مورخ یہ بات تاریخ کے باب میں ضروررقم کرے گا کہ ایک عالمی وبا کے نتیجے میں قوم مصائب وآلام کا شکار تھی اوراس کے سیاسی رہنما آپس میں لڑ رہے تھے۔ خدارا،ہوش کے ناخن لیجیے، یہ وقت سیاست کرنے کا نہیں بلکہ پوری قومی سیاسی قیادت کوایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر قوم کو یکجہتی کا پیغام دینا چاہیے۔
اسی تناظر میں پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر وقائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا ہے کہ اموات کی شرح اور متاثرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وفاق اورصوبے مل کر حالات کا جائزہ لیں اورمشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلایا جائے، یہ تجویزصائب ہے،اب یہ حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ سنجیدگی سے اس پر غورکرے۔ درحقیقت غیرسنجیدہ طرزعمل اختیارکرنے کی روش نے ملک کو ایک مشکل صورتحال سے دوچارکردیا ہے، یہی عالم رہا تو کچھ پتہ نہیں کہ ہمیں کتنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
ہر شخص کواب کورونا وائرس کے ساتھ ایک لمبے عرصے تک زندگی گزارنی ہے، جب تک اس سے بچاؤکی ویکسین تیار نہیں ہوجاتی ،اس وقت تک احتیاط کا دامن تھامے رکھنا ہے۔ اسی پس منظرمیں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ عوام کورونا وائرس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں، ٹائیگر فورس کے رضاکار ایس او پیز پر عمل کرائیں، احتیاطی تدابیر پر مکمل عملدرآمد ہی بڑی مصیبت سے بچا سکتا ہے، ٹائیگر فورس کو اب باقاعدگی سے ہدایات کا اجراء کیا جائے گا۔ عملی طور یہ رضاکارفورس جتنی جلدی میدان عمل میں آجائے تو یہ عوام کے لیے اچھی بات ہے۔
ان سطورکے ذریعے ہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی توجہ متعدد بار اس امرکی جانب مبذول کراچکے ہیں کہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو ہرحال میں عوام کی دسترس میں رکھا جائے،انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ نرخ نامے کو نظر اندازکرنے والا کسی رعایت کا مستحق نہیں ہے، تاجر برادری اپنے درمیان سے کالی بھیڑوں کو نکال باہرکرے کیونکہ اس وقت ملک بھر میں عوام ناجائزمنافع خوروں کے رحم وکرم پر ہیں، عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
آٹا فی بوری کی قیمت میں سو سے دو سو روپے اضافہ ہوا ہے جب کہ گندم کی دستیابی ممکن نظر نہیں آرہی ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں بھی اپنا کام سرانجام نہیں دے رہی ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام کو مختلف مافیازکے رحم وکرم پرچھوڑ دیا گیا ہے۔لاکھوں لوگ اس وباکی وجہ سے بے روزگار ہوچکے ہیں لیکن منافع خورمافیا کو رتی برابر احساس نہیں، وہ روز بروزمہنگائی میں اضافہ کرکے دولت جمع کرنے میں مصروف ہے۔
ایک جانب کورونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں تو دوسری جانب ملک کے تمام چھوٹے، بڑے شہروں میں پٹرول کی قلت بدستور برقرارہے،سستے پٹرول کا حصول عوام کے لیے اذیت بن چکا ہے۔ یکم جون سے نرخوں میں کمی کے بعد پٹرول کی قلت تاحال برقرارہے، جن پمپس پر پٹرول دستیاب ہے، وہاں شہریوں کی طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں، لوگوں کو ان کی طلب کے بجائے مخصوص مقدار میں پٹرول مل رہا ہے، بیشتر شہروں میں پمپ مالکان نے پٹرول پمپس کو سپلائی نہ ملنے کا بہانا بناکر مکمل طور پر بندکردیا ہے ۔
عوام نے کہا ہے کہ عوام خوار ہو رہے ہیں ، وزیراعظم عمران خان معاملے کا نوٹس لیں ۔زیادہ تر پیٹرول پمپس پر فنی خرابی کے بورڈزآویزاں کر کے پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت نہیں کی جا رہی۔ اک دکا سرکاری پمپس میں گھنٹوں انتظارکے بعد ایک لیٹر پیٹرول سرکاری نرخ سے کہیں زیادہ پر فروخت ہورہا ہے۔ یہ سب کیا ہورہا ہے اور اس مسئلے کے حل سے حکومت بے خبر ہے یا بے بس ہے، یہ وہ سوالات ہیں جو عوام کے ذہنوں میں جنم لے رہے ہیں۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے باوجود مہنگائی کی شدت برقرار رہنا دراصل حکومتی نااہلی سے عبارت ہے۔ ملک میں یہ چلن تو عام ہے کہ پٹرول کی قیمت میں اضافے کا اعلان ہوتے ہی تاجر طبقے کی جانب سے اشیائے خورونوش کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں تاہم قیمت میں کمی کے اعلان کے بعد بھی مہنگائی کا بدستور بڑھنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ بجلی اور عام اشیا کی قیمتوں میں کمی نہ ہونا دراصل اس مافیا کی بالادستی کو ظاہرکرتا ہے جو خود کو ہرانتظامی طاقت سے بالا سمجھتا ہے۔
کیا یہ ملک مافیاز کے لیے جنت ثابت ہورہا ہے یہ وہ ملین ڈالر سوال ہے جس کا جواب موجودہ حکومت نے دینا ہے۔ بجلی اور روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ نیپرا اور پرائس کنٹرول اتھارٹی کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، حکومتی اداروں کی غفلت کا چلن عوام کے لیے درد سر بن چکا ہے۔ یہ تو بات ہوئی پیٹرولیم مصنوعات کی قلت اور عوام کی در درٹھوکریں کھانے کی۔ مرے پر سو درے کے مصداق ایک اورخبر کہ عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے رجحان کی وجہ سے وفاقی حکومت نئے مالی سال کے بجٹ میں پیٹرولیم قیمتوں میں فی لٹر 20 روپے جی ایس ٹی عائد کرنے پر غورکررہی ہے۔
اس تجویز کی وزیراعظم نے منظوری دیدی تو صارفین کو فی لٹر 50 روپے ٹیکس ادا کرنا ہوگا،جن میں 20 روپے جی ایس ٹی اور 30 روپے دیگر ٹیکسوں کے شامل ہونگے۔ اس خبرکی تفصیلات اور مندرجات انتہائی پریشان کن ہیں کیونکہ حکومت پہلے ہی پیٹرول، ہائی اسپیڈ ڈیزل، مٹی کے تیل، لائٹ ڈیزل اوردیگر پیٹرولیم مصنوعات پر 17 فیصد جی ایس ٹی وصول کررہی ہے۔ ہم توسمجھتے ہیں کہ سرے سے حکومت کو ایسا اقدام بجٹ میں اٹھانا نہیں چاہیے،کیونکہ اس طرح عوامی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا۔
کورونا وائرس سے بچاؤکے لیے آگاہی کا ہونا بھی ایک لازمی امر ہے، ماہرین طب کے مطابق اگر ایک خاندان میں کسی کوکھانسی یا بخار ہے توسب سے پہلے تو متاثرہ مریض کوآئیسولیشن اختیارکرنی چاہیے اور اگر علامات بڑھ جائیں تو پھر ٹیسٹ کروالیں، اس مرض میں آئیسولیشن بہت اہمیت کی حامل ہے، اس کے علاوہ اچھی غذا ، وٹامن سی ، بہتر نیند اور بہتر ورزش بہت مفید ہے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کا ہرگز مطلب یہ نہیںہے کہ کورونا وائرس کا خاتمہ ہوچکا ہے اور ہمیں ہرطرح کے کام کرنے کی آزادی مل چکی ہے۔
سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹیں اورویڈیوز موجود ہیں جن میں اس وبا کا انکارکیا گیا ہے۔ ہماری عوام سے مودبانہ اپیل ہے کہ وہ ان باتوں پرقطعاً یقین نہ کریں، دنیا میںاب تک چارلاکھ افراد اس وبا کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ماہ جون کورونا وائرس کے پھیلاؤکے حوالے سے انتہائی خطرناک ترین مہینہ ہے، خدارا،جہل کا راستہ اختیارنہ کیجیے کیونکہ یہ صرف تباہی وبربادی کی راہ ہے، ہم اگر ایک زندہ قوم ہیں تو ہمیں احتیاطی تدابیرکولازمی اختیارکرنا ہوگا،اسی میں ہماری بقا کا راز مضمر ہے۔