مقدس گائے کی روایت ختم کرنا ہوگی
مقدس گائے کے اس کھیل نے پاکستان میں احتساب اور انصاف کے نظام کو بھی مفلوج کر دیا ہے۔
LOS ANGELES:
پاکستان کے ان گنت مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ کہ مختلف طبقات خودکو ہر قسم کے قانون ضابطے اور احتساب سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ہر طبقہ کی خواہش ہے کہ انھیں مقدس گائے کی حیثیت حاصل ہو جائے۔ جن کو مقدس گائے کی حیثیت حاصل ہے وہ اپنی مقدس گائے کی حیثیت برقرا ر رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اور جن کو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے وہ اس کو حاصل کرنے کے لیے ہر وقت کوشاں ہیں۔
مقدس گائے کے اس کھیل نے پاکستان میں احتساب اور انصاف کے نظام کو بھی مفلوج کر دیا ہے۔ عام آدمی ان تمام طبقوں کے سامنے نہ صرف بے بس ہے بلکہ بدظن بھی ہے۔
آپ افسر شاہی کو دیکھیں۔ نیب کی چند کارروائیوں سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ افسر شاہی کی مقدس گائے کی حیثیت ختم ہو گئی ہے۔ نیب نے دو چار افسر کیا گرفتار کر لیے افسر شاہی نے ملک کا نظام عملی طور پر مفلوج کر دیا ۔
حالات اس قدر خراب ہو گئے کہ حکومت نے افسر شاہی سے ناصرف معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا بلکہ انھیں یقین دہانیاں بھی کروائی گئیں کہ اب انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ لیکن وہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ آج ملک میں ایک شکایت عام ہے کہ افسروں نے فائلوں پر دستخط کرنا بند کر دیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم کیوں دستخط کریں ۔ کیا ہم نے نیب میں گرفتار ہونا ہے۔ جب تک افسر شاہی کو دوبارہ مقدس گائے کی حیثیت نہیں دی جائے گی ملک کا نظام نہیں چل سکے گا۔
آپ ڈاکٹرز کو بھی دیکھ لیں۔ ڈ اکٹرز بھی کسی احتساب کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بلکہ پاکستان میں ڈاکٹرز کی کسی بھی پیشہ ورانہ غفلت اور بد دیانتی کے احتساب کا کوئی نظام نہیں ہے۔ ڈاکٹروں کا بھی یہی موقف ہے کہ کسی دوسرے کو ان کا احتساب کرنے کاکوئی حق نہیں ہے۔
یہ بھی عجیب منطق ہے کہ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ہم اپنا احتساب خود کریں گے۔ اسی لیے ڈاکٹرز ہڑتال کرتے ہیں۔ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ وہ مریضوں سے غفلت کرتے ہیں لیکن ان کا کوئی احتساب نہیں۔ وہ علاج کریں یا نہ کریں ان کو کوئی پوچھ نہیں سکتا۔ڈاکٹرز نے اپنے احتساب کے لیے جو پلیٹ فارم بنایا ہوا ہے وہ عملی طور پر ڈاکٹروں کے مقدس گائے کا درجہ برقرار رکھنے کے لیے کام کرتا ہے۔ ڈاکٹرز نہ تو حکومت کے کسی ادارے سے اپنا احتساب کروانے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی وہ از خود کوئی نظام بنانے کے لیے تیار ہیں جہاں ان کا احتساب ممکن ہو سکے۔
وکلا کی بھی یہی صورتحال ہے ۔ وکلا کی بھی عجیب منطق ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار صرف اور صرف بار کونسل کو ہی ہے۔ اور بار کونسل کسی وکیل کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وکلا ہڑتال کریں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ بلکہ وہ ججز کی بے عزتی کریں تب بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ وہ اسپتالوں پر حملے کریں تب بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی ممکن نہیں ہے۔ ہم نے متعدد بار دیکھا ہے کہ عدلیہ بھی وکلا کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے۔ وکلا عدالتوں کو تالے لگا دیتے ہیں۔ ججز کو کمروں میں بند کر دیتے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی ممکن نہیں۔
عدلیہ کی بھی یہی صورتحال ہے۔ ملک میں انصاف کا نظام کمزور ہے۔ تاریخ پر تاریخ کے کلچر نے عوام کا نظام انصاف سے اعتماد ختم کر دیا ہے۔ لیکن کوئی بھی اصلاحات کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ پاکستان کی ہر عدالت میں سیکڑوں کیس زیر التوا ہیں ۔ عملی طور پر عدلیہ میں احتساب کا نظام ختم ہو گیا ہے۔
میاں نواز شریف کا مقدمہ سب کے سامنے ہے۔ ایک طبقے کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف کے اپنے نام پر بھی کوئی جائیداد نہیں تھی اور انھیں بھی ان کے بچوں اور بیوی کے نام جائیداد پر ہی نہ صرف نا اہل کیا گیا بلکہ جیل کی سزا بھی دی گئی۔ نواز شریف کے خلاف کیس میں انھیں اپنے بچوں کی جائیداد کا جوابدہ بنا کر نا اہل کیا گیا۔انھیں وزارت عظمیٰ کی کرسی سے اتار دیا گیا۔جب کوئی بھی دوسرا شخص اپنے بچوں کے کردار کا ذمے دار نہیں تو ایک وزیر اعظم اپنے بچوں کے ہر قول فعل کا جوابدہ کیسے ہو سکتا ہے۔
صحافیوں کی بھی یہی کوشش ہے کہ انھیں مقدس گائے کی حیثیت حاصل رہے۔ آپ دیکھیں پاکستان میں صحافیوں کے مس کنڈکٹ کا جائزہ لینے کے لیے بھی کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ صحافی بھی خود کو قانون سے مبرا ہی سمجھتے ہیں۔ غلط خبر پر کسی بھی صحافی کے خلاف کارروائی کا کوئی میکنزم موجود نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں صحافیوں کی ایک ایسی کھیپ آگئی ہے جس کو صحافتی اقدارکا کوئی علم نہیں۔ ان کے لیے جب وہ صحافی ہو گئے ہیں تو سب جائز ہو گیا ہے۔ وہ جس کی چاہیں پگڑی اتاریں ۔ اس لیے ایک طرح سے صحافیوں کو بھی معاشرہ میں مقدس گائے کی حیثیت ہی حاصل ہے۔
اب تو کاروباری طبقہ بھی اس بات کا خواہاں ہے کہ انھیں بھی مقدس گائے کی حیثیت دی جائے۔ وہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ نہ تو نیب اور نہ ہی ایف بی آر سمیت کسی ادارے کو ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے کا کوئی اختیار ہونا چاہیے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان سے ہر قسم کی باز پرس ختم کر دی جائے۔
اس سارے کھیل میں مجھے سیاستدان بہت مظلوم نظر آتے ہیں۔ وہ ہر ایک کو جوابدہ ہیں۔ وہ مقتدر حلقوں کے سامنے بھی سرنگوں نظر آتے ہیں۔ قانون بھی ان کے لیے سخت ہے۔ ان کے لیے نیب بھی موجود ہے۔ اور تخت اور تختے کا کھیل بھی موجود ہے۔ میڈیا بھی ان کے پیچھے ہے۔ اور باقی ادارے بھی ان کو قابو کرنے کے درپے ہیں۔ اس ماحول میں سیاست کرنا ایک نہایت ہی مشکل کام ہوگیا ہے۔ لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ انھیں نہ کبھی مقدس گائے کی حیثیت حاصل تھی اور نہ ہے۔ وہ اس کھیل سے باہر ہیں۔
پاکستان میں جب تک ہم تمام طبقوں کو یکساں قانون کے تابع نہیں لائیں گے تب تک ملک میں انصاف قائم نہیں ہو سکتا۔ یہ مقدس گائے کا کھیل ختم کرنا ہوگا۔ اس کھیل نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جب تک ہم اس کو ختم نہیں کریں گے۔ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔
پاکستان کے ان گنت مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ کہ مختلف طبقات خودکو ہر قسم کے قانون ضابطے اور احتساب سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ہر طبقہ کی خواہش ہے کہ انھیں مقدس گائے کی حیثیت حاصل ہو جائے۔ جن کو مقدس گائے کی حیثیت حاصل ہے وہ اپنی مقدس گائے کی حیثیت برقرا ر رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اور جن کو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے وہ اس کو حاصل کرنے کے لیے ہر وقت کوشاں ہیں۔
مقدس گائے کے اس کھیل نے پاکستان میں احتساب اور انصاف کے نظام کو بھی مفلوج کر دیا ہے۔ عام آدمی ان تمام طبقوں کے سامنے نہ صرف بے بس ہے بلکہ بدظن بھی ہے۔
آپ افسر شاہی کو دیکھیں۔ نیب کی چند کارروائیوں سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ افسر شاہی کی مقدس گائے کی حیثیت ختم ہو گئی ہے۔ نیب نے دو چار افسر کیا گرفتار کر لیے افسر شاہی نے ملک کا نظام عملی طور پر مفلوج کر دیا ۔
حالات اس قدر خراب ہو گئے کہ حکومت نے افسر شاہی سے ناصرف معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا بلکہ انھیں یقین دہانیاں بھی کروائی گئیں کہ اب انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ لیکن وہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ آج ملک میں ایک شکایت عام ہے کہ افسروں نے فائلوں پر دستخط کرنا بند کر دیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم کیوں دستخط کریں ۔ کیا ہم نے نیب میں گرفتار ہونا ہے۔ جب تک افسر شاہی کو دوبارہ مقدس گائے کی حیثیت نہیں دی جائے گی ملک کا نظام نہیں چل سکے گا۔
آپ ڈاکٹرز کو بھی دیکھ لیں۔ ڈ اکٹرز بھی کسی احتساب کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بلکہ پاکستان میں ڈاکٹرز کی کسی بھی پیشہ ورانہ غفلت اور بد دیانتی کے احتساب کا کوئی نظام نہیں ہے۔ ڈاکٹروں کا بھی یہی موقف ہے کہ کسی دوسرے کو ان کا احتساب کرنے کاکوئی حق نہیں ہے۔
یہ بھی عجیب منطق ہے کہ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ہم اپنا احتساب خود کریں گے۔ اسی لیے ڈاکٹرز ہڑتال کرتے ہیں۔ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ وہ مریضوں سے غفلت کرتے ہیں لیکن ان کا کوئی احتساب نہیں۔ وہ علاج کریں یا نہ کریں ان کو کوئی پوچھ نہیں سکتا۔ڈاکٹرز نے اپنے احتساب کے لیے جو پلیٹ فارم بنایا ہوا ہے وہ عملی طور پر ڈاکٹروں کے مقدس گائے کا درجہ برقرار رکھنے کے لیے کام کرتا ہے۔ ڈاکٹرز نہ تو حکومت کے کسی ادارے سے اپنا احتساب کروانے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی وہ از خود کوئی نظام بنانے کے لیے تیار ہیں جہاں ان کا احتساب ممکن ہو سکے۔
وکلا کی بھی یہی صورتحال ہے ۔ وکلا کی بھی عجیب منطق ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار صرف اور صرف بار کونسل کو ہی ہے۔ اور بار کونسل کسی وکیل کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وکلا ہڑتال کریں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ بلکہ وہ ججز کی بے عزتی کریں تب بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ وہ اسپتالوں پر حملے کریں تب بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی ممکن نہیں ہے۔ ہم نے متعدد بار دیکھا ہے کہ عدلیہ بھی وکلا کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے۔ وکلا عدالتوں کو تالے لگا دیتے ہیں۔ ججز کو کمروں میں بند کر دیتے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی ممکن نہیں۔
عدلیہ کی بھی یہی صورتحال ہے۔ ملک میں انصاف کا نظام کمزور ہے۔ تاریخ پر تاریخ کے کلچر نے عوام کا نظام انصاف سے اعتماد ختم کر دیا ہے۔ لیکن کوئی بھی اصلاحات کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ پاکستان کی ہر عدالت میں سیکڑوں کیس زیر التوا ہیں ۔ عملی طور پر عدلیہ میں احتساب کا نظام ختم ہو گیا ہے۔
میاں نواز شریف کا مقدمہ سب کے سامنے ہے۔ ایک طبقے کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف کے اپنے نام پر بھی کوئی جائیداد نہیں تھی اور انھیں بھی ان کے بچوں اور بیوی کے نام جائیداد پر ہی نہ صرف نا اہل کیا گیا بلکہ جیل کی سزا بھی دی گئی۔ نواز شریف کے خلاف کیس میں انھیں اپنے بچوں کی جائیداد کا جوابدہ بنا کر نا اہل کیا گیا۔انھیں وزارت عظمیٰ کی کرسی سے اتار دیا گیا۔جب کوئی بھی دوسرا شخص اپنے بچوں کے کردار کا ذمے دار نہیں تو ایک وزیر اعظم اپنے بچوں کے ہر قول فعل کا جوابدہ کیسے ہو سکتا ہے۔
صحافیوں کی بھی یہی کوشش ہے کہ انھیں مقدس گائے کی حیثیت حاصل رہے۔ آپ دیکھیں پاکستان میں صحافیوں کے مس کنڈکٹ کا جائزہ لینے کے لیے بھی کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ صحافی بھی خود کو قانون سے مبرا ہی سمجھتے ہیں۔ غلط خبر پر کسی بھی صحافی کے خلاف کارروائی کا کوئی میکنزم موجود نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں صحافیوں کی ایک ایسی کھیپ آگئی ہے جس کو صحافتی اقدارکا کوئی علم نہیں۔ ان کے لیے جب وہ صحافی ہو گئے ہیں تو سب جائز ہو گیا ہے۔ وہ جس کی چاہیں پگڑی اتاریں ۔ اس لیے ایک طرح سے صحافیوں کو بھی معاشرہ میں مقدس گائے کی حیثیت ہی حاصل ہے۔
اب تو کاروباری طبقہ بھی اس بات کا خواہاں ہے کہ انھیں بھی مقدس گائے کی حیثیت دی جائے۔ وہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ نہ تو نیب اور نہ ہی ایف بی آر سمیت کسی ادارے کو ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے کا کوئی اختیار ہونا چاہیے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان سے ہر قسم کی باز پرس ختم کر دی جائے۔
اس سارے کھیل میں مجھے سیاستدان بہت مظلوم نظر آتے ہیں۔ وہ ہر ایک کو جوابدہ ہیں۔ وہ مقتدر حلقوں کے سامنے بھی سرنگوں نظر آتے ہیں۔ قانون بھی ان کے لیے سخت ہے۔ ان کے لیے نیب بھی موجود ہے۔ اور تخت اور تختے کا کھیل بھی موجود ہے۔ میڈیا بھی ان کے پیچھے ہے۔ اور باقی ادارے بھی ان کو قابو کرنے کے درپے ہیں۔ اس ماحول میں سیاست کرنا ایک نہایت ہی مشکل کام ہوگیا ہے۔ لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ انھیں نہ کبھی مقدس گائے کی حیثیت حاصل تھی اور نہ ہے۔ وہ اس کھیل سے باہر ہیں۔
پاکستان میں جب تک ہم تمام طبقوں کو یکساں قانون کے تابع نہیں لائیں گے تب تک ملک میں انصاف قائم نہیں ہو سکتا۔ یہ مقدس گائے کا کھیل ختم کرنا ہوگا۔ اس کھیل نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جب تک ہم اس کو ختم نہیں کریں گے۔ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔