ترقی کرلینا کوئی مذاق نہیں
نظم و ضبط، قانون کی حکمرانی اور مہذب معاشرے کی تشکیل سے ہم بھی عالمی افق پر ابھر سکتے ہیں
چین کے شہر ووہان میں گزشتہ دو ہفتوں میں مجموعی طور پر ایک کروڑ لوگوں کے کورونا ٹیسٹ کیے گئے، جن میں سے ایک بھی مثبت نہیں آیا۔ اس سے چین کی بحیثیت ملک اور قوم صلاحیتوں کا اندازہ لگالیجئے کہ اتنے کم وقت میں 10 ملین شہریوں کو ٹیسٹ پر باآسانی آمادہ کیا اور ٹیسٹ مکمل کیے۔ دوسرا اتنے بڑے پیمانے پر ٹیسٹ کےلیے مطلوبہ وسائل و آلات دستیاب کروائے اور تیسرا سب سے بڑا نکتہ یہ کہ ووہان کے بڑے آبادی والے شہر میں کورونا وائرس کو کنٹرول کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
اگر ہمیں اس طرح کی کوئی مشق کرنی ہوئی تو کئی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ پہلے آلات اور وسائل کی کمی ہوگی اور پھر ہمارے عوام ہی اس طرح کے ٹیسٹ کرانے میں شاید تعاون نہ کریں۔ کیونکہ وہ خود کو چینی عوام کی طرح حکومتی اقدامات پر بھروسہ رکھنے والے اور اپنی ذمے داریاں پوری کرنے والے شہری ثابت نہیں کرسکیں گے۔ ابھی تک ہمارا ایسا کلچر ہی نہیں بن پایا ہے۔ پاکستان اور چین نے ساتھ ساتھ ہی آزادی حاصل کی لیکن دونوں کا موازنہ تو دور کی بات کہ چین اب ایک بھرپور عالمی طاقت بننے کے قریب تر ہے۔
جبکہ ہمارے ملک کی حالت دیکھی جائے تو ہم ہر طرف سے معاشی، سیاسی اور سماجی مسائل کے گرداب میں گھرے ہوئے ہیں۔ روپے کی گرتی ہوئی قیمت ہو، بیرونی قرضوں کا بوجھ ہو یا مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی۔ ہماری معاشی حالت سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ سیاسی لحاظ سے ملک میں استحکام آتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ملک میں مافیاز کا راج ہے۔ آٹے کا بحران ٹلتا نہیں کہ مارکیٹ سے چینی غائب ہوجاتی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرنے سے یہاں تیل سستا کیا گیا تو پٹرول پمپ مالکان نے تیل ذخیرہ کرکے کم نرخ پر بیچنا ہی بند کردیا اور عوام کو ایک اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
کیا چین جیسے ملک میں اس طرح کی ذخیرہ اندوزی کا تصوربھی کیا جاسکتا ہے؟ جبکہ ہمارے ملک میں عملی طور پر ان مافیاز ہی کی حکومت ہے۔ یقینی طور پر یہی مافیاز ان سیاسی جماعتوں کے کرتا دھرتا ہیں اور یہ ہر ایک حکومت میں لازمی شامل رہتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر کوئی بھی حکومت آزادانہ طور پر اپنی پالیسی چلانے میں کامیاب نہیں ہوپاتی۔ جب تک ان مافیاز سے نجات نہیں ملتی، پاکستان کی معاشی ترقی کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔
چین نے گزشتہ کچھ عرصے میں ٹیکنالوجی اور ایجادات میں جو ترقی کی ہے اس کا سبب نہ صرف ان کی حکومتی پالیسیوں کا تسلسل ہے بلکہ بحیثیت قوم انہوں نے ایک نظام مرتب کرنے میں اپنی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ کچھ مہینے پہلے میڈیا پر یہ خبریں ہم سب کو حیران تو بہت کرگئیں کہ چین نے کورونا وائرس کے مریضوں کےلیے محض 7 دن میں اسپتال بناکر تیز ترین تعمیر کا عالمی ریکارڈ بنا ڈالا۔ 1500 کارکنوں کی مدد سے محض 9 گھنٹوں میں ایک ریلوے اسٹیشن مکمل کیا گیا۔ ایک چینی تعمیراتی فرم نے 57 منزلہ عمارت کی تعمیر صرف 19 دنوں میں مکمل کی۔ اس طرح کے اور بے شمار حیران کن حقائق ہیں جو چین کو بطور قوم عالمی برادری میں ممتاز کرتے ہیں۔ جبکہ ہم کرپشن، رشوت ستانی، ملاوٹ، گراں فروشی، چوری، قتل و غارت گری اور لڑائی جھگڑوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
سماجی لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے کا شمار کسی بھی طرح مہذب معاشروں میں نہیں ہوسکتا۔ نظم وضبط اور قانون کی حکمرانی کی بات کی جائے تو ہم اتھاہ گہرائیوں میں نظر آتے ہیں۔ موجودہ کورونا وبا کی حالت میں ہمارے عوام کسی قسم کے حکومتی احکامات ماننے کو تیار نہیں۔ لاک ڈاؤن کی پابندی میں چاہے ماسک پہننے یا سماجی دوری کی ہدایات ہوں یا کاروبار بند رکھنے کی پابندی ہو، عوام نے عمل نہ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ مزید یہ کہ حکومت کی طرف سے مستند معلومات و ہدایات کے بجائے سوشل میڈیا پر اتائی نسخوں کی مسلسل تشہیر کی وجہ سے نہ صرف کم تعلیم یافتہ بلکہ تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس تباہ کن وبا سے متاثر ہورہا ہے، بلکہ کورونا کو ایک سازش اور پروپیگنڈہ قرار دے رہا ہے۔ ان ساری بے ضابطگیوں کے نتائج اموات میں اضافہ اور کورونا کے مزید پھیلاؤ کی صورت ہی نکل رہے ہیں جو کہ کسی بھی طور ایک مہذب اور ترقی پسند معاشرے کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔
سیاسی لحاظ سے اگرچہ چین کو عالمی سطح پر کافی تنقید کا سامنا رہا ہے لیکن اس نے اس کا کم ہی لحاظ کیا ہے اور اپنے ملک کی ترقی اور عوام کے بہبود پر مسلسل توجہ مرکوز رکھی ہے۔ دوسری طرف اگر ہم اپنے ملک کی سیاسی حالت کا اندازہ لگائیں تو زبوں حالی کی کوئی مثال نہیں۔ ملکی ترقی کےلیے مقدم شرط ہمارے اداروں کا مکمل طور پر آزاد ہونا اور عوام میں حقیقی سیاسی شعور کا اجاگر ہونا ہے۔ چین نے جیسے ہی اپنے لیے ایک صحیح اور واضح سیاسی ڈھانچہ منتخب کیا اور اپنے اداروں اور کاروباری لین دین میں شفافیت کو فروغ دیا، تب سے چین کچھ ہی دہائیوں میں ترقی کی منازل طے کرچکا ہے۔
ان حقائق کو سامنے رکھ کر سوچیے کہ کیا ہم خود کو بدلے بغیر اچانک سے ملکی ترقی اور ایک آسودہ قوم بننے کی توقع رکھیں؟ کیا اس طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہم عالمی برادری میں عزت و وقار حاصل کرسکتے ہیں؟ کیا ہمارے اندرونی سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل ہمارے بیرونی تنازعات اور مسائل میں اضافے کا باعث نہیں بنتے رہیں گے؟
یقینی طور پر چین اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک ہمارے لیے بہترین مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چین نے ماضی قریب میں نظم و ضبط، قانون کی حکمرانی اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے دنیا کو محو حیرت کردیا۔ اس طرح کا نظم و ضبط، قانون کی حکمرانی اور مہذب معاشرے کی تشکیل سے ہم بھی عالمی افق پر ابھر سکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر ہمیں اس طرح کی کوئی مشق کرنی ہوئی تو کئی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ پہلے آلات اور وسائل کی کمی ہوگی اور پھر ہمارے عوام ہی اس طرح کے ٹیسٹ کرانے میں شاید تعاون نہ کریں۔ کیونکہ وہ خود کو چینی عوام کی طرح حکومتی اقدامات پر بھروسہ رکھنے والے اور اپنی ذمے داریاں پوری کرنے والے شہری ثابت نہیں کرسکیں گے۔ ابھی تک ہمارا ایسا کلچر ہی نہیں بن پایا ہے۔ پاکستان اور چین نے ساتھ ساتھ ہی آزادی حاصل کی لیکن دونوں کا موازنہ تو دور کی بات کہ چین اب ایک بھرپور عالمی طاقت بننے کے قریب تر ہے۔
جبکہ ہمارے ملک کی حالت دیکھی جائے تو ہم ہر طرف سے معاشی، سیاسی اور سماجی مسائل کے گرداب میں گھرے ہوئے ہیں۔ روپے کی گرتی ہوئی قیمت ہو، بیرونی قرضوں کا بوجھ ہو یا مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی۔ ہماری معاشی حالت سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ سیاسی لحاظ سے ملک میں استحکام آتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ملک میں مافیاز کا راج ہے۔ آٹے کا بحران ٹلتا نہیں کہ مارکیٹ سے چینی غائب ہوجاتی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرنے سے یہاں تیل سستا کیا گیا تو پٹرول پمپ مالکان نے تیل ذخیرہ کرکے کم نرخ پر بیچنا ہی بند کردیا اور عوام کو ایک اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
کیا چین جیسے ملک میں اس طرح کی ذخیرہ اندوزی کا تصوربھی کیا جاسکتا ہے؟ جبکہ ہمارے ملک میں عملی طور پر ان مافیاز ہی کی حکومت ہے۔ یقینی طور پر یہی مافیاز ان سیاسی جماعتوں کے کرتا دھرتا ہیں اور یہ ہر ایک حکومت میں لازمی شامل رہتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر کوئی بھی حکومت آزادانہ طور پر اپنی پالیسی چلانے میں کامیاب نہیں ہوپاتی۔ جب تک ان مافیاز سے نجات نہیں ملتی، پاکستان کی معاشی ترقی کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔
چین نے گزشتہ کچھ عرصے میں ٹیکنالوجی اور ایجادات میں جو ترقی کی ہے اس کا سبب نہ صرف ان کی حکومتی پالیسیوں کا تسلسل ہے بلکہ بحیثیت قوم انہوں نے ایک نظام مرتب کرنے میں اپنی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ کچھ مہینے پہلے میڈیا پر یہ خبریں ہم سب کو حیران تو بہت کرگئیں کہ چین نے کورونا وائرس کے مریضوں کےلیے محض 7 دن میں اسپتال بناکر تیز ترین تعمیر کا عالمی ریکارڈ بنا ڈالا۔ 1500 کارکنوں کی مدد سے محض 9 گھنٹوں میں ایک ریلوے اسٹیشن مکمل کیا گیا۔ ایک چینی تعمیراتی فرم نے 57 منزلہ عمارت کی تعمیر صرف 19 دنوں میں مکمل کی۔ اس طرح کے اور بے شمار حیران کن حقائق ہیں جو چین کو بطور قوم عالمی برادری میں ممتاز کرتے ہیں۔ جبکہ ہم کرپشن، رشوت ستانی، ملاوٹ، گراں فروشی، چوری، قتل و غارت گری اور لڑائی جھگڑوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
سماجی لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے کا شمار کسی بھی طرح مہذب معاشروں میں نہیں ہوسکتا۔ نظم وضبط اور قانون کی حکمرانی کی بات کی جائے تو ہم اتھاہ گہرائیوں میں نظر آتے ہیں۔ موجودہ کورونا وبا کی حالت میں ہمارے عوام کسی قسم کے حکومتی احکامات ماننے کو تیار نہیں۔ لاک ڈاؤن کی پابندی میں چاہے ماسک پہننے یا سماجی دوری کی ہدایات ہوں یا کاروبار بند رکھنے کی پابندی ہو، عوام نے عمل نہ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ مزید یہ کہ حکومت کی طرف سے مستند معلومات و ہدایات کے بجائے سوشل میڈیا پر اتائی نسخوں کی مسلسل تشہیر کی وجہ سے نہ صرف کم تعلیم یافتہ بلکہ تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس تباہ کن وبا سے متاثر ہورہا ہے، بلکہ کورونا کو ایک سازش اور پروپیگنڈہ قرار دے رہا ہے۔ ان ساری بے ضابطگیوں کے نتائج اموات میں اضافہ اور کورونا کے مزید پھیلاؤ کی صورت ہی نکل رہے ہیں جو کہ کسی بھی طور ایک مہذب اور ترقی پسند معاشرے کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔
سیاسی لحاظ سے اگرچہ چین کو عالمی سطح پر کافی تنقید کا سامنا رہا ہے لیکن اس نے اس کا کم ہی لحاظ کیا ہے اور اپنے ملک کی ترقی اور عوام کے بہبود پر مسلسل توجہ مرکوز رکھی ہے۔ دوسری طرف اگر ہم اپنے ملک کی سیاسی حالت کا اندازہ لگائیں تو زبوں حالی کی کوئی مثال نہیں۔ ملکی ترقی کےلیے مقدم شرط ہمارے اداروں کا مکمل طور پر آزاد ہونا اور عوام میں حقیقی سیاسی شعور کا اجاگر ہونا ہے۔ چین نے جیسے ہی اپنے لیے ایک صحیح اور واضح سیاسی ڈھانچہ منتخب کیا اور اپنے اداروں اور کاروباری لین دین میں شفافیت کو فروغ دیا، تب سے چین کچھ ہی دہائیوں میں ترقی کی منازل طے کرچکا ہے۔
ان حقائق کو سامنے رکھ کر سوچیے کہ کیا ہم خود کو بدلے بغیر اچانک سے ملکی ترقی اور ایک آسودہ قوم بننے کی توقع رکھیں؟ کیا اس طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہم عالمی برادری میں عزت و وقار حاصل کرسکتے ہیں؟ کیا ہمارے اندرونی سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل ہمارے بیرونی تنازعات اور مسائل میں اضافے کا باعث نہیں بنتے رہیں گے؟
یقینی طور پر چین اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک ہمارے لیے بہترین مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چین نے ماضی قریب میں نظم و ضبط، قانون کی حکمرانی اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے دنیا کو محو حیرت کردیا۔ اس طرح کا نظم و ضبط، قانون کی حکمرانی اور مہذب معاشرے کی تشکیل سے ہم بھی عالمی افق پر ابھر سکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔