امریکا کی داداگیری
پہلا مسئلہ نہیں ہے جس میں امریکا جابرانہ کردارادا کررہا ہے بلکہ اس قسم کے رویوں کی امریکی خارجہ سیاست میں بھرمار ہے
امریکا نے دھمکی دی ہے کہ وہ عالمی فوجداری عدالت کو اسرائیل کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت نہیں دے گا۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے امریکن انٹرپرائز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم عالمی فوجداری عدالت کو اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ امریکا چند روز میں عالمی فوجداری عدالت کو اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات سے باز رکھنے کی کوشش کرے گا اور اس کا اعلان بھی کرے گا۔
عالمی فوجداری عدالت نے ایک ماہ قبل یہ اعلان بھی کیا تھا کہ یہ عدالت اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کی صلاحیت بھی رکھتی ہے یا نہیں۔ اس اعلان کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکا سے اپیل کی تھی کہ وہ عالمی فوجداری عدالت کو اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات سے روکے۔ عالمی عدالت کے جج رچرڈ گولڈ اسٹون نے 2008 کے بعد جنگی جرائم کے معاملات میں اسرائیل کے خلاف تحقیقات انجام دی تھیں۔
اقوام متحدہ نے 2008 میں غزہ کے فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی 22 روزہ جارحیت کے بعد رچرڈ گولڈ اسٹون کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی جس کا مقصد اسرائیل کے جنگی جرائم کے بارے میں رپورٹ تیار کرنا تھا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ اسرائیلی ریاست کے زیر تسلط بننے والے ایک غاصب نظام میں پھنس چکے ہیں جہاں اسرائیل ان کے بنیادی حقوق کو پامال کر رہا ہے، فلسطینیوں کو ادنیٰ درجے کے حقوق بھی حاصل نہیں۔
یہ پہلا مسئلہ نہیں ہے جس میں امریکا جابرانہ کردار ادا کر رہا ہے بلکہ اس قسم کے جابرانہ رویوں کی امریکی خارجہ سیاست میں بھرمار ہے۔ ایمنسٹی تنظیم سمیت کئی عالمی تنظیمیں امریکا کے جابرانہ رویے کے سخت خلاف ہیں۔ عالمی عدالت کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر کوئی ایک ملک دوسرے ملک کے خلاف زیادتی اور ناانصافی کا ارتکاب کرتا ہے تو ان عالمی اداروں کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس ہٹ دھرمائی رویے کے خلاف ہم آواز ہوکراحتجاج کریں، لیکن ان ملکوں میں معاشی مفادات کی زنجیریں پڑی ہوتی ہیں جو انھیں امریکا کے جارحانہ رویوں کے خلاف زبان کھولنے کی اجازت نہیں دیتیں۔
مسئلہ صرف عالمی عدالت انصاف پر حکم چلانے کا ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی عالمی مسائل میں امریکا کی بالادستی کا ہے۔ مثال کے طور پر فلسطینی مسئلے کو لے لیں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے مسئلہ فلسطین کو اپنے باپ کی جاگیر بنا رکھا ہے ،یہ مسئلہ اس لیے پیدا ہوا کہ ہٹلر نے جب یہودیوں کے خلاف سخت اقدامات شروع کیے تو جہاں ہزاروں یہودی ہٹلر کے مظالم کا شکار ہوئے، وہیں ہزاروں یہودی دنیا کے مختلف ممالک میں چلے گئے، دوسری عالمی جنگ کے بعد جب سازشی ملکوں نے اسرائیل قائم کیا تو دنیا بھر کے یہودیوں نے اسرائیل میں آکر اسے اپنا ملک بنا لیا۔
اسرائیل فلسطینیوں کی لاشوں اور ان کی بے وطنی کے ملبے پر قائم ہوا۔ جب اسرائیلیوں کو ایک وطن مل گیا تو سب سے پہلے انھوں نے فلسطینیوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ فلسطینی صدیوں سے فلسطین میں رہتے تھے کیونکہ فلسطین ان کا ملک تھا۔ لیکن ظالم یہودیوں نے ان کا اتنا برا حشر کیا کہ وہ دنیا کے کئی ملکوں میں پناہ گزین بن گئے یعنی دربدر ہوگئے۔ یہ انصاف کا تقاضا ہی نہیں فلسطینیوں کا حق ہے کہ انھیں رہنے کے لیے ایک ملک دیا جائے۔ اسرائیلی قیادت نے غزہ کی پٹی کو فلسطینیوں کی رہائش گاہ بنایا حالانکہ فلسطینیوں کا یہ حق تھا کہ وہ اپنے آبائی ملک فلسطین میں آباد ہوں۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ میں قراردادیں پاس ہوتی رہیں لیکن جابر وظالم امریکا نے ان قراردادوں کو کاغذ کے پرزوں کی طرح پھاڑ کر پھینک دیا۔ یہی حال مسئلہ کشمیر کا کیا گیا بھارت نے کشمیر پر زبردستی قبضہ کرلیا۔ اس مسئلے پر بھی اقوام متحدہ نے رائے شماری کی قراردادیں پاس کیں لیکن جس طرح اسرائیل فلسطینیوں کے حقوق کی اقوام متحدہ میں پاس کی گئی قراردادوں کا حشر کرتا رہا بھارت نے بھی وہی کیا اور یہ ظلم اس لیے ہو رہا ہے کہ انصاف کے عالمی اداروں کو طاقتور ملکوں نے جوتے کی نوک پر رکھا ہے اور اس کے پیچھے امریکی حکمرانوں کی قوت ہے۔
برطانیہ، امریکا کا حامی اور دوست ہے۔ ہانگ کانگ چین کا حصہ رہا ہے، ایک زمانے سے ہانگ کانگ کو چین کا حصہ سمجھا جاتا ہے، اب برطانوی وزیر خارجہ فرما رہے ہیں کہ ہانگ کانگ کی آزادی کا احترام کیا جائے، ان کا مخاطب چین ہے ۔اس حوالے سے امریکا کی حمایت کے ساتھ برطانیہ ہانگ کانگ میں مداخلت کی تیاری کر رہا ہے لیکن چین نہ فلسطین ہے نہ کشمیر۔ چین نے خبردار کیا ہے کہ برطانیہ ہانگ کانگ میں مداخلت سے باز رہے۔ یہ وارننگ کسی عام ملک کی نہیں، دنیا کے آبادی کے حوالے سے سب سے بڑے ملک کی ہے۔
عالمی عدالت انصاف دنیا کا ایک بڑا اور قابل احترام ادارہ ہے، یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ امریکا بہادر کہہ رہا ہے کہ ''عالمی عدالت کو اسرائیل پر مقدمے کی اجازت نہیں دیں گے۔'' اگر انصاف کے عالمی ادارے عالمی امریکا کی دھونس میں آکر انصاف کے تقاضوں سے گریز کریں تو دنیا میں انصاف کا کیا حشر ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ اور اس قسم کی ساری پالیسیاں امریکا کی حمایت کی وجہ کی جا رہی ہیں۔ اسرائیل ایک ناجائز ملک ہے اور امریکا بہادر فرما رہا ہے کہ ہم عالمی عدالت کو اسرائیل پر مقدمے کی اجازت نہیں دیں گے۔ کیا اس جارحیت کو روکنے والا کوئی ہے؟