گھبرائیں کیا
یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ ہر تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں
یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ ہر تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ ایک روشن اور دوسرا تاریک ۔ چنانچہ اس کا اطلاق بیسویں صدی کے صنعتی انقلاب پر بھی ہوتا ہے جو سب سے پہلے انگلستان، پھر دنیا کے دیگر ممالک میں برپا ہوا۔ اس انقلاب نے مادّی ترقی کے لحاظ سے دنیا کی کایا پلٹ دی جس نے سب کو انگشت بہ دنداں اور شاعر کو برجستہ یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ :
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محوِحیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
اسی صنعتی انقلاب نے برسوں پرانے معاشرتی ڈھانچے کی چولیں ہلا کر انمول سماجی اور اخلاقی اقدار کو ملیامیٹ کر کے مادّہ پرستی کے ناقابلِ علاج متعدی مرض میں ہمیشہ کے لیے مبتلا کر دیا جس کی وجہ سے دل کا چین چھن گیا اور ذہن کا سکون غارت ہوگیا۔ مشینوں کی بالا دستی نے انسان کو بھی مشین کا کل پرزہ بنا دیا اور مجبوراً اسے یہ تلخ اعتراف کرنا پڑا کہ :
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
قدیم معاشرتی اقدار کی صنعتی انقلاب کے ہاتھوں ہونے والی پامالی سے دل برداشتہ ہوکر عظیم انگریزی شاعر اولیورگولڈ اسمتھ(Oliver Goldsmith ) نے اپنی شاہکار طویل نظم '' ڈیزرٹیڈویلج'' (The Deserted Village ) تخلیق کی جو صنعتی انقلاب کے ہاتھوں اقدار پرَوَر قدیم و سادہ طرزِ زندگی کی تباہی و بربادی کا دل سوز منظر نامہ ہے ۔
مادّی ترقی نے انسان کو حرص و طمع کی ایک اندھی اور کبھی نہ ختم ہونے والی دوڑ میں شامل کر کے چکر گِھنّی بنا دیا ہے جس سے گھبرا کر اسے اب گوشہء سکون کی تلاش ہے ۔ انگریزی زبان کے مشہور شاعر ولیئم ورڈز وَرتھ کی نظم '' The World Is Too Much With Us '' اور ڈبلیو۔ ایچ۔ ڈے ویز کی نظم ''Leisure '' مادّی زندگی سے اُکتا کر سکون کی تلاش سے عبارت ہے۔ اسی کیفیت نے علامہ اقبال سے '' اک آرزو'' جیسی نظم تحریر کروا دی جس میں انھیں یہ کہنا پڑا کہ:
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میر ا
ایسا سکوت جس پر تقدیر بھی فدا ہو
باور ہو کہ اقبال نہ تو آدم بیزار تھے اور نہ کپِل وَستُو کے شہزادے سدّھارتھ جو ترکِ نِروان کی تلاش میں راج پاٹ چھوڑ کر جنگل بیا بان کی طرف نکل گیا اور بیراگی بن کر گوتَم بُدھ کے نام سے مشہور ہوا۔ اگر چہ مرزا غالبؔ بھی دنیا داراور بادہ خوار قسم کے انسان تھے مگر دنیا کے بکھیڑوں سے تنگ اور عاجز آکر انھیں بھی بالآخر یہی کہنا پڑا کہ :
رہیئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
''جیسی جس کے گمان میں آئی ''کے مصداق کسی شاعر نے اپنے انداز میں اس قسم کی کیفیت کو یوں بیان کیاہے :
دل ڈھونڈ تا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصوّرِ جاناںکیے ہوئے
گستاخی معاف اگر شعر کے دوسرے مصرعہ میں لفظ '' بیٹھے'' کو '' لیٹے '' سے تبدیل کر دیا جائے تو آرام طلبی کے تقاضے کے لحاظ سے زیادہ موزوں ہوگا اور تکلف کی زحمت اٹھانے میں بھی کمی واقع ہوگی۔ اس کے علاوہ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے استاد ِ گرامی شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ کی روح بھی خوش ہوجائے گی کہ بقول ان کے :
اے ذوقؔ تکلّف میں ہے تکلیف سرا سر
آرام سے ہیں وہ جو تکلّف نہیں کرتے
بھلا ہوکورونا وائرس کا کہ جس نے لوگوں کو کمر کس کھول کر جبری آرام کا بہانہ فراہم کردیا ورنہ ان کی مشینی زندگی میں آرام حرام تھا۔ اس اعتبار سے کورونا کا عفریت ایک خیرِ مستور (Blessing in disguise ) ثابت ہوا ہے ۔ کام کے حوالے سے بھگت کبیر کے درج ذیل دوہے میں نصیحت کی گئی ہے کہ آج کا کام کل پر نہ ٹال کیونکہ فرشتہ اجل نجانے کب اچانک آکر دبوچ لے اور کام ادھورا پڑا رہ جائے ۔ کبیر داس کا مذکورہ دوہا یوں ہے :
کل کر ے سو آج کر ، آج کر ے سو اب
پل میں پرلَے ہوئے گی بہوری کرے گا کب
ترجمہ : جو کام تجھے کل کرنا ہے اسے آج ہی کر لے اور جو کام آج کرنے کا ہے وہ ابھی مکمل کرکے فارغ ہو جا کیونکہ پل بھر کا بھی کوئی پھروسہ نہیں، نہ جانے کب قیامت نازل ہوجائے۔ بھگت کبیر کے مندرجہ بالا دوہے کی ہم نے جو پیروڈی کی ہے بلکہ جو درگت بنائی ہے اب آپ ذرا وہ ملاحظہ فرمائیے:
آج کرے سو کال کر ، کال کرے سو پرَسوں
اتنی جلدی کا ہے کی تجھے جینا ہے ابھی برسوں
مادّہ پرستی اور زیادہ سے زیادہ مال و دولت کمانے کی ہوس نے انسان کو کولہو کا بیل بنا دیا ہے ۔ اس نرغے نے اسے نہ دین کا رہنے دیا ہے نہ دنیا کا بقول ِ شاعر:
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
کثرت ِ کار نے اشرف المخلوقات کو دھوبی کا کُتّا بنا ڈالا ہے جو نہ تو گھر کا ہے اور گھاٹ کا ۔ درویش شاعر نظیرؔ اکبر آبادی نے برسوں پہلے با آواز ِ بلند یہ نصیحت کی تھی کہ :
ٹُک حرص و ہوس کو چھوڑ میاں ، مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لُوٹے ہے دن رات بجا کر نقاّرہ
لیکن افسوس کہ دولت کے پجاریوں کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی۔ یوں کہنے کو تو ہم سب انسان ہیں مگر ہماری چال بھیڑوں والی ہے ۔
عصرِ حاضر میں مصروفیت و بالِ جان بن چکی ہے۔ یہ کورونا کی طرح جان کا روگ بن کر ہماری معاشرتی زندگی پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ ہمارے پاس اپنے گھر والوں کے ساتھ مل بیٹھنے تک کا بھی وقت نہیں ہے ۔ شاعر چونکہ حسا س ہوتا ہے اس لیے بعض اوقات وہ آنے والے وقت کے قدموں کی آہٹ کو محسوس کر لیتا ہے۔ چنانچہ بھارت کے ایک جانے مانے شاعر ڈاکٹر بشیر ؔ خواہ مخواہ آوارہ گردی کرنے والوں کو بہت عرصہ قبل اپنے منفرد شاعرانہ انداز میں یہ صائب اور مخلصانہ مشورہ دے چکے ہیں کہ :
یونہی بے سبب نہ پھرا کرو
کوئی شام گھر بھی رہا کرو
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے یہاں فاصلے سے ملا کر و
جس وقت بشیر بدر کے یہ اشعار منظر عام پر آکر داد و تحسین پا رہے تھے اس گھڑی کسی کے گوشہء گمان میں بھی یہ خیال نہ آیا ہوگا کہ کبھی کورونا کے جبر کے تحت آداب ِ مجلس بالائے طاق رکھ دیے جائیں گے اور مصافحہ کرنا اور گلے ملنا ممنوع قرار پائیگا اور سماجی فاصلہ بند ی عیب سے ہنر میں تبدیل ہوکر مطلوبہ خوبی اور پسند ید عمل بن جائے گی گویا :
خرد کا نام جنوںرکھ دیا جنو ں کا خرد
جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے
کو ویڈ ۔19 المعروف کورونا کے سماجی اثرات اور مضمرات کے حوالے سے فیض احمد فیضؔ کی خوبصورت نظم بعنوان '' کہاں جاؤ گے '' یک بہ یک ذہن کی اسکرین پر اُبھرکر سامنے آرہی ہے ۔
اس گھڑی اے دل ِ آوارہ کہاں جائے گے
اِس گھڑی کوئی کسی کا بھی نہیں ، رہنے دو
کوئی اِس وقت ملے گا ہی نہیں ، رہنے دو
اور ملے گا بھی تو اِس طور کہ پچھتاؤ گے
اس گھڑی اے دل ِ آوارہ کہا ں جاؤ گے
آج کل ہر جگہ کورونا ہی کا رونا ہے ۔ کورونا ہی سب کا اوڑھنا بچھونا ہے ۔ کورونا بلا امتیاز خواص و عوام ، سب کے اعصاب پر سوار ہے ۔ دریں اثناء عالم ِ تصورمیں اچانگ مرزا غالب ؔ سے سرِ راہ اتفاقیہ ملاقات ہوگئی۔ کورونا کے جبر کے تحت چونکہ ہم دونوں نقاب پوشی کی حالت میں تھے اس لیے ایک دوسرے کو پہنچاننے میں تھوڑی سی دقت پیش آئی ۔ کورونا کے قواعد کی پابندی کی وجہ سے تہذیبی روایات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے ہم دونوں نے مصافحہ اور معانقہ کرنے سے دل پر پتھر رکھ کر گریز کیا ۔
مرزا کے چہرے پر گہرے اطمینان کے آثار دیکھ کر ہم ششدر رہ گئے۔ کھسیانی بلّی کھمبا نوچے والی کہاوت کے مصدا ق جرات مندی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ہم نے مرزاسے حسب رویات مزاج پُرسی کی اور پھر حال احوال دریافت کیا ۔ ہماری توقع کے برخلاف جب انھوں نے کورونا کا کوئی تذکرہ نہ کیاتو ہم نے اُن سے براہ راست یہ سوال کر دیا کہ کورونا کی دہشت گردی اور خوف و ہراس کے بارے میں آپ کیا خیال ہے ؟ ہم نے سوچا تھا کہ وہ اس کا لمبا چوڑا جواب دیں گے ۔لیکن مرزا نے ہماری توقع کے عین برعکس جراٗتِ رندانہ اورکمال بے نیازی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اپنا یہ شعر پڑھا اور غائب ہوگئے ۔
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محوِحیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
اسی صنعتی انقلاب نے برسوں پرانے معاشرتی ڈھانچے کی چولیں ہلا کر انمول سماجی اور اخلاقی اقدار کو ملیامیٹ کر کے مادّہ پرستی کے ناقابلِ علاج متعدی مرض میں ہمیشہ کے لیے مبتلا کر دیا جس کی وجہ سے دل کا چین چھن گیا اور ذہن کا سکون غارت ہوگیا۔ مشینوں کی بالا دستی نے انسان کو بھی مشین کا کل پرزہ بنا دیا اور مجبوراً اسے یہ تلخ اعتراف کرنا پڑا کہ :
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
قدیم معاشرتی اقدار کی صنعتی انقلاب کے ہاتھوں ہونے والی پامالی سے دل برداشتہ ہوکر عظیم انگریزی شاعر اولیورگولڈ اسمتھ(Oliver Goldsmith ) نے اپنی شاہکار طویل نظم '' ڈیزرٹیڈویلج'' (The Deserted Village ) تخلیق کی جو صنعتی انقلاب کے ہاتھوں اقدار پرَوَر قدیم و سادہ طرزِ زندگی کی تباہی و بربادی کا دل سوز منظر نامہ ہے ۔
مادّی ترقی نے انسان کو حرص و طمع کی ایک اندھی اور کبھی نہ ختم ہونے والی دوڑ میں شامل کر کے چکر گِھنّی بنا دیا ہے جس سے گھبرا کر اسے اب گوشہء سکون کی تلاش ہے ۔ انگریزی زبان کے مشہور شاعر ولیئم ورڈز وَرتھ کی نظم '' The World Is Too Much With Us '' اور ڈبلیو۔ ایچ۔ ڈے ویز کی نظم ''Leisure '' مادّی زندگی سے اُکتا کر سکون کی تلاش سے عبارت ہے۔ اسی کیفیت نے علامہ اقبال سے '' اک آرزو'' جیسی نظم تحریر کروا دی جس میں انھیں یہ کہنا پڑا کہ:
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میر ا
ایسا سکوت جس پر تقدیر بھی فدا ہو
باور ہو کہ اقبال نہ تو آدم بیزار تھے اور نہ کپِل وَستُو کے شہزادے سدّھارتھ جو ترکِ نِروان کی تلاش میں راج پاٹ چھوڑ کر جنگل بیا بان کی طرف نکل گیا اور بیراگی بن کر گوتَم بُدھ کے نام سے مشہور ہوا۔ اگر چہ مرزا غالبؔ بھی دنیا داراور بادہ خوار قسم کے انسان تھے مگر دنیا کے بکھیڑوں سے تنگ اور عاجز آکر انھیں بھی بالآخر یہی کہنا پڑا کہ :
رہیئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
''جیسی جس کے گمان میں آئی ''کے مصداق کسی شاعر نے اپنے انداز میں اس قسم کی کیفیت کو یوں بیان کیاہے :
دل ڈھونڈ تا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصوّرِ جاناںکیے ہوئے
گستاخی معاف اگر شعر کے دوسرے مصرعہ میں لفظ '' بیٹھے'' کو '' لیٹے '' سے تبدیل کر دیا جائے تو آرام طلبی کے تقاضے کے لحاظ سے زیادہ موزوں ہوگا اور تکلف کی زحمت اٹھانے میں بھی کمی واقع ہوگی۔ اس کے علاوہ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے استاد ِ گرامی شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ کی روح بھی خوش ہوجائے گی کہ بقول ان کے :
اے ذوقؔ تکلّف میں ہے تکلیف سرا سر
آرام سے ہیں وہ جو تکلّف نہیں کرتے
بھلا ہوکورونا وائرس کا کہ جس نے لوگوں کو کمر کس کھول کر جبری آرام کا بہانہ فراہم کردیا ورنہ ان کی مشینی زندگی میں آرام حرام تھا۔ اس اعتبار سے کورونا کا عفریت ایک خیرِ مستور (Blessing in disguise ) ثابت ہوا ہے ۔ کام کے حوالے سے بھگت کبیر کے درج ذیل دوہے میں نصیحت کی گئی ہے کہ آج کا کام کل پر نہ ٹال کیونکہ فرشتہ اجل نجانے کب اچانک آکر دبوچ لے اور کام ادھورا پڑا رہ جائے ۔ کبیر داس کا مذکورہ دوہا یوں ہے :
کل کر ے سو آج کر ، آج کر ے سو اب
پل میں پرلَے ہوئے گی بہوری کرے گا کب
ترجمہ : جو کام تجھے کل کرنا ہے اسے آج ہی کر لے اور جو کام آج کرنے کا ہے وہ ابھی مکمل کرکے فارغ ہو جا کیونکہ پل بھر کا بھی کوئی پھروسہ نہیں، نہ جانے کب قیامت نازل ہوجائے۔ بھگت کبیر کے مندرجہ بالا دوہے کی ہم نے جو پیروڈی کی ہے بلکہ جو درگت بنائی ہے اب آپ ذرا وہ ملاحظہ فرمائیے:
آج کرے سو کال کر ، کال کرے سو پرَسوں
اتنی جلدی کا ہے کی تجھے جینا ہے ابھی برسوں
مادّہ پرستی اور زیادہ سے زیادہ مال و دولت کمانے کی ہوس نے انسان کو کولہو کا بیل بنا دیا ہے ۔ اس نرغے نے اسے نہ دین کا رہنے دیا ہے نہ دنیا کا بقول ِ شاعر:
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
کثرت ِ کار نے اشرف المخلوقات کو دھوبی کا کُتّا بنا ڈالا ہے جو نہ تو گھر کا ہے اور گھاٹ کا ۔ درویش شاعر نظیرؔ اکبر آبادی نے برسوں پہلے با آواز ِ بلند یہ نصیحت کی تھی کہ :
ٹُک حرص و ہوس کو چھوڑ میاں ، مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لُوٹے ہے دن رات بجا کر نقاّرہ
لیکن افسوس کہ دولت کے پجاریوں کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی۔ یوں کہنے کو تو ہم سب انسان ہیں مگر ہماری چال بھیڑوں والی ہے ۔
عصرِ حاضر میں مصروفیت و بالِ جان بن چکی ہے۔ یہ کورونا کی طرح جان کا روگ بن کر ہماری معاشرتی زندگی پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ ہمارے پاس اپنے گھر والوں کے ساتھ مل بیٹھنے تک کا بھی وقت نہیں ہے ۔ شاعر چونکہ حسا س ہوتا ہے اس لیے بعض اوقات وہ آنے والے وقت کے قدموں کی آہٹ کو محسوس کر لیتا ہے۔ چنانچہ بھارت کے ایک جانے مانے شاعر ڈاکٹر بشیر ؔ خواہ مخواہ آوارہ گردی کرنے والوں کو بہت عرصہ قبل اپنے منفرد شاعرانہ انداز میں یہ صائب اور مخلصانہ مشورہ دے چکے ہیں کہ :
یونہی بے سبب نہ پھرا کرو
کوئی شام گھر بھی رہا کرو
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے یہاں فاصلے سے ملا کر و
جس وقت بشیر بدر کے یہ اشعار منظر عام پر آکر داد و تحسین پا رہے تھے اس گھڑی کسی کے گوشہء گمان میں بھی یہ خیال نہ آیا ہوگا کہ کبھی کورونا کے جبر کے تحت آداب ِ مجلس بالائے طاق رکھ دیے جائیں گے اور مصافحہ کرنا اور گلے ملنا ممنوع قرار پائیگا اور سماجی فاصلہ بند ی عیب سے ہنر میں تبدیل ہوکر مطلوبہ خوبی اور پسند ید عمل بن جائے گی گویا :
خرد کا نام جنوںرکھ دیا جنو ں کا خرد
جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے
کو ویڈ ۔19 المعروف کورونا کے سماجی اثرات اور مضمرات کے حوالے سے فیض احمد فیضؔ کی خوبصورت نظم بعنوان '' کہاں جاؤ گے '' یک بہ یک ذہن کی اسکرین پر اُبھرکر سامنے آرہی ہے ۔
اس گھڑی اے دل ِ آوارہ کہاں جائے گے
اِس گھڑی کوئی کسی کا بھی نہیں ، رہنے دو
کوئی اِس وقت ملے گا ہی نہیں ، رہنے دو
اور ملے گا بھی تو اِس طور کہ پچھتاؤ گے
اس گھڑی اے دل ِ آوارہ کہا ں جاؤ گے
آج کل ہر جگہ کورونا ہی کا رونا ہے ۔ کورونا ہی سب کا اوڑھنا بچھونا ہے ۔ کورونا بلا امتیاز خواص و عوام ، سب کے اعصاب پر سوار ہے ۔ دریں اثناء عالم ِ تصورمیں اچانگ مرزا غالب ؔ سے سرِ راہ اتفاقیہ ملاقات ہوگئی۔ کورونا کے جبر کے تحت چونکہ ہم دونوں نقاب پوشی کی حالت میں تھے اس لیے ایک دوسرے کو پہنچاننے میں تھوڑی سی دقت پیش آئی ۔ کورونا کے قواعد کی پابندی کی وجہ سے تہذیبی روایات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے ہم دونوں نے مصافحہ اور معانقہ کرنے سے دل پر پتھر رکھ کر گریز کیا ۔
مرزا کے چہرے پر گہرے اطمینان کے آثار دیکھ کر ہم ششدر رہ گئے۔ کھسیانی بلّی کھمبا نوچے والی کہاوت کے مصدا ق جرات مندی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ہم نے مرزاسے حسب رویات مزاج پُرسی کی اور پھر حال احوال دریافت کیا ۔ ہماری توقع کے برخلاف جب انھوں نے کورونا کا کوئی تذکرہ نہ کیاتو ہم نے اُن سے براہ راست یہ سوال کر دیا کہ کورونا کی دہشت گردی اور خوف و ہراس کے بارے میں آپ کیا خیال ہے ؟ ہم نے سوچا تھا کہ وہ اس کا لمبا چوڑا جواب دیں گے ۔لیکن مرزا نے ہماری توقع کے عین برعکس جراٗتِ رندانہ اورکمال بے نیازی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اپنا یہ شعر پڑھا اور غائب ہوگئے ۔
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا