کورونا سائنسی دعوے اور قدرت کے معجزے

مضبوط ’قوت مدافعت‘  کے سبب بہت سے معمر افراد شفایاب ہو رہے ہیں

مضبوط ’قوت مدافعت‘  کے سبب بہت سے معمر افراد شفایاب ہو رہے ہیں ۔ فوٹو : فائل

کوئی زنجیر ہو
آہن کی، چاندی کی،روایت کی
محبت توڑ سکتی ہے!
یہ ایسی ڈھال ہے جس پر
زمانے کی کسی تلوار کا لوہا نہیں چلتا!
یہ ایسا شہر ہے جس میں
کسی آمر، کسی سلطان کا سکہ نہیں چلتا!
اگر چشمِ تماشا میں ذرا سی بھی ملاوٹ ہو
یہ آئینہ نہیں چلتا!
یہ ایسی آگ ہے جس میں
بدن شعلوں میں جلتے ہیں تو رْوحیں مسکراتی ہیں
یہ وہ سیلاب ہے جس کو
دلوں کی بستیاں آواز دے کر خود بلاتی ہیں
یہ جب چاہے کسی بھی خواب کی تعبیر مل جائے
جو منظر بجھ چْکے ہیں ان کو بھی تنویر مل جائے
دعا، جو بے ٹھکانہ تھی، اسے تاثیر مل جائے
کسی رستے میں رستہ پوچھتی تقدیر مل جائے
محبت روک سکتی ہے سمے کے تیز دھارے کو!
کسی جلتے شرارے کو، فنا کے استعارے کو!
محبت روک سکتی ہے، کسی گرتے ستارے کو!
یہ چَکنا چور آئینے کے ریزے جوڑ سکتی ہے
جدھر چاہے یہ باگیں موسموں کی موڑ سکتی ہے
کوئی زنجیر ہو، اس کو محبت توڑ سکتی ہے

محبت کی کئی تعریفیں ہیں اور سیکڑوں داستانیں ہیں، لیکن معروف شاعر امجد اسلام امجد نے 'محبت ' کا تعارف جس طرح اس نظم میں کرایا ہے گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ اس محبت نامے کی یاد ہمیں اس لیے آئی کہ کورونا وائرس کو شکست دینے کے لیے ویکسین کی سر دست دست یابی نہ ہونے کے باوجود ''محبت'' نے اس عفریت کو شکست کی دھول چٹا دی ہے۔

اٹلی میں کورونا وائرس میں مبتلا جوڑے 73 سالہ جیانکارلو اور 71 سالہ ساندرا نے وینٹی لیٹر پر اپنی شادی کی 50 ویں سال گرہ منائی۔ دونوں کو سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا تھا اور وینٹی لیٹر پر ہونے کے باوجود یہ تکلیف کسی طور کم نہ ہو پا رہی تھی۔ اسی دوران اْن کی سال گرہ کا دن آگیا۔

طبی عملے نے معمر جوڑے کی توانا محبت کو دیکھا، تو شادی کی پچاس ویں سال گرہ کی مختصر سی تقریب انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منعقد کی۔ دونوں کے بستر قریب تھے اور چت پڑے ہوئے بھی، جھریوں بھرے ہاتھوں سے ایک دوسرے کو تھامے ہوئے تھے۔ کیک لایا گیا، دونوں نے بستر پر لیٹے لیٹے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کیک کاٹا۔ کانپتے ہاتھوں کو ایک دوسرے کے سہارے کی اشد ضرورت تھی۔

معمر جوڑے نے اپنی محبت کے بل بوتے پر سال گرہ کے چار دن بعد کورونا کو شکست دے دی اور اب یہ جوڑا گھر میں نارمل زندگی بسر کر رہا ہے۔ کورونا وائرس کو شکست دینے والے اسی طرح معمر مریضوں کی طویل فہرست نے سائنسی دعوے اور شماریاتی اندازوں کو 'چکرا' کر رکھ دیا ہے۔

کورونا وائرس کی رونمائی چین کے شہر ووہان میں گزشتہ برس ستمبر یا اکتوبر میں ہوئی، تاہم اس کی ساخت، کیمیائی مطالعے اور بیش تر معلومات جنوری کے آخر تک مل سکیں اور تاحال نت نئی باتوں کا انکشاف ہو رہا ہے اور اب بھی بہت سے سوالات حل طلب ہیں۔ کورونا سے ہونے والی بیماری کو کوویڈ 19 (COvid 19) کا نام دیا گیا ہے، جس میں 'سی او' سے مراد کورونا، 'وی آئی' سے وائرس اور 'ڈی' سے مراد 'ڈیزیز' یعنی بیماری ہے۔


سائنس دانوں نے اب تک حاصل ہونے والی معلومات کی بنا پر دعویٰ کیا ہے کہ کورونا وائرس سب سے زیادہ معمر افراد کے لیے ہلاکت خیز ہے، کووڈ 19 سے زیادہ تر ہلاک ہونے والوں میں 60 سال سے زیادہ عمر والے افراد شامل ہیں اور یہ کہ یہ وائرس بچوں یا نوجوانوں کے لیے اتنا خطرناک نہیں۔

کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد دنیا بھر میں تین لاکھ 80 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، جب کہ اس مہلک وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 65 لاکھ ہو گئی ہے۔ سائنسی جریدے لینسٹ میں شائع ہونے والے مقالے میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کا ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ سب سے زیادہ ہلاکتیں 80 سال سے زائد عمر والوں کی ہیں جو کہ 13.4 فی صد ہیں۔ اسی طرح 70 سے 79 سال کی عمر والوں کا تناسب 8.6 اور 60 سے 69 عمر والوں کا تناسب 4 فی صد ہے جب کہ 40 سے 50 سال تک کی عمر والوں کی شرح 1.25 فی صد اور 40 سے کم عمر والوں میں صرف 0.3 فی صد ہے۔

سائنس دان کورونا وائرس سے معمر افراد کے ہلاک ہونے کی وجہ 'امیون سسٹم' کے کمزور ہونے یا پہلے سے ہی کسی دوسری بیماری جیسے ذیابیطس، امراض قلب، گردوں اور پھپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلا ہونا بتاتے ہیں۔ کورونا وائرس خون میں لوتھڑے بنانے کا سبب بھی بن سکتا ہے، جس سے دل کا دورہ، فالج یا فوری طور پر گردے ناکارہ ہونے کا خدشہ بھی رہتا ہے اور لواحقین کو لگتا ہے کہ ان کے پیارے کورونا سے نہیں، بلکہ ان بیماریوں کی وجہ سے جہان فانی سے کوچ کر گئے۔

ماہرین طب کے لیے یہ بات بھی پریشانی کا باعث ہے کہ ہلاک ہونے مریض یا ایسے افراد جن میں کورونا کی تصدیق ہوگئی ہے سے زیادہ اس وبا کو پھیلانے کے ذمہ دار ایسے طاقت وَر امیون سسٹم کے حامل لوگ ہیں، جن میں کورونا وائرس تو موجود ہوتا ہے لیکن کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ ایسے مریضوں کو ' اے سمٹومیٹک' کہا جاتا ہے، کیوں کہ ان افراد میں کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی، اس لیے یہ زیادہ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے اور نہ ہی طبی عملے کو ایسے افراد پر مریض ہونے کا شک گزرتا ہے۔

بنا علامت اور نہایت رازداری سے '' اے سمٹومیٹک مریض'' وائرس کو اپنے جسم میں لیے گھومتے رہتے ہیں اور دوسروں میں کورونا وائرس کی منتقلی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے سنگاپور میں کی گئی 'بی بی سی' کے سائنسی صحافی ڈیوڈ سکمین کی تحقیق قابل ستائش ہے، جس میں انہوں نے بتایا کہ سنگاپور میں کووڈ 19 کے مریضوں کے سامنے آنے پر اس کے ماخذ کی کیسے کھوج کی گئی۔

تحقیق سے پتا چلا کہ 19 جنوری کو 'گرجا گھر' میں ہونے والی ایک تقریب میں ووہان سے آنے والے ایک جوڑے نے شرکت کی، جو اْس وقت صحت مند تھے اور دونوں میں کورونا کی کوئی ایک بھی علامت نہیں تھی، تاہم 22 جنوری کو دونوں کی طبیعت بگڑ گئی اور انہیں اسپتال منتقل کرنا پڑا۔ جہاں ان کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا، علاوہ ازیں دو اور ایسے افراد میں بھی کورونا کی تصدیق ہوئی، جو 'گرجے' کی اسی تقریب میں شریک تھے اور ممکنہ طور پر چینی جوڑے کی وجہ سے انفیکشن زدہ ہوئے۔

دریں اثنا ایک اور 52 سالہ مقامی خاتون میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی، خاتون نے بتایا کہ وہ بھی 19 جنوری کو 'گرجا گھر' گئی تھیں، تاہم وہ اس تقریب میں شریک میں نہیں تھی، جس میں ووہان سے آنے والا چینی جوڑا بھی موجود تھا، تو پھر اس خاتون کو یہ وائرس کیسے لگا؟ اس سوال کی کھوج میں چرچ کے 'سی سی ٹی وی' کیمروں کی مدد لی گئی، تو پتا چلا کہ خاتون اسی چرچ میں دوسری تقریب میں شریک تھیں اور ٹھیک اسی نشست پر براجمان تھیں، جہاں چند گھنٹے قبل چینی جوڑا بیٹھا ہوا تھا۔

اس تحقیق سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وائرس صرف کھانسنے یا چھینکنے سے ہی نہیں پھیلتا کیوں کہ چینی جوڑے میں جب یہ علامتیں ظاہر بھی نہیں ہوئی تھیں، اس دوران بھی وہ تین لوگوں میں وائرس پھیلانے کا سبب بنے۔ یہ ایک اور ایسا انکشاف تھا جس نے سائنس اور طب میں کئی اور سوالات کو جنم دے دیا تھا سب سے بڑا سوال تو یہی تھا کہ اس مہلک وائرس کی پُراسرایت یوں ہی برقرار رہی تو ناکافی معلومات اور تیزی سے بدلتے رجحانات کو جانے بنا اتنی بڑی آفت کا مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے۔

اس کا سادہ سا جواب 'قدرت' ہے۔

ڈائمنڈ پرنسس نامی بحری جہاز 20 جنوری کو جاپان سے چین، ویت نام اور تائیوان جانے کے لیے 14 دن کے دورے پر روانہ ہوا تھا، دیوقامت بحری جہاز میں 3 ہزار 711 افراد موجود تھے۔ کورونا وائرس وبا کی وجہ سے چین نے بحری جہاز کو اپنی حدود میں داخل ہونے سے روک دیا اور واپس جاپان بھیج دیا، جہاں وہ 14 روز تک 'قرنطینہ' میں رہا۔ اس دوران طبی عملہ جہاز میں سوار افراد کا کورونا ٹیسٹ کرتا رہا۔

ٹیسٹ کے نتائج حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ عجیب بھی تھے، 712 ایسے افراد میں ٹیسٹ مثبت آیا، جن میں علامات موجود تھیں جب کہ 410 افراد ایسے تھے، جن میں ٹیسٹ مثبت آنے تک علامات ظاہر نہیں تھیں، اسی طرح 331 ایسے افراد تھے، جن میں ٹیسٹ تو مثبت آیا، لیکن ان میں علامات ظاہر نہیں ہوئیں، جب کہ 40 افراد کو انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کرنا پڑا تھا۔

حاصل یہ رہا کہ کروز شپ میں موجود 3117 افراد میں سے صرف ایک ہزار 493 کو کورونا وائرس نے متاثر کیا اور ان میں سے بھی صرف 40 کی حالت اتنی بگڑی کہ 'آئی سی یو' میں رکھنا پڑا، باقی افراد 'قرنطینہ' کے دوران خود ہی روبہ صحت ہوگئے اور صرف 12 افراد اپنی جان سے گئے۔ اگر اس کروز شپ کو دنیا سمجھ لیا جائے اور اس میں موجود افراد کو کْل آبادی ، تو یہ اعداد و شمار کافی حوصلہ افزا دکھائی دیتے ہیں۔

قدرت نے اپنی جھلک اس ایک واقعے میں ہی نہیں دکھائی بلکہ کئی اور ایسے واقعات ہیں، جنہیں حضرت انسان کو قدرت کی جانب سے ' ویکنگ کال' کہا جا سکتا ہے۔ جو دل برداشتہ اور حوصلہ شکن انسان میں یقین کی طاقت بھر دیتے ہیں اور وبا سے لڑنے کی ہمت پیدا کرتے ہیں۔ یہ وہ ''اعداد و شمار'' ہیں جنہوں نے سانس دانوں کو ہکا بکا کردیا ہے اور سائنسی تھیوریز کو غلط ثابت کردیا ہے۔

ابتدا میں ہی ہم اٹلی کے معمر جوڑے کی کورونا سے فتح کی داستان بیان کرچکے ہیں اور اب تک ایسے درجنوں کیس سامنے آچکے ہیں جس میں 100 سے سال زائد عمر کے مرد اور خواتین نے کورونا وائرس کو شکست دی ہے۔ محتاط اعداد وشمار کے مطابق سو سال سے اوپر عمر کے حامل صحت یاب مریضوں کی تعداد 50 کے لگ بھگ ہے، جب کہ 60 سال سے 100 سال کے درمیان شفایاب مریضوں کی تعداد 5 ہزار تک ہے۔

اب تک سب سے زیادہ عمر رسیدہ مریض جس نے کورونا وائرس کو دھول چٹائی، اسپین کی 113 سالہ خاتون ماریہ برانیاس ہیں۔ 1907 میں پیدا ہونے والی اس خاتون نے کورونا کو کسی اسپتال میں طبی عملے کے سہارے نہیں، بلکہ گھر میں قرنطینہ ہوکر شکست دی۔ جب ان میں ٹیسٹ آیا تو صرف چند علامتیں ہی موجود تھیں، جن کا ''سمٹومیٹک'' علاج جیسے پیناڈول وغیرہ سے کیا گیا۔ اٹلی میں سو سال زائد عمر والے شفایاب مریضوں کی تعداد سات ہے۔

ترکی میں 107 سالہ خاتون اور 93 سالہ کسان نے کورونا وائرس کے شکار مریضوں نے زندگی کی جنگ بڑی بہادری سے جیتی۔ چین میں 100 سے زائد عمر والے 5 مریضوں نے بھی یہ حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا، وہاں بھی سب سے طویل العمر شفایاب مریضہ 103 سالہ خاتون ہی تھیں۔ ایران میں 106 سالہ مرد اور 103 سالہ خاتون نے کورونا سے صحت یابی پا کر سب کو حیران کر دیا۔ ایران میں سو سے زیادہ عمر والے شفایاب مریضوں کی تعداد 4 رہی۔

امریکا، برطانیہ، ہالینڈ سمیت دیگر ممالک میں بھی عمر رسیدہ افراد کے شفایاب ہونے اور بالخصوص کسی ہنگامی طبی امداد کے بغیر صحت یابی پر سائنس دان سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ پھپھڑوں کے امراض اور انتہائی پیچیدہ امراض کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر کینیتھ لین کیو معمر افراد کی کورونا وائرس میں صحت یابی کو حیران کن، مگر خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کو قدرت کے کرشمے کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ کچھ چیزیں عقل سے ماورا ہوتی ہیں۔

ان حقائق کے بعد اس جدید سائنسی دور میں بھی روحانیت کا انکار ممکن نہیں، خدائے وحدہ لاشریک پر کامل یقین رکھنے اور ایمان کی طاقت سے مالا مال افراد کا 'امیون سسٹم' مضبوط ہوتا ہے، جو انہیں کسی بھی بیماری سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کورونا وائرس میں مبتلا افراد کی صحت یابی میں ایک یہ عنصر بھی شامل رہا ہے، اس لیے مایوس ہونے کے بہ جائے دوا کے ساتھ دعا اور ایمان کے ساتھ امیون کو مضبوط تر بنائیں۔ میل جول میں فاصلہ رکھیں، باہر نکلتے وقت ہمیشہ ماسک پہنیں، بار بار ہاتھ کو صابن سے دھوئیں اور غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نہ نکلیں۔ ممکن ہے آپ میں وائرس موجود ہو اور علامات ظاہر نہ ہوں، لیکن کسی دوسرے کو منتقل کرکے آپ کسی اور کی زندگی سے کھیلنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
Load Next Story