گزشتہ چند ماہ سے یہ خبریں بھی گردش میں ہیں کہ ایسے افراد جن کے جسموں میں ناول کورونا وائرس داخل ہوچکا ہے مگر ان میں ظاہری طور پر اس کوئی علامت موجود نہیں، وہ اس بیماری کو خاموشی سے اور انجانے میں دنیا بھر میں پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔ اب عالمی ادارہ صحت نے اس بات کی تردید کردی ہے۔
واضح رہے کہ ناول کورونا وائرس انسانی جسم میں داخل ہو کر نظام تنفس کو شدید نقصان پہنچاتا ہے اور بالخصوص پھیپھڑوں پر اثر انداز ہو کر سانس لینے میں دشواری پیدا کرتا ہے جس سے انسان کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ تاہم ایسا کم ہی لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اکثر مریضوں میں یہ وائرس اپنی مدت پوری کرنے کے بعد امیون سسٹم کے ہاتھوں ختم ہوجاتا ہے۔
البتہ، کورونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی بڑی تعداد (تقریباً 80 فیصد) ایسی بھی ہے جس میں کورونا وائرس موجود ضرور ہوتا ہے مگر اس کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی اور، کورونا وائرس سے متاثر ہونے سے لے کر اسے شکست دینے تک، متاثرہ شخص کو پتا تک نہیں چلتا کہ اُن میں یہ وائرس موجود تھا۔ ایسے افراد جن میں کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آگیا ہو لیکن علامات ظاہر نہ ہوں، انہیں ''بے علامتی'' (asymptomatic) مریض کہا جاتا ہے۔
اس بارے میں ایک سوال بار بار سر اُٹھا رہا تھا کہ دنیا بھر میں تیزی سے کورونا وائرس کا پھیلاؤ ''بے علامتی مریضوں'' کی وجہ سے ہورہا ہے کیوں کہ خود ان میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں اس لیے دیگر لوگ ان سے میل جول میں نہ تو کوئی احتیاط کرتے ہیں اور نہ ہی طبی عملے کو ان میں کورونا وائرس کی موجودگی کا کوئی شبہ ہوتا ہے۔ لہذا وہ خود بھی اپنا ٹیسٹ نہیں کراتے اور انجانے میں کورونا وائرس کی دوسرے انسانوں میں منتقلی کا باعث بنتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی کورونا وائرس کی تکنیکی ٹیم کی سربراہ ماریہ وین کیروف نے میڈیا بریفنگ میں اس تاثر کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے کئی سوالات سامنے آرہے تھے جن پر ہم نے دنیا بھر سے جمع شدہ اعداد و شمار کا موازنہ کیا تو یہ بات صاف ظاہر ہوگئی کہ بے علامتی مریضوں کا کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ مرض علامت ظاہر ہونے والے مریضوں کے چھینکنے، کھانسنے یا ان کی قربت سے دوسروں میں پھیلا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں : کورونا وائرس: عالمی ادارہ صحت کا ماسک پہننے سے متعلق موقف تبدیل
ماریہ کیروف نے مزید کہا کہ کووڈ 19 کے مریضوں کے انٹرویوز سے بھی پتا چلتا ہے کہ وہ مرض سے قبل جن لوگوں سے ملے تھے، ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو کووڈ 19 کے مریض تھے اور جن میں علامتیں بھی موجود تھیں۔ اسی طرح اسپتالوں میں کام کرنے والا طبی عملہ بھی ایسے مریضوں سے انفیکشن کا شکار ہوا جن میں علامتیں موجود تھیں۔ اس لیے ملکوں اور قوموں کو ایسے لوگوں پر اپنی اولین توجہ مرکوز رکھنا ہوگی جن میں کورونا وائرس یا اس سے ملتی جلتی علامتیں موجود ہوں۔