پنجاب میں اینٹوں کے بھٹوں کی زگ زیگ پر منتقلی تعطل کا شکار
پنجاب بھر میں صرف 7 فیصد بھٹے ہی زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کئے جاسکے ہیں
پنجاب میں فضائی آلودگی کے خاتمے کے لئے اینٹوں کے بھٹے زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل کرنے کے لیے رواں سال دسمبرتک کی ڈیڈلائن دی گئی تھی تاہم ملک میں ہونیوالی غیرمعمولی بارشوں اوراب کورونالاک ڈاؤن کی وجہ سے اینٹوں کے بھٹوں کی زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقلی کاکام روک دیا گیا ہے۔
محکمہ ماحولیات پنجاب کے ڈائریکٹرنسیم الرحمن نے بتایا کہ وزیراعلی پنجاب نے صوبے بھرمیں 31 دسمبر2020 تک صوبے میں موجوداینٹوں کے تمام بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل کرنے کا حکم دیا تھا اوراس حوالےبھٹوں کی مختلف اضلاع میں مرحلہ وار جدیدٹیکنالوجی پرمنتقلی کے لئے شیڈول بھی جاری کیاگیا تھا تاہم کوروناوبا اورلاک ڈاؤن کی وجہ سے بھٹوں کی زگ زیگ پرمنتقلی کے پلان پرعمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔ کورونالاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبارزندگی معطل ہوکررہ گیاہے، بھٹے بھی بند ہوگئے تھے اب جب تعمیراتی شعبے کو کام کی اجازت دی گئی توبھٹے بھی چلیں گے، لیکن اس وقت اینٹوں کے بھٹوں کے حالات بہتر نہیں ہیں، انہیں مجبورنہیں کرنا چاہتے تاہم جیسے ہی لاک ڈاؤن ختم ہوتا ہے اینٹوں کے بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقلی کا کام شروع کردیں گے۔ سموگ سیزن میں ویسے ہی بھٹے بندہوجاتے ہیں توہماری کوشش ہوگی اس عرصے کے دوران زیادہ سےزیادہ بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل کیاجاسکے.
دوسری طرف بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل مہرعبدالحق کہتے ہیں سب سے پہلے اینٹوں کے بھٹوں کو سموگ کی وجہ سے بند کیاگیا، ا سکے بعد بے موسمی بارشوں سے بھٹے بندکرناپڑے، اب لاک ڈاؤن کے دوران کوئلہ نہ ملنے، اینٹوں کی فروخت نہ ہونے اورلیبرکے کام نہ کرنے کی وجہ سے بھٹے بندپڑے ہیں۔پنجاب گورنمنٹ نے نوٹس جاری کیا ہے کہ جون کے دوران لاہورسمیت سات مختلف اضلاع میں موجود بھٹے اگرزگ زیگ پرمنتقل نہ ہوئے توبندکردیئے جائیں گے۔ ان حالات میں بھٹہ مالکان معاشی پریشانی کا شکارہیں جبکہ زگ زیگ پرمنتقل کرنے کے لئے سامان بھی دستیاب نہیں ہے۔
مہرعبدالحق نے کہا کہ حکومت نےبھٹہ مالکان کو زگ زیگ پرمنتقلی کے لئے قرض دینے کا وعدہ کیا تھا جو آج تک پورا نہیں ہوا ہے، احساس پروگرام میں بھی اینٹوں کے بھٹوں اور یہاں کام کرنے والی لیبر کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ ان حالات میں ہم بھٹوں کو زگ زیگ پر منتقل نہیں کرسکتے، حکومت کو مزید مہلت اور وعدے کے مطابق بینکوں سے قرض لے کر دینا ہوگا، ایک بھٹے کی منتقلی پر 2 سے 3 ماہ لگتے ہیں، تمام بھٹوں کی منتقلی پر 3 سے 4 سال لگ سکتے ہیں۔
مہرعبدالحق نے بتایا کہ بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کو خط بھی لکھا گیاتھا مگراس کا کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ پنجاب میں 6 ماہ اینٹوں کے بھٹوں کا کام چلتا ہے جب کہ 6 ماہ موسمی حالات اور اسموگ کی وجہ سے بھٹے بند رہتے ہیں۔ خست سازی سے کئی دوسری صنعتیں وابستہ ہیں، اگر اینٹ سازی بند ہوتی ہے تو دوسرے شعبے بھی بند ہوجائیں گے، تعمیرات کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔ اس وقت بھٹوں پر اینٹیں موجود ہیں لیکن کوئی خریدنے وال انہیں ہے۔ بڑی ہاؤسنگ اسکیمیوں میں تعمیراتی کام بند ہے، وہاں مزدوں کو داخل نہیں ہونے دیا جاتا ہے۔
پھولنگرکے قریب کئی برسوں سے روایتی بھٹہ چلانے والے راناعبدالجبارنے بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں اپنا بھٹہ زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل کیا ہے۔ اس عمل میں میں ان کا 15 سے 20 لاکھ روپے خرچہ آیا ہے کیونکہ ان کے پاس بجلی کا کنکشن پہلے سے ہی موجود تھا اور بھٹہ بھی بنا ہوا تھا۔ انہیں بس پنکھا اور بلور خریدنا پڑا ہے ۔ زگ زیگ ٹیکنالوجی سے بھٹے سے نکلنے والا دھواں سفید ہوگیا ہے جس میں کاربن نہیں ہوتا جبکہ اینٹ کی کوالٹی اور پروڈکشن میں بہتری آئی ہے۔ پہلے روزانہ 20 سے 25 ہزاراینٹ تیار ہوتی تھی تاہم اب 45 سے 50 ہزاراینٹ تیار ہورہی ہے جبکہ اول اینٹوں کی شرح بھی 60، 70 فیصد سے بڑھ کر 90 فیصدتک پہنچ گئی ہے، زگ زیگ ٹیکنالوجی کی وجہ سے کوئلہ اورفیول کے اخراجات میں بھی 30 فیصد تک کمی آئی ہے۔
صوبے میں موجود 11 ہزار بھٹوں میں سےصرف سات فیصد تک بھٹے زگ زیگ پرمنتقل کئے جاسکے ہیں،محکمہ ماحولیات کے مطابق 620 جبکہ بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کے مطابق صوبے بھرمیں 800 کے قریب روایتی بھٹوں کو زگ زیگ پرمنتقل کیاجاچکا ہے۔
محکمہ ماحولیات پنجاب کے ڈائریکٹرنسیم الرحمن نے بتایا کہ وزیراعلی پنجاب نے صوبے بھرمیں 31 دسمبر2020 تک صوبے میں موجوداینٹوں کے تمام بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل کرنے کا حکم دیا تھا اوراس حوالےبھٹوں کی مختلف اضلاع میں مرحلہ وار جدیدٹیکنالوجی پرمنتقلی کے لئے شیڈول بھی جاری کیاگیا تھا تاہم کوروناوبا اورلاک ڈاؤن کی وجہ سے بھٹوں کی زگ زیگ پرمنتقلی کے پلان پرعمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔ کورونالاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبارزندگی معطل ہوکررہ گیاہے، بھٹے بھی بند ہوگئے تھے اب جب تعمیراتی شعبے کو کام کی اجازت دی گئی توبھٹے بھی چلیں گے، لیکن اس وقت اینٹوں کے بھٹوں کے حالات بہتر نہیں ہیں، انہیں مجبورنہیں کرنا چاہتے تاہم جیسے ہی لاک ڈاؤن ختم ہوتا ہے اینٹوں کے بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقلی کا کام شروع کردیں گے۔ سموگ سیزن میں ویسے ہی بھٹے بندہوجاتے ہیں توہماری کوشش ہوگی اس عرصے کے دوران زیادہ سےزیادہ بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل کیاجاسکے.
دوسری طرف بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل مہرعبدالحق کہتے ہیں سب سے پہلے اینٹوں کے بھٹوں کو سموگ کی وجہ سے بند کیاگیا، ا سکے بعد بے موسمی بارشوں سے بھٹے بندکرناپڑے، اب لاک ڈاؤن کے دوران کوئلہ نہ ملنے، اینٹوں کی فروخت نہ ہونے اورلیبرکے کام نہ کرنے کی وجہ سے بھٹے بندپڑے ہیں۔پنجاب گورنمنٹ نے نوٹس جاری کیا ہے کہ جون کے دوران لاہورسمیت سات مختلف اضلاع میں موجود بھٹے اگرزگ زیگ پرمنتقل نہ ہوئے توبندکردیئے جائیں گے۔ ان حالات میں بھٹہ مالکان معاشی پریشانی کا شکارہیں جبکہ زگ زیگ پرمنتقل کرنے کے لئے سامان بھی دستیاب نہیں ہے۔
مہرعبدالحق نے کہا کہ حکومت نےبھٹہ مالکان کو زگ زیگ پرمنتقلی کے لئے قرض دینے کا وعدہ کیا تھا جو آج تک پورا نہیں ہوا ہے، احساس پروگرام میں بھی اینٹوں کے بھٹوں اور یہاں کام کرنے والی لیبر کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ ان حالات میں ہم بھٹوں کو زگ زیگ پر منتقل نہیں کرسکتے، حکومت کو مزید مہلت اور وعدے کے مطابق بینکوں سے قرض لے کر دینا ہوگا، ایک بھٹے کی منتقلی پر 2 سے 3 ماہ لگتے ہیں، تمام بھٹوں کی منتقلی پر 3 سے 4 سال لگ سکتے ہیں۔
مہرعبدالحق نے بتایا کہ بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کو خط بھی لکھا گیاتھا مگراس کا کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ پنجاب میں 6 ماہ اینٹوں کے بھٹوں کا کام چلتا ہے جب کہ 6 ماہ موسمی حالات اور اسموگ کی وجہ سے بھٹے بند رہتے ہیں۔ خست سازی سے کئی دوسری صنعتیں وابستہ ہیں، اگر اینٹ سازی بند ہوتی ہے تو دوسرے شعبے بھی بند ہوجائیں گے، تعمیرات کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔ اس وقت بھٹوں پر اینٹیں موجود ہیں لیکن کوئی خریدنے وال انہیں ہے۔ بڑی ہاؤسنگ اسکیمیوں میں تعمیراتی کام بند ہے، وہاں مزدوں کو داخل نہیں ہونے دیا جاتا ہے۔
پھولنگرکے قریب کئی برسوں سے روایتی بھٹہ چلانے والے راناعبدالجبارنے بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں اپنا بھٹہ زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل کیا ہے۔ اس عمل میں میں ان کا 15 سے 20 لاکھ روپے خرچہ آیا ہے کیونکہ ان کے پاس بجلی کا کنکشن پہلے سے ہی موجود تھا اور بھٹہ بھی بنا ہوا تھا۔ انہیں بس پنکھا اور بلور خریدنا پڑا ہے ۔ زگ زیگ ٹیکنالوجی سے بھٹے سے نکلنے والا دھواں سفید ہوگیا ہے جس میں کاربن نہیں ہوتا جبکہ اینٹ کی کوالٹی اور پروڈکشن میں بہتری آئی ہے۔ پہلے روزانہ 20 سے 25 ہزاراینٹ تیار ہوتی تھی تاہم اب 45 سے 50 ہزاراینٹ تیار ہورہی ہے جبکہ اول اینٹوں کی شرح بھی 60، 70 فیصد سے بڑھ کر 90 فیصدتک پہنچ گئی ہے، زگ زیگ ٹیکنالوجی کی وجہ سے کوئلہ اورفیول کے اخراجات میں بھی 30 فیصد تک کمی آئی ہے۔
صوبے میں موجود 11 ہزار بھٹوں میں سےصرف سات فیصد تک بھٹے زگ زیگ پرمنتقل کئے جاسکے ہیں،محکمہ ماحولیات کے مطابق 620 جبکہ بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کے مطابق صوبے بھرمیں 800 کے قریب روایتی بھٹوں کو زگ زیگ پرمنتقل کیاجاچکا ہے۔