پاکستان اسٹیل ملز جسے جمہوریت کی خوبصورتی لے ڈوبی
آپ ناکامی کا ملبہ پچھلوں پر ڈالتے رہیے، آنے والوں پر چیختے چنگھاڑتے رہیے، عوام پاگل بنتے رہیں گے اور کام چلتا رہے گا
''بھئی تم تو کہتے تھے میں یہ کردوں گا، وہ کردوں گا، ایسے کردوں گا، ویسے کردوں گا۔ میں چھڑی گھما کر ستر سالہ گند زمین میں دھنسا دوں گا، دودھ اور شہد کی نہریں بہا دوں گا۔ مگر یہ کیا؟ تم بھی تو ہم جیسے ہی نکلے۔ نا اہل اور بیکار!''
یہ جذبات سینیٹ میں جاری حالیہ سیشن میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے اپوزیشن ارکان کے تھے، جب وفاقی حکومت کے زیر انتظام اقتصادی رابطہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ پاکستان اسٹیل ملز کے 9 ہزار ملازمین کو اوسطاً تئیس لاکھ روپے دے کر نوکری سے برخاست کردیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ اسٹیل ملز کا وہ حصہ جس میں تمام تر انفرااسٹرکچر ہے، اور جس کا رقبہ لگ بھگ 1800 ایکڑ ہے، اسے پرائیویٹ انویسٹرز کے حوالے کردیا جائے۔
اس فیصلے کا اعلان کیا ہوا کہ ہر طرف سے تنقیدی نشتر حکومت کے گھاٹ برسائے جانے لگے۔ میڈیا خان صاحب کی پرانی تقاریر، پی ایس ایم میں دیے گئے دھرنے سے ان کے خطاب اور اسد عمر کے وعدے سنا سنا کر حکومت سے اپنی ناکام محبت کی جلن کی تواضع کرنے لگا۔ گو کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ''جب ہماری باری آئے گی'' کی گردان میں بہت سی وہ باتیں بھی کردی گئیں جو جوشِ خطابت میں بھی کرنا خود کو اور دوسروں کو بیوقوف بنانے کے مترادف تھیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اسٹیل ملز کی بندش کی اس اندوہناک داستان کا سوال عمران خان سے کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے ذیابیطس کی انسولین سے کہنا کہ وہ کورونا کا علاج کیوں نہیں، یا دس سال بعد شادی کی ناکامی کا دوش نکاح پڑھوانے والے مولوی کو دینا، یعنی فضول اور بے سر و پا۔
کسی بھی ادارے کو تباہی کے دہانے پر لانا ہو تو چند ٹوٹکے آزما لیجیے۔ کچھ ہی دنوں میں اربوں منافع کمانے والے ادارے اگر ڈھیر نہ ہوئے تو جو چور کی سزا، وہ میری۔ آپ کے سامنے یہ ٹوٹکے پاکستان اسٹیل ملز کی تباہی کی مثال سے رکھ رہا ہوں۔ مشرف حکومت کے آخری دو سال میں یہ ادارہ قومی خزانے کو تقریباً چھ سے آٹھ ارب کا منافع دے چکا تھا۔ سال 2008 میں زرداری صاحب کی حکومت آتی ہے تو وہ اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنے مشترکہ دوست معین آفتاب شیخ کو اسٹیل ملز کا سربراہ مقرر کردیتے ہیں۔
تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، یعنی صرف چیئرمین اپنی مرضی کا ہو تو کام نہیں چلتا، نیچے اس کی منشا کی تکمیل کرنے والی ورکر یونینز بھی اپنی ہونی چاہئیں، لہٰذا ''کلیکٹيو بارگین ایجنسی'' کے انتخابات میں اس گروپ کو جتوایا گیا جس کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔ یوں ''سلیم اللہ اور کلیم اللہ'' کی چیئرمین اور ورکرز کی جوڑی اپنا رانجھا راضی کرنے میں ایسی گم ہوئی کہ کرپشن کیسز کے انبار لگا دیے۔
پہلا کیس کینٹین ٹینڈر کا سامنے آیا جو کہ 80 ملین ڈالر (آٹھ کروڑ ڈالر) کا گھپلا تھا۔ دوسرا پچاس ہزار میٹرک ٹن کوئلہ آسٹریلیا سے منگوانا تھا، جس کی قیمت اس وقت مندی کی شکار کوئلے کی مارکیٹ کے نرخوں سے کہیں زیادہ طے کی گئی۔ یہ چالیس ملین ڈالر کا گھپلا تھا۔ پھر ایک بڑا اسکینڈل اور سامنے آیا جب چین سے چالیس ہزار ٹن کا کوئلہ ایک ارب روپے کا منگوایا گیا۔ تحقیق کی گئی تو پتا چلا کہ یہ تمام خرید کسی بھی کاغذی کارروائی کے بغیر ہوئی، کوئی سرٹیفکیٹ لیا نہ ہی کوئی رسید لکھی گئی۔ پھر سرکاری گودام سے 49 ہزار میٹرک ٹن اسٹیل بلیک مارکیٹ میں بیچی گئی، جس کا قومی خزانے کو ساڑھے تین ارب روپے کا نقصان ہوا۔ لوٹ کھسوٹ کے اس بازار پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تو ایف آئی اے کی ابتدائی تحقیقات سے پتا چلا کہ پیپلز پارٹی کا پہلا سال اسٹیل ملز کو چھبیس ارب کے ٹیکے کی صورت لگا۔ اس میں نو ارب روپے کرپٹ پریکٹسز، گیارہ ارب روپے مس مینجمنٹ اور باقی بزنس کے خسارے کی صورت میں کون ڈکار گیا، نہیں معلوم۔
2009 میں گیلانی صاحب نے چیئرمین معین آفتاب شیخ کو تو ہٹا دیا، مگر عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اپنے دوستوں کے چہروں پر لالی لانے کا سلسلہ نہ رکا۔ جولائی 2013 تک پانچ چیئرمین تبدیل کیے گئے۔ یعنی جس دوست کو کسی کارہائے نمایاں کا ثمر دینا ہوتا، اسے اسٹیل ملز کا چیئرمین لگا دیا جاتا اور سرکاری وسائل چوستی یہ جونک، ایک اژدہا بن کر عوام کے سینوں پر موج کرتی رہی۔ ایف آئی اے نے جب اس کیس میں اپنے پر جلتے محسوس کیے تو 2012 میں اسے نیب کے حوالے کیا گیا، مگر نیب کا نعرہ احتساب ''قمر زمان چوہدری'' نامی دیمک چاٹ گیا اور یہ کیس منوں مٹی تلے دب گیا۔
2013 تک یہ مل 104 ارب کے خسارے میں چلی گئی تھی۔ ملازمین کی تعداد آٹھ ہزار سے تیس ہزار تک چلی گئی، یعنی سیاستدانوں سے کہا گیا کہ حلقے میں جس بھی شخص کے ضمیر کا سودا کرنا ہو، اسے تاحیات اپنا غلام بنانا ہو، بس یہاں بھرتی کروا دو۔ جس ادارے میں مالک سے لے کر چپڑاسی تک ایک ہی نظریے کے مرہونِ منت ہوں، وہاں کام کیسے ہوگا، نہیں معلوم۔ اسی سال میاں صاحب نے اسٹیل ملز سمیت 59 سرکاری اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا تو معاملہ نجکاری کمیشن کے پاس گیا، جس نے فنانشل ایڈوائزر کےلیے اشتہار جاری کیا۔ مگر خان صاحب کو آج قومی اور بین الاقوامی سیاست کے اسرار و رموز سمجھانے والے، چھ ماہ میں ایک فنانشل ایڈوائزر نہ ڈھونڈ پائے۔
زبیر عمر ایک اسکیم لے کر آئے جس کے تحت انہوں نے اسٹیل ملز کی پروڈکشن صفر سے ساٹھ فیصد تک بڑھانے کا پلان بنایا۔ انہوں نے حکومت کو قائل کیا اور اٹھارہ ارب روپے ملز کی ورکنگ کنڈیشن کو بہتر بنانے میں، چند بقایاجات کو کلیئر کرنے اور بلز کی ادائیگی میں جھونک دیے۔ چند دن مل چل بھی پڑی مگر اچانک ایس ایس جی سی گیس سپلائی کاٹ کر اپنا چالیس ارب روپے کا بل سامنے لے آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے نیشنل بینک نے 67 ارب کے بقایاجات کا بل پیش کردیا۔ جس کے بعد اب تک پاکستان اسٹیل ملز مکمل طور پر بند ہے۔ بند ہونے کے باوجود یومیہ ستر لاکھ روپے کا نقصان قومی خزانے کو ہورہا ہے۔
سینیٹ کی کارروائی، مشاہد اللہ کی دبنگ تقریر کے دوران تالیاں بجانے والے لیگی و پیپلز ارکان اور حماد اظہر کا شرمندہ چہرہ دیکھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ جمہوریت بھی کتنی خوبصورت چیز ہے۔ آپ محض ایک بار حلقے کے عوام پر سرمایہ کاری کیجیے، تا عمر وہ آپ کو اقتدار تک پہنچاتے رہیں گے۔ آپ ناکامی کا ملبہ پچھلوں پر ڈالتے رہیے، آنے والوں پر چیختے چنگھاڑتے رہیے، عوام پاگل بنتے رہیں گے اور کام چلتا رہے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ جذبات سینیٹ میں جاری حالیہ سیشن میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے اپوزیشن ارکان کے تھے، جب وفاقی حکومت کے زیر انتظام اقتصادی رابطہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ پاکستان اسٹیل ملز کے 9 ہزار ملازمین کو اوسطاً تئیس لاکھ روپے دے کر نوکری سے برخاست کردیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ اسٹیل ملز کا وہ حصہ جس میں تمام تر انفرااسٹرکچر ہے، اور جس کا رقبہ لگ بھگ 1800 ایکڑ ہے، اسے پرائیویٹ انویسٹرز کے حوالے کردیا جائے۔
اس فیصلے کا اعلان کیا ہوا کہ ہر طرف سے تنقیدی نشتر حکومت کے گھاٹ برسائے جانے لگے۔ میڈیا خان صاحب کی پرانی تقاریر، پی ایس ایم میں دیے گئے دھرنے سے ان کے خطاب اور اسد عمر کے وعدے سنا سنا کر حکومت سے اپنی ناکام محبت کی جلن کی تواضع کرنے لگا۔ گو کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ''جب ہماری باری آئے گی'' کی گردان میں بہت سی وہ باتیں بھی کردی گئیں جو جوشِ خطابت میں بھی کرنا خود کو اور دوسروں کو بیوقوف بنانے کے مترادف تھیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اسٹیل ملز کی بندش کی اس اندوہناک داستان کا سوال عمران خان سے کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے ذیابیطس کی انسولین سے کہنا کہ وہ کورونا کا علاج کیوں نہیں، یا دس سال بعد شادی کی ناکامی کا دوش نکاح پڑھوانے والے مولوی کو دینا، یعنی فضول اور بے سر و پا۔
کسی بھی ادارے کو تباہی کے دہانے پر لانا ہو تو چند ٹوٹکے آزما لیجیے۔ کچھ ہی دنوں میں اربوں منافع کمانے والے ادارے اگر ڈھیر نہ ہوئے تو جو چور کی سزا، وہ میری۔ آپ کے سامنے یہ ٹوٹکے پاکستان اسٹیل ملز کی تباہی کی مثال سے رکھ رہا ہوں۔ مشرف حکومت کے آخری دو سال میں یہ ادارہ قومی خزانے کو تقریباً چھ سے آٹھ ارب کا منافع دے چکا تھا۔ سال 2008 میں زرداری صاحب کی حکومت آتی ہے تو وہ اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنے مشترکہ دوست معین آفتاب شیخ کو اسٹیل ملز کا سربراہ مقرر کردیتے ہیں۔
تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، یعنی صرف چیئرمین اپنی مرضی کا ہو تو کام نہیں چلتا، نیچے اس کی منشا کی تکمیل کرنے والی ورکر یونینز بھی اپنی ہونی چاہئیں، لہٰذا ''کلیکٹيو بارگین ایجنسی'' کے انتخابات میں اس گروپ کو جتوایا گیا جس کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔ یوں ''سلیم اللہ اور کلیم اللہ'' کی چیئرمین اور ورکرز کی جوڑی اپنا رانجھا راضی کرنے میں ایسی گم ہوئی کہ کرپشن کیسز کے انبار لگا دیے۔
پہلا کیس کینٹین ٹینڈر کا سامنے آیا جو کہ 80 ملین ڈالر (آٹھ کروڑ ڈالر) کا گھپلا تھا۔ دوسرا پچاس ہزار میٹرک ٹن کوئلہ آسٹریلیا سے منگوانا تھا، جس کی قیمت اس وقت مندی کی شکار کوئلے کی مارکیٹ کے نرخوں سے کہیں زیادہ طے کی گئی۔ یہ چالیس ملین ڈالر کا گھپلا تھا۔ پھر ایک بڑا اسکینڈل اور سامنے آیا جب چین سے چالیس ہزار ٹن کا کوئلہ ایک ارب روپے کا منگوایا گیا۔ تحقیق کی گئی تو پتا چلا کہ یہ تمام خرید کسی بھی کاغذی کارروائی کے بغیر ہوئی، کوئی سرٹیفکیٹ لیا نہ ہی کوئی رسید لکھی گئی۔ پھر سرکاری گودام سے 49 ہزار میٹرک ٹن اسٹیل بلیک مارکیٹ میں بیچی گئی، جس کا قومی خزانے کو ساڑھے تین ارب روپے کا نقصان ہوا۔ لوٹ کھسوٹ کے اس بازار پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تو ایف آئی اے کی ابتدائی تحقیقات سے پتا چلا کہ پیپلز پارٹی کا پہلا سال اسٹیل ملز کو چھبیس ارب کے ٹیکے کی صورت لگا۔ اس میں نو ارب روپے کرپٹ پریکٹسز، گیارہ ارب روپے مس مینجمنٹ اور باقی بزنس کے خسارے کی صورت میں کون ڈکار گیا، نہیں معلوم۔
2009 میں گیلانی صاحب نے چیئرمین معین آفتاب شیخ کو تو ہٹا دیا، مگر عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اپنے دوستوں کے چہروں پر لالی لانے کا سلسلہ نہ رکا۔ جولائی 2013 تک پانچ چیئرمین تبدیل کیے گئے۔ یعنی جس دوست کو کسی کارہائے نمایاں کا ثمر دینا ہوتا، اسے اسٹیل ملز کا چیئرمین لگا دیا جاتا اور سرکاری وسائل چوستی یہ جونک، ایک اژدہا بن کر عوام کے سینوں پر موج کرتی رہی۔ ایف آئی اے نے جب اس کیس میں اپنے پر جلتے محسوس کیے تو 2012 میں اسے نیب کے حوالے کیا گیا، مگر نیب کا نعرہ احتساب ''قمر زمان چوہدری'' نامی دیمک چاٹ گیا اور یہ کیس منوں مٹی تلے دب گیا۔
2013 تک یہ مل 104 ارب کے خسارے میں چلی گئی تھی۔ ملازمین کی تعداد آٹھ ہزار سے تیس ہزار تک چلی گئی، یعنی سیاستدانوں سے کہا گیا کہ حلقے میں جس بھی شخص کے ضمیر کا سودا کرنا ہو، اسے تاحیات اپنا غلام بنانا ہو، بس یہاں بھرتی کروا دو۔ جس ادارے میں مالک سے لے کر چپڑاسی تک ایک ہی نظریے کے مرہونِ منت ہوں، وہاں کام کیسے ہوگا، نہیں معلوم۔ اسی سال میاں صاحب نے اسٹیل ملز سمیت 59 سرکاری اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا تو معاملہ نجکاری کمیشن کے پاس گیا، جس نے فنانشل ایڈوائزر کےلیے اشتہار جاری کیا۔ مگر خان صاحب کو آج قومی اور بین الاقوامی سیاست کے اسرار و رموز سمجھانے والے، چھ ماہ میں ایک فنانشل ایڈوائزر نہ ڈھونڈ پائے۔
زبیر عمر ایک اسکیم لے کر آئے جس کے تحت انہوں نے اسٹیل ملز کی پروڈکشن صفر سے ساٹھ فیصد تک بڑھانے کا پلان بنایا۔ انہوں نے حکومت کو قائل کیا اور اٹھارہ ارب روپے ملز کی ورکنگ کنڈیشن کو بہتر بنانے میں، چند بقایاجات کو کلیئر کرنے اور بلز کی ادائیگی میں جھونک دیے۔ چند دن مل چل بھی پڑی مگر اچانک ایس ایس جی سی گیس سپلائی کاٹ کر اپنا چالیس ارب روپے کا بل سامنے لے آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے نیشنل بینک نے 67 ارب کے بقایاجات کا بل پیش کردیا۔ جس کے بعد اب تک پاکستان اسٹیل ملز مکمل طور پر بند ہے۔ بند ہونے کے باوجود یومیہ ستر لاکھ روپے کا نقصان قومی خزانے کو ہورہا ہے۔
سینیٹ کی کارروائی، مشاہد اللہ کی دبنگ تقریر کے دوران تالیاں بجانے والے لیگی و پیپلز ارکان اور حماد اظہر کا شرمندہ چہرہ دیکھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ جمہوریت بھی کتنی خوبصورت چیز ہے۔ آپ محض ایک بار حلقے کے عوام پر سرمایہ کاری کیجیے، تا عمر وہ آپ کو اقتدار تک پہنچاتے رہیں گے۔ آپ ناکامی کا ملبہ پچھلوں پر ڈالتے رہیے، آنے والوں پر چیختے چنگھاڑتے رہیے، عوام پاگل بنتے رہیں گے اور کام چلتا رہے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔