کراچی کے علاقے لیاری میں عمارت منہدم
کراچی میں عمارتیں منہدم ہونے کا سلسلہ رکا نہیں ہے، پرانی اور نئی تعمیر شدہ کئی منزلہ عمارتیں تسلسل سے گر رہی ہیں۔
لاہور:
کراچی کے علاقے لیاری کھڈا مارکیٹ میں گرنے والی عمارت کے ملبے سے اب تک تیرہ افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں،جاں بحق ہونے والوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔ کراچی میں عمارتیں منہدم ہونے کا سلسلہ رکا نہیں ہے، پرانی اور نئی تعمیر شدہ کئی منزلہ عمارتیں تسلسل سے گر رہی ہیں۔
اگلے روز فیصل آباد میں آتشزدگی سے پانچ افراد جاں بحق ہوئے، متعدد خاندانوں کا یوں لمحہ بھر میں تباہ و برباد ہو جانا اور حکومتوں کا ان مسائل کے تدارک کے لیے کوئی اقدام نہ اٹھانا یہ عمل اس بات کی واضح نشاندہی ہے کہ شہر میں قانون کی عمل داری ختم ہوچکی ہے۔
ناقص میٹریل کا استعمال جس کثرت سے نو تعمیر شدہ کثیر المنزلہ عمارتوں میں ہو رہا ہے اور ان میں غیر قانونی پورشنز بنا کر فروخت کرنے کا سلسلہ جاری ہے، یہ عمارتیں جلد ہی زمین بوس ہورہی ہیں۔
محتاط اندازے کے مطابق نو تعمیر شدہ عمارتوں کی بڑی تعداد آنیوالے دنوں میں زمین بوس ہوسکتی ہے۔ اس ساری لاقانونیت کی ذمے داری بلڈرز، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور مقامی انتظامیہ سمیت پولیس پر بھی عائد ہوتی ہے، کیونکہ اس سارے عمل میں ان تمام سرکاری محکموں کے اہلکار حصہ بقدر جثہ وصول کرتے ہیں تو ہی یہ غیرقانونی تعمیرات پایہ تکمیل تک پہنچتی ہیں۔ کیا کبھی ان متعلقہ اداروں کے اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج ہوئے ہیں؟
شہر میں گزشتہ چھ ماہ کے دوران عمارت گرنے کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل گلبہار اور ٹمبر مارکیٹ میں رہائشی عمارتوں کے گرنے کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ذرائع کے مطابق بیشتر مخدوش عمارتیں ضلع جنوبی میں واقع ہیں اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی شہر میں 250 سے زائد عمارتوں کو مخدوش قرار دے چکی ہے، مسئلہ عمارتوں کو صرف بذریعہ نوٹس مخدوش قرار دینے سے تو حل نہیں ہوگا۔
ایک مسئلہ ہر سانحے کے بعد یہ بھی پیش آتا ہے کہ گنجان آبادی اور تنگ راستے ہونے کی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں مشکلات درپیش آتی ہیں اور مشینری کو جائے حادثہ پر پہنچنے میں انتہائی دشواری اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ متاثرین کے لیے بہتر علاج معالجے کی سہولتوں سمیت ان کی بحالی کے لیے حکومتی سطح پر فوری اقدامات اٹھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
جب تک سندھ حکومت ان سانحات میں ملوث بلڈرز سمیت سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور دیگر اداروں کے اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج کروا کے قرار واقعی سزا نہیں دلوائے گی، اس وقت تک عمارتوں کے انہدام کا سلسلہ تھمے گا نہیں۔
کراچی کے علاقے لیاری کھڈا مارکیٹ میں گرنے والی عمارت کے ملبے سے اب تک تیرہ افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں،جاں بحق ہونے والوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔ کراچی میں عمارتیں منہدم ہونے کا سلسلہ رکا نہیں ہے، پرانی اور نئی تعمیر شدہ کئی منزلہ عمارتیں تسلسل سے گر رہی ہیں۔
اگلے روز فیصل آباد میں آتشزدگی سے پانچ افراد جاں بحق ہوئے، متعدد خاندانوں کا یوں لمحہ بھر میں تباہ و برباد ہو جانا اور حکومتوں کا ان مسائل کے تدارک کے لیے کوئی اقدام نہ اٹھانا یہ عمل اس بات کی واضح نشاندہی ہے کہ شہر میں قانون کی عمل داری ختم ہوچکی ہے۔
ناقص میٹریل کا استعمال جس کثرت سے نو تعمیر شدہ کثیر المنزلہ عمارتوں میں ہو رہا ہے اور ان میں غیر قانونی پورشنز بنا کر فروخت کرنے کا سلسلہ جاری ہے، یہ عمارتیں جلد ہی زمین بوس ہورہی ہیں۔
محتاط اندازے کے مطابق نو تعمیر شدہ عمارتوں کی بڑی تعداد آنیوالے دنوں میں زمین بوس ہوسکتی ہے۔ اس ساری لاقانونیت کی ذمے داری بلڈرز، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور مقامی انتظامیہ سمیت پولیس پر بھی عائد ہوتی ہے، کیونکہ اس سارے عمل میں ان تمام سرکاری محکموں کے اہلکار حصہ بقدر جثہ وصول کرتے ہیں تو ہی یہ غیرقانونی تعمیرات پایہ تکمیل تک پہنچتی ہیں۔ کیا کبھی ان متعلقہ اداروں کے اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج ہوئے ہیں؟
شہر میں گزشتہ چھ ماہ کے دوران عمارت گرنے کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل گلبہار اور ٹمبر مارکیٹ میں رہائشی عمارتوں کے گرنے کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ذرائع کے مطابق بیشتر مخدوش عمارتیں ضلع جنوبی میں واقع ہیں اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی شہر میں 250 سے زائد عمارتوں کو مخدوش قرار دے چکی ہے، مسئلہ عمارتوں کو صرف بذریعہ نوٹس مخدوش قرار دینے سے تو حل نہیں ہوگا۔
ایک مسئلہ ہر سانحے کے بعد یہ بھی پیش آتا ہے کہ گنجان آبادی اور تنگ راستے ہونے کی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں مشکلات درپیش آتی ہیں اور مشینری کو جائے حادثہ پر پہنچنے میں انتہائی دشواری اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ متاثرین کے لیے بہتر علاج معالجے کی سہولتوں سمیت ان کی بحالی کے لیے حکومتی سطح پر فوری اقدامات اٹھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
جب تک سندھ حکومت ان سانحات میں ملوث بلڈرز سمیت سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور دیگر اداروں کے اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج کروا کے قرار واقعی سزا نہیں دلوائے گی، اس وقت تک عمارتوں کے انہدام کا سلسلہ تھمے گا نہیں۔