بے رحم حالات
شریفانہ حکومتیں عوام کے لیے ہوتی ہیں حکمرانوں کے لیے نہیں جب کہ ہمارے ہاں معاملہ بالکل الٹ ہے۔
حکمرانوں کو عوام سے شکایت رہتی ہے کہ وہ ان کی نہیں سنتے نہیں مانتے۔ لیکن حکمران اس حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے کہ وہ ان کی کیسے سنیں اور کیسے مانیں۔ ان کے پیٹ بھوکے ہیں اور انھیں ان کی محنت کا پھل نہیں ملتا، ان کی حالت وہی ہے جو حضورﷺ نے بتا دی تھی کہ قریب ہے کہ غربت کفر بن جائے۔ کفر اور غربت میں ایک گہرارشتہ ہے جو اٹوٹ ہے۔
برنارڈ شاکے ایک ناول میں کوئی ایک کسان سے کہتا ہے کہ تمہاری اخلاقیات نہیں ہیں؟کسان جواب دیتا ہے بالکل ہیں اور مجھے معلوم ہیں لیکن مجھ میں ان پر عمل کرنے کی استطاعت نہیں ہے۔ بھوکے، ننگے، ناانصافی اور حکومتی جبر و تشدد میں لپٹے ہوئے ، خوشحال اور روٹی کپڑے کے مسائل سے بالکل ناآشنا حکمرانوں کی بات کیسے مانیں ۔ عوام عادل حکمران کی بات مانتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں حکومت کی جانب سے عوام کے لیے جو عدل وانصاف کا معیار ہے وہ سب کے علم میں ہے، اسی ناانصافی کی وجہ سے عوام حکومت کی بات پر کان نہیں دھرتے، اپنی مرضی کرتے ہیں۔
حکومت عوام کی حقیقی ہمدردی میں بھی اگر کوئی کام کرتی ہے تو عوام اپنے سابقہ تجربوں کی بنیاد پر اس کام کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور عوام کاتعلق روز بروز کمزورپڑرہا ہے اور عوام سے تعلق کی کمزوری کسی حکومت کے زوال کی پہلی نشانی ہوتی ہے ۔ہمسائے ملک افغانستا ن کی اگر بات کریں تو تما م تر خرابیوں کے باوجود ماضی میں طالبان کی حکومت میں حکمران اپنے عدل و انصاف کے نظام پر عملاً یقین رکھتے تھے ۔ انھوں نے صرف زبانی احکامات سے افغانوں سے اسلحہ رکھوا دیا اور افیون کی کاشت بند کرا دی جو قطعاً ناممکن سمجھی جاتی تھی ۔
یہ سب اس لیے ہوا کہ ان کا حکمران جس مجلس میں بیٹھتا تھا کوئی اسے پہچان نہیں سکتا تھا، وہ دوسروں کے ساتھ ان کی طرح بیٹھتا اوران کی طرح کھاتا پیتا تھا۔ ایسے حکمران کی بات عوام کیوں نہ مانے جو ان کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہو اور جس کا رہن سہن اپنے عوام جیسا ہو۔ اور عوام ان حکمرانوں کی بات کیوں مانے جن کی آمد روفت پر ان کے تحفظ کے لیے شہر بند کر دیے جاتے ہوں اور جہاں وہ رہتے ہوںان کی فضائوں سے پرندوں کا گزرنا بھی ممنوع قرار پاتا ہے ۔ ایک مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ جو رات قبر میں ہے اسے کوئی تدبیر ٹال نہیں سکتی اور بقول حضرت علی ؓ موت زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہوتی ہے۔
حکومت کے احکامات اور رٹ کاان دنوں بہت شور سنتے ہیں کہ حکومت احکامات تو جاری کرتی رہتی ہے لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہو تا یعنی حکومت اپنے احکامات پر عمل درآمد کرانے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہے اور حکومتی مشینری جس کا اہم پرزہ افسر شاہی ہے جو حکومتی احکامات پر اس جذبے سے عمل درآمد نہیں کر رہی جس کی اس وقت ضرورت ہے اسی لیے آئے روز افسر شاہی تبادلوں کی زد میں ہے ۔ میرے پسندیدہ شاعر ظفر اقبال کے دو سیاسی شعر یاد آگئے ہیںجن میں کسی روشن مستقبل کی امید جھلکتی دکھائی گئی ہے یا پھر ان کو شاعر کا خواب کہا جا سکتا ہے۔
زمین کروٹ بدلنے کو تیار ہو جیسے
گھڑی رکنے کو ہے ، جنگل میں آہو ڈرنے والا ہے
بہت نیندیں نچھاور کر چکے اب چین سے سونا
کہانی ختم پر آئی ہے مجنوں مرنے والا ہے
معلوم نہیںشاعر نے کس کیفیت میں ڈوب کر کہا تھا اور خدا جانے ان شعروں کی شان نزول کیا تھی لیکن ان دونوں یہ اشعارحقیقی اور مجازی دونوں معنوں ہمارے حال پرصادق آرہے ہیں۔ لاہور میں کورونا وبا کے بڑھتے حملوں کی وجہ سے خوف کی فضاء گھر گھر میں ہیں اور زندہ دل لاہور کے چہرے مرجھائے ہوئے ہیں ۔ لاہوریوں کے پاس اپنے بچائو کی کوئی صورت نہیں ہے، لاہور کے دعویدارتو لاہور سے بہت دور سیر وتفریح میںمصروف ہیں، لاہوریوں کے پاس اﷲ تبارک و تعالیٰ اور اس کے نبیﷺ کے حضور دعا کی درخواست کرنے کے بعد داتا صاحب کا دربار ہے جہاں لاہوری اپنا ماتھا ٹیکتے ہیں اور شفاء کے طلبگار رہتے ہیں ۔
پاکستان جو اپنے قدرتی وسائل اور پاکستانیوں کی محنت اور دست ہنر سے ایک جنت بن سکتا تھا، اسے ہمارے مفاد پرست ، تنگ نظر اورغیر محب وطن حکمرانوں نے عوام کے لیے جہنم بنا دیا اور اپنے لیے جنت۔ عوام کی حالت ایسی ہو چکی ہے وہ بازار سے دکانداروں کی مرضی کے نرخوں پر اشیائے ضروریہ خریدنے پر مجبور ہیں اور حکومت کے پاس ایسا کوئی بندوبست نظر نہیں آتا جس سے قیمتوں کو کنٹرول کیا جا سکے ۔ اچھے ملکوں میں حکومتیں اس بات پر اڑی رہتی ہیں کہ بنیادی ضرورت کی اشیاء عام آدمی کی آمدنی کے مطابق ہوں۔
آٹے دال کا بھائو ہرگز نہیں بڑھنے دیا جاتا، چینی وافر اور سستی دستیاب ہوتی ہے۔مدت گزری اکمل علیمی سے واشنگٹن میں گپ شپ لگ رہی تھی، اس نے بتایا کہ وہ آج سے کئی برس قبل جب نیویارک پہنچا تو سر راہ ایک ریستوران سے کافی ،ایک انڈہ اور ٹوسٹ کا ناشتہ ایک ڈالر میں ملتا تھا ۔ ایک مدت کے بعد وہ واشنگٹن سے کسی کام کے لیے نیویارک گیا تو اس ریستوران کے سامنے سے گزرتے ہوئے قیمتیں دیکھنے کے لیے اندر چلا گیا جہاں پر ناشتے کی قیمت اب بھی وہی پرانی تھی جب کہ پٹرول اور دوسری اشیاء کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا تھا ۔
شریفانہ حکومتیں عوام کے لیے ہوتی ہیں حکمرانوں کے لیے نہیں جب کہ ہمارے ہاں معاملہ بالکل الٹ ہے۔ عوام کے ٹیکسوں پر ہمارے حکمران بلکہ ہمارے منتخب نمائندے تک جو کچھ حاصل کرتے ہیں وہ جرائم کی فہرست میں آتا ہے اور اس کے خلاف کسی تھانے میں رپٹ درج کرانی چاہیے مگر تھانے بھی تو ان کے لیے ہیں، انصاف کون دے گا اور کہاں سے ملے گا۔ چنانچہ گھر سے باہر جب کوئی پاکستانی نکلتا ہے تو ناگوار اور بے رحم حالات اسے لے ڈوبتے ہیں۔
برنارڈ شاکے ایک ناول میں کوئی ایک کسان سے کہتا ہے کہ تمہاری اخلاقیات نہیں ہیں؟کسان جواب دیتا ہے بالکل ہیں اور مجھے معلوم ہیں لیکن مجھ میں ان پر عمل کرنے کی استطاعت نہیں ہے۔ بھوکے، ننگے، ناانصافی اور حکومتی جبر و تشدد میں لپٹے ہوئے ، خوشحال اور روٹی کپڑے کے مسائل سے بالکل ناآشنا حکمرانوں کی بات کیسے مانیں ۔ عوام عادل حکمران کی بات مانتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں حکومت کی جانب سے عوام کے لیے جو عدل وانصاف کا معیار ہے وہ سب کے علم میں ہے، اسی ناانصافی کی وجہ سے عوام حکومت کی بات پر کان نہیں دھرتے، اپنی مرضی کرتے ہیں۔
حکومت عوام کی حقیقی ہمدردی میں بھی اگر کوئی کام کرتی ہے تو عوام اپنے سابقہ تجربوں کی بنیاد پر اس کام کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور عوام کاتعلق روز بروز کمزورپڑرہا ہے اور عوام سے تعلق کی کمزوری کسی حکومت کے زوال کی پہلی نشانی ہوتی ہے ۔ہمسائے ملک افغانستا ن کی اگر بات کریں تو تما م تر خرابیوں کے باوجود ماضی میں طالبان کی حکومت میں حکمران اپنے عدل و انصاف کے نظام پر عملاً یقین رکھتے تھے ۔ انھوں نے صرف زبانی احکامات سے افغانوں سے اسلحہ رکھوا دیا اور افیون کی کاشت بند کرا دی جو قطعاً ناممکن سمجھی جاتی تھی ۔
یہ سب اس لیے ہوا کہ ان کا حکمران جس مجلس میں بیٹھتا تھا کوئی اسے پہچان نہیں سکتا تھا، وہ دوسروں کے ساتھ ان کی طرح بیٹھتا اوران کی طرح کھاتا پیتا تھا۔ ایسے حکمران کی بات عوام کیوں نہ مانے جو ان کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہو اور جس کا رہن سہن اپنے عوام جیسا ہو۔ اور عوام ان حکمرانوں کی بات کیوں مانے جن کی آمد روفت پر ان کے تحفظ کے لیے شہر بند کر دیے جاتے ہوں اور جہاں وہ رہتے ہوںان کی فضائوں سے پرندوں کا گزرنا بھی ممنوع قرار پاتا ہے ۔ ایک مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ جو رات قبر میں ہے اسے کوئی تدبیر ٹال نہیں سکتی اور بقول حضرت علی ؓ موت زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہوتی ہے۔
حکومت کے احکامات اور رٹ کاان دنوں بہت شور سنتے ہیں کہ حکومت احکامات تو جاری کرتی رہتی ہے لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہو تا یعنی حکومت اپنے احکامات پر عمل درآمد کرانے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہے اور حکومتی مشینری جس کا اہم پرزہ افسر شاہی ہے جو حکومتی احکامات پر اس جذبے سے عمل درآمد نہیں کر رہی جس کی اس وقت ضرورت ہے اسی لیے آئے روز افسر شاہی تبادلوں کی زد میں ہے ۔ میرے پسندیدہ شاعر ظفر اقبال کے دو سیاسی شعر یاد آگئے ہیںجن میں کسی روشن مستقبل کی امید جھلکتی دکھائی گئی ہے یا پھر ان کو شاعر کا خواب کہا جا سکتا ہے۔
زمین کروٹ بدلنے کو تیار ہو جیسے
گھڑی رکنے کو ہے ، جنگل میں آہو ڈرنے والا ہے
بہت نیندیں نچھاور کر چکے اب چین سے سونا
کہانی ختم پر آئی ہے مجنوں مرنے والا ہے
معلوم نہیںشاعر نے کس کیفیت میں ڈوب کر کہا تھا اور خدا جانے ان شعروں کی شان نزول کیا تھی لیکن ان دونوں یہ اشعارحقیقی اور مجازی دونوں معنوں ہمارے حال پرصادق آرہے ہیں۔ لاہور میں کورونا وبا کے بڑھتے حملوں کی وجہ سے خوف کی فضاء گھر گھر میں ہیں اور زندہ دل لاہور کے چہرے مرجھائے ہوئے ہیں ۔ لاہوریوں کے پاس اپنے بچائو کی کوئی صورت نہیں ہے، لاہور کے دعویدارتو لاہور سے بہت دور سیر وتفریح میںمصروف ہیں، لاہوریوں کے پاس اﷲ تبارک و تعالیٰ اور اس کے نبیﷺ کے حضور دعا کی درخواست کرنے کے بعد داتا صاحب کا دربار ہے جہاں لاہوری اپنا ماتھا ٹیکتے ہیں اور شفاء کے طلبگار رہتے ہیں ۔
پاکستان جو اپنے قدرتی وسائل اور پاکستانیوں کی محنت اور دست ہنر سے ایک جنت بن سکتا تھا، اسے ہمارے مفاد پرست ، تنگ نظر اورغیر محب وطن حکمرانوں نے عوام کے لیے جہنم بنا دیا اور اپنے لیے جنت۔ عوام کی حالت ایسی ہو چکی ہے وہ بازار سے دکانداروں کی مرضی کے نرخوں پر اشیائے ضروریہ خریدنے پر مجبور ہیں اور حکومت کے پاس ایسا کوئی بندوبست نظر نہیں آتا جس سے قیمتوں کو کنٹرول کیا جا سکے ۔ اچھے ملکوں میں حکومتیں اس بات پر اڑی رہتی ہیں کہ بنیادی ضرورت کی اشیاء عام آدمی کی آمدنی کے مطابق ہوں۔
آٹے دال کا بھائو ہرگز نہیں بڑھنے دیا جاتا، چینی وافر اور سستی دستیاب ہوتی ہے۔مدت گزری اکمل علیمی سے واشنگٹن میں گپ شپ لگ رہی تھی، اس نے بتایا کہ وہ آج سے کئی برس قبل جب نیویارک پہنچا تو سر راہ ایک ریستوران سے کافی ،ایک انڈہ اور ٹوسٹ کا ناشتہ ایک ڈالر میں ملتا تھا ۔ ایک مدت کے بعد وہ واشنگٹن سے کسی کام کے لیے نیویارک گیا تو اس ریستوران کے سامنے سے گزرتے ہوئے قیمتیں دیکھنے کے لیے اندر چلا گیا جہاں پر ناشتے کی قیمت اب بھی وہی پرانی تھی جب کہ پٹرول اور دوسری اشیاء کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا تھا ۔
شریفانہ حکومتیں عوام کے لیے ہوتی ہیں حکمرانوں کے لیے نہیں جب کہ ہمارے ہاں معاملہ بالکل الٹ ہے۔ عوام کے ٹیکسوں پر ہمارے حکمران بلکہ ہمارے منتخب نمائندے تک جو کچھ حاصل کرتے ہیں وہ جرائم کی فہرست میں آتا ہے اور اس کے خلاف کسی تھانے میں رپٹ درج کرانی چاہیے مگر تھانے بھی تو ان کے لیے ہیں، انصاف کون دے گا اور کہاں سے ملے گا۔ چنانچہ گھر سے باہر جب کوئی پاکستانی نکلتا ہے تو ناگوار اور بے رحم حالات اسے لے ڈوبتے ہیں۔