’ ’کوروناکنفیوژن اور ہم‘‘
آج کورونا کو پاکستان میں تشریف لائے ایک سو چوتھا دن ہے
آج کورونا کو پاکستان میں تشریف لائے ایک سو چوتھا دن ہے۔ پہلے دو ماہ میں اس کے پھیلاؤ کی رفتار نسبتاً بہت سُست تھی جس کا اثر اس کے علاج کے طریقوں، حکومتی پالیسیوں، عوامی ردّعمل اور سازشی تھیوریوں کے حوالے سے بھی آج سے خاصا مختلف تھا البتہ ایک بات پہلے دن سے ہر شعبے میں مشترک چلی آرہی ہے اور وہ ہے کنفیوژن اور اس کے پھیلاؤ کی دانستہ یا نادانستہ کوششیں۔
گزشتہ تین ماہ سے میری ذاتی احتیاط اور میرے بچوں نے مجھے مستقل طور پر نیم قرنطینہ کرکے رکھا ہوا ہے چنانچہ خواہی نخواہی مجھے وہ نیوز پروگرام بھی دیکھنے پڑے ہیں جن کو میں بوجوہ Avoid کیا کرتا تھا۔ کورونا کا ایک کمال تو یہ ہے کہ اس نے ہر چینل اور اس کے اینکرز کو نہ چاہتے ہوئے بھی ایک ایسی صورتِ حال میں مبتلا کردیا ہے کہ وہ سب کے سب اس کنفیوژن کو پھیلانے کے حوالے سے ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں اور غالباً ہماری تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اس کا الزام اُن پر رکھنا بھی بہت زیادہ انصاف کی بات نہیں ہوگی کہ اس بار اس کنفیوژن کو پھیلانے کی ذمے د اری اُن کی جگہ مرکزی اور صوبائی حکومتوںکے چند باقاعدہ ترجمانوں کے علاوہ کچھ ایسے خودساختہ دانشوروں نے لے لی ہے جن کو کسی نے بھی سمجھانے یا روکنے کی کوشش نہیں کی۔
بدقسمتی سے طِب کے شعبے کے حوالے سے بھی عمومی روّیہ کچھ ایسا ہی رہا کہ سرکاری کانفرنسوں، ٹی وی پروگراموں اور سوشل میڈیا پر اس کے علاج کے حوالوں سے گفتگو کرنے والوں نے بھی ایسے بیانات جاری کیے جس سے معاملات میں مزید بگاڑ پیدا ہو اور ایسے نیم حکیموں اور روحانی علاج کرنے والوں نے سوشل میڈیا پر دوکانیں لگا لیں جن کو یہ تک پتہ نہیں تھا کہ یہ وائرس ہے کیا اور کس طرح سے کام کرتا ہے؟ اس میں شک نہیں کہ ایکسپریس سمیت دس بارہ بڑے چینلز نے عوامی آگاہی کے لیے کئی بہت اچھے پروگرام بھی کیے مگر بدقسمتی سے خود اپنا کیااور بنایا ہوا مُرغوں کی لڑائی والا انداز ہی اُن کی راہ کی دیوار بن گیا کہ ایک دوسرے کی بات کاٹنے ، حکومت کی اندھا دھند خوشامد یا مخالفت کرنے والے عوامی نمائندے اور ہر قیمت پرپوائنٹ اسکورنگ کرنے والے ماہرین کورونا کے لیے مختص پروگراموں میں بھی اپنا اپنا علم اور حق نمک ادا کرتے رہے جس میں ہر ایک کی پہلی کوشش یہی تھی کہ کورونا ختم ہو یا نہ ہو اُن کے مخالفین ضرورختم ہوجائیں، بعض صورتوں میں تو یہ منظر اس قدر ناقابلِ دید وشنید ہوجاتا تھا کہ علامہ اقبال کی ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر سوچتی ہوئی آنکھوں والی تصویر پر کیا گیا یہ مزاحیہ تبصرہ ایک حقیقت معلوم ہونے لگتا تھا کہ
''یا اﷲ یہ میں نے کس قوم کا خواب دیکھ لیا ہے؟''
حکومت کے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ پولیٹیکل سائنس، معاشیات، قانون، صحافت اور سماجیات کے ماہرین بھی کم و بیش اسی رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں، ہر ایک کے پاس حکومتی اقدامات ، سوچ اور فیصلوں کے خلاف ایک چارج شیٹ موجود ہوتی ہے (جس میں بہت سی باتیں درست اور باوزن بھی ہوتی ہیں اور علمی اعتبار سے کئی تجزیئے بھی بہت معقول ہوتے ہیں) مگر عمومی طور پر دیکھا جائے تو نہ تو کوئی زیر بحث مسئلے کا عملی حل بتاپاتا ہے اور نہ ہی دوسری پارٹی کو غلطی کی وہ گنجائش دینے پر تیار ہوتاہے جس کو وہ خود اپنے لیے جائز اور برحق سمجھتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اس وبا نے بڑے بڑے ترقی یافتہ اور معاشی طور پر مضبوط ملکوں کو نہ صرف جڑ سے ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ اُن کے ماہرین اور فیصلہ ساز بھی اس وائرس کی نوعیت کو سمجھنے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کی تدابیر کے ساتھ ساتھ لاک ڈاؤن کے بارے میں بھی تذبذب اور مخمعے کا شکا ررہے ہیں اور اُن کے پاکستان سے سیکڑوں گُنا مضبوط طبی نظام بھی بعض اوقات اس قدر بے بس ہوگئے کہ اُن کے لیے مریضوں کے ساتھ ساتھ مُردوں کو بھی سنبھالنا مشکل ہوگیا۔
ظاہر ہے کہ ہم جیسے معاشروں اور اس کے پالیسی سازوں کے لیے یہ آفتِ ناگہانی اور بھی زیادہ خطرناک اور نامانوس تھی، ایسے میں اگر کچھ غلط یا کم صحیح فیصلے ہوئے تو ضرورت مل کر انھیں صحیح کرنے اور ایک مربوط لائحہ عمل تجویز کرنے کی تھی نہ کہ ہم کسی شخص کے کہے ہوئے کسی جملے ، کسی بات کی تہہ تک نہ پہنچ سکنے، صورتِ حال کے تجزیئے یا کسی بات کو بیان کرنے کے قدرے مجہول انداز کو پکڑ کر بیٹھ جائیں اور بار بار اُسی کو دہراتے چلے جائیں ۔دوسری طرف یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ حاکمِ اعلیٰ یا حکمران جماعت کے کچھ لوگوں نے ایمانداری اور اخلاص کے ساتھ کیے گئے اختلافات کو بھی سننے اور سمجھنے سے انکار کر دیا اور اختلاف کنندگان کو زبردستی اُٹھا کر ایک ایسی صفِ دشمناں میں بٹھا دیا جس کے وہ سزا وار نہ تھے ۔
ان چند ہفتوں میں میں نے ہر طرح کے لوگوں کی باتیں سُنی ہیں لیکن شائد ہی کوئی ایسی محفل ہو جس میں کورونا کے بارے میں موجود اور پھیلائے گئے اُس کنفیوژن کو دُور کرنے کی کوشش کی گئی ہو جو ہم سب کا اجتماعی مسئلہ ہے، بعض لائق اور دانش مند لوگوں کا ذاتی غصہ یا حکومتی پالیسی یا کچھ افراد سے ذہنی اور نظریاتی اختلاف اپنی جگہ اور اُس ضمن میں حاکم طبقے کی لاپروائی یا تکبّر سے پیدا شدہ سچی یا اضافہ شدہ ناراضی بھی بجا اور درست مگر جب مسئلہ کسی اجتماعی اور وہ بھی کورونا جیسے خطرناک مسئلے کے حل کا ہو تو میری ذاتی رائے میں خلقِ خدا کی بہتری کے بڑے ثواب کے مقابلے میں اپنے غصے یا اختلاف پر قابو پانا اور اپنی اَنّا کے بُت کو کچھ دیر کے لیے نظر انداز کر دینا ایک ایسا چھوٹا گناہ ہے جسے کرلینا چاہیے کہ ایک اشتہار کے مطابق تو داغ بھی اچھے ہوتے ہیں۔
کورونا کے بعد کی دنیا میں بہت سی تبدیلیاں آئیں گی جن میں سے کچھ کا ذکر ابھی سے ہو رہا ہے ، میں سمجھتاہوں کہ تیسری دنیا کے ممالک کو بھی اختلاف برائے اختلاف کی اُس عادت کو چھوڑنا ہوگا جس کی وجہ سے ہم کسی کنفیوژن کو دور کرنے ا ور کسی مسئلے کا عملی حل نکالنے کے بجائے اپنا زیادہ وقت ایک دوسرے کو نیچے گرانے ا ور اپنی ہی بات کو آخری اور صحیح سمجھنے اور بتانے میں ضایع کردیتے ہیں۔
اس وباء نے بڑے بڑے دماغوں کو چکرا کے رکھ دیا ہے، سو اگر ہمارے کچھ پالیسی سازوں سے بھی کچھ غلطیاں ہوئی ہیں تو انھیں اسی تسلسل کا ایک حصہ سمجھیے ۔ پرانے حساب کسی اور جگہ اور وقت پر بے باق کر لیجیے گا یہ کورونا کسی ایک فرد ، جماعت یا صوبے کا نہیں، ہم سب کا ایک جیسا دشمن ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے پہلا کام اُس کنفیوژن کو ختم کرنا ہے جس میں اس وقت ہم سب اپنی اپنی جگہ دانستہ یا نا دانستہ طور پر اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔
گزشتہ تین ماہ سے میری ذاتی احتیاط اور میرے بچوں نے مجھے مستقل طور پر نیم قرنطینہ کرکے رکھا ہوا ہے چنانچہ خواہی نخواہی مجھے وہ نیوز پروگرام بھی دیکھنے پڑے ہیں جن کو میں بوجوہ Avoid کیا کرتا تھا۔ کورونا کا ایک کمال تو یہ ہے کہ اس نے ہر چینل اور اس کے اینکرز کو نہ چاہتے ہوئے بھی ایک ایسی صورتِ حال میں مبتلا کردیا ہے کہ وہ سب کے سب اس کنفیوژن کو پھیلانے کے حوالے سے ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں اور غالباً ہماری تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اس کا الزام اُن پر رکھنا بھی بہت زیادہ انصاف کی بات نہیں ہوگی کہ اس بار اس کنفیوژن کو پھیلانے کی ذمے د اری اُن کی جگہ مرکزی اور صوبائی حکومتوںکے چند باقاعدہ ترجمانوں کے علاوہ کچھ ایسے خودساختہ دانشوروں نے لے لی ہے جن کو کسی نے بھی سمجھانے یا روکنے کی کوشش نہیں کی۔
بدقسمتی سے طِب کے شعبے کے حوالے سے بھی عمومی روّیہ کچھ ایسا ہی رہا کہ سرکاری کانفرنسوں، ٹی وی پروگراموں اور سوشل میڈیا پر اس کے علاج کے حوالوں سے گفتگو کرنے والوں نے بھی ایسے بیانات جاری کیے جس سے معاملات میں مزید بگاڑ پیدا ہو اور ایسے نیم حکیموں اور روحانی علاج کرنے والوں نے سوشل میڈیا پر دوکانیں لگا لیں جن کو یہ تک پتہ نہیں تھا کہ یہ وائرس ہے کیا اور کس طرح سے کام کرتا ہے؟ اس میں شک نہیں کہ ایکسپریس سمیت دس بارہ بڑے چینلز نے عوامی آگاہی کے لیے کئی بہت اچھے پروگرام بھی کیے مگر بدقسمتی سے خود اپنا کیااور بنایا ہوا مُرغوں کی لڑائی والا انداز ہی اُن کی راہ کی دیوار بن گیا کہ ایک دوسرے کی بات کاٹنے ، حکومت کی اندھا دھند خوشامد یا مخالفت کرنے والے عوامی نمائندے اور ہر قیمت پرپوائنٹ اسکورنگ کرنے والے ماہرین کورونا کے لیے مختص پروگراموں میں بھی اپنا اپنا علم اور حق نمک ادا کرتے رہے جس میں ہر ایک کی پہلی کوشش یہی تھی کہ کورونا ختم ہو یا نہ ہو اُن کے مخالفین ضرورختم ہوجائیں، بعض صورتوں میں تو یہ منظر اس قدر ناقابلِ دید وشنید ہوجاتا تھا کہ علامہ اقبال کی ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر سوچتی ہوئی آنکھوں والی تصویر پر کیا گیا یہ مزاحیہ تبصرہ ایک حقیقت معلوم ہونے لگتا تھا کہ
''یا اﷲ یہ میں نے کس قوم کا خواب دیکھ لیا ہے؟''
حکومت کے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ پولیٹیکل سائنس، معاشیات، قانون، صحافت اور سماجیات کے ماہرین بھی کم و بیش اسی رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں، ہر ایک کے پاس حکومتی اقدامات ، سوچ اور فیصلوں کے خلاف ایک چارج شیٹ موجود ہوتی ہے (جس میں بہت سی باتیں درست اور باوزن بھی ہوتی ہیں اور علمی اعتبار سے کئی تجزیئے بھی بہت معقول ہوتے ہیں) مگر عمومی طور پر دیکھا جائے تو نہ تو کوئی زیر بحث مسئلے کا عملی حل بتاپاتا ہے اور نہ ہی دوسری پارٹی کو غلطی کی وہ گنجائش دینے پر تیار ہوتاہے جس کو وہ خود اپنے لیے جائز اور برحق سمجھتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اس وبا نے بڑے بڑے ترقی یافتہ اور معاشی طور پر مضبوط ملکوں کو نہ صرف جڑ سے ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ اُن کے ماہرین اور فیصلہ ساز بھی اس وائرس کی نوعیت کو سمجھنے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کی تدابیر کے ساتھ ساتھ لاک ڈاؤن کے بارے میں بھی تذبذب اور مخمعے کا شکا ررہے ہیں اور اُن کے پاکستان سے سیکڑوں گُنا مضبوط طبی نظام بھی بعض اوقات اس قدر بے بس ہوگئے کہ اُن کے لیے مریضوں کے ساتھ ساتھ مُردوں کو بھی سنبھالنا مشکل ہوگیا۔
ظاہر ہے کہ ہم جیسے معاشروں اور اس کے پالیسی سازوں کے لیے یہ آفتِ ناگہانی اور بھی زیادہ خطرناک اور نامانوس تھی، ایسے میں اگر کچھ غلط یا کم صحیح فیصلے ہوئے تو ضرورت مل کر انھیں صحیح کرنے اور ایک مربوط لائحہ عمل تجویز کرنے کی تھی نہ کہ ہم کسی شخص کے کہے ہوئے کسی جملے ، کسی بات کی تہہ تک نہ پہنچ سکنے، صورتِ حال کے تجزیئے یا کسی بات کو بیان کرنے کے قدرے مجہول انداز کو پکڑ کر بیٹھ جائیں اور بار بار اُسی کو دہراتے چلے جائیں ۔دوسری طرف یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ حاکمِ اعلیٰ یا حکمران جماعت کے کچھ لوگوں نے ایمانداری اور اخلاص کے ساتھ کیے گئے اختلافات کو بھی سننے اور سمجھنے سے انکار کر دیا اور اختلاف کنندگان کو زبردستی اُٹھا کر ایک ایسی صفِ دشمناں میں بٹھا دیا جس کے وہ سزا وار نہ تھے ۔
ان چند ہفتوں میں میں نے ہر طرح کے لوگوں کی باتیں سُنی ہیں لیکن شائد ہی کوئی ایسی محفل ہو جس میں کورونا کے بارے میں موجود اور پھیلائے گئے اُس کنفیوژن کو دُور کرنے کی کوشش کی گئی ہو جو ہم سب کا اجتماعی مسئلہ ہے، بعض لائق اور دانش مند لوگوں کا ذاتی غصہ یا حکومتی پالیسی یا کچھ افراد سے ذہنی اور نظریاتی اختلاف اپنی جگہ اور اُس ضمن میں حاکم طبقے کی لاپروائی یا تکبّر سے پیدا شدہ سچی یا اضافہ شدہ ناراضی بھی بجا اور درست مگر جب مسئلہ کسی اجتماعی اور وہ بھی کورونا جیسے خطرناک مسئلے کے حل کا ہو تو میری ذاتی رائے میں خلقِ خدا کی بہتری کے بڑے ثواب کے مقابلے میں اپنے غصے یا اختلاف پر قابو پانا اور اپنی اَنّا کے بُت کو کچھ دیر کے لیے نظر انداز کر دینا ایک ایسا چھوٹا گناہ ہے جسے کرلینا چاہیے کہ ایک اشتہار کے مطابق تو داغ بھی اچھے ہوتے ہیں۔
کورونا کے بعد کی دنیا میں بہت سی تبدیلیاں آئیں گی جن میں سے کچھ کا ذکر ابھی سے ہو رہا ہے ، میں سمجھتاہوں کہ تیسری دنیا کے ممالک کو بھی اختلاف برائے اختلاف کی اُس عادت کو چھوڑنا ہوگا جس کی وجہ سے ہم کسی کنفیوژن کو دور کرنے ا ور کسی مسئلے کا عملی حل نکالنے کے بجائے اپنا زیادہ وقت ایک دوسرے کو نیچے گرانے ا ور اپنی ہی بات کو آخری اور صحیح سمجھنے اور بتانے میں ضایع کردیتے ہیں۔
اس وباء نے بڑے بڑے دماغوں کو چکرا کے رکھ دیا ہے، سو اگر ہمارے کچھ پالیسی سازوں سے بھی کچھ غلطیاں ہوئی ہیں تو انھیں اسی تسلسل کا ایک حصہ سمجھیے ۔ پرانے حساب کسی اور جگہ اور وقت پر بے باق کر لیجیے گا یہ کورونا کسی ایک فرد ، جماعت یا صوبے کا نہیں، ہم سب کا ایک جیسا دشمن ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے پہلا کام اُس کنفیوژن کو ختم کرنا ہے جس میں اس وقت ہم سب اپنی اپنی جگہ دانستہ یا نا دانستہ طور پر اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔