شہباز شریف کی پیشی کھیل کیا ہے
میں نے بہت سے قانون دانوں سے بھی پوچھا ہے کہ آخر شہباز شریف کے خلاف کیا تفتیش ہورہی ہے
شہباز شریف نیب میں پیش ہو گئے۔ کیا یہ کافی ہے۔ میں نہیں سمجھتا۔ ابھی تک کی حکمت عملی کا اگر تجز یہ کیا جائے تو صاف ظاہر ہوتاہے کہ حکومت کی اولین ترجیح تفتیش یا شہباز شریف کی پیشی نہیں بلکہ گرفتاری ہے۔ جس میں ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ اسی لیے اس کھیل میں جیت اور ہار کا فیصلہ یہی ہے کہ کیاحکومت شہباز شریف کو گرفتار کرانے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔اسی لیے طلبی کے گزشتہ نوٹس سے پہلے ہی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جا چکے تھے یعنی ادھر وہ آئے اور وہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔
ایسا شہباز شریف کے ساتھ پہلے بھی ہوچکا ہے۔ آشیانہ میں بلا کر صاف پانی میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ لیکن شاید شہباز شریف بھی ہوشیار ہو چکے ہیں کہ دوسری بار دھوکہ نہ کھایا جائے۔ بہر حال اگر گرفتاری ہو گئی تو حکومت جیت گئی اور اگر نہ ہو سکی تو شہباز شریف جیت جائے گا۔ اسی لیے شہباز شریف بھی حتیٰ الامکا ن کوشش کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح گرفتاری سے بچ جایا جائے۔ شیخ رشید تو کافی دن سے شہباز شریف کی گرفتاری کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ وہ تو یہ بھی کہہ رہے تھے کہ عید کے بعد نیب ٹارزن بن جائے گا۔ ٹارزن شیر کو پکڑنے کے لیے جنگل میں مارا مارا پھرتا نظر آیا ہے لیکن شیر قابو نہیں آیا ہے۔
میں نے بہت سے قانون دانوں سے بھی پوچھا ہے کہ آخر شہباز شریف کے خلاف کیا تفتیش ہورہی ہے۔ جب بھی شہباز شریف پیش ہوتے ہیں تو ذرائع سے ان کے خلاف ایسی خبریں لیک کی جاتی ہیں جن کا واحد مقصد انھیںگندا کرنا ہوتا ہے۔ جیسے گزشتہ پیشی کے بعد یہ مشہور کر دیا گیا کہ شہباز شریف نے بتایا ہے کہ وہ بھینسوں کا دودھ بیچ کر گزارا کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی شہباز شریف کا ایک ڈیری فارم ہے جو الیکشن کمیشن اور ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کیا گیا ہے۔ اس ڈیری فارم کی آمدنی شہباز شریف اپنے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کرتے ہیں۔
اس بات کو یوں پیش کیا گیا کہ جیسے شہباز شریف کوئی معمولی موٹر سائیکل سوار دودھی ہے ۔ میں تو حیران ہوں کہ ابھی وہ تفتیشی سیل سے باہر بھی نہیں آتے لیکن تفتیش کے حوالے سے اطلاعات چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ پھر ن لیگ بھی جواب دینے کے لیے کمر کس لیتی ہے۔ جواب الجواب کا ایک ایسا کھیل شروع ہوجاتا ہے جو کم از کم حکومت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ ن لیگ کو اس میں فائدہ ہے کیونکہ معاملہ سیاسی رنگ اختیار کر جاتا ہے۔
اس بار بھی ایسے ہوا ہے ۔ شہباز شریف کی پیشی سے ایک دن پہلے ہی ایسی خبریں گردش کرنے لگیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ شہباز شریف سے پوچھا جائے گا کہ انھوں نے اپنے بھتیجے قرض کیوں لیا؟ اسحاق ڈار کی بہو سے قرض کیوں لیا؟ دیگر عزیزوں سے ان کا کیا لین دین ہے۔ مریم نواز پر بھی ایسا ہی کیس بنانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ان کی ضمانت ہو گئی۔ مریم نواز نے بھی جواب دیا تھا کہ مرحوم میاں شریف اس بارے میں بتا سکتے ہیں کیونکہ پیسے اور کاروبار ان کے کنٹرول میں تھا۔ شہباز شریف بھی یہی کہیں گے کیونکہ مشترکہ کاروبار میں یہ ایک معمول رہتا ہے۔
اب یہ اطلاع سامنے آگئی ہے کہ شہباز شریف نے کرپشن کا اعتراف کر لیا ہے لیکن ساتھ انھوں نے یہ کہا ہے کہ یہ کرپشن میں نے نہیں میری اولاد نے کی ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ دوران تفتیش شہباز شریف نے دیوڈیو ریکارڈنگ بند کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ ان باتوں کی تو کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
دوسر ی طرف جواب الجواب میں ن لیگ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ شہباز شریف سے یہ پوچھا گیا ہے کہ آپ نے اپنی آمدن سے زیادہ ٹیکس کیوں دیا ہے۔ دیکھیں ملک میں آمدن سے کم ٹیکس دینا تو جرم تھا۔ یہ آمدن سے زیادہ ٹیکس دینا کیسے جرم بن گیا ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ مضحکہ خیز ہے ۔ یہ ایسا ہی سوال ہے جوپہلے پوچھا گیا کہ آپ اپنے بیٹے کی گاڑی میں کیوں آئے ہیں؟۔ کیا ایسے کسی پر کرپشن ثابت کی جاسکتی ہے۔ ابھی تک شہباز شریف کے ذاتی اکاؤنٹ میں کوئی ٹی ٹی بھی نہیں مل سکی ہے۔ ایسے میںکیا شہباز شریف کا یہ سوال جائز نہیں لگتا کہ ان کے خلاف سرکاری فنڈز میں خرد برد کا کوئی الزام ہے تو اسے سامنے لایا جائے۔ یہ نجی کاروباری معاملات کی چھان بین انتقام نہیں تو کیا ہے۔ کیا باقی سب کاروباری حضرات کے نجی کاروبا رکی ایسے ہی چھان بین ہورہی ہے۔
بہر حال سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں اس سب کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس سارے کھیل کی اہمیت توصرف یہ ہے کہ کیا شہباز شریف گرفتار ہوںگے کہ نہیں۔ حکومت شہباز شریف کی گرفتاری کے لیے اس لیے خواہاں ہے کیونکہ حکومت یہ تاثر ختم کرنا چاہتی ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے شہباز شریف کے سر پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ حکومت کو یہ خوف لاحق ہوگیا ہے کہ شہباز شریف کو ان کے متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ وہ اپنے متبادل ہونے کا تاثرختم کرنا چاہتے ہیں ورنہ جب مریم نواز باہر ہیں۔ نواز شریف لندن ہیں۔ شاہد خاقان احسن اقبال رانا ثنا ء اللہ خواجہ برداران باہر آگئے تو شہباز شریف کی گرفتاری کا کیا جواز ہے۔ لیکن وہ سب اس وقت عمران خان کے متبادل کے طور پر نہیں دیکھے جا رہے۔ ان سے عمران خان خطرہ نہیں محسوس کرتے۔ شہباز شریف متبادل بن گئے ہیں۔
شہباز شریف کی بطور متبادل حیثیت مضبوط ہو تی جا رہی ہے۔ یہی سب سے بڑی پریشانی ہے۔ اسی لیے وہ خاموش بھی قابل قبول نہیں ہیں۔ وہ قرنطینہ میں بھی خطرہ ہیں۔اسی لیے یہ اس کھیل میں بس اتنا ہی اہم ہے کہ کیا شہباز شریف گرفتار ہوںگے کہ نہیں۔ اگر گزشتہ گرفتاری کے بعد بھی شہباز شریف آج بھی متبادل چوائس میں نمبر ون ہیں توپھر سو دفعہ گرفتار کر لیں، وہ متبادل چوائس میں نمبر ون ہی رہیں گے۔ لیکن یہ بات سمجھ نہیں آسکتی۔