آئی بی اے کے نئے ڈائریکٹر ساڑھے 25 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لیں گےسمری حکومت سندھ کو ارسال
سابق ڈائریکٹر کی جوائنگ کے وقت تنخواہ 18 لاکھ اور سبکدوشی کے وقت 21 لاکھ روپے تھی
انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈ منسٹریشن کے نئے ڈائریکٹر اکبر زیدی ساڑھے 25 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لیں گے جسکی سمری حکومت سندھ کو ارسال کردی گئی ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈ منسٹریشن ( آئی بی اے ) کراچی کے 4 ماہ قبل مقرر کیے گئے نئے ڈین/ڈائریکٹر کی تقرری کے حوالے سے ہوش ربا انکشافات سامنے آئے ہیں رواں سال جنوری میں سندھ حکومت کی جانب سے مقرر کیے گئے ڈائریکٹر اکبر زیدی سرکاری ادارے آئی بی اے سے ساڑھے 25 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ وصول کریں گے۔ نئے ڈائریکٹر کی تنخواہ تقریبا 25 فیصد اضافے کے ساتھ ساڑھے 25 لاکھ روپےماہانہ مقرر کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ سفارش آئی بی اے کراچی کے بورڈ آف گورنرز کی جانب سے حکومت سندھ کو بھجوائی گئی ہے۔
سمری کنٹرولنگ اتھارٹی وزیر اعلیٰ سندھ کی منظوری کی منتظر ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ ڈائریکٹر ڈاکٹر فرخ اقبال نے اپنی تعیناتی کے بعد سندھ کے دیگر وائس چانسلرز اور ڈائریکٹرز کے مقابلے میں اس وقت کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے اپنی تنخواہ میں کئی لاکھ اضافے کے بعد اسے 18 لاکھ روپے مقرر کروالیا تھا۔
آئی بی اے کے فنانس ذرائع بتاتے ہیں کہ گزشتہ برس جب وہ آئی بی اے سے قبل آز وقت سبکدوش ہوئے تو وہ 21 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لے رہے تھے یہ انکریمنٹ تین سال تک بجٹ میں لگایا گیا تھا، اب نئے ڈائریکٹر کی تنخواہ گزشتہ ڈائریکٹر کی اصل تنخواہ یعنی 18 لاکھ روپے کے مقابلے میں ساڑھے 7 لاکھ روپے زیادہ جبکہ آخری اضافہ شدہ تنخواہ کے مقابلے میں ساڑھے 4 لاکھ روپے اضافی دینے کی سفارش کی گئی ہے، تاہم آئی بی اے کو ابھی حکومت سندھ کی منظوری کا انتظار ہے
اہم بات یہ ہے کہ جامعات اور ڈگری ایواڈنگ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ کا عہدہ گریڈ 22 کے سرکاری افسر کے مساوی ہوتا ہے جبکہ اعلی تعلیمی کمیشن آف پاکستان نے سرکاری جامعات اور ڈگری ایوارڈنگ انسٹی ٹیوٹس کے سربراہوں کی ماہانہ تنخواہ " ٹینیور ٹریک سسٹم" کے تحت کام کرنے والے پروفیسر کے مساوی مقرر کررکھی ہے تاہم 20 فیصد وائس چانسلر الاؤنس اس تنخواہ کے علاوہ ہوتا ہے، یہ تنخواہ 3 لاکھ روپے سے زائد بنتی ہے جبکہ ہر سال بجٹ میں اس تنخواہ پر انکریمنٹ اس کے علاوہ ہوتا ہے۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے مذکورہ سمری کی منظوری کی صورت میں ڈاکٹر اکبر زیدی سابق ڈائریکٹر فرخ اقبال کی سبکدوشی کے وقت کی تنخواہ کے مقابلے میں 54 لاکھ روپے سالانہ جبکہ آئندہ ساڑھے 3 سال کے عرصے میں 1کروڑ 89 لاکھ روپے اضافی رقم سرکاری بجٹ اور طلبہ کی فیسوں سے چلنے والے ادارے سے حاصل کریں گے جبکہ سابق ڈائریکٹر کی ابتدائی تنخواہ 18 لاکھ روپے سے ان کی موجودہ سفارش کردہ تنخواہ کا موازنہ کیا جائے تو ڈاکٹر اکبر زیدی 90 لاکھ روپے سالانہ جبکہ ساڑھے 3 سال میں 3کروڑ 15 لاکھ روپے اضافی رقم سرکاری خزانے سے حاصل کریں گے۔
واضح رہے کہ اس سے کچھ زیادہ پاکستان میں رقم پبلک سیکٹر کی بعض جامعات کا مجموعی ماہانہ پے رول ہوتا ہے جس میں وائس چانسلر، اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کے افراد کی تنخواہیں شامل ہوتی ہیں اہم بات یہ ہے کہ آئی بی اے گزشتہ ڈائریکٹر کو دی جانے والی تنخواہ ہی نئے ڈائریکٹر کے لیے مقرر کرکے مجموعی طور پر کروڑوں روپے کی بچت کرسکتا ہے اور اس رقم کو طلبہ امور کے مختلف منصوبوں پر خرچ کیا جاسکتا ہے، پرانے ڈائریکٹر کی تنخواہ بھی 18 لاکھ روپے سے زائد ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ آئی بی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی جانب سے ڈین یا ڈائریکٹر کی تنخواہ ساڑھے 25لاکھ روپے مقرر کرنے کی جو سفارش کی گئی ہے دیگر ماہانہ سہولیات ان کے علاوہ ہیں جن میں 2 ہزار سی سی گاڑی، 4800 لیٹر فیول سالانہ،میڈیکل، گریجویٹی، پریزیڈینشل فون کی مد میں 1لاکھ 80 ہزار روپے سالانہ جبکہ موبائل فون الائنس کی مد میں بھی 1 لاکھ 80 ہزار روپے سالانہ رقم کی سفارش کی گئی ہے۔ اس سمری میں حیرت انگیز طور پر یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ دونوں میں سے کسی بھی جانب سے آئی بی اے کے ڈائریکٹر کی خدمات منقطع کرنے یا ہونے کی صورت میں 4 ماہ کا نوٹس پیریڈ بمع تنخواہ دینا ہوگا۔
ادھر یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تقریبا ساڑھے 5 ماہ کی تعطیل پر امریکا گئے ہوئے آئی بی اے کے نئے ڈائریکٹر اکبر زیدی نے قائم مقام ڈائریکٹر سعید غنی کی موجودگی میں ادارے کے انتظامی معاملات بھی سنبھال رکھے ہیں۔ طویل اور آفیشل رخصت پر جانے کے باوجود وہ امریکا سے بیٹھ کر آئی بی اے کے مختلف اجلاسوں کی بحیثیت ڈائریکٹر صدارت کرتے ہیں، فیصلہ سازی میں شریک ہوتے ہیں اور حکومت سندھ کی جانب سے اس مدت میں انتظامی امور چلانے کے لیے مقرر کیے گئے قائم مقام ڈائریکٹر ڈاکٹر سعید غنی ان اجلاسوں میں بحیثیت قائم مقام سربراہ اپنا کردار ادا نہیں کر پاتے جن اجلاسوں میں ڈاکٹر اکبر زیدی شریک ہوتے اور اجلاس کی صدارت کرتے ہیں وہاں ڈاکٹر سعید غنی کی حیثیت بجائے ایک آفیشل قائم مقام ڈائریکٹر کے محض ایک شریک رکن کے ہوتی ہے۔
ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ جن اجلاسوں کی صدارت ڈاکٹر اکبر زیدی کو کرنی ہوتی ہے، انھیں امریکا میں ڈاکٹر اکبر زیدی کی دستیابی اور وقت دیکھ کر شیڈول کیا جاتا ہے، واضح رہے کہ ڈاکٹر اکبر زیدی جنوری میں اپنی تقرری کے بعد آئی بی اے کا چارج لیتے ہی فورا امریکا روانہ ہوگئے تھے جہاں انھیں کولمبیا یونیورسٹی میں تقریبا 6 ماہ تک اپنا نوٹس پیریڈ مکمل کرنا ہے۔
اس حوالے سے حکومت سندھ کے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈ نے 14 جنوری کو آئی بی اے کے نئے مقرر کیے گئے ڈائریکٹر ڈاکٹر اکبر زیدی کو این او سی جاری کی جس کی وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے انھیں 17 جنوری 2020 سے یکم جولائی 2020 کی ساڑھے پانچ ماہ کی Ex Pakistan چھٹی کی منظوری دی گئی۔ این او سی میں تحریر تھا کہ ان کی عدم موجودگی میں ڈاکٹر سعید غنی قائم مقام ڈائریکٹر کے فرائض انجام دیں گے جبکہ اس ضمن میں حکومت سندھ کسی قسم کی مالی امور کی ذمے دار نہیں ہوگی اور درخواست گزار تمام اخراجات خود کریں گے، اسی اثنا میں 6 فروری 2020 کو محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کی جانب سے مزید ایک خط جاری ہوا جس میں ڈاکٹر اکبر زیدی سے کہا گیا کہ آئی بی اے کے پیٹرن/وزیر اعلیٰ سندھ نے آپ کی اس سفارش کی منظوری دے دی ہے کہ تعطیلات کے دوران آئی بی اے کو آپ کی ضرورت ہوئی تو اس سلسلے کے اخراجات آئی بی اے برداشت کرے گا۔
واضح رہے کہ یہ بھی اپنی نوعیت کا انوکھا معاملہ ہے آئی بی اے کے ڈائریکٹر اکبر زیدی اپنے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی چھٹیاں لے کر کولمبیا کی یونیورسٹی میں اپنا نوٹس پیریڈ مکمل کرنے امریکا روانہ ہوگئے جبکہ ان کا تقرر چار سال کے لیے کیا گیا ہے قابل ذکر امر یہ ہے کہ تقرری سب قبل حکومت سندھ یا پھر آن کا انتخاب کرنے والے سرچ کمیٹی یہ جانتی ہی نہیں تھی کہ وہ آئی بج اے کراچی کو فزیکلی اپنی خدمات دینے کے بجائے ساڑھے 5 ماہ کے لیے امریکا روانہ ہوجائیں گے۔
"ایکسپریس"نے اس حوالے سے سرچ کمیٹی کے ایک رکن سے دریافت کیا کہ کیا سرچ کمیٹی نے یہ جانتے ہوئے کہ اکبر زیدی آئندہ 6 ماہ تک آئی بی اے کراچی میں نہیں ہونگے ان کے تقرر کی سفارش کیوں کی اس سوال پر متعلقہ رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر "ایکسپریس " کو بتایا کہ سرچ کمیٹی اگر اس حقیقت سے آگاہ ہوتی تو کسی صورت بھی ڈاکٹر اکبر زیدی کے نام کی سفارش نہ کرتی کمیٹی کے رکن نے مزید بتایا کہ ہم نے دوران انٹرویو ان سے یہ سوال کیا تھا کہ اگربحیثیت ڈائریکٹر ان کے نام کی سفارش کی جاتی ہے تو کیا وہ فوری طور پر انسٹیٹیوٹ جوائن کرنے کی پوزیشن میں ہیں جس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ فوری طور پر آیی بی اے کو جوائن کرسکتے ہیں اور بظاہر انھوں نے ایسا ہی کیا تاہم کمیٹی یہ نہیں جانتی تھی کہ اکبر زیدی کی understanding میں یہ بات نہیں ہے کہ جوائنگ کا مطلب ادارے میں خدمات دینا بھی ہے نا کہ تعطیلات پر چلے جانا۔
ادھر "ایکسپریس " نے آئی بی اے کے قائم مقام ڈائریکٹر ڈاکٹر سعید غنی سے جب اس سلسلے میں سوال کیا کہ انھیں جب سندھ حکومت نے قائم مقام ڈائریکٹر مقرر کردیا ہے تو ڈاکٹر اکبر زیدی اجلاسوں کی صدارت کیوں کرتے ہیں جس پر ان کا کہنا تھا کہ COVID 19 نے صورتحال تبدیل کردی ہے یہ عام حالات نہیں ہیں ہم ملکر چیزوں کو سنبھالتے ہیں، جہاں ضرورت ہوتی ہے میں خود اجلاس چیئر کرتا ہوں تاہم کچھ اجلاس ڈاکٹر اکبر زیدی بھی چیئر کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سعید غنی کا یہ بھی کہنا تھا کہ زیادہ تر اجلاس وہ خود چیئر کرتے ہیں لیکن ہر اجلاس میں ڈاکٹر اکبر زیدی شریک ہوتے ہیں تنخواہ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ڈاکٹر سعید غنی نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
ادھر "ایکسپریس"نے ڈائریکٹر آئی بی اے کراچی ڈاکٹر اکبر زیدی سے اس معاملے پر ان کا موقف جاننے کے لیے امریکا فون کرکے ان سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ ان کے ادارے کی جانب سے 25 لاکھ روپے سے زائد ماہانہ تنخواہ انھیں دینے کی سفارش کی گئی ہے وہ اس پر کیا کہیں گے جس پر ڈاکٹر اکبر زیدی نے لاعلمی کا ظاہر کردی اور کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں، اس وقت میں آئی بی اے میں نہیں ہوں، آئی بی اے کی موجودہ انتظامیہ ہی بہتر بتائے گی جب نمائندہ "ایکسپریس " نے ان سے استفسار کرتے ہوئے بتایا کہ کیا اپنی ہی بی او جی کی اس سفارش سے وہ آگاہ نہیں ہیں جس پر ان کا کہنا تھا کہ میں اب تک بی او جی میں نہیں گیا، میری تنخواہ کی کیا Terms ہیں یہ بی او جی ، آئی بی اے کی انتظامیہ اور سندھ گورنمنٹ کو معلوم ہوگا میں واپس آؤں گا تو معلوم ہوگا۔
علاوہ ازیں "ایکسپریس" نے اس معاملے پر چیئرمین سندھ ایچ ای سی ڈاکٹر عاصم حسین سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اقدام بالکل غلط ہے، جامعات اور ڈگری ایوارڈنگ انسٹی ٹیوٹ کے وائس چانسلرز یا ڈائریکٹرز کی تنخواہیں مساوی ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر عاصم نے کہا کہ اس معاملے پر فیڈرل ایچ ای سی کی باقاعدہ رولنگ موجود ہے جس کے مطابق it should be uniformed ڈاکٹر عاصم نے مزید کہا کہ یہ سب غلط ہورہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جامعات کی فائلیں سندھ ایچ ای سی کے پاس سے ہوکر نہیں جاتی۔
انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈ منسٹریشن ( آئی بی اے ) کراچی کے 4 ماہ قبل مقرر کیے گئے نئے ڈین/ڈائریکٹر کی تقرری کے حوالے سے ہوش ربا انکشافات سامنے آئے ہیں رواں سال جنوری میں سندھ حکومت کی جانب سے مقرر کیے گئے ڈائریکٹر اکبر زیدی سرکاری ادارے آئی بی اے سے ساڑھے 25 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ وصول کریں گے۔ نئے ڈائریکٹر کی تنخواہ تقریبا 25 فیصد اضافے کے ساتھ ساڑھے 25 لاکھ روپےماہانہ مقرر کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ سفارش آئی بی اے کراچی کے بورڈ آف گورنرز کی جانب سے حکومت سندھ کو بھجوائی گئی ہے۔
سمری کنٹرولنگ اتھارٹی وزیر اعلیٰ سندھ کی منظوری کی منتظر ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ ڈائریکٹر ڈاکٹر فرخ اقبال نے اپنی تعیناتی کے بعد سندھ کے دیگر وائس چانسلرز اور ڈائریکٹرز کے مقابلے میں اس وقت کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے اپنی تنخواہ میں کئی لاکھ اضافے کے بعد اسے 18 لاکھ روپے مقرر کروالیا تھا۔
آئی بی اے کے فنانس ذرائع بتاتے ہیں کہ گزشتہ برس جب وہ آئی بی اے سے قبل آز وقت سبکدوش ہوئے تو وہ 21 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لے رہے تھے یہ انکریمنٹ تین سال تک بجٹ میں لگایا گیا تھا، اب نئے ڈائریکٹر کی تنخواہ گزشتہ ڈائریکٹر کی اصل تنخواہ یعنی 18 لاکھ روپے کے مقابلے میں ساڑھے 7 لاکھ روپے زیادہ جبکہ آخری اضافہ شدہ تنخواہ کے مقابلے میں ساڑھے 4 لاکھ روپے اضافی دینے کی سفارش کی گئی ہے، تاہم آئی بی اے کو ابھی حکومت سندھ کی منظوری کا انتظار ہے
اہم بات یہ ہے کہ جامعات اور ڈگری ایواڈنگ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ کا عہدہ گریڈ 22 کے سرکاری افسر کے مساوی ہوتا ہے جبکہ اعلی تعلیمی کمیشن آف پاکستان نے سرکاری جامعات اور ڈگری ایوارڈنگ انسٹی ٹیوٹس کے سربراہوں کی ماہانہ تنخواہ " ٹینیور ٹریک سسٹم" کے تحت کام کرنے والے پروفیسر کے مساوی مقرر کررکھی ہے تاہم 20 فیصد وائس چانسلر الاؤنس اس تنخواہ کے علاوہ ہوتا ہے، یہ تنخواہ 3 لاکھ روپے سے زائد بنتی ہے جبکہ ہر سال بجٹ میں اس تنخواہ پر انکریمنٹ اس کے علاوہ ہوتا ہے۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے مذکورہ سمری کی منظوری کی صورت میں ڈاکٹر اکبر زیدی سابق ڈائریکٹر فرخ اقبال کی سبکدوشی کے وقت کی تنخواہ کے مقابلے میں 54 لاکھ روپے سالانہ جبکہ آئندہ ساڑھے 3 سال کے عرصے میں 1کروڑ 89 لاکھ روپے اضافی رقم سرکاری بجٹ اور طلبہ کی فیسوں سے چلنے والے ادارے سے حاصل کریں گے جبکہ سابق ڈائریکٹر کی ابتدائی تنخواہ 18 لاکھ روپے سے ان کی موجودہ سفارش کردہ تنخواہ کا موازنہ کیا جائے تو ڈاکٹر اکبر زیدی 90 لاکھ روپے سالانہ جبکہ ساڑھے 3 سال میں 3کروڑ 15 لاکھ روپے اضافی رقم سرکاری خزانے سے حاصل کریں گے۔
واضح رہے کہ اس سے کچھ زیادہ پاکستان میں رقم پبلک سیکٹر کی بعض جامعات کا مجموعی ماہانہ پے رول ہوتا ہے جس میں وائس چانسلر، اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کے افراد کی تنخواہیں شامل ہوتی ہیں اہم بات یہ ہے کہ آئی بی اے گزشتہ ڈائریکٹر کو دی جانے والی تنخواہ ہی نئے ڈائریکٹر کے لیے مقرر کرکے مجموعی طور پر کروڑوں روپے کی بچت کرسکتا ہے اور اس رقم کو طلبہ امور کے مختلف منصوبوں پر خرچ کیا جاسکتا ہے، پرانے ڈائریکٹر کی تنخواہ بھی 18 لاکھ روپے سے زائد ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ آئی بی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی جانب سے ڈین یا ڈائریکٹر کی تنخواہ ساڑھے 25لاکھ روپے مقرر کرنے کی جو سفارش کی گئی ہے دیگر ماہانہ سہولیات ان کے علاوہ ہیں جن میں 2 ہزار سی سی گاڑی، 4800 لیٹر فیول سالانہ،میڈیکل، گریجویٹی، پریزیڈینشل فون کی مد میں 1لاکھ 80 ہزار روپے سالانہ جبکہ موبائل فون الائنس کی مد میں بھی 1 لاکھ 80 ہزار روپے سالانہ رقم کی سفارش کی گئی ہے۔ اس سمری میں حیرت انگیز طور پر یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ دونوں میں سے کسی بھی جانب سے آئی بی اے کے ڈائریکٹر کی خدمات منقطع کرنے یا ہونے کی صورت میں 4 ماہ کا نوٹس پیریڈ بمع تنخواہ دینا ہوگا۔
ادھر یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تقریبا ساڑھے 5 ماہ کی تعطیل پر امریکا گئے ہوئے آئی بی اے کے نئے ڈائریکٹر اکبر زیدی نے قائم مقام ڈائریکٹر سعید غنی کی موجودگی میں ادارے کے انتظامی معاملات بھی سنبھال رکھے ہیں۔ طویل اور آفیشل رخصت پر جانے کے باوجود وہ امریکا سے بیٹھ کر آئی بی اے کے مختلف اجلاسوں کی بحیثیت ڈائریکٹر صدارت کرتے ہیں، فیصلہ سازی میں شریک ہوتے ہیں اور حکومت سندھ کی جانب سے اس مدت میں انتظامی امور چلانے کے لیے مقرر کیے گئے قائم مقام ڈائریکٹر ڈاکٹر سعید غنی ان اجلاسوں میں بحیثیت قائم مقام سربراہ اپنا کردار ادا نہیں کر پاتے جن اجلاسوں میں ڈاکٹر اکبر زیدی شریک ہوتے اور اجلاس کی صدارت کرتے ہیں وہاں ڈاکٹر سعید غنی کی حیثیت بجائے ایک آفیشل قائم مقام ڈائریکٹر کے محض ایک شریک رکن کے ہوتی ہے۔
ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ جن اجلاسوں کی صدارت ڈاکٹر اکبر زیدی کو کرنی ہوتی ہے، انھیں امریکا میں ڈاکٹر اکبر زیدی کی دستیابی اور وقت دیکھ کر شیڈول کیا جاتا ہے، واضح رہے کہ ڈاکٹر اکبر زیدی جنوری میں اپنی تقرری کے بعد آئی بی اے کا چارج لیتے ہی فورا امریکا روانہ ہوگئے تھے جہاں انھیں کولمبیا یونیورسٹی میں تقریبا 6 ماہ تک اپنا نوٹس پیریڈ مکمل کرنا ہے۔
اس حوالے سے حکومت سندھ کے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈ نے 14 جنوری کو آئی بی اے کے نئے مقرر کیے گئے ڈائریکٹر ڈاکٹر اکبر زیدی کو این او سی جاری کی جس کی وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے انھیں 17 جنوری 2020 سے یکم جولائی 2020 کی ساڑھے پانچ ماہ کی Ex Pakistan چھٹی کی منظوری دی گئی۔ این او سی میں تحریر تھا کہ ان کی عدم موجودگی میں ڈاکٹر سعید غنی قائم مقام ڈائریکٹر کے فرائض انجام دیں گے جبکہ اس ضمن میں حکومت سندھ کسی قسم کی مالی امور کی ذمے دار نہیں ہوگی اور درخواست گزار تمام اخراجات خود کریں گے، اسی اثنا میں 6 فروری 2020 کو محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کی جانب سے مزید ایک خط جاری ہوا جس میں ڈاکٹر اکبر زیدی سے کہا گیا کہ آئی بی اے کے پیٹرن/وزیر اعلیٰ سندھ نے آپ کی اس سفارش کی منظوری دے دی ہے کہ تعطیلات کے دوران آئی بی اے کو آپ کی ضرورت ہوئی تو اس سلسلے کے اخراجات آئی بی اے برداشت کرے گا۔
واضح رہے کہ یہ بھی اپنی نوعیت کا انوکھا معاملہ ہے آئی بی اے کے ڈائریکٹر اکبر زیدی اپنے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی چھٹیاں لے کر کولمبیا کی یونیورسٹی میں اپنا نوٹس پیریڈ مکمل کرنے امریکا روانہ ہوگئے جبکہ ان کا تقرر چار سال کے لیے کیا گیا ہے قابل ذکر امر یہ ہے کہ تقرری سب قبل حکومت سندھ یا پھر آن کا انتخاب کرنے والے سرچ کمیٹی یہ جانتی ہی نہیں تھی کہ وہ آئی بج اے کراچی کو فزیکلی اپنی خدمات دینے کے بجائے ساڑھے 5 ماہ کے لیے امریکا روانہ ہوجائیں گے۔
"ایکسپریس"نے اس حوالے سے سرچ کمیٹی کے ایک رکن سے دریافت کیا کہ کیا سرچ کمیٹی نے یہ جانتے ہوئے کہ اکبر زیدی آئندہ 6 ماہ تک آئی بی اے کراچی میں نہیں ہونگے ان کے تقرر کی سفارش کیوں کی اس سوال پر متعلقہ رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر "ایکسپریس " کو بتایا کہ سرچ کمیٹی اگر اس حقیقت سے آگاہ ہوتی تو کسی صورت بھی ڈاکٹر اکبر زیدی کے نام کی سفارش نہ کرتی کمیٹی کے رکن نے مزید بتایا کہ ہم نے دوران انٹرویو ان سے یہ سوال کیا تھا کہ اگربحیثیت ڈائریکٹر ان کے نام کی سفارش کی جاتی ہے تو کیا وہ فوری طور پر انسٹیٹیوٹ جوائن کرنے کی پوزیشن میں ہیں جس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ فوری طور پر آیی بی اے کو جوائن کرسکتے ہیں اور بظاہر انھوں نے ایسا ہی کیا تاہم کمیٹی یہ نہیں جانتی تھی کہ اکبر زیدی کی understanding میں یہ بات نہیں ہے کہ جوائنگ کا مطلب ادارے میں خدمات دینا بھی ہے نا کہ تعطیلات پر چلے جانا۔
ادھر "ایکسپریس " نے آئی بی اے کے قائم مقام ڈائریکٹر ڈاکٹر سعید غنی سے جب اس سلسلے میں سوال کیا کہ انھیں جب سندھ حکومت نے قائم مقام ڈائریکٹر مقرر کردیا ہے تو ڈاکٹر اکبر زیدی اجلاسوں کی صدارت کیوں کرتے ہیں جس پر ان کا کہنا تھا کہ COVID 19 نے صورتحال تبدیل کردی ہے یہ عام حالات نہیں ہیں ہم ملکر چیزوں کو سنبھالتے ہیں، جہاں ضرورت ہوتی ہے میں خود اجلاس چیئر کرتا ہوں تاہم کچھ اجلاس ڈاکٹر اکبر زیدی بھی چیئر کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سعید غنی کا یہ بھی کہنا تھا کہ زیادہ تر اجلاس وہ خود چیئر کرتے ہیں لیکن ہر اجلاس میں ڈاکٹر اکبر زیدی شریک ہوتے ہیں تنخواہ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ڈاکٹر سعید غنی نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
ادھر "ایکسپریس"نے ڈائریکٹر آئی بی اے کراچی ڈاکٹر اکبر زیدی سے اس معاملے پر ان کا موقف جاننے کے لیے امریکا فون کرکے ان سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ ان کے ادارے کی جانب سے 25 لاکھ روپے سے زائد ماہانہ تنخواہ انھیں دینے کی سفارش کی گئی ہے وہ اس پر کیا کہیں گے جس پر ڈاکٹر اکبر زیدی نے لاعلمی کا ظاہر کردی اور کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں، اس وقت میں آئی بی اے میں نہیں ہوں، آئی بی اے کی موجودہ انتظامیہ ہی بہتر بتائے گی جب نمائندہ "ایکسپریس " نے ان سے استفسار کرتے ہوئے بتایا کہ کیا اپنی ہی بی او جی کی اس سفارش سے وہ آگاہ نہیں ہیں جس پر ان کا کہنا تھا کہ میں اب تک بی او جی میں نہیں گیا، میری تنخواہ کی کیا Terms ہیں یہ بی او جی ، آئی بی اے کی انتظامیہ اور سندھ گورنمنٹ کو معلوم ہوگا میں واپس آؤں گا تو معلوم ہوگا۔
علاوہ ازیں "ایکسپریس" نے اس معاملے پر چیئرمین سندھ ایچ ای سی ڈاکٹر عاصم حسین سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اقدام بالکل غلط ہے، جامعات اور ڈگری ایوارڈنگ انسٹی ٹیوٹ کے وائس چانسلرز یا ڈائریکٹرز کی تنخواہیں مساوی ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر عاصم نے کہا کہ اس معاملے پر فیڈرل ایچ ای سی کی باقاعدہ رولنگ موجود ہے جس کے مطابق it should be uniformed ڈاکٹر عاصم نے مزید کہا کہ یہ سب غلط ہورہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جامعات کی فائلیں سندھ ایچ ای سی کے پاس سے ہوکر نہیں جاتی۔