قرضوں کا بوجھ اور بجٹ کے دعوے
سیاسی بیان بازی اور شعبدہ بازی کی روش کو ترک کرتے ہوئے عوامی فلاح کی جانب توجہ دی جائے
وفاقی حکومت نے اپنا بجٹ پیش کردیا ہے۔ اس بجٹ کو عوام دوست قرار دیا جارہا ہے۔ ریلیف سے بھرپور اور بہترین بجٹ کے دعوے پیش کیے جارہے ہیں۔ خالی ملکی خزانہ، ٹیکس کلیکشن میں ناکامی اور ناکام پالیسیوں کے باعث ماہرین معیشت کو بجٹ سے کوئی خاص امیدیں نہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ بجٹ بھی آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے تعاون سے ہی انہی کے شرائط کے مطابق ہے۔
کسی بھی ملک کا بجٹ اس کی جی ڈی پی کے مطابق بنایا جاتا ہے۔ اس کی آمدن اور اخراجات کے تناسب کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ غیر ضروری اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن اس بجٹ میں ایسی کوئی قابل عمل تجویز پیش نہیں کی گئی۔ اس وقت بجٹ کےلیے عالمی اداروں کے قرضے اور گردشی قرضے ایک بہت بڑا خطرہ ہیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے دور میں لیے گئے قرضوں کی تحقیقات کےلیے ایک کمیشن بنایا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ پاکستان میں معیشت کی تباہی کی بڑی وجہ مالیاتی اداروں سے لیے گئے قرضے ہیں۔ وزیراعظم کے اس موقف اور حقیقت کا جائزہ آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
اعدادوشمار کے مطابق پاکستان نے اپنے قیام سے لے کر 2008 تک 61 سال کے دوران 6000 بلین قرضے لیے۔ 1971 تک ہر پاکستانی مرد، عورت اور بچے اوسطاً 500 روپے کے مقروض تھے۔ 2008 تک پاکستان قرض تلے دبتا چلا گیا۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ ہی ہر شہری 36000 روپے کا مقروض ہوچکا تھا۔ ایک طویل ایمرجنسی اور آمریت کے بعد 2008 میں پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت آئی۔ اس وقت پاکستان کے ذمے 6000 ارب روپے قرض تھا۔ پیپلز پارٹی 2008 سے 2013 تک پانچ سال اقتدار میں رہی اور ان پانچ سال کے دوران ملک پر 36000 ارب قرضوں کا بوجھ ڈال دیا گیا۔ اس طرح پیپلز پارٹی کے دور سے قبل 36000 روپے کا مقروض پاکستانی 88000 روپے کا مقروض ہوگیا۔
پیپلز پارٹی کے جاتے ہی مسلم لیگ ن کے دور کا آغاز ہوا۔ اس دور کو لیگی قیادت نے ملکی تاریخی کا سنہری دور قرار دیا۔ لیکن اس دور میں مزید 14000 ارب روپے کے قرضے لیے گئے اور قوم پر قرضوں کا بوجھ 16000 ارب سے 30 ہزار ارب تک بڑھا دیا۔ اس طرح ان پانچ سال کے دوران ہر پاکستانی کے ذمے 88 ہزار کے بجائے 1 لاکھ 44 ہزار کا قرض بڑھ گیا۔
مسلم لیگ ن نے پانچ سال مکمل کیے۔ تبدیلی کے دور کا آغاز ہوا۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کو خودکشی کے مترادف قرار دینے والی تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالتے ہی عالمی ادارے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ یہی نہیں ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں سے قرضے حاصل کیے۔ جب ان قرضوں سے بھی ملکی معیشت کو سنبھالا نہیں گیا تو مقامی بینکوں سے بھی قرضے حاصل کیے گئے۔ اس وقت تحریک انصاف کے اقتدار کے صرف 22 ماہ کے دوران یعنی 2018 سے 2020 کے عرصے میں قرضوں کا حجم 30 ہزار ارب سے 43 ہزار ارب تک پہنچ گیا۔ اور اس وقت ہر پاکستان 1 لاکھ 44 ہزار کے بجائے 1 لاکھ 95 ہزار کا مقروض ہوچکا ہے۔ تحریک انصاف کے دور میں 43 ہزار ارب تو عام قرضے ہیں جبکہ ان بائیس ماہ کے دوران گردشی قرضے 20 ہزار ارب تک پہنچ چکے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان تو دس سال میں قرضوں کا حجم 6 ہزار ارب روپے سے 30 ہزار ارب روپے پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ تحقیقاتی کمیشن بنا رہے ہیں، حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔ لیکن 22 ماہ میں 13 ہزار ارب روپے کے قرضوں کا جواب کون دے گا؟ یہ ہزاروں ارب کہاں جارہے ہیں؟ حکومت نے بجٹ خسارہ پورا کرنے کےلیے 7 ٹریلین کا قرض لیا۔ ایک ایسے وقت میں جب نیا بجٹ آنے والا ہے۔ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کے خساروں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ تحریک انصاف نے جس وقت اقتدار سنبھالا اس وقت پی ایس سیز کا خسارہ 1.4 ٹریلین تھا جبکہ اس میں 1.5 ٹریلین کا اضافہ ہوگیا ہے۔ صرف گیس سپلائی چین کی مد میں قومی خزانے کو 2 بلین ڈالر کا خسارہ اٹھانا پڑا۔
مانا کہ قرضے ملکی معیشت کےلیے زہر قاتل ہیں مگر حکومت قرضوں کے ذریعے ملکی نظام کب تک چلاتی رہے گی؟ سابقہ حکومتوں نے قرضے لیے، ادارے انہی حکومتوں نے خراب کیے۔ لیکن تحریک انصاف کو اقتدار سنبھالے 22 ماہ ہوچکے ہیں۔ ان بائیس ماہ کے دوران تاریخ کے بڑے قرضے لیے گئے۔ گردشی قرضوں میں تاریخی اضافہ ہوا، عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھایا گیا، مختلف ذرائع سے آمدن حاصل کی گئی۔ ٹھیک تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اتنا پیسہ کہاں گیا؟
حکومت نے بجٹ تو پیش کردیا ہے، لیکن اس وقت ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ بجٹ خسارہ، گردشی قرضوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے قرض ادا کرنے کےلیے کیا حکمت عملی ہوگی؟ حکومت پہلے تو دعوؤں کے برعکس قرض اتارنے کےلیے نئے قرضے لیتی رہی۔ کیا اب بھی اسی حکمت عملی پر عمل کیا جائے گا؟ کیا اب بھی ہر پاکستانی کے ذمے قرض کی مقدار بڑھتی چلی جائے گی؟ آٹا، چینی، آئی پی پیز اور پٹرول بحران میں گھری حکومت ملکی معیشت کو کیسے سہارا دے گی؟ کیا ماضی کی طرح صرف چہرے بدل بدل کر ملکی معیشت پر تجربات کیے جاتے رہے ہیں گے یا آئی سی یو میں پڑی معیشت کو ہنگامی پالیسیوں کے وینٹی لیٹر پر منتقل کیا جائے گا؟ حکومت اقتصادی حالات کی خرابی کا ذمے دار کورونا وائرس کو قرار دے رہی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کورونا وبا تو تین ماہ سے معیشت کےلیے خطرہ بنی ہے، اقتدار کے باقی 19 ماہ کے دوران آپ نے کیا کیا؟ کیا تحریک انصاف اپنے انصاف کے دعوؤں کی طرح ملکی معیشت سے بھی انصاف کر پائے گی؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی معیشت کو قرضوں کے بوجھ سے آزاد کرنے کےلیے ایمرجنسی اقدامات کیے جائیں۔ ٹیکس کلیکشن کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔ عام آدمی کے بجائے ٹیکس چوروں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے گا۔ ملکی برآمدات بڑھانے کےلیے ٹھوس اور جامع حکمت عملی بنائی جائے۔ سیاسی بیان بازی اور شعبدہ بازی کی روش کو ترک کرتے ہوئے عوامی فلاح کی جانب توجہ دی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جائے گا، جو کہ کسی بھی محب وطن پاکستانی کےلیے قابل قبول نہیں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کسی بھی ملک کا بجٹ اس کی جی ڈی پی کے مطابق بنایا جاتا ہے۔ اس کی آمدن اور اخراجات کے تناسب کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ غیر ضروری اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن اس بجٹ میں ایسی کوئی قابل عمل تجویز پیش نہیں کی گئی۔ اس وقت بجٹ کےلیے عالمی اداروں کے قرضے اور گردشی قرضے ایک بہت بڑا خطرہ ہیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے دور میں لیے گئے قرضوں کی تحقیقات کےلیے ایک کمیشن بنایا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ پاکستان میں معیشت کی تباہی کی بڑی وجہ مالیاتی اداروں سے لیے گئے قرضے ہیں۔ وزیراعظم کے اس موقف اور حقیقت کا جائزہ آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
اعدادوشمار کے مطابق پاکستان نے اپنے قیام سے لے کر 2008 تک 61 سال کے دوران 6000 بلین قرضے لیے۔ 1971 تک ہر پاکستانی مرد، عورت اور بچے اوسطاً 500 روپے کے مقروض تھے۔ 2008 تک پاکستان قرض تلے دبتا چلا گیا۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ ہی ہر شہری 36000 روپے کا مقروض ہوچکا تھا۔ ایک طویل ایمرجنسی اور آمریت کے بعد 2008 میں پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت آئی۔ اس وقت پاکستان کے ذمے 6000 ارب روپے قرض تھا۔ پیپلز پارٹی 2008 سے 2013 تک پانچ سال اقتدار میں رہی اور ان پانچ سال کے دوران ملک پر 36000 ارب قرضوں کا بوجھ ڈال دیا گیا۔ اس طرح پیپلز پارٹی کے دور سے قبل 36000 روپے کا مقروض پاکستانی 88000 روپے کا مقروض ہوگیا۔
پیپلز پارٹی کے جاتے ہی مسلم لیگ ن کے دور کا آغاز ہوا۔ اس دور کو لیگی قیادت نے ملکی تاریخی کا سنہری دور قرار دیا۔ لیکن اس دور میں مزید 14000 ارب روپے کے قرضے لیے گئے اور قوم پر قرضوں کا بوجھ 16000 ارب سے 30 ہزار ارب تک بڑھا دیا۔ اس طرح ان پانچ سال کے دوران ہر پاکستانی کے ذمے 88 ہزار کے بجائے 1 لاکھ 44 ہزار کا قرض بڑھ گیا۔
مسلم لیگ ن نے پانچ سال مکمل کیے۔ تبدیلی کے دور کا آغاز ہوا۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کو خودکشی کے مترادف قرار دینے والی تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالتے ہی عالمی ادارے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ یہی نہیں ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں سے قرضے حاصل کیے۔ جب ان قرضوں سے بھی ملکی معیشت کو سنبھالا نہیں گیا تو مقامی بینکوں سے بھی قرضے حاصل کیے گئے۔ اس وقت تحریک انصاف کے اقتدار کے صرف 22 ماہ کے دوران یعنی 2018 سے 2020 کے عرصے میں قرضوں کا حجم 30 ہزار ارب سے 43 ہزار ارب تک پہنچ گیا۔ اور اس وقت ہر پاکستان 1 لاکھ 44 ہزار کے بجائے 1 لاکھ 95 ہزار کا مقروض ہوچکا ہے۔ تحریک انصاف کے دور میں 43 ہزار ارب تو عام قرضے ہیں جبکہ ان بائیس ماہ کے دوران گردشی قرضے 20 ہزار ارب تک پہنچ چکے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان تو دس سال میں قرضوں کا حجم 6 ہزار ارب روپے سے 30 ہزار ارب روپے پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ تحقیقاتی کمیشن بنا رہے ہیں، حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔ لیکن 22 ماہ میں 13 ہزار ارب روپے کے قرضوں کا جواب کون دے گا؟ یہ ہزاروں ارب کہاں جارہے ہیں؟ حکومت نے بجٹ خسارہ پورا کرنے کےلیے 7 ٹریلین کا قرض لیا۔ ایک ایسے وقت میں جب نیا بجٹ آنے والا ہے۔ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کے خساروں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ تحریک انصاف نے جس وقت اقتدار سنبھالا اس وقت پی ایس سیز کا خسارہ 1.4 ٹریلین تھا جبکہ اس میں 1.5 ٹریلین کا اضافہ ہوگیا ہے۔ صرف گیس سپلائی چین کی مد میں قومی خزانے کو 2 بلین ڈالر کا خسارہ اٹھانا پڑا۔
مانا کہ قرضے ملکی معیشت کےلیے زہر قاتل ہیں مگر حکومت قرضوں کے ذریعے ملکی نظام کب تک چلاتی رہے گی؟ سابقہ حکومتوں نے قرضے لیے، ادارے انہی حکومتوں نے خراب کیے۔ لیکن تحریک انصاف کو اقتدار سنبھالے 22 ماہ ہوچکے ہیں۔ ان بائیس ماہ کے دوران تاریخ کے بڑے قرضے لیے گئے۔ گردشی قرضوں میں تاریخی اضافہ ہوا، عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھایا گیا، مختلف ذرائع سے آمدن حاصل کی گئی۔ ٹھیک تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اتنا پیسہ کہاں گیا؟
حکومت نے بجٹ تو پیش کردیا ہے، لیکن اس وقت ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ بجٹ خسارہ، گردشی قرضوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے قرض ادا کرنے کےلیے کیا حکمت عملی ہوگی؟ حکومت پہلے تو دعوؤں کے برعکس قرض اتارنے کےلیے نئے قرضے لیتی رہی۔ کیا اب بھی اسی حکمت عملی پر عمل کیا جائے گا؟ کیا اب بھی ہر پاکستانی کے ذمے قرض کی مقدار بڑھتی چلی جائے گی؟ آٹا، چینی، آئی پی پیز اور پٹرول بحران میں گھری حکومت ملکی معیشت کو کیسے سہارا دے گی؟ کیا ماضی کی طرح صرف چہرے بدل بدل کر ملکی معیشت پر تجربات کیے جاتے رہے ہیں گے یا آئی سی یو میں پڑی معیشت کو ہنگامی پالیسیوں کے وینٹی لیٹر پر منتقل کیا جائے گا؟ حکومت اقتصادی حالات کی خرابی کا ذمے دار کورونا وائرس کو قرار دے رہی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کورونا وبا تو تین ماہ سے معیشت کےلیے خطرہ بنی ہے، اقتدار کے باقی 19 ماہ کے دوران آپ نے کیا کیا؟ کیا تحریک انصاف اپنے انصاف کے دعوؤں کی طرح ملکی معیشت سے بھی انصاف کر پائے گی؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی معیشت کو قرضوں کے بوجھ سے آزاد کرنے کےلیے ایمرجنسی اقدامات کیے جائیں۔ ٹیکس کلیکشن کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔ عام آدمی کے بجائے ٹیکس چوروں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے گا۔ ملکی برآمدات بڑھانے کےلیے ٹھوس اور جامع حکمت عملی بنائی جائے۔ سیاسی بیان بازی اور شعبدہ بازی کی روش کو ترک کرتے ہوئے عوامی فلاح کی جانب توجہ دی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جائے گا، جو کہ کسی بھی محب وطن پاکستانی کےلیے قابل قبول نہیں ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔