کورونا اور سیاست
اس مشکل وقت میں سیاست سیاست کھیلنے کے بجائے کورونا وبا کے خاتمے کےلیے ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا
کورونا وبا کوئی سیاسی کھیل نہیں۔ (فوٹو: فائل)
ملک میں کورونا مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے اور کورونا بلاتفریق اس ملک میں بسنے والوں پر وار کررہا ہے۔ عوام سے لے کر خواص تک سب ہی اس وائرس کا شکار ہورہے ہیں۔ کورونا پر سیاست بھی جاری ہے ، یہ الگ بات کہ سیاستدان بھی اس وبا کا شکار ہونے سے نہ بچ پائے۔
یہ الگ بحث ہے کہ کورونا وائرس اس ملک میں کیسے آیا؟ کورونا کو پھیلنے سے روکا کیوں نہیں کیا گیا؟ لاک ڈاؤن کیوں نہیں کیا گیا؟ ان سب موضوعات پر خوب بحث ہوچکی ہے۔ کورونا کو کیسے روکا جاسکتا ہے اس پر بھی بحث کی جارہی ہے۔ ٹویٹر اکاؤنٹ ہو یا فیس بک، سوشل میڈیا پر ہر کوئی اپنی تجویز دے رہا ہے۔ کورونا وائرس سے ہر طبقہ متاثر ہوا ہے اور ہورہا ہے، اور آنے والے دنوں میں یہ وبا کس حد تک پھیلے گی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
حکومت کی جانب سے بار بار کورونا وائرس سے بچاؤ کےلیے احتیاط کرنے کی ہدایت کی جارہی ہے لیکن حکومتی نمائندے بھی عوام کو ہدایات دیتے دیتے خود بھی کورونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔ وزیر ریلوے محکمہ ریلوے کو بچاتے بچاتے خود کورونا کی ٹکر کا شکار ہوگئے۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر جنہوں نے خود کو کورونا سے بچانے کی کافی کوشش کی لیکن وہ بھی کورونا کا شکار ہوئے۔ اپوزیشن جماعتوں کے رہنما بھی کورونا وائرس کا شکار ہوکر قرنطین ہوچکے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، مریم اورنگزیب، احسن اقبال بھی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کورونا پازیٹو آنے کے بعد قرنطین ہوگئے۔ سیاسی قیادت کے قرنطینہ میں جانے سے ایسا لگ رہا ہے سیاسی میدان میں ہلچل تھم سی جائے گی۔ سیاسی قیات کے کورونا وائرس کے شکار ہونے کے بعد بھی وزیراعظم عمران خان کی پالیسی بھی واضح طور پر سامنے نہیں آرہی۔ کیسز بڑھنے کے بعد حکومت کی پالیسی کیا ہوگی، ابھی تک نہ وہ خود سمجھ پا رہے ہیں اور نہ عوام سمجھ پارہے ہیں کہ کورونا سے بچنا کیسے ہے؟
خیبرپختونخوا میں بھی ارکان اسمبلی سمیت کئی عوامی نمائندے کورونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کے جو ارکان اب تک کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں ان میں خاتون رکن مدیحہ نثار، زینت بی بی، معاون خصوصی کامران بنگش، صوبائی وزیر ڈاکٹر امجد علی، پی ٹی آئی کے فضل شکور، اے این پی کے صلاح الدین، فیصل زیب، بہادر خان، وزیراعلیٰ کے مشیر ضیاء اللہ بنگش، شفیق آفریدی، عنایت اللہ شامل ہیں، جبکہ خیبرپختونخوا سے ارکان قومی اسمبلی میں این اے 41 ضلع باجوڑ سے رکن قومی اسمبلی گل ظفر خان، این اے 50 جنوبی وزیرستان سے ایم این اے علی وزیر، این اے 6 لوئر دیر سے پاکستان تحریک انصاف کے ایم این اے محبوب شاہ بھی کورونا وبا سے متاثر ہوچکے ہیں۔ این اے 45 ضلع کرم سے متحدہ مجلس عمل کے منیر اورکزئی انتقال کرگئے۔ ارکان اسمبلی کے ساتھ عوامی نمائندے بھی کورونا وائرس کے باعث بیمار ہوچکے ہیں، جن میں بزرگ سیاستدان حاجی غلام احمد بلور، امیر مقام، میاں افتخار حسین شامل ہیں۔
کورونا وائرس سے پارلیمانی سیاست بہت متاثر ہوئی ہے۔ جب کورونا وائرس کے کیسز بڑھنا شروع ہوئے تو خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس جاری تھا، لیکن وبا کے باعث اسملی اجلاس غیر معینہ مدت تک کےلیے ملتوی کرنا، وبا کی اس صورتحال میں پارلیمانی امور کا نمٹانا اور اسمبلی کی موجودگی میں بجٹ کی منظوری بھی پارلیمان سے لینا ضروری ہے۔ اسی لیے حکومت کی جانب سے خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی بھی کورونا وبا کے باعث ختم ہوئی۔ دونوں مذاکرات کی میز پر آئے اور اسمبلی اجلاس بلانے پر اتفاق ہوا۔
خیبرپختونخوا کے نئے مالی سال کے بجٹ کی منظوری کےلیے 19 جون کو بجٹ اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس میں اسپیکر کی جانب سے بجٹ سیشن کےلیے ایس اوپیز کی منظوری دی گئی۔ ایس او پیز کے تحت اسمبلی احاطہ میں داخلہ سینیٹائزر گیٹ کے ذریعے ہی ہوگا۔ اراکین اسمبلی صرف ڈرائیور اپنے ہمراہ لاسکیں گے۔ گن مین کو بھی داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔ تمام ارکان کےلیے فیس ماسک پہننا لازمی ہوگا۔ ایس او پیز کے مطابق تمام اراکین اسمبلی کےلیے کورونا ٹیسٹ کرانا لازمی ہوگا۔ اور تمام ارکان اسمبلی کو ہدایت کی گئی ہے کہ اسمبلی اجلاس سے قبل 15 جون تک کورونا ٹیسٹ کروا لیں۔ ٹیسٹ منفی آنے پر ہی ارکان اجلاس میں شرکت کرسکیں گے۔ ارکان کو ہال کے علاوہ فاصلہ رکھتے ہوئے مہمانوں کی گیلریوں میں بٹھایا جائے گا۔ بجٹ سیشن کا یہ مرحلہ 28 جون تک مکمل کیا جائے گا۔
بجٹ کی اس پوری کارروائی میں پہلی مرتبہ میڈیا کو باہر کردیا گیا ہے۔ میڈیا کو کوریج کی اجازت نہیں ہوگی، صرف سرکاری ٹی وی بجٹ سیشن کی کارروائی کرسکیں گے۔ بجٹ منظوری میں حکومت کو مشکل میں ڈالنے والی اپوزیشن جماعتیں بھی کورونا وائرس کے معاملے پر حکومت سے شیرو شکر ہوگئی ہیں اور پورے معاملات میں اپوزیشن حکومت کے سامنے سرینڈر ہوگئی ہے۔ عوام کو بجٹ کی صورتحال سے آگاہ کرنے والے میڈیا کو ہی اسمبلی اجلاس سے باہر کردیا گیا۔ حکومت کے اس اقدام سے ایسے لگ رہا ہے کہ میڈیا کو بجٹ کی کارروائی سے باہر کرنے سے کورونا حملہ آور نہیں ہوسکے گا۔
پارلیمانی سیاست کا معاملہ صرف بجٹ اجلاس پر ہی ختم نہیں ہوتا، ہر پارلیمانی سال کے دوران صوبائی اسمبلی میں 100 دنوں کی لازمی کارروائی پوری کرنا آئینی تقاضا ہے، جبکہ اسمبلی کے جاری دوسرے پارلیمانی سال کے دوران اب تک 52 دنوں کی کارروائی مکمل اور 48 دنوں کی بقایا ہے۔ اس صورت حال کے تناظر میں اسپیکر اور حکومت کی جانب سے غور کیا جارہا ہے کہ صوبائی اسمبلی کا بجٹ سیشن جو 28 جون کو ختم ہوگا، کے دوران 10 دنوں کی مزید کارروائی مکمل ہونے پر ماہ جولائی میں مزید 38 دنوں کی کارروائی کو پورا کرنے کےلیے اسمبلی سیشن بلایا جائے جو اگست تک وقفوں کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ اسمبلی اجلاس ان دنوں تک بڑھائے جانے کا امکان ہے کہ اس حوالے سے وزیراعظم یہ کہہ چکے ہیں کہ جولائی اور اگست کے درمیان کورونا وائرس عروج پر ہوگا۔ تاہم اس کا فیصلہ کورونا وائرس وبا کی صورت حال کو مدنظررکھتے ہوئے کیا جائے گا۔
بجٹ سیشن دس دنوں تک محدود ہونے کے باعث 62 دنوں کی کارروائی مکمل ہوپائے گی، البتہ مزید 38 دنوں کی کارروائی کو پورا کرنے کےلیے ماہ جولائی سے نیا سیشن بلانے پر غور بھی کیا جارہا ہے۔ ان دنوں میں کورونا وائرس قابو میں نہیں آتا تو پارلیمانی کارروائی کو جاری رکھنا بھی مشکل ہوگا۔ اسی لیے حکومت بجٹ اجلاس تک چلانے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔
کورونا وائرس نے پارلیمانی سیاست کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ وفاقی حکومت اپنا لاگ الاپ رہی ہے تو سندھ حکومت اپنی پارٹی پالیسی کو دیکھتے ہوئے کورونا وائرس سے نبرد آزما ہے۔ اسی طرح پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت بھی وزیراعظم کی پالیسی کو دیکھتے ہوئے صوبوں میں اقدامات اٹھا رہی ہیں۔ ماضی میں پارلیمان کے اندر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خوب محاذ گرم رہا۔ بجٹ اجلاس میں خوب ایک دوسرے کو لتاڑا گیا لیکن قومی قیادت کے قرنطین ہونے کے بعد لگ ایسا رہا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کی اصولی سیاست بھی قرنطینہ کا شکار ہوجائے گی۔ بجٹ کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کو کچھ لے اور دے کے معاملے پر اتفاق کرنا ہوگا۔
اس مشکل وقت میں سیاست سیاست کھیلنے کے بجائے کورونا وبا کے خاتمے کےلیے ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا۔ اس وبا سے بچاؤ کا کیا حل ہے ایک مشترکہ فیصلہ کرنا ہوگا۔ کورونا وبا کوئی سیاسی کھیل نہیں کہ اس کے فیصلے سیاستدانوں نے کرنے ہیں۔ طبی ماہرین کی مشاورت سے کورونا کے خاتمے کےلیے پالیسی بنانی ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔