حکمراں اپنا مزاج بدلیں

ہم اب تک یہ فیصلہ نہیں کرپارہے کہ ایسے مشکل حالات میں بدحواس ہونے کے بجائے خود کو کس طرح منظم کرنا ہے


حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ ملک کے تمام فیصلوں کا اختیار رکھنے کے ساتھ قوم کے نمائندے بھی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عوام اس وقت کورونا وائرس کے امتحان میں مبتلا ہیں۔ دن بدن کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔ وبا کے ابتدائی دنوں میں ہمارے حکمرانوں نے بڑی بہادری سے لاک ڈاؤن کی مخالفت کی اور غریب عوام کا درد محسوس کرتے ہوئے ہنگامی ریلیف مہیا کیا۔ کچھ محکموں کو جھولی بھر کر دیا گیا، کچھ کے دامن میں چند دانے ڈال دیے گئے۔ آج دنیا لاک ڈاؤن سے باہر آرہی ہے اور ہم لاک ڈاؤن دوبارہ لگانے کی باتیں کررہے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم نے ملک کو کورونا سے مکمل صاف اور لاک ڈاؤن ختم کرنے کا اعلان کردیا، مگر ہمارے حکمرانوں کا مزاج کورونا وائرس کو لے کر ابھی تک ٹھیک نہیں ہوسکا اور متاثرین کی تعداد بھی ایک لاکھ کو چھونے والی ہے۔

ہم اب تک یہ فیصلہ نہیں کرپارہے کہ ایسے مشکل حالات میں بدحواس ہونے کے بجائے خود کو کس طرح منظم کرنا ہے۔ ٹڈی دل کا عذاب بھی سر پر ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ اراضی پر تیار گندم کی فصل تباہ ہوچکی ہے۔ جس سے لگتا یہی ہے کہ اس سال گندم کا شدید بحران پیدا ہونے والا ہے۔ حکمرانوں کا مزاج سخت ہو تو چینی، گندم، آٹا، تیل کے ذخیرہ اندوز کبھی عوامی ضروریات کی اشیا کو ذخیرہ کرنے کی قبیح حرکت نہ کرسکیں۔

تیل کی قیمتوں میں معمولی کمی کے باعث اب ملک میں تیل کے ذخیرہ اندوزی کی شکایات مل رہی ہیں۔ جس پر وفاقی وزیر توانائی نے پٹرول، ڈیزل کی ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کی تحقیقات کےلیے کمیٹی تشکیل دی ہے اور پٹرولیم ڈویژن کے ڈی جی آئل کو تحقیقاتی کمیٹی کا چیئرمین نامزد کیا ہے۔ پٹرولیم ڈویژن نے اس کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہی۔ یہ کمیٹی پٹرول، ڈیزل کی پمپس کو فراہمی یقینی بنانے کےلیے اقدامات کرے گی۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ پٹرول، ڈیزل کا بحران پیدا کرکے حکمراں عوام کو کس گناہ کی سزا دینے کے درپے ہیں۔

رعایا کتنی ہی کمزور و ناتواں کیوں نہ ہو، حکمرانوں کی بہادری، دلیری اس کو کسی بھی حال میں جینے اور صبر و شکر کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سکھا دیتی ہے۔ تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ کسی ملک پر بظاہر مشکل و کٹھن حالات آن پڑتے ہیں، وہاں کے ظاہری اسباب و علل اس ملک کے مشکل حالات سے باہر آنے کے نظر نہیں آتے۔ لیکن حکمرانوں کا عزم مصمم، مثبت تدبر اس ملک کے عوام کو سخت حالات کا سامنا کرنے کی قوت دیتا ہے۔ حکمران ہی عوام کے نمائندے اور ترجمان ہوتے ہیں۔ پوری دنیا میں ان ہی کی بات کو پوری قوم کی رائے سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے حکمران، سیاست دان اقتدار میں آنے کے بعد دنیا جہاں کے دورے کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں جاکر کئی صنعتی شعبوں میں تعاون کی ڈیل کرتے اور اتحادی ممالک کی کمپنیوں کو اپنے ملک میں سرمایہ کرنے کےلیے راضی کرتے ہیں، تاکہ اس سے ملکی معیشت کا پہیہ چلے اور عوام خوش حال ہوں۔ مگر دیکھا گیا ہے کہ ایسے معاہدوں کا فائدہ آج تک مستحق غریب عوام کو نہیں پہنچ سکا۔ چکی کا پاٹ وہیں گھومتا رہتا ہے۔ غریب غربت کی چکی میں پستا ہے اور امیر دولت کے انبار لگاتا جاتا ہے۔ ایسے معاہدات کے بعد جب نیوز کانفرنسز ہوتی ہیں تو ان سیاست دانوں کی بات کو عالمی میڈیا میں اس تاثر سے پیش کیا جاتا اور سمجھا جاتا ہے کہ جیسے وہ حکمران یہ سارے معاہدات بائیس کروڑ عوام سے پوچھ کر کررہے ہیں۔

ملک کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے مشکل ترین حالات میں ایک حکمراں کی کمر پر ذمے داریوں کا بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے۔ اسی لیے حکمرانوں کو بھی اپنے منصب و ذمے داریوں کو فرائض کے درجے تک سمجھنا چاہیے۔ کیوں کہ ان کے قول و فعل پر کڑی نظر رکھی جارہی ہوتی ہے۔ پاکستان اسلامیہ جمہوریہ کے نام سے پوری دنیا میں جانا پہچانا جاتا ہے اور مذہب ہی ہمارے ملک کی پہچان ہے۔ پھر ہمارے حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ یہ ملک کے تمام فیصلوں کے اختیار رکھنے کے ساتھ قوم کے نمائندے بھی ہیں۔ یہ اپنی مذہبی روایات کے پوری دنیا میں امین ہیں۔ اس لیے حکمرانوں کا یہ مزاج ہونا چاہیے کہ ان کا ایک اچھا فعل پوری قوم کا سر فخر سے بلند کرسکتا ہے۔ اسی طرح ان کا ایک فعل بد پوری قوم کا سر جھکانے کا باعث بنے گا۔

ریاست کے بڑوں کے مزاج کو بدلنے کےلیے ہمارے پاس سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی مثال موجود نہیں۔ غزوہ خندق کے دن کو دیکھیے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ دشمن سر پر پہنچ چکا ہے۔ کام زیادہ اور وقت انتہائی قلیل ہے۔ لہٰذا سارے انصار و مہاجرین دن رات خندقیں کھود رہے ہیں۔ خود رحمت اللعالمین بھی گرد آلود کپڑوں میں مٹی اٹھا رہے ہیں۔ ایک صحابی آئے اور بھوک کی شدت کو کم کرنے کےلیے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا دکھایا۔ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے اپنے شکم مبارک کا کپڑا اٹھایا تو پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ ایسے تھے حکمراں اور ایسی تھی ان کی رعایا۔ ہمارے حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ اپنا مزاج بدلیں اور عوام کے دکھ درد کو سمجھیں۔ ہر مشکل گھڑی میں عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں