حقوق حیوانات

رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’ان بے زبان جانوروں کے معاملے میں اﷲ سے ڈرو!‘‘

رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’ان بے زبان جانوروں کے معاملے میں اﷲ سے ڈرو!‘‘۔ فوٹو: فائل

اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب ؐ کو جیسی شان عطا فرمائی ہے، ان میں کوئی بھی آپؐ کا شریک نہیں لیکن ان مقامات میں بھی آپؐ کی جو شان تمام جہانوں کے لیے عام ہے وہ آپ کا رحمۃ للعالمینؐ ہونا ہے۔ مخلوقات میں انسان، جن، ملائکہ، چرند و پرند اور حیوانات و درندے سب آپؐ کی رحمت سے فیض یاب ہوئے۔

نبی کریمؐ کی تعلیمات میں تمام مخلوقات کے لیے جو مُحبّت و رحمت کا پیغام ہے، وہ کسی اور کی تعلیمات میں نہیں ملتا، افسوس کہ دشمنان دین نے اسلام کو سفاکی و ظلم سے تشبیہ دی اور ہمارے سادہ لوح مسلمان ان کے اس فریب کا شکار بھی ہوگئے۔ ایسے وقت اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ رسول اکرمؐ کی ان مبارک تعلیمات سے امّت کو آگاہ کیا جائے جو رحمت ہی رحمت ہیں، تاکہ اُمّت کو یہ احساس ہوسکے کہ ان کا رشتہ اُس رحمۃ للعالمینؐ سے ہے جن کی رحمت کا تعلق فقط انسان تک ہی محدود نہیں بل کہ ان کے دامن رحمت کی وسعتیں تمام مخلوقات کو اپنے اندر سموئے ہوئی ہیں۔

چرند، پرند اور حیوانات سے حسن سلوک کی آپؐ کی تعلیمات محض زبانی جمع خرچ نہیں اور نہ ہی دیگر فلاسفاء کے فلسفے کی مانند ہیں کہ جس میں عمل نام کی کوئی رمق بھی نظر نہ آئے بل کہ آپؐ کی تعلیمات نے معمولات کا ایسا خوب صورت عملی نمونہ پیش فرمایا ہے کہ آج تک دنیا اس سے راہ نمائی لیتی آ رہی ہے اور لیتی ہی رہے گی۔ جانوروں سے نرمی کی ہدایات، ان سے رحم و کرم کا معاملہ، جانوروں پر ظلم کو جرم قرار دینا اور جانوروں کو تکلیف دینے کو دل کی سختی قرار دینا صرف رحمۃ للعالمینؐ کی ہی تعلیمات میں موجود ہے۔

روا ں سال جنوری میں اسٹریلوی حکومت نے 10ہزار اونٹوں کو بے دریغ گولیاں مار کر ہلاک کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے نتیجے میں 5 دنوں میں 10ہزار اونٹ لقمۂ اجل بن گئے، کیا یہ جانوروں پر ظلم نہیں ہے اور کیا یہی دور جدید کا چلن نہیں ہے ۔۔۔؟

حضرت سعید بن جُبیرؒ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کے ساتھ تھا، وہ چند قریشی جوانوں کے قریب سے گزرے، جو ایک مرغی کو لٹکا کر نشانہ بازی کر رہے تھے، جب انہوں نے حضرت عمرؓ کے بیٹے کو دیکھا تو فوراً منتشر ہوگئے۔ ا بن عمرؓ نے (نہایت غُصّے سے) پوچھا: ایسا (غلط کام) کس نے کیا ہے؟ نبی کریمؐ نے اس طرح (کسی ذی روح کو باندھ کر نشانہ بازی) کرنے والے کو اﷲ کی رحمت سے دوری کی بددعا دی ہے۔ (صحیح بخاری )

حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریمؐ کے قریب سے ایک ایسا گدھا گزرا جس کے منہ کو آگ سے داغا گیا تھا۔ آپؐ نے اس گدھے کے ساتھ ایسا سلوک کرنے والے پر لعنت فرمائی۔ (صحیح مسلم)

حضرت ابُوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ایک عورت کو بلّی باندھ کر رکھنے کی وجہ سے عذاب دیا گیا، کیوں کہ اس عورت نے نہ تو اسے کچھ کھلایا، نہ پلایا اور نہ ہی اسے آزاد کیا کہ وہ کچھ کھا پی لیتی۔ (صحیح مسلم)


حضرت شداد بن اوسؓ سے مروی ہے کہ مجھے وہ دو باتیں ابھی تک خوب یاد ہیں جو میں نے رسول اﷲ ﷺ سے سنی تھیں: اﷲ تعالیٰ نے ہر معاملے میں احسان کو لازم قرار دیا ہے جب تم قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو اور جب تم کسی جانور کو ذبح کرو تو اچھی طرح سے ذبح کرو اور اپنی چُھری کو تیز کرلیا کرو، تاکہ اس کی وجہ سے ذبح ہونے والا جانور راحت پاسکے۔ (صحیح مسلم)

حضرت سہل بن حنظلہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کا گزر ایسے اونٹ کے قریب سے ہُوا جس کی کمر اس کے پیٹ کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ (یعنی بھوک کی وجہ سے بہت دُبلا ہو چکا تھا) آپؐ نے فرمایا کہ ان بے زبان جانوروں کے معاملے میں اﷲ سے ڈرو! جب انہیں اچھے طریقے سے سواری بناؤ اور انہیں کھاؤ تو اچھے طریقے سے کھاؤ۔ (سنن ابی داؤد)

حضرت عبداﷲ بن جعفرؓ سے مروی ہے کہ آپؐ ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے وہاں ایک اونٹ نے جب آپؐ کو دیکھا تو رونا شروع کر دیا۔ نبی کریمؐ اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس کے آنسو پونچھے، اس نے رونا بند کر دیا۔ آپؐ نے پوچھا کہ اس کا مالک کون ہے؟ ایک انصاری نے آ کر عرض کیا کہ یہ میرا اونٹ ہے۔ آپؐ نے فرمایا تم اس کے بارے اﷲ سے کیوں نہیں ڈرتے؟ اس نے تمہیں ان کا مالک بنایا ہے۔ اونٹ نے مجھ سے تمہاری یہ شکایت کی ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور بُھوکا رکھتے ہو۔ (سنن ابی داؤد)

حضرت ابُوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص کہیں چلا جا رہا تھا کہ اسے پیاس نے بے تاب کر دیا۔ چناں چہ وہ کنویں میں اترا اور پانی پی لیا۔ اس کے بعد جب وہ کنویں سے باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ ایک کتّا پیاس کی وجہ سے ہانپ رہا تھا اور شدت پیاس سے کیچڑ چاٹ رہا تھا۔ اس شخص نے خود سے کہا کہ اس کتّے کو بھی میری ہی طرح پیاس لگی ہے چناں چہ وہ دوبارہ کنویں میں اترا اور اپنے موزے میں پانی بھر لایا اور کتّے کے سامنے رکھا، کتّے نے پانی پیا اس کی جان میں جان آگئی۔ اس وجہ سے اﷲ رب العزت نے اس بندے کی قدردانی فرمائی اور اس کی مغفرت کر دی۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ یا رسول اﷲﷺ! کیا ہمیں جانوروں سے اچھا سلوک کرنے پر بھی اجر ملے گا؟ تو آپؐ نے فرمایا: ہر تر جگر رکھنے والے ذی روح کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر اجر ہے۔ (مفہوم: سنن ابی داؤد)

عرب کے بدو زندہ اونٹوں کی کوہانیں اور چلتے پھرتے جانوروں کے اعضاء کاٹ لیتے تھے۔ آپ ﷺ نے ان کے حقوق کی طرف توجہ دلائی۔ جانوروں سے اچھا سلوک کیا جائے پالنے کی صورت میں ان کے کھانے پینے کا اچھا بندوبست کرو۔ بھوکا پیاسا نہ مارو، طاقت سے زیادہ کام نہ لو۔ جانوروں کے سامنے چُھری تیز نہ کرو، کُند چُھری سے ذبح نہ کرو۔

پرندے پالنا شرعاً جائز ہے، ان کی خوراک کا انتظام ضرور کیا جائے۔ پنجرہ کشادہ ہونا چاہیے اور رہائش کا انتظام بہتر ہونا چاہیے، اگر بیمار ہوجائیں تو علاج کیا جائے۔ گھر یا مال مویشی کی چوکی داری کے لیے کُتّا پالنا جائز ہے۔ تمام نقصان پہنچانے والے جانور جیسے سانپ بچھّو وغیرہ کو مارنا ضروری ہے۔ چوہے جو گھر کی چیزوں کا نقصان کریں، ان کو مارنا جائز ہے۔ بھڑ اور مچھر وغیرہ کو مارنا بھی درست ہے۔ اگر کتّا باؤلا ہوجائے تو اسے ماردینا جائز ہے۔ کھٹمل، پسّو، جوئیں اور نقصان دہ حشرات الارض کو مارنا جائز ہے۔ چھپکلی، گرگٹ کو مارنا بھی درست ہے۔ کوشش کریں کہ بلّی کو نہ ماریں، ہاں اگر نقصان کرتی ہے تو پھر اتنا مارنا جس سے وہ جگہ چھوڑ جائے، جائز ہے۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
Load Next Story