قرابت داروں کے حقوق
رشتے داروں سے قطع تعلق کرنے والا اﷲ کی رحمت سے دُور ہوتا ہے۔
قرآن کریم اور حدیث مبارکہ میں جا بہ جا عزیز و اقارب کے ساتھ حسنِ سلوک اور اُن کے حقوق کی ادائی کی تاکید کی گئی ہے۔ رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور میل جول کو صلۂ رحمی کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ''اور رشتے دار کو اُس کا حق دو۔'' (سورۃ بنی اسرائیل)
اس آیت مبارکہ میں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ جو کچھ بھی اﷲ کے راستے میں خرچ کیا جائے، اس میں رشتے داروں کو ترجیح دی جائے۔ احادیث میں بھی رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک پر بہت زور دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا کہ اپنے حسب نسب کی معلومات رکھیں، تاکہ صلۂ رحمی کرسکیں۔
صلۂ رحمی مصیبتوں اور آفتوں سے نجات کا بہترین ذریعہ ہے۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے: ''جو شخص صدقہ دیتا رہتا ہے اور اپنے رشتے ناتے والوں سے حسن سلوک کرتا رہتا ہے، اس کی عمر کو اﷲ دراز کرتا ہے اور اس کو بُری موت مرنے سے بچاتا ہے اور اس کی مصیبتوں اور آفتوں کو دور کرتا رہتا ہے۔'' (الترغیب و الترہیب)
ایک اور حدیث میں یہ بھی فرمایا گیا ہے، مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ کسی ایک قوم سے ملک کو آباد فرماتا ہے، اس کو دولت مند کرتا ہے اور کبھی دشمنی کی نظر سے ان کو نہیں دیکھتا۔'' صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: ''یارسول اﷲ! صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم، اس قوم پر اتنی مہربانی کیوں ہوتی ہے؟'' آپؐ نے فرمایا: ''رشتے ناتے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے سے ان کو یہ مرتبہ ملتا ہے۔'' (الترغیب و الترہیب)
صلۂ رحمی رزق میں کشادگی اور عمر میں اضافے کا سبب ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اور اس کی عمر بڑھ جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے رشتے داروں سے صلۂ رحمی کرے۔'' (بخاری و مسلم)
صلۂ رحمی کس قدر ضروری ہے؟ اس بات کا اندازہ اس واقعہ سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بار نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مجمع میں فرمایا: ''جو شخص رشتے داری کا پاس و لحاظ نہ کرتا ہو، وہ ہمارے پاس نہ بیٹھے۔'' یہ سُن کر ایک شخص مجمع سے اُٹھا اور اپنی خالہ کے گھر گیا، جن سے اُس کے تعلقات کشیدہ تھے۔ وہاں جاکر اُس نے اپنی خالہ سے معذرت کی اور اپنا قصور معاف کرایا۔ پھر آکر دربارِ نبوتؐ میں شریک ہوگیا۔ جب وہ واپس آگیا تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''اس قوم پر اﷲ کی رحمت نازل نہیں ہوتی، جس میں ایسا شخص موجود ہو جو اپنے رشتے داروں سے بگاڑ رکھتا ہو۔'' (الترغیب و الترہیب) ایک بار نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ''ہر جمعے کی رات میں تمام آدمیوں کے عمل اور عبادتیں اﷲ کے دربار میں پیش ہوتی ہیں۔ جو شخص اپنے رشتے داروں سے بدسُلوکی کرتا ہے، اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔'' (الترغیب و الترہیب)
صلۂ رحمی کے بے شمار فوائد ہیں۔ رشتے داروں کی آپس میں محبّت بڑھتی ہے۔ مال بڑھتا ہے۔ عمر بڑھتی ہے۔ رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔ آدمی بُری موت نہیں مرتا۔ آدمی کی مصیبتیں اور آفات ٹلتی رہتی ہیں۔ گناہ معاف اور نیکیاں بڑھتی رہتی ہیں۔ صلۂ رحمی کرنے والے سے اﷲ اپنا رشتہ جوڑتا ہے۔ جس قوم میں صلۂ رحمی کرنے والے ہوتے ہیں، اس قوم پر اﷲ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔
صلۂ رحمی کا متضاد قطع رحمی ہے، جس کا مطلب ہے رشتے داروں سے تعلق توڑنا، بدسلوکی سے پیش آنا۔ قطع رحمی بہت بُری خصلت ہے۔ احادیث میں اس کی بہت سخت ممانعت آئی ہے۔ رشتے داروں سے قطع تعلق کرنے والا اﷲ کی رحمت سے دُور ہوتا ہے۔ اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: ''قطع تعلقی کرنے والا جنّت میں داخل نہیں ہوگا۔''
حاصل کلام یہ ہے کہ ہمیشہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آنا چاہیے۔ اُن کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے۔ کسی لڑائی جھگڑے میں اگر وہ حق پر ہوں تو ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ البتہ! ناحق پر کسی کی بھی حمایت نہیں کرنا چاہیے، خواہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہو۔
اس آیت مبارکہ میں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ جو کچھ بھی اﷲ کے راستے میں خرچ کیا جائے، اس میں رشتے داروں کو ترجیح دی جائے۔ احادیث میں بھی رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک پر بہت زور دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا کہ اپنے حسب نسب کی معلومات رکھیں، تاکہ صلۂ رحمی کرسکیں۔
صلۂ رحمی مصیبتوں اور آفتوں سے نجات کا بہترین ذریعہ ہے۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے: ''جو شخص صدقہ دیتا رہتا ہے اور اپنے رشتے ناتے والوں سے حسن سلوک کرتا رہتا ہے، اس کی عمر کو اﷲ دراز کرتا ہے اور اس کو بُری موت مرنے سے بچاتا ہے اور اس کی مصیبتوں اور آفتوں کو دور کرتا رہتا ہے۔'' (الترغیب و الترہیب)
ایک اور حدیث میں یہ بھی فرمایا گیا ہے، مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ کسی ایک قوم سے ملک کو آباد فرماتا ہے، اس کو دولت مند کرتا ہے اور کبھی دشمنی کی نظر سے ان کو نہیں دیکھتا۔'' صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: ''یارسول اﷲ! صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم، اس قوم پر اتنی مہربانی کیوں ہوتی ہے؟'' آپؐ نے فرمایا: ''رشتے ناتے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے سے ان کو یہ مرتبہ ملتا ہے۔'' (الترغیب و الترہیب)
صلۂ رحمی رزق میں کشادگی اور عمر میں اضافے کا سبب ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اور اس کی عمر بڑھ جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے رشتے داروں سے صلۂ رحمی کرے۔'' (بخاری و مسلم)
صلۂ رحمی کس قدر ضروری ہے؟ اس بات کا اندازہ اس واقعہ سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بار نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مجمع میں فرمایا: ''جو شخص رشتے داری کا پاس و لحاظ نہ کرتا ہو، وہ ہمارے پاس نہ بیٹھے۔'' یہ سُن کر ایک شخص مجمع سے اُٹھا اور اپنی خالہ کے گھر گیا، جن سے اُس کے تعلقات کشیدہ تھے۔ وہاں جاکر اُس نے اپنی خالہ سے معذرت کی اور اپنا قصور معاف کرایا۔ پھر آکر دربارِ نبوتؐ میں شریک ہوگیا۔ جب وہ واپس آگیا تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''اس قوم پر اﷲ کی رحمت نازل نہیں ہوتی، جس میں ایسا شخص موجود ہو جو اپنے رشتے داروں سے بگاڑ رکھتا ہو۔'' (الترغیب و الترہیب) ایک بار نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ''ہر جمعے کی رات میں تمام آدمیوں کے عمل اور عبادتیں اﷲ کے دربار میں پیش ہوتی ہیں۔ جو شخص اپنے رشتے داروں سے بدسُلوکی کرتا ہے، اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔'' (الترغیب و الترہیب)
صلۂ رحمی کے بے شمار فوائد ہیں۔ رشتے داروں کی آپس میں محبّت بڑھتی ہے۔ مال بڑھتا ہے۔ عمر بڑھتی ہے۔ رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔ آدمی بُری موت نہیں مرتا۔ آدمی کی مصیبتیں اور آفات ٹلتی رہتی ہیں۔ گناہ معاف اور نیکیاں بڑھتی رہتی ہیں۔ صلۂ رحمی کرنے والے سے اﷲ اپنا رشتہ جوڑتا ہے۔ جس قوم میں صلۂ رحمی کرنے والے ہوتے ہیں، اس قوم پر اﷲ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔
صلۂ رحمی کا متضاد قطع رحمی ہے، جس کا مطلب ہے رشتے داروں سے تعلق توڑنا، بدسلوکی سے پیش آنا۔ قطع رحمی بہت بُری خصلت ہے۔ احادیث میں اس کی بہت سخت ممانعت آئی ہے۔ رشتے داروں سے قطع تعلق کرنے والا اﷲ کی رحمت سے دُور ہوتا ہے۔ اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: ''قطع تعلقی کرنے والا جنّت میں داخل نہیں ہوگا۔''
حاصل کلام یہ ہے کہ ہمیشہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آنا چاہیے۔ اُن کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے۔ کسی لڑائی جھگڑے میں اگر وہ حق پر ہوں تو ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ البتہ! ناحق پر کسی کی بھی حمایت نہیں کرنا چاہیے، خواہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہو۔