طالبان کی حکمت عملی

امن کی اصل کنجی امریکا طالبان مفاہمت میں نہیں بلکہ افغانوں کے درمیان مذاکرات میں ہے۔


جمیل مرغز June 12, 2020
[email protected]

چونکہ طالبان اول تا آخر صرف ایک جنگی قوت ہیں اور وہ خود کو بھی جنگی قوت سمجھتے ہیں اور ان کو بطور پراکسی استعمال کرنے والے بھی ان کو صرف جنگجو رکھنا چاہتے تھے' اس لیے ان کے حوالے سے ایک عمومی تاثر ہے کہ ان میں سیاسی سوچ اور شعور کا ہمیشہ فقدان رہا ہے' اسی کارن وہ کئی دفعہ نقصان بھی اٹھا چکے ہیں۔

اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو مورخہ 29فروری 2020کو قطر کے دارالحکومت دوہا میں امریکا طالبان مذاکرات کی کامیابی کے بعد دستخط ہو ئے' اس معاہدے تک پہنچنے تک 1980کے بعدان 40برسوں میں لاکھوں افغانوں ' پاکستانی سویلین اور فوجی جوانوں کی قربانی کے علاوہ لاکھوں لوگوں کی دربدری' خودکش دھماکوں' خطرناک ہتھیاروں اور بمباریوں کی تباہی کا طویل سفر طے ہوا ہے۔

معاہدے کے مطابق طالبان امریکا جنگ ختم ہوجائے گی اورافغانوں کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع ہوگا' اس معاہدے تک پہنچنے کے لیے بھی طالبان کو اپنے موقف سے ہٹنا پڑا ہے'بلکہ بعض امور سے واضح ہوتا ہے کہ اگر دانشمندی اور سیاسی شعور سے کام لیا جاتا تو طالبان کی حکومت اور افغانستان کی تباہی بچ سکتی تھی۔

19سال قبل جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم تھی 'اس وقت یہاں پرالقاعدہ اور دیگر جہادی تنظیموں نے اپنے تنظیمی اور تربیتی مراکز قائم کیے تھے' اب ان 19سالوں میں امریکا نے افغانستان میں نہ صرف طالبان حکومت ختم کی بلکہ القاعدہ کے مراکز بھی ختم کردیے۔ طالبان نے بعد از خرابی بسیار امریکا کا یہ مطالبہ بھی مان لیا کہ افغانستان کا علاقہ امریکا کے خلاف استعمال نہیں ہوگااور کسی بھی عسکری تنظیم کو یہاں کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

19سال کی بربادی' ہزاروں افغانوں کے قتل اور بے حساب املاک کے ضیاع کے بعد 'طالبان نے وہ سب کچھ مان لیا 'جس کا ان سے 19سال قبل مطالبہ کیا جارہا تھا'طالبان پہلے صرف اپنی امارات اسلامی کی بحالی پر اصرار کرتے تھے اور ماضی میں احمد شاہ مسعود' گلبدین حکمت یار'حامد کرزئی' اشرف غنی اور ان جیسے دوسرے افغانوں کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن اب ان کے ساتھ بیٹھ کر مشترکہ نظام بنانے پر متفق ہو گئے ہیں'جس کا اظہار طالبان کے نائب امیر سراج الدین حقانی نے نیویارک ٹائمز میں شایع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں کیا ہے۔

فروری میں ہونے والے دوہا معاہدہ اصل میں افغانستان کی حالیہ تاریخ میں ایک اہم پیش رفت ہے اور طالبان کے اس موقف کی جیت ہے کہ امریکا سمیت تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں' تاہم اب جب کہ طالبان کا مطالبہ تسلیم کیا جا رہا ہے اور امریکا افغانستان سے نکل رہا ہے 'اس موقع پر طالبان کو سیاسی ماحول ایسا رکھنا ہوگا کہ غیر ملکی افواج بھی نکل جائیں اور مقامی حکومت کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے اصولوں پر کچھ سمجھوتہ ہوجائے۔

اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم نے حال میں طالبان کی سرگرمیوں کے بارے میں ایک معلوماتی رپورٹ شایع کی ہے 'ان کا کہنا ہے کہ جب حکومتی فریق حالیہ دنوں تک آپس میں اختلافات اور لڑائیوں میں مصروف تھی ' اس دوران طالبان کی لیڈر شپ کونسل نے مختلف کمیشنوں اور اداروں کی تشکیل کی ہے'جن کی ساخت اور فرائض بالکل ایک نارمل حکومت کی تنظیم اور اداروں کی طرح ہیں'ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ طالبان آیندہ حکومت سنبھالنے کی تیاری کر رہے ہیں' رپورٹ کے مطابق 'طالبان کے اقدامات ایک شیڈو یا متبادل حکومت بنانے کی طرح ہیں'جس میں مرکزی حکومت کے اداروں کے ساتھ ساتھ صوبائی اور مقامی سطح کے حکومتی اداروں کی تشکیل بھی کی گئی ہے '۔

طالبان قیادت نے فروری میں ایک اجلاس میں شیڈو حکومت کی تنظیم نو اور 'بدخشان 'باغلان' بلخ' بامیان' کابل'کپیسا 'قندوس'سمنگان اور تخار صوبوں میں تنظیمی امور پر صلاح مشورے کیے ہیں۔ فروری میں ایک اہم تعیناتی ملا عبدالرحمان عرف پیر آغا کی ہے 'ان کو ننگرہار کے شیڈو گورنر شپ سے ہٹاکر زابل کا شیڈو گورنر مقرر کردیا گیا ہے 'یہ صاحب طالبان کی تیز رفتا ر فورسز کے سربراہ ہیں'اس فورس کو "Red Units"یا سرخ یونٹ کہا جاتا ہے 'ان کو ننگر ہار کا گورنر اس لیے مقرر کیا گیا تھا کہ وہ داعش کے بڑھتے ہوئی طاقت کا مقابلہ کرے۔

دوہا میں سیاسی دفتر کے رہنماء سمجھتے ہیں کہ ان کو دنیا کے دوسرے ملکوں اور عوام کے ساتھ رابطہ رکھنا ہوگا اور اس کے لیے اپنے انتہا پسند موقف میں تبدیلی اور اعتدال لانا ہوگا لیکن نچلی سطح کے جنگجو اس موقف کے خلاف ہیں'اقوام متحدہ کے مانیٹرز اور افغان حکومت کے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ طالبان قیادت نے امریکا سے کیے گئے معاہدے کی مکمل تفصیلات ظاہر نہیں کی ہیں' خاص کر معاہدے کا وہ حصہ جس میں القاعدہ اور دوسرے غیرملکی شدت پسند گروپوں کے ساتھ تعلقات کے خاتمے کا وعدہ کیا گیا ہے کیونکہ اس وعدے کی طالبان کے صفوں کے اندر کئی دفعہ سخت مخالفت ہوچکی ہے۔

دوسری طرف امریکا بھی طالبان کے مکمل خاتمے کے لیے افغانستان آیا تھا اور ان کو کسی شکل میں سیاسی نظام کا حصہ بنانے پر تیار نہیں تھا لیکن اب وہ ان کے وجود کو تسلیم کرکے ان کو افغانستان کے سیاسی نظام کا حصہ بنانے پر آمادہ ہے 'اس طرح دونوں طرف کو اپنے موقف میں لچک پیدا کرنی پڑی ہے' اب افغانوں کے درمیان مذاکرات میں صرف حکومت نہیں بلکہ اس میں حامد کرزئی'عبداللہ عبداللہ' رشید دوستم' گلبدین حکمت یار 'استاد محقق' کمانڈر اسماعیل کے علاوہ افغان سول سوسائٹی اور خواتین کے نمایندے بھی شامل ہوں گے' پھر دونوں فریقوں کو مشترکہ بنیادوں پر نظام تشکیل دینا ہوگا۔

امن کی اصل کنجی امریکا طالبان مفاہمت میں نہیں بلکہ افغانوں کے درمیان مذاکرات میں ہے' اب اگر افغانوں کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے اور مختلف دھڑوں نے لچک دکھائی اور ایک مشترکہ سیاسی نظام پر متفق ہوگئے توامن قائم ہو سکتا ہے' ورنہ نہ تو امن قائم ہوگا اور نہ ہی غیر ملکی مداخلت کا خاتمہ ہوگابلکہ خانہ جنگی کی شکل میں ایسی تباہی آئے گی کہ ماضی کی تباہیاں بھول جائیں گے 'اس سلسلے میں پاکستان کی قیادت کوبھی احتیاط سے کام لینا ہوگا' ان چند دنوں میںجنگ بندی کے خاتمے کے اعلان کے بعد افغان فوج کے خلاف طالبان کے 30حملوں نے حالات کو مزید خراب کردیا۔

طالبان اب تک کہتے تھے کہ وہ غیر ملکی اور امریکی فوج کے خلاف جہاد کر رہے ہیں' اب تو ان کے ساتھ جنگ بندی اور امریکا کو افغانستان میں مستقل اڈوں کے قیام پر رضامندی اور افغانوں پر حملوں نے یہ ثابت کردیا کہ یہ جہاد نہیں بلکہ حکمرانی کی جنگ ہے' زلمے خلیل زادمہینے میں تین بار پاکستان آتے ہیں آخر کچھ تو ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں