’’ایک کا تین ایک کا تین۔۔۔‘‘

تائیوان میں کینسر کے مریضوں کی موت پر شرطیں لگانے کا ظالمانہ رجحان


عبدالریحان December 07, 2013
جوئے کی نئی شکل کروڑوں ڈالرز پر مشتمل صنعت بن گئی۔ فوٹو : فائل

لاہور: کیا آپ موت کے منہ کی طرف جاتے اپنے کسی پیارے پر شرط لگانے کا تصور کرسکتے ہیں کہ کب اس کا زندگی سے ناتا ٹوٹے گا؟ یقیناً نہیں مگر اس دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے اندر بے حسی انتہا کو چھورہی ہے اور وہ لمحہ لمحہ موت کی طرف بڑھتے اپنے پیاروں اور دوسرے لوگوں کو مالی فائدے کا ذریعہ بنارہے ہیں۔

تائیوان کے تیسرے سب سے زیادہ گنجان آباد شہر Taichung میں جوا کھیلنے کا ایک نیا طریقہ یا رجحان فروغ پارہا ہے، اور یہ رجحان ہے سرطان کے لاعلاج مرض میں مبتلا مریضوں پر شرطیں لگانا کہ کس لمحے وہ موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ جیتنے والے کو شرط پر لگائی گئی رقم تین گنا ہوکر واپس ملتی ہے۔ اس ظالمانہ رجحان سے سرطان کے مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر، نرسیں یہاں تک کہ ان کے اہل خانہ بھی ' مستفید ' ہورہے ہیں۔

تائیوانی ذرائع ابلاغ میں شایع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق Taichung میں جوا کھیلنے کا یہ نیا طریقہ تیزی سے مقبول ہورہا ہے، جہاں ذہنی پس ماندگی کی انتہاؤں کو چھوتے جواری شرطیں لگارہے ہیں کہ شہر کے اسپتالوں میں زیرعلاج سرطان کے مریضوں کے ہاتھوں سے زندگی کی ڈور کب چھوٹے گی۔ تائیوانی میڈیا کے مطابق جوئے کا یہ کاروبار منظم بنیادوں پر ہورہا ہے، اور باقاعدہ زیرزمین صنعت کی حیثیت اختیار کرگیا ہے جس کا حجم اس وقت تین کروڑ امریکی ڈالر ہے۔



Taichung کی صرف ایک سڑک پر 60 سے زاید نام نہاد '' سینیئرز کلب'' ہیں۔ بہ ظاہر یہ بزرگوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والے خیراتی ادارے ہیں مگر حقیقت میں یہ سب جوئے کے اڈے ہیں، جہاں آکر لوگ یہ شرطیں لگاتے ہیں کہ ان کے خیال میں کس اسپتال میں کون سے بستر پر پڑا ہوا کینسر کا مریض ایک ماہ کے اندر اندر زندگی کی بازی ہار جائے گا۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ عام لوگوں کے علاوہ ڈاکٹر، نرسیں یہاں تک کہ موت کی طرف بڑھتے ان مریضوں کے اہل خانہ بھی اس گھناؤنے جرم میں حصہ لے رہے ہیں۔

حیران کن امر یہ ہے کہ Taichung کے اسپتالوں کے مختلف وارڈوں میں زیرعلاج مریضوں کو اپنے بستر کے پاس اپنے اہل خانہ کے علاوہ جواری بھی نظر آتے ہیں، جو نہ صرف ان کے وائٹل سائن چیک کرتے ہیں بلکہ ان کی حالت کی پیش بینی بھی کرتے ہیں۔ جوئے کا یہ گھناؤنا کاروبار چلانے والے بھی باقاعدگی سے اسپتالوں کا دورہ کر مریضوں کی حالت کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔



یہ ظالمانہ کھیل بے حد آسان ہے۔ موت سے لمحہ لمحہ قریب ہوتے کسی کینسر کے مریض کا نام شرطیں لگانے کے لیے جوئے کے مرکز میں پیش کردیا جاتا ہے۔ شرط کی کم سے کم رقم 40 ڈالر ہوتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں۔ اگر مریض ایک ماہ کے اندر اندر موت سے شکست کھاجاتا ہے تو شرط کی تمام رقم جوئے کا اڈہ چلانے والوں کی ملکیت ہوجاتی ہے۔ بہ صورت دیگر شرط لگانے والے کی رقم میں ہر دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے۔ اضافے کا یہ سلسلہ چھے ماہ تک جاری رہتا ہے۔ اس عرصے کے دوران عام طور پر مریض کی موت واقع ہو ہی جاتی ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ کسی مریض پر شرطیں لگوانے سے پہلے بُکیزاس کے اہل خانہ سے باقاعدہ اجازت حاصل کرتے ہیں۔ وہ یہ پیش کش کرتے ہیں کہ اگر ان کا مریض ایک ماہ کے اندر زندگی کی بازی ہار جاتا ہے تو وہ انھیں اس پر لگائی جانے والی شرط کی رقم کا 10 فی صد ادا کریں گے۔ بعض رپورٹوں کے مطابق شرط لگائے جانے کا عمل مکمل ہونے کے بعد مجموعی رقم کا 10 فی صد مریض کے اہل خانہ کو ادا کربھی دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے بالخصوص غریب خاندانوں کے لیے ان کی پیش کش رد کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ بعض صورتوں میں جوئے کے اس کاروبار کے منتظمین خاندانوں کو بونس دینے کی بھی پیش کش کرتے ہیں اگر وہ ڈاکٹروں کو اپنے مریض کی زندگی طویل کرنے والا علاج روک دینے پر راضی کرلیں۔ تائیوانی پولیس ان دنوں اس مکرہ دھندے میں ملوث لوگوں کے خلاف تحقیقات کررہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں