ہم ایسے ہی ہیں۔۔۔
ہمیں بصد احترام یہ اعتراف ہے کہ ہم کوئی ’نارمل‘ یا ’مگن‘ انسان ہرگز نہیں۔۔۔!
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م
آپ نے صرف پڑھا ہی ہوگا کہ 'سوچنے والوں کی دنیا، دنیا والوں کی سوچ سے الگ ہوتی ہے۔' لیکن محسوس شاید ہی کیا ہو۔۔۔ کیوں کہ یہاں غالب اکثریت 'دنیا والی' ہے۔ جو اپنے حال میں مست ہیں، جو صرف اپنے آگے سے آگے بڑھنے پر ہی یقین رکھتے ہیں اور ایسا کر کے اپنی زندگی کو بالکل 'شانت' رکھنے میں کام یاب بھی ہو جاتے ہیں۔
ان کے دکھ اور تکالیف بس وہی ہوتی ہیں، جو ان کے ہاں کی 'دیوار' پھاند کر اور دہلیز لانگ کے آجائیں۔۔۔ ورنہ وہ ناک پر بیٹھی ہوئی مکھی کی طرح سب کچھ ایسے اڑا دیتے ہیں، جیسے راہ میں پڑے ہوئے کنکر کو بے دھیانی میں زور سے ٹھوکر لگتی ہے، اور پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ کہاں جا کر پڑا ہے۔
ہمیں بصد احترام یہ اعتراف ہے کہ ہم کوئی 'نارمل' یا 'مگن' انسان ہرگز نہیں۔۔۔! ہم کبھی اس دنیا اور اس کے مزاجوں اور رواجوں کے آدمی تھے ہی نہیں اور نہ ہی شاید کبھی ہو سکیں گے۔۔۔ ہمیں دو جمع دو چار کا قاعدہ ہی نہیں آتا۔۔۔ ہم سب کا سوچتے ہیں، اس لیے بہت چاہ کر بھی 'پیٹ' سے ذرا کم ہی سوچ پاتے ہیں، نتیجتاً اکثر 'خسارے' کے سودے کرتے ہیں۔۔۔ ضمیر کی سوچ وبچار میں پڑ کر ہم سکہ رائج الوقت 'ناکام' گنے جاتے ہیں۔ ہم کچھ خریدنے جائیں، تو دکان دار کا سوچنے لگتے ہیں، اور اگر کبھی تقدیر کے ہاتھوں کچھ بیچنے والے بنے ہوں، تو سامنے موجود گاہک کا 'درد' ہمارے اندر اترتا ہے۔۔۔
کوئی رکشا، ٹیکسی کریں تو بھی یہی کیفیت ہوتی ہے۔۔۔ اور تو اور راہ چلتے بھی تو ہم اپنے لیے 'درد' تراشتے رہتے ہیں۔۔۔ راستے میں کہیں تازہ پھول اور گجرے سجائے اس گُل فروش کی فکر پریشان کرتی ہے کہ رات گہری ہو رہی ہے اور اس کے ہاتھ میں ابھی گجرے بے شمار ہیں۔۔۔ یہ تمام اگر اس رات نہ بک سکے، تو کل تک تو یہ کلیاں مرجھا کر بے کار ہو جائیں گی اور اس چھوٹی سی پونجی والے کا کتنا زیادہ نقصان ہو جائے گا۔۔۔ کبھی گلیوں میں کچرا چننے والے معصوم وجود بے کل کرتے ہیں تو کہیں کاندھے پر لادے ہوئے تازے پاپڑ والے کی صدا ہمیں چین نہیں لینے دیتی کہ شام ڈھل چکی ہے، اور آج اس کے تھیلے میں تہ در تہ جمع ہوئے بہت سے پاپڑ بچ جائیں گے اور وہ سارے دن کی مشقت کے بعد بھی خسارہ لے کر گھر جائے گا۔۔۔
ہماری انہی باتوں کے سبب سماج کے کچھ 'بے درد' اور 'ستم ظریف' ہمیں بہت آسانی سے 'اذیت پسند' کہہ کر چلتے بنتے ہیں۔ وہ کیسے جان سکتے ہیں روح کے یہ زخم۔۔۔ ہر لمحے برپا رہنے والا جذبوں کا یہ ماتم اور احساس کا گریہ۔۔۔ اور سب سے بڑھ ہمارے اس کیفیت کے ساتھ لکھے گئے لفظوں کا دکھ۔۔۔ ایسے میں ہم اگر اپنے لفظوں پر اپنی تخلیق اور 'اولاد' کے موافق 'اپنا' ہونے کا 'اجارہ' کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ انہیں کم ازکم ہمارے نام سے منسوب تو رہنے دیا جائے، تو یہ ہمارا حق ہے۔ ہمارا یہ 'حق' بہت سوں کو 'غیر علمی' اور 'خود پسندی' لگنے لگتا ہے، جب کہ کوئی بھی ہمارے لکھے ہوئے کو بغیر نام یا اپنے نام سے کہیں بھی نقل کر ڈالے، تو یہ عمل وہ 'غیر علمی' نہیں کہتے، کہ یہ بھی تو 'چوری' ہے۔ ایسے میں وہ جان ہی نہیں سکتے کہ بہت سے لفظ ہم کس تپسیا سے لکھتے ہیں اور لکھے گئے احساس کے دل میں اترتے سمے لہو سے کشید کیا ہوا پانی نگاہ کو کتنی دیر تک دھندلائے رکھتا ہے۔۔۔!
ذرا بتائیے، آپ کی آنکھیں کتنے دن میں چَھلکتی ہیں۔۔۔؟ چَھلکنا تو چھوڑیے، کیا کبھی نم بھی ہوئیں۔۔۔؟ دوسری طرف ہم اگر کبھی بہ مشکل خود کو شانت کر کے 'بے حسوں' کی اداکاری کرتے ہوئے خود کو بہلانے میں کام یاب ہوتے ہیں اور ذرا مطمئن ہوئے جا رہے ہوتے ہیں کہ راستے کا کوئی ایک بہت چھوٹا سا منظر، جو ساری دنیا کے لیے شاید معمول کا واقعہ ہو، ہماری پرسکون طبیعت میں کہرام برپا کر جاتا ہے۔۔۔