عجائب خانوں کی عجیب دنیا
پاکستان میں موجود عجائب گھروں کی دل چسپ روداد
(پہلی قسط)
اسلامی جمہوریہ پاکستان، اپنے رقبے اور آبادی کی طرح ثقافتی اور تاریخی ورثے میں بھی بہت منفرد اور تنوع کا حامل ہے جہاں ہر کونے میں نت نئی چیزیں موجود ہیں۔
یہاں کی ثقافت ایک رنگ برنگے گل دستے کی مانند ہے جس میں تمام خِطے اپنا اپنا حصہ ڈالتے نظر آتے ہیں۔
یہاں شمال میں ٹیکسلا کے اسٹوپے، بدھ خانقاہیں اور گلگت بلتستان کی کُندہ چٹانیں ہیں تو جنوب میں بہاولپور کا صحرا اور محل، مکلی کا قبرستان، رنی کوٹ جیسے قلعے اور مکران کے عجوبے ہیں۔ مشرق میں لاہور جیسا تاریخی شہر اور تھر پارکر کے قدیم جین مندر ہیں تو مغرب میں پشاور کی پرانی حویلیاں و خوب صورت قلعے بھی اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔
اس لحاظ سے اس بے مثال ملک کے تاریخی و ثقافتی ورثے کو سنبھالنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ان علاقوں کے کلچر کو محفوظ رکھنے کے لیے پاکستان کے مختلف شہروں میں خوب صورت عجائب گھر بنائے گئے ہیں جہاں آثارِقدیمہ اور تاریخی نوادرات کو محفوظ کیا گیا ہے۔ ان میں علم و فنون کے نمونہ جات، وراثتی، ثقافتی، تہذیبی تمدنی اور ارتقا جیسے شعبہ جات کے آثار کا تحفظ کیا گیا ہے۔ یہ سب ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ایک سیاح کے طور پر میرا یہ ماننا ہے کہ سیاحت اور تاریخ و ثقافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کسی بھی علاقے کے عجائب گھر کو دیکھے بغیر آپ اس کی بود وباش کو نہیں سمجھ سکتے۔ اس لیے سفر کہیں کا بھی ہو میں راستے میں آنے والے عجائب گھروں کو دیکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہوں۔
اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ عجائب گھر لاہور شہر میں موجود ہیں۔ یہاں موجود مختلف سرکاری و نجی عجائب گھر اور آرٹ گیلریاں پاکستان اور لاہور کی روایتی ثقافت اور تاریخ کو سمجھنے، سنبھالنے اور لوگوں تک بطریقِ احسن پہنچانے کا کام بخوبی انجام دے رہی ہیں۔ پیشِ خدمت ہے پاکستان بھر کے بڑے چھوٹے عجائب گھروں کا تذکرہ، جو طوالت کے باعث یہ تذکرہ قسطوں کی صورت میں شایع کیا جائے گا:
1- عجائب گھر لاہور؛
کہتے ہیں کہ ''جِنے لاہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں'' ، میں یہ کہوں گا کہ ''جِنے لہور اچ رہ کہ وی لہور میوزیم نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں۔''
بِلاشبہہ پاکستان کے اس عجائب گھر کو پاکستان کا سب سے زرخیز اور بڑا عجائب گھر کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ اس کی بنیادوں میں کئی کہانیاں دفن ہیں جنہیں اگر کاغذ پر اتاریں تو ایک ضیغم کتاب بھی کم پڑ جائے۔ اس عجائب گھر نے پاکستان بھر کی تہذیبوں کا بوجھ اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ اس کی کئی ایک گیلریوں میں برصغیر کے عروج و زوال کی داستانیں بکھری ہوئی ہیں جو برسوں سے علم کے پیاسوں کو سیراب کرنے کا ذریعہ بنتی آ رہی ہیں۔ لیکن اس میوزیم کو اچھے سے دیکھ لینا ایک دن کا کام نہیں ہے۔ اس کی ہر ہر گیلری میں رکھا ایک ایک نمونہ، غور طلب ہے۔ اپنے نوادرات کے حوالے سے یہ پاکستان کا سب سے بڑا عجائب گھر ہے۔
رڈیارڈ کپلنگ کے والد جان لاک ووڈ کپلنگ اس میوزیم کے بڑے مداح تھے اور ان کے ناول ''کِم'' میں بھی اس عجائب گھر کا ذکر کیا گیا ہے۔
یہ میوزیم یونیورسٹی ہال کی قدیم عمارت کے بالمقابل واقع مغلیہ طرز تعمیر کا ایک شاہ کار ہے۔ اس میوزیم میں گندھارا، مغل اور سکھوں کے دور کے نوادرات موجود ہیں، جن میں لکڑی کا کام، مصوری کے فن پارے، مجسمے اور دوسرے نوادرات جو مغل، سکھ اور برطانوی دور حکومت سے تعلق رکھتے ہیں، شامل ہیں۔ یہاں رکھے گئے نوادرات، سِکے اور تصاویر ایک قومی اثاثہ ہیں جن کی کہیں کوئی مثال نہیں گئی۔
اس میوزیم میں چند آلات موسیقی کے علاوہ قدیم زیورات، دیدہ زیب روایتی ملبوسات، پیتل ، کانسی اور مختلف دھاتوں کے برتن، چینی کے ظروف اور جنگ و جدل کا سامان بھی نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔
اس میوزیم کی ایک منفرد بات یہ ہے کہ یہاں دیگر ممالک سے لائے گئے نوادرات اور تحفے بھی رکھے گئے ہیں جن میں برما، بھوٹان، نیپال، تبت (چین)، مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور افریقہ کے کچھ ممالک شامل ہیں۔ ان چیزوں نے اس عجائب گھر کی اہمیت اور بڑھا دی ہے۔ یہاں کی گندھارا گیلری کی بات کریں تو پشاور کے بعد لاہور میوزیم میں گندھارا سلطنت کا ایک بڑا خزانہ موجود ہے جس میں سِکری، جمال گڑھی سے لایا گیا وہ خوب صورت اسٹوپا بھی شامل ہے جو ہال کے وسط میں رکھا گیا ہے۔ یہاں روکھڑی (میانوالی) اور اکھنور (جموں) سے لائے گئے بدھا کے مجسموں کے سر، مختلف حالتوں میں گوتم بدھا کے مختلف مجسمے، قیمتی اور منفرد روزہ کی حالت میں موجود بدھا اور پتھر پر کُندہ مختلف درباری مناظر جیسے شاہ کار بھی رکھے گئے ہیں۔
بات کریں دریائے سندھ کی قدیم تہذیبوں کی تو اس گیلری میں وادی سون، ہڑپہ، موہنجودڑو اور مہر گڑھ سے دریافت کیے گئے شاہ کاروں کو جگہ دی گئی ہے۔ مٹی سے بنے چھوٹے پتھر، سکے، زیورات، پانسے، چھکڑے اور کھلونے شامل ہیں۔
منی ایچر تصاویر کی گیلری میں برصغیر کی سب سے بڑی کلیکشن موجود ہے جو بیسویں صدی کے اوائل میں اکٹھی کی گئی۔ اس میں تقریباً ایک ہزار چھوٹی تصاویر شامل ہیں جو سولہویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک کی ہیں۔ ان میں فارسی، مغل اور راجپوت کلیکشن دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔لاہور میوزیم کی قیام پاکستان گیلری آپ کو کئی برس پیچھے لے جاتی ہے اور مختلف تصاویر اور اخباری تراشوں کے ذریعے آپ کو پاکستان کے قیام کی کہانی یوں سناتی ہے جیسے آپ اسے سامنے دیکھ رہے ہوں۔ بلاشبہہ یہاں رکھی گئی کئی تحریریں اور تصویریں آپ کو رلانے کے لیے کافی ہیں۔
میوزیم کی سکہ جاتی گیلری برصغیر کی سب سے بڑی گیلری مانی جاتی ہے جس میں لگ بھگ چالیس ہزار سِکے شامل ہیں۔ یہاں ساتویں صدی قبل از مسیح سے لے کر برصغیر پر حکم رانی کرنے والے تمام خاندانوں کے دور کے سکے شام ہیں جو یقیناً کسی خزانے سے کم نہیں۔
ان کے علاوہ سکھ گیلری، مختلف ثقافتی گیلریاں، تحریک پاکستان گیلری اور ڈاک ٹکٹ گیلری بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ پنچ مندری کپورتھلہ کا ماڈل، اشوک چکرا، برما کا سنہری بُدھا، ملکہ وکٹوریہ کا دھاتی مجسمہ، مینار پاکستان کا ماڈل، بدھا کی تصاویر والا ہاتھی دانت، گولڈن ٹیمپل امرتسر اور بادشاہی مسجد لاہور کے ماڈل، اسٹوپے اور صوبائی ثقافتی گیلریاں یہاں کی منفرد ترین چیزیں ہیں جو لازمی دیکھنی چاہییں۔ لاہور میوزیم کو جتنا بھی بیان کیا جائے اتنا کم ہے، یہ سب آپ خود جا کر اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو ہی مزہ آئے گا۔
2- نیشنل میوزیم آف پاکستان؛
قومی عجائب گھر پاکستان، کراچی کے ریڈزون میں واقع آثار قدیمہ بالخصوص گندھارا تہذیب کے نادر و نایاب ذخیرے کا حامل عجائب گھر ہے۔
اس میوزیم کو اپریل 1950 میں کراچی کے فریئر ہال میں قائم کیا گیا تھا جو اپنے آپ میں ایک تاریخی عمارت تھی۔ اس میوزیم کو 1970 میں اس کی موجودہ عمارت میں منتقل کیا گیا تھا۔ تب یہاں صرف چار گیلریز ہوا کرتی تھیں جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ کر گیارہ ہو گئیں۔ یہاں کی سب سے منفرد گیلری قرآن گیلری ہے جس میں قرآن شریف کی 300 کاپیاں رکھی گئی ہیں ان میں 52 ایسے نسخے بھی شامل ہیں جو بہت نایاب ہیں۔
دیگر گیلریز میں وادی مہران کی تہذیب، گندھارا کی تہذیب، اسلامی آرٹ، مصوری کے شاہ کار، قدیم سِکے اور ریاستِ پاکستان کی اہم دستاویز رکھی گئی ہیں۔ میوزیم میں مجسموں کی ایک کثیر تعداد دیکھی جا سکتی ہے جن میں موہنجودڑو سے نکلنے والے قدیم مجسمے، بُدھ بھکشوؤں کے مجسمے، ہندو دھرم کے بھگوان وشنو، سرسوتی، لکشمی اور درگا دیوی کے مجسمے شامل ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح کا قلم، بٹن اور تلوار، علامہ محمد اقبال کی ذاتی کرسی اور قلم جبکہ لیاقت علی خان کے عطر کی شیشی، گھڑی اور چھڑی بھی نمائش کے لیے رکھی گئی ہے۔
قومی میوزیم میں لگ بھگ اٹھاون ہزار سکے موجود ہیں جو ایک بڑی تعداد ہے۔ ان میں کچھ سکے سن 74 ہجری کے بھی ہیں۔ ہر سال قومی دنوں کے موقعوں پر یہاں نمائش کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے جو ہزاروں کی تعداد میں عوام الناس کو متوجہ کرتی ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم پاکستانی عوام آثارقدیمہ میں نہایت کم دل چسپی لیتے ہیں۔ اسی باعث یہاں اسکول طالب علموں کے مطالعاتی دورے ہی زیادہ منعقد ہوتے ہیں۔ ایک حساس علاقے میں واقع ہونے کے باعث یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کڑی نگرانی کے باعث کراچی کے عام شہری عموماً یہاں کا رخ نہیں کرتے۔
3- گندھارا میوزیم ٹیکسلا؛
اگر آپ پاکستان میں رہ کر ایک منفرد اور اچھوتی تہذیب کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو پہلی فرصت میں ٹٰیکسلا میوزیم کا چکر لگائیں۔ اس عجائب گھر کی عمارت سے ہی آپ کو اس کی جدت اور انفرادیت کا اندازہ ہو جائے گا۔
ٹیکسلا میوزیم کو اگر گندھارا تاریخ کا گھر کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا کہ یہاں بدھ مت اور اس سے متعلق تمام اشیاء نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں جو اب تک پاکستان کے مختلف علاقوں سے دریافت کی گئی ہیں۔ یہ ایک سائٹ میوزیم ہے جس کے اطراف میں بھی کافی اہم اور قدیم مندر اور اسٹوپے واقع ہیں جو آپ بہ آسانی پیدل چل کر دیکھ سکتے ہیں۔ اس میوزیم کا سنگِ بنیاد 1918 میں اس وقت کے وائسرائے ہند، لارڈ چیمس فورڈ نے رکھا تھا جب کہ اس کی تعمیر 1928 میں جا کر مکمل ہوئی، جب کہ ایک گیلری کا اضافہ 1998 میں کیا گیا۔
میوزیم میں سجائے گئے تمام نوادرات ٹیکسلا کی وادی سے کھدائی کے دوران حاصل کیے گئے ہیں۔ میوزیم میں تین بڑے ہال ہیں مرکزی ہال نسبتاً بڑا ہے۔ اس ہال میں دو چھوٹے چھوٹے کمرے بھی ہیں اور اس ہال کے وسط میں ''موہڑہ مراد'' میں دریافت ہونے والے ایک اسٹوپہ کی نقل رکھی گئی ہے۔ یہ ہال پتھر پر تراشیدہ بتوں اور پتھروں سے بنی ہوئی دیگر اشیا پر مشتمل ہے جب کہ جنوبی ہال میں متفرق اشیاء جن میں لوہے، تانبے اور پتھروں سے بنائی گئی اشیاء اور آگ میں بنے ہوئے مٹی کے برتن ا ور کھلونوں کی نمائش کی گئی ہے۔ مرکزی ہال کے دو کمروں میں سکے، چاندی کے برتن اور زیورات رکھے گئے ہیں۔ دوسرے کمرے میں سونے کے زیورات ہیں۔
اس عجائب گھر کے خزانے میں تقریباً 4000 کے قریب نوادرات شامل ہیں جن میں مختلف اقسام کے پتھر، بدھا کے مجسمے، دھات کے زیورات تعمیراتی سامان جیسے ترتیب وار دیواروں کے پتھر، برتن اور اسٹوپے وغیرہ شامل ہیں۔ اس ایک عجائب گھر میں آپ بدھ مت، جین مت اور ہندو مت سے متعلق اشیاء دیکھ سکتے ہیں۔ ٹیکسلا کا میوزیم سیاحوں اور تاریخ کے طالب علموں کے لیے مفید معلومات کا ایک خزانہ ہے۔
4- ایبٹ میوزیم ایبٹ آباد؛
ہزارہ کا علاقہ خیبر پختونخواہ کے باقی علاقوں سے مختلف ثقافت رکھتا ہے۔ یہاں زبان سمیت بہت سی چیزیں ایسی ہی جو آپ کو مختلف نظر آئیں گی۔ اس ثقافت کو محفوظ رکھنے کے لیے یہاں ایک میوزیم کی شدید ضرورت تھی جو ایبٹ میوزیم کے صورت میں پوری ہوئی۔ اسے ہزارہ یونیورسٹی کے تعاون سے بنایا گیا ہے۔ یہ ایک چھوٹا میوزیم ہے جہاں آپ ہزارہ کی پرنی ثقافت اور رہن سہن سے آشنا ہو سکتے ہیں۔ اس خوب صورت عمارت میں فرنیچر، اسلحہ، برتنوں، سکوں اور تلواروں کے علاوہ کچھ پرانی تصاویر اور پینٹنگز بھی رکھی گئی ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ اس میوزیم پر خاص توجہ دے کیوںکہ اس میوزیم کو تھوڑی سی توجہ اور کوشش کے ساتھ ایک اچھے اور بڑے عجائب گھر میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
5- چترال میوزیم؛
ہندوکش کے دامن میں آباد چترال شہر کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ یہ نہ صرف ایک خوبصورت اور تاریخی شہر ہے بلکہ ایک منفرد ثقافت اور رسم ر رواج کا حامل خطہ ہے۔ چترال کی اسی ثقافت کو محفوظ رکھنے کے لیے یہاں 2010 میں ایک عجائب گھر بنایا گیا۔
یہاں دو گیلریں ہیں ایک آثارقدیمہ اور کالاش سے متعلق جب کہ دوسری چترالی تہذیب و تمدن سے متعلق۔ پہلی گیلری میں کیلاش ثقافت کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہے جن میں ان کے پہناوے، برتن اور دیگر روزمرہ استعمال کی اشیاء شامل ہیں۔ اس کے علاوہ گندھارا کی کھدائیوں سے دریافت شدہ برتن، زیور اور آلاتِ جنگ بھی اس گیلری کا حصہ ہیں۔ دوسری گیلری میں چترال کا کلچر دکھایا گیا ہے جس میں اس علاقے کے زیورات، ہتھیار، برتن، شکار کے اوزار، آلاتِ موسیقی، فرنیچر اور دوسری اشیاء شامل ہیں۔ مٹی اور لکڑی سے بنے مختلف قسم کے برتن اس میوزیم کی خاصیت ہیں۔ تھوڑی سی حکومتی توجہ سے اس میوزیم کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
6- موہنجودڑو میوزیم؛
موجودہ صوبہ سندھ کے شمال مغرب میں واقع وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا مرکز، موہنجودڑو لاڑکانہ سے بیس کلومیٹر دور اور سکھر سے 80 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ شہر 2600 قبل مسیح میں موجود تھا اور 1700 قبل مسیح میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر ختم ہو گیا۔ اسے قدیم مصر اور بین النہرین کی تہذیبوں کا ہم عصر سمجھا جاتا ہے۔ 1980ء میں یونیسکو نے اسے یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔
اس قدیم شہرِ بے مثال سے دریافت شدہ خزانے کو یہاں موہنجو دڑو میوزیم میں محفوظ کیا گیا ہے۔ موہنجو دڑو کے قدیم شہر اور یہاں کے ٹیلوں سے ملنے والی تمام مہریں، مجسمے، برتن، مورتیاں، منکے، زیورات جن میں مٹی کی چوڑیاں، گنگن، انگوٹھی اور بٹن وغیرہ شامل ہیں، پرندوں کی شکل کی مٹی کی سیٹیاں، مٹی کے گول جھنجنے، ترازو اور مختلف باٹ، نہایت تنگ منہ والی چھوٹی سرمہ دانیاں، مٹی کے بنے ہوئے گول اور چوکور پانسے، رتھ اور چھکڑے، مٹی کے ننھے پنجرے جن میں جھینگر رکھے جاتے ہوں گے اور مٹی کے چوہے دان تک شامل ہیں۔ان کے علاوہ بازو بند، کانسی اور تانبے سرمچو، کھیل کے مہرے اور ننھی منی بے شمار چیزیں بھی اس خزانے کا حصہ ہیں۔
دو منزلہ سادہ اینٹوں سے بنے اس میوزیم کے دیواروں پر مختلف جانوروں کی دلکش تصاویر بنائی گئی ہیں جو پہلی ہی جھلک میں دیکھنے والے کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہیں۔ یہ میوزیم ایک نہایت گرم علاقے میں واقع ہے اس لیے قدیم اور نازک نوادرات کی حفاظت کے پیز نظر اس کی عمارت کو سادہ رکھا گیا ہے۔ اس کی دیواریں بھی بغیر چونے اور رنگ کے سادہ اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں، جبکہ موسمی سختی سے نبرد آزما ہونے کے لیے اوپری منزل کے فرش کی دو تہیں بچھائی گئی ہیں۔ اوپری منزل پر تمام چھوٹی اشیاء رکھی گئی ہیں جبکہ زمینی منزل کو نقسوں، تصویروں اور بڑی چیزوں کے لیے کُھلا رکھا گیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان، اپنے رقبے اور آبادی کی طرح ثقافتی اور تاریخی ورثے میں بھی بہت منفرد اور تنوع کا حامل ہے جہاں ہر کونے میں نت نئی چیزیں موجود ہیں۔
یہاں کی ثقافت ایک رنگ برنگے گل دستے کی مانند ہے جس میں تمام خِطے اپنا اپنا حصہ ڈالتے نظر آتے ہیں۔
یہاں شمال میں ٹیکسلا کے اسٹوپے، بدھ خانقاہیں اور گلگت بلتستان کی کُندہ چٹانیں ہیں تو جنوب میں بہاولپور کا صحرا اور محل، مکلی کا قبرستان، رنی کوٹ جیسے قلعے اور مکران کے عجوبے ہیں۔ مشرق میں لاہور جیسا تاریخی شہر اور تھر پارکر کے قدیم جین مندر ہیں تو مغرب میں پشاور کی پرانی حویلیاں و خوب صورت قلعے بھی اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔
اس لحاظ سے اس بے مثال ملک کے تاریخی و ثقافتی ورثے کو سنبھالنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ان علاقوں کے کلچر کو محفوظ رکھنے کے لیے پاکستان کے مختلف شہروں میں خوب صورت عجائب گھر بنائے گئے ہیں جہاں آثارِقدیمہ اور تاریخی نوادرات کو محفوظ کیا گیا ہے۔ ان میں علم و فنون کے نمونہ جات، وراثتی، ثقافتی، تہذیبی تمدنی اور ارتقا جیسے شعبہ جات کے آثار کا تحفظ کیا گیا ہے۔ یہ سب ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ایک سیاح کے طور پر میرا یہ ماننا ہے کہ سیاحت اور تاریخ و ثقافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کسی بھی علاقے کے عجائب گھر کو دیکھے بغیر آپ اس کی بود وباش کو نہیں سمجھ سکتے۔ اس لیے سفر کہیں کا بھی ہو میں راستے میں آنے والے عجائب گھروں کو دیکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہوں۔
اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ عجائب گھر لاہور شہر میں موجود ہیں۔ یہاں موجود مختلف سرکاری و نجی عجائب گھر اور آرٹ گیلریاں پاکستان اور لاہور کی روایتی ثقافت اور تاریخ کو سمجھنے، سنبھالنے اور لوگوں تک بطریقِ احسن پہنچانے کا کام بخوبی انجام دے رہی ہیں۔ پیشِ خدمت ہے پاکستان بھر کے بڑے چھوٹے عجائب گھروں کا تذکرہ، جو طوالت کے باعث یہ تذکرہ قسطوں کی صورت میں شایع کیا جائے گا:
1- عجائب گھر لاہور؛
کہتے ہیں کہ ''جِنے لاہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں'' ، میں یہ کہوں گا کہ ''جِنے لہور اچ رہ کہ وی لہور میوزیم نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں۔''
بِلاشبہہ پاکستان کے اس عجائب گھر کو پاکستان کا سب سے زرخیز اور بڑا عجائب گھر کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ اس کی بنیادوں میں کئی کہانیاں دفن ہیں جنہیں اگر کاغذ پر اتاریں تو ایک ضیغم کتاب بھی کم پڑ جائے۔ اس عجائب گھر نے پاکستان بھر کی تہذیبوں کا بوجھ اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ اس کی کئی ایک گیلریوں میں برصغیر کے عروج و زوال کی داستانیں بکھری ہوئی ہیں جو برسوں سے علم کے پیاسوں کو سیراب کرنے کا ذریعہ بنتی آ رہی ہیں۔ لیکن اس میوزیم کو اچھے سے دیکھ لینا ایک دن کا کام نہیں ہے۔ اس کی ہر ہر گیلری میں رکھا ایک ایک نمونہ، غور طلب ہے۔ اپنے نوادرات کے حوالے سے یہ پاکستان کا سب سے بڑا عجائب گھر ہے۔
رڈیارڈ کپلنگ کے والد جان لاک ووڈ کپلنگ اس میوزیم کے بڑے مداح تھے اور ان کے ناول ''کِم'' میں بھی اس عجائب گھر کا ذکر کیا گیا ہے۔
یہ میوزیم یونیورسٹی ہال کی قدیم عمارت کے بالمقابل واقع مغلیہ طرز تعمیر کا ایک شاہ کار ہے۔ اس میوزیم میں گندھارا، مغل اور سکھوں کے دور کے نوادرات موجود ہیں، جن میں لکڑی کا کام، مصوری کے فن پارے، مجسمے اور دوسرے نوادرات جو مغل، سکھ اور برطانوی دور حکومت سے تعلق رکھتے ہیں، شامل ہیں۔ یہاں رکھے گئے نوادرات، سِکے اور تصاویر ایک قومی اثاثہ ہیں جن کی کہیں کوئی مثال نہیں گئی۔
اس میوزیم میں چند آلات موسیقی کے علاوہ قدیم زیورات، دیدہ زیب روایتی ملبوسات، پیتل ، کانسی اور مختلف دھاتوں کے برتن، چینی کے ظروف اور جنگ و جدل کا سامان بھی نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔
اس میوزیم کی ایک منفرد بات یہ ہے کہ یہاں دیگر ممالک سے لائے گئے نوادرات اور تحفے بھی رکھے گئے ہیں جن میں برما، بھوٹان، نیپال، تبت (چین)، مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور افریقہ کے کچھ ممالک شامل ہیں۔ ان چیزوں نے اس عجائب گھر کی اہمیت اور بڑھا دی ہے۔ یہاں کی گندھارا گیلری کی بات کریں تو پشاور کے بعد لاہور میوزیم میں گندھارا سلطنت کا ایک بڑا خزانہ موجود ہے جس میں سِکری، جمال گڑھی سے لایا گیا وہ خوب صورت اسٹوپا بھی شامل ہے جو ہال کے وسط میں رکھا گیا ہے۔ یہاں روکھڑی (میانوالی) اور اکھنور (جموں) سے لائے گئے بدھا کے مجسموں کے سر، مختلف حالتوں میں گوتم بدھا کے مختلف مجسمے، قیمتی اور منفرد روزہ کی حالت میں موجود بدھا اور پتھر پر کُندہ مختلف درباری مناظر جیسے شاہ کار بھی رکھے گئے ہیں۔
بات کریں دریائے سندھ کی قدیم تہذیبوں کی تو اس گیلری میں وادی سون، ہڑپہ، موہنجودڑو اور مہر گڑھ سے دریافت کیے گئے شاہ کاروں کو جگہ دی گئی ہے۔ مٹی سے بنے چھوٹے پتھر، سکے، زیورات، پانسے، چھکڑے اور کھلونے شامل ہیں۔
منی ایچر تصاویر کی گیلری میں برصغیر کی سب سے بڑی کلیکشن موجود ہے جو بیسویں صدی کے اوائل میں اکٹھی کی گئی۔ اس میں تقریباً ایک ہزار چھوٹی تصاویر شامل ہیں جو سولہویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک کی ہیں۔ ان میں فارسی، مغل اور راجپوت کلیکشن دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔لاہور میوزیم کی قیام پاکستان گیلری آپ کو کئی برس پیچھے لے جاتی ہے اور مختلف تصاویر اور اخباری تراشوں کے ذریعے آپ کو پاکستان کے قیام کی کہانی یوں سناتی ہے جیسے آپ اسے سامنے دیکھ رہے ہوں۔ بلاشبہہ یہاں رکھی گئی کئی تحریریں اور تصویریں آپ کو رلانے کے لیے کافی ہیں۔
میوزیم کی سکہ جاتی گیلری برصغیر کی سب سے بڑی گیلری مانی جاتی ہے جس میں لگ بھگ چالیس ہزار سِکے شامل ہیں۔ یہاں ساتویں صدی قبل از مسیح سے لے کر برصغیر پر حکم رانی کرنے والے تمام خاندانوں کے دور کے سکے شام ہیں جو یقیناً کسی خزانے سے کم نہیں۔
ان کے علاوہ سکھ گیلری، مختلف ثقافتی گیلریاں، تحریک پاکستان گیلری اور ڈاک ٹکٹ گیلری بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ پنچ مندری کپورتھلہ کا ماڈل، اشوک چکرا، برما کا سنہری بُدھا، ملکہ وکٹوریہ کا دھاتی مجسمہ، مینار پاکستان کا ماڈل، بدھا کی تصاویر والا ہاتھی دانت، گولڈن ٹیمپل امرتسر اور بادشاہی مسجد لاہور کے ماڈل، اسٹوپے اور صوبائی ثقافتی گیلریاں یہاں کی منفرد ترین چیزیں ہیں جو لازمی دیکھنی چاہییں۔ لاہور میوزیم کو جتنا بھی بیان کیا جائے اتنا کم ہے، یہ سب آپ خود جا کر اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو ہی مزہ آئے گا۔
2- نیشنل میوزیم آف پاکستان؛
قومی عجائب گھر پاکستان، کراچی کے ریڈزون میں واقع آثار قدیمہ بالخصوص گندھارا تہذیب کے نادر و نایاب ذخیرے کا حامل عجائب گھر ہے۔
اس میوزیم کو اپریل 1950 میں کراچی کے فریئر ہال میں قائم کیا گیا تھا جو اپنے آپ میں ایک تاریخی عمارت تھی۔ اس میوزیم کو 1970 میں اس کی موجودہ عمارت میں منتقل کیا گیا تھا۔ تب یہاں صرف چار گیلریز ہوا کرتی تھیں جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ کر گیارہ ہو گئیں۔ یہاں کی سب سے منفرد گیلری قرآن گیلری ہے جس میں قرآن شریف کی 300 کاپیاں رکھی گئی ہیں ان میں 52 ایسے نسخے بھی شامل ہیں جو بہت نایاب ہیں۔
دیگر گیلریز میں وادی مہران کی تہذیب، گندھارا کی تہذیب، اسلامی آرٹ، مصوری کے شاہ کار، قدیم سِکے اور ریاستِ پاکستان کی اہم دستاویز رکھی گئی ہیں۔ میوزیم میں مجسموں کی ایک کثیر تعداد دیکھی جا سکتی ہے جن میں موہنجودڑو سے نکلنے والے قدیم مجسمے، بُدھ بھکشوؤں کے مجسمے، ہندو دھرم کے بھگوان وشنو، سرسوتی، لکشمی اور درگا دیوی کے مجسمے شامل ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح کا قلم، بٹن اور تلوار، علامہ محمد اقبال کی ذاتی کرسی اور قلم جبکہ لیاقت علی خان کے عطر کی شیشی، گھڑی اور چھڑی بھی نمائش کے لیے رکھی گئی ہے۔
قومی میوزیم میں لگ بھگ اٹھاون ہزار سکے موجود ہیں جو ایک بڑی تعداد ہے۔ ان میں کچھ سکے سن 74 ہجری کے بھی ہیں۔ ہر سال قومی دنوں کے موقعوں پر یہاں نمائش کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے جو ہزاروں کی تعداد میں عوام الناس کو متوجہ کرتی ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم پاکستانی عوام آثارقدیمہ میں نہایت کم دل چسپی لیتے ہیں۔ اسی باعث یہاں اسکول طالب علموں کے مطالعاتی دورے ہی زیادہ منعقد ہوتے ہیں۔ ایک حساس علاقے میں واقع ہونے کے باعث یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کڑی نگرانی کے باعث کراچی کے عام شہری عموماً یہاں کا رخ نہیں کرتے۔
3- گندھارا میوزیم ٹیکسلا؛
اگر آپ پاکستان میں رہ کر ایک منفرد اور اچھوتی تہذیب کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو پہلی فرصت میں ٹٰیکسلا میوزیم کا چکر لگائیں۔ اس عجائب گھر کی عمارت سے ہی آپ کو اس کی جدت اور انفرادیت کا اندازہ ہو جائے گا۔
ٹیکسلا میوزیم کو اگر گندھارا تاریخ کا گھر کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا کہ یہاں بدھ مت اور اس سے متعلق تمام اشیاء نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں جو اب تک پاکستان کے مختلف علاقوں سے دریافت کی گئی ہیں۔ یہ ایک سائٹ میوزیم ہے جس کے اطراف میں بھی کافی اہم اور قدیم مندر اور اسٹوپے واقع ہیں جو آپ بہ آسانی پیدل چل کر دیکھ سکتے ہیں۔ اس میوزیم کا سنگِ بنیاد 1918 میں اس وقت کے وائسرائے ہند، لارڈ چیمس فورڈ نے رکھا تھا جب کہ اس کی تعمیر 1928 میں جا کر مکمل ہوئی، جب کہ ایک گیلری کا اضافہ 1998 میں کیا گیا۔
میوزیم میں سجائے گئے تمام نوادرات ٹیکسلا کی وادی سے کھدائی کے دوران حاصل کیے گئے ہیں۔ میوزیم میں تین بڑے ہال ہیں مرکزی ہال نسبتاً بڑا ہے۔ اس ہال میں دو چھوٹے چھوٹے کمرے بھی ہیں اور اس ہال کے وسط میں ''موہڑہ مراد'' میں دریافت ہونے والے ایک اسٹوپہ کی نقل رکھی گئی ہے۔ یہ ہال پتھر پر تراشیدہ بتوں اور پتھروں سے بنی ہوئی دیگر اشیا پر مشتمل ہے جب کہ جنوبی ہال میں متفرق اشیاء جن میں لوہے، تانبے اور پتھروں سے بنائی گئی اشیاء اور آگ میں بنے ہوئے مٹی کے برتن ا ور کھلونوں کی نمائش کی گئی ہے۔ مرکزی ہال کے دو کمروں میں سکے، چاندی کے برتن اور زیورات رکھے گئے ہیں۔ دوسرے کمرے میں سونے کے زیورات ہیں۔
اس عجائب گھر کے خزانے میں تقریباً 4000 کے قریب نوادرات شامل ہیں جن میں مختلف اقسام کے پتھر، بدھا کے مجسمے، دھات کے زیورات تعمیراتی سامان جیسے ترتیب وار دیواروں کے پتھر، برتن اور اسٹوپے وغیرہ شامل ہیں۔ اس ایک عجائب گھر میں آپ بدھ مت، جین مت اور ہندو مت سے متعلق اشیاء دیکھ سکتے ہیں۔ ٹیکسلا کا میوزیم سیاحوں اور تاریخ کے طالب علموں کے لیے مفید معلومات کا ایک خزانہ ہے۔
4- ایبٹ میوزیم ایبٹ آباد؛
ہزارہ کا علاقہ خیبر پختونخواہ کے باقی علاقوں سے مختلف ثقافت رکھتا ہے۔ یہاں زبان سمیت بہت سی چیزیں ایسی ہی جو آپ کو مختلف نظر آئیں گی۔ اس ثقافت کو محفوظ رکھنے کے لیے یہاں ایک میوزیم کی شدید ضرورت تھی جو ایبٹ میوزیم کے صورت میں پوری ہوئی۔ اسے ہزارہ یونیورسٹی کے تعاون سے بنایا گیا ہے۔ یہ ایک چھوٹا میوزیم ہے جہاں آپ ہزارہ کی پرنی ثقافت اور رہن سہن سے آشنا ہو سکتے ہیں۔ اس خوب صورت عمارت میں فرنیچر، اسلحہ، برتنوں، سکوں اور تلواروں کے علاوہ کچھ پرانی تصاویر اور پینٹنگز بھی رکھی گئی ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ اس میوزیم پر خاص توجہ دے کیوںکہ اس میوزیم کو تھوڑی سی توجہ اور کوشش کے ساتھ ایک اچھے اور بڑے عجائب گھر میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
5- چترال میوزیم؛
ہندوکش کے دامن میں آباد چترال شہر کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ یہ نہ صرف ایک خوبصورت اور تاریخی شہر ہے بلکہ ایک منفرد ثقافت اور رسم ر رواج کا حامل خطہ ہے۔ چترال کی اسی ثقافت کو محفوظ رکھنے کے لیے یہاں 2010 میں ایک عجائب گھر بنایا گیا۔
یہاں دو گیلریں ہیں ایک آثارقدیمہ اور کالاش سے متعلق جب کہ دوسری چترالی تہذیب و تمدن سے متعلق۔ پہلی گیلری میں کیلاش ثقافت کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہے جن میں ان کے پہناوے، برتن اور دیگر روزمرہ استعمال کی اشیاء شامل ہیں۔ اس کے علاوہ گندھارا کی کھدائیوں سے دریافت شدہ برتن، زیور اور آلاتِ جنگ بھی اس گیلری کا حصہ ہیں۔ دوسری گیلری میں چترال کا کلچر دکھایا گیا ہے جس میں اس علاقے کے زیورات، ہتھیار، برتن، شکار کے اوزار، آلاتِ موسیقی، فرنیچر اور دوسری اشیاء شامل ہیں۔ مٹی اور لکڑی سے بنے مختلف قسم کے برتن اس میوزیم کی خاصیت ہیں۔ تھوڑی سی حکومتی توجہ سے اس میوزیم کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
6- موہنجودڑو میوزیم؛
موجودہ صوبہ سندھ کے شمال مغرب میں واقع وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا مرکز، موہنجودڑو لاڑکانہ سے بیس کلومیٹر دور اور سکھر سے 80 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ شہر 2600 قبل مسیح میں موجود تھا اور 1700 قبل مسیح میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر ختم ہو گیا۔ اسے قدیم مصر اور بین النہرین کی تہذیبوں کا ہم عصر سمجھا جاتا ہے۔ 1980ء میں یونیسکو نے اسے یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔
اس قدیم شہرِ بے مثال سے دریافت شدہ خزانے کو یہاں موہنجو دڑو میوزیم میں محفوظ کیا گیا ہے۔ موہنجو دڑو کے قدیم شہر اور یہاں کے ٹیلوں سے ملنے والی تمام مہریں، مجسمے، برتن، مورتیاں، منکے، زیورات جن میں مٹی کی چوڑیاں، گنگن، انگوٹھی اور بٹن وغیرہ شامل ہیں، پرندوں کی شکل کی مٹی کی سیٹیاں، مٹی کے گول جھنجنے، ترازو اور مختلف باٹ، نہایت تنگ منہ والی چھوٹی سرمہ دانیاں، مٹی کے بنے ہوئے گول اور چوکور پانسے، رتھ اور چھکڑے، مٹی کے ننھے پنجرے جن میں جھینگر رکھے جاتے ہوں گے اور مٹی کے چوہے دان تک شامل ہیں۔ان کے علاوہ بازو بند، کانسی اور تانبے سرمچو، کھیل کے مہرے اور ننھی منی بے شمار چیزیں بھی اس خزانے کا حصہ ہیں۔
دو منزلہ سادہ اینٹوں سے بنے اس میوزیم کے دیواروں پر مختلف جانوروں کی دلکش تصاویر بنائی گئی ہیں جو پہلی ہی جھلک میں دیکھنے والے کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہیں۔ یہ میوزیم ایک نہایت گرم علاقے میں واقع ہے اس لیے قدیم اور نازک نوادرات کی حفاظت کے پیز نظر اس کی عمارت کو سادہ رکھا گیا ہے۔ اس کی دیواریں بھی بغیر چونے اور رنگ کے سادہ اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں، جبکہ موسمی سختی سے نبرد آزما ہونے کے لیے اوپری منزل کے فرش کی دو تہیں بچھائی گئی ہیں۔ اوپری منزل پر تمام چھوٹی اشیاء رکھی گئی ہیں جبکہ زمینی منزل کو نقسوں، تصویروں اور بڑی چیزوں کے لیے کُھلا رکھا گیا ہے۔