جارج فلائیڈ کی زندگی کے آخری 8 منٹ 46 سیکنڈز کی کہانی
امریکی سیاہ فام باشندے کے پولیس کے ہاتھوں قتل نے نسلی امتیاز کے خلاف تحریک کو ایک ولولہ تازہ عطا کردیا
امریکا میں ہر سال مئی کا آخری پیر''میموریل ڈے'' اُن امریکی فوجیوں کی یاد میں منایا جاتاہے جنھوں نے جانیں وطن کی خاطر قربان کیں۔اس روز وفاقی سطح پر چھٹی ہوتی ہے۔
امسال یہ دن 25مئی کو منایاگیا۔ اُس روز جارج فلائیڈ نامی شخص نے 'کپ فوڈز' نامی ایک سٹور سے کچھ سگریٹ خریدے۔ ان کی قیمت 20 ڈالرز تھی۔ جارج نے رقم ادا کی اور اپنی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر جابیٹھا ۔ یہ شام آٹھ بجے سے ایک دومنٹ پہلے کا وقت تھا۔
آٹھ بجے 'کپ فوڈز'سٹور سے دو ملازم تیزی سے اس کے پاس پہنچے اور اسے کہا کہ اس نے جعلی کرنسی دی ہے۔جارج فلائیڈ اور دونوں ملازموں میں کچھ تکرار ہوئی۔انھوں نے جارج سے سگریٹس واپس کرنے کو کہا تاہم جارج نے انکار کردیا۔ آٹھ بج کر ایک منٹ پر ایک ملازم نے پولیس کو فون کردیا کہ
'ایک کسٹمر نے جعلی کرنسی استعمال کی ہے ، وہ شراب کے نشے میں دھت ہے اور اپنے آپ میں بھی نہیں ہے'۔
آٹھ بج کر آٹھ منٹ پر پولیس آن پہنچی، ایک پولیس اہلکار 'تھامس کے لین' نے جارج پر گن تانتے ہوئے ہاتھ کھڑے کرنے کو کہا۔جارج نے حکم کی تعمیل کی، تھامس نے اسے گاڑی سے باہر نکالااور اسے ہتھکڑی لگادی۔سی سی ٹی وی اور کسی شخص کی ریکارڈڈ ویڈیو کے مطابق جارج اس لمحے پرسکون تھا اور اس نے پولیس اہلکار کو ''شکریہ'' بھی کہا۔
آٹھ بج کر تیرہ منٹ پر پولیس افسران نے جارج سے کہا کہ ''آپ اب زیرحراست ہیں''۔ وہ ان کے ساتھ پولیس کارکی طرف چل پڑا تاہم کار کے نزدیک جاکر وہ گرپڑا۔ پھر اس نے پولیس والوں سے کہا کہ اسے بندجگہ سے خوف کا نفسیاتی عارضہ ہے، اس لئے وہ کار میں نہیں بیٹھ سکتا۔ اسی اثنا میں دومزید پولیس اہلکار آئے، انھوں نے جارج کو کھینچ کر گاڑی میں بٹھانا چاہا۔ جارج نے ان سے کہا کہ اسے سانس لینے میں مشکل پیش آرہی ہے۔پولیس اہلکاروں نے اسے اپنی گاڑی میں دھکیلا لیکن وہ بیٹھنا نہیں چاہ رہاتھا۔ اس کے اور پولیس اہلکاروں کے درمیان کشمکش دیکھنے کو ملی۔
اس کے بعد ایک ویڈیو کے مطابق جارج گاڑی سے باہر نیچے سینے کے بل گرا ہوا تھا، اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں۔اس کے بعد ایک ویڈیو میں دیکھاگیا کہ ڈیریک شوون نامی اہلکار نے اپنا گھٹنا جارج کی گردن پر رکھا ہوا تھا جبکہ دیگر دو پولیس اہلکاروں نے بھی اس کے باقی جسم پر اپنے گھٹنوںکا دباؤ ڈالاہوا تھا۔ یادرہے کہ مینیسوٹا پولیس افسران کو 'محکمے کی طاقت کے استعمال' کی پالیسی کے تحت، مشتبہ شخص کی گردن پر اُس وقت تک گھٹنا ٹیکنے کی اجازت ہے، جب تک سانس کی نالی میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔
ویڈیوز کے مطابق جارج کی گردن پولیس اہلکار کے گھٹنے تلے آٹھ منٹ 46 سیکنڈز رہی۔ جارج پانچ منٹ میں16مرتبہ چیخا کہ اس کی سانس رک رہی ہے لیکن پولیس اہلکار نے اس کی ایک نہ سنی، وہ اپنے بائیں گھٹنے سے اس کی گردن کو زیادہ سے زیادہ دبانے کی کوشش کرتا رہا۔ اس دوران قریب کھڑے لوگوں نے بھی پولیس کو ایسا کرنے سے منع کیا لیکن ایک پولیس اہلکار نے ان کی طرف بھی گن تان لی۔ جب اس نے گھٹنا اٹھایا تو جارج ساکت ہوچکاتھا۔ یہ ایک ریاستی ادارے کے اہلکاروں کی درندگی کی بدترین مثال تھی۔جارج فلائیڈ کے پاس کسی قسم کا کوئی اسلحہ نہیں تھا، اس کے ہاتھ ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے، تو اسے ہلاک کرنے کا کیا جواز تھا؟
جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد 'مینیاپولس'، پھر ریاست منی سوٹا اور پھر پورے ملک میں احتجاج شروع ہوگیا۔دوسری طرف ابتدائی طور پر پولیس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کہاگیا کہ جارج نے پولیس اہلکاروں کے ساتھ مزاحمت کی تھی لیکن جب ویڈیوز وائرل ہوئیں کہ جارج کیسے مزاحمت کرسکتاتھا جب کہ اس کے ہاتھ ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے تو پولیس ڈیپارٹمنٹ کو ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔ رات گئے ڈیرک شوون اور دیگر تین پولیس اہلکاروں کو نوکری سے فارغ کردیا۔ ڈیرک شوون پر قتل کا مقدمہ جبکہ ساتھی پولیس اہلکاروں پر اعانت قتل کا مقدمہ درج کیاگیا۔ اس کے بعد اس عوامی احتجاج ختم ہوناچاہئے تھا لیکن مسئلہ ایک قتل کا نہ تھا بلکہ سیاہ فاموں کے خلاف مسلسل ہونے والے نسلی امتیاز کا ہے۔
مینی سوٹا کے رہائشی46 سالہ جارج فلائیڈ کے قتل سے پہلے2013 ء سے2019ء تک امریکی پولیس سات ہزار666افراد کو ہلاک کرچکی ہے۔ امریکا میں کوئی ایسی ریاست نہیں جہاں یہ اس طرح کے واقعات نہ ہوئے ہوں، واضح رہے کہ ان واقعات میں سیاہ فام باشندے سفید فاموں کی نسبت کئی گنا زیادہ امریکی پولیس کی بربریت کا نشانہ بنے۔
امریکی سرکاری ریکارڈ کے مطابق سب سے زیادہ کیلی فورنیا، ٹیکساس اور فلوریڈا میں سیاہ فام پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔کیلی فورنیا میںچھ برسوں کے دوران میں 186سیاہ فام ہلاک کئے گئے جبکہ ٹیکساس میں157، فلوریڈا میں169، جارجیا میں98، جنوبی کیرولینا میں 38، شمالی کیرولینا میں 77، ورجینیا میں 52، میری لینڈ میں 80، نیوجرسی میں 51، پینسیلیوانیا میں 58، نیویارک میں71، اوہیو میں 80، الیونیوئس میں 96، میسوری میں74، اوکلاہاما میں 52، واشنگٹن میں 25، نواڈا میں 21، آریزونا میں 31، نیومیکسیکو میں 4،کینساس میں 11،آرکنساس میں28،میسیسپی میں41،الاباما میں 52،ٹینیسی میں 41، انڈیانا میں 40، کولوریڈا میں 21، مینیسوٹا میں 17،میسوری میں74، میسسپی میں 41،وسکونسن میں 27،مشیگن میں 42، مغربی ورجینیا میں 10سیاہ فام پولیس کی درندگی کا نشانہ بنے۔ دیگر ریاستوں میں بھی ایسے واقعات رونما ہوئے۔
جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد امریکا میں وہ کچھ ہورہاہے جس کا کبھی سوچا نہیں گیاتھا۔اس قتل کے خلاف امریکا کے ساڑھے تین سو شہروں میں احتجاج ہونے لگا ۔ اس احتجاج پر قابو پانے کے لئے تادم تحریر23 ریاستوں میں نیشنل گارڈز کو متعین کیاگیا۔بعض ریاستوں میں کرفیو نافذ کیاگیا۔ وائٹ ہاؤس کے باہر بھی مظاہرین پہنچ گئے اور امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ بھاگ کر بنکر میں جاچھپے۔ جس وقت یہ رپورٹ لکھی جارہی ہے، امریکا میں نسلی امتیار کے خلاف مظاہروں کو دوہفتوں سے زائد عرصہ گزرچکاہے۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ ڈونلڈٹرمپ اور ان کی 'ری پبلیکن پارٹی' کے بیشتر ارکان کے درمیان واضح اختلافات سامنے آئے۔ ٹرمپ اس احتجاج کو کسی بھی قیمت پر ، ہر اندازمیں کچل ڈالنے کے خواہاں تھے لیکن ان کے پارٹی میں بہت سے لوگوں نے نہ صرف احتجاج کی حمایت کی بلکہ مظاہروں میں شرکت بھی کی۔ بعض ری پبلیکن پارٹی کے سینیٹرز بھی شامل تھے۔
امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے دھمکی دی کہ احتجاج کاسلسلہ نہ تھما تو وہ وفاقی فوج کو ریاستوں میںبھیج کر افراتفری کو کچل دیں گے۔ تاہم امریکا کے وزیر دفاع نے مظاہروں کوکچلنے کے لیے فوج بھیجنے کی مخالفت کی ہے۔امریکی وزیردفاع مارک ایسپر نے کہا کہ وہ امریکی عوام کے پرامن مظاہرے کرنے کے حق کا تسلیم کرتے ہیں۔انھوں نے امریکی صدر کے بیانات اور اعمال کا دفاع بھی نہ کیا۔گویا انھوں نے لاتعلقی کا اظہار کیا۔
بحیثیت مجموعی مظاہرے پر امن رہے تاہم کہیںکہیں تشدد اور لوٹ مار کے واقعات رونما ہوئے۔ مظاہروں میں تشدد کا عنصر تب شامل ہوا جب پولیس کی طرف سے وحشت اور بربریت کا سلوک کیا گیا۔ امریکی پولیس نے ہزاروں مظاہرین کو گرفتار کیا۔ وائٹ ہاؤس کے باہر موجود مظاہرین پرکیمیائی گیس پھینکی، مختلف مقامات پرمظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے ضرورت سے زیادہ تشدد کا حربہ اختیار کیا۔ حتیٰ کہ پولیس نے صحافیوں کو بھی نہ بخشا۔ جواب میں مظاہرین نے بھی پولیس پر پتھراؤ کیا، ہاتھا پائی کی، پولیس اہلکاروں کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا۔
امریکا کے باہر کی دنیا میں شمالی امریکا، جنوبی امریکا، یورپ، افریقا، مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے کئی ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ زمبابوے کی حکومت نے امریکی سفیر کو طلب کیا اور جارج فلائیڈ کے قتل پر وضاحت طلب کی۔ جرمنی کی حکومت نے جارج فلائیڈ کی ہلاکت سے سبق سیکھا اور اپنے ملک میں نسلی امتیاز کے اثرات کو مکمل طور پر ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پوری دنیا میں سیاہ فام جہاں بھی ہیں، وہ جارج فلائیڈ کی ہلاکت پر رو رہے ہیں، وہ محسوس کررہے ہیں کہ گورے پولیس افسر کا گھٹنا ان کی گردنوں پربھی ہے۔
انھوں نے اپنے مظاہروں کو ''ہماری گردنوں سے اپنا گھٹنا ہٹاؤ'' کا عنوان دیا۔ دنیا بھر کے سیاہ فاموں کی کامیابی ہے کہ انھوں نے دوسرے رنگ والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا، سفید فاموں نے بھی سیاہ فام کے قتل پر آنسو بہائے۔
سیاہ فاموں کے احتجاج کی موجودہ لہر کے پیچھے ایک مکمل تاریخ ہے ۔گزشتہ پوری صدی کے دوران امریکا نے اپنے آپ کو آزادی اور جمہوریت کے علمبردار عالمی رہنما کے طور پر پیش کیا تاہم جب نسلی امتیاز کی بات آتی ہے تو امریکا تاریخ کی غلط طرف کھڑا نظر آتا ہے۔ مثلاً امریکا نے 80ء کی دہائی تک یورپی نسل پرست نوآبادیوں کے سر پر ہاتھ رکھا۔
ان میں جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت بھی شامل تھی۔ اس سے پہلے امریکا میں ریاستی مشینری نے شہری حقوق کا مطالبہ کرنے والے سیاہ فام مظاہرین پر نہ صرف کتے چھوڑے ، انھیں پانی کے حوضوں میں ڈبویا، ان پر ربر کی گولیاں برسائیں بلکہ ان کے ساتھ اس سے بھی زیادہ ظالمانہ سلوک کیا۔ شہری حقوق کی تحریک کے رہنما مارٹن لوتھر کنگ اپنی تقاریر میں واضح طور پر پولیس کی بربریت پر شدید تنقید کیا کرتے تھے۔ اس بربریت کی ساری تصاویر پوری دنیا تک پھیلیں۔
اس کے ردعمل میں امریکا سے باہر سیاہ فام سرگرم ہوئے۔1964ء میں افریقی یونین نے ایک قرارداد منظور کی جس میں امریکا میں نسلی امتیاز کی شدید مذمت کی گئی۔آزاد ہونے والے افریقی ممالک کے بہت سے مسائل تھے لیکن امریکا کے گورے حاکموں نے انھیں مسائل کا شکار رکھا۔ نتیجتاً آزاد افریقی اقوام نے امریکا، جنوبی افریقا ، زمبابوے اور اقوام امتحدہ میں نسل پرستی کو مسترد کیا۔ افریقی رہنماؤں نے سمجھ لیا کہ عالمی سطح پر سیاہ فاموں کے خلاف نسل پرستی کو مسترد کرنے ہی سے کامیابی ملے گی۔
آج تک تاریخ کے ہرموڑ پر ثابت ہوا کہ امریکا میں گوروں کی مطلق العنانیت قائم ہے۔یہاں سیاہ فام آبادی غربت کی جس سطح پر زندگی بسر کررہے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر11فیصد امریکی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرر ہے ہیں، اگر سیاہ فاموں کی طرف دیکھیں تو وہ27 فیصد غربت کی لکیر کے نیچے دبے ہوئے ہیں، جن میں 38فیصد سیاہ فام بچے بھی شامل ہیں، دوسری طرف بہت سے گورے بچوں کو خبر ہی نہیں ہے کہ غربت کیا ہوتی ہے۔
37فیصد سیاہ فام خواتین ایسی ہیں جن کے شوہر نہیں ہیں، وہ اکیلی مسلسل عذاب کی طرح زندگی گزار رہی ہیں۔24فیصد سیاہ فام مرد اس قدر غربت کے مارے ہوئے ہیں کہ شادی نہیں کرتے۔ ان کے خیال میںشادی کے بعد والی زندگی میں ان کے اخراجات بڑھ جائیں گے۔کس قدر کرب کی بات ہے کہ 65 سال کی عمر سے زائد کے15فیصد مرد اور 20 فیصد عورتیں غربت کی لکیر کی نیچے پڑے کراہ رہی ہیں۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس وقت سیاہ فام باشندے امریکا کی کل آبادی کا15فیصد ہیں یعنی چار کروڑ74 لاکھ ۔ تاہم عام امریکیوں کا خیال ہے کہ وہ 15فیصد نہیں 33 فیصد ہیں۔ وہ یہ خیال اپنے مشاہدے کی بنیاد پر کرتے ہیں کہ انھیں اپنے اردگرد موجود لوگوں میں اتنے فیصد ہی سیاہ فام نظر آتے ہیں۔شاید گورے امریکی اس لئے فکر مند ہیں کہ سیاہ فاموں کا امریکا کی کل آبادی میں حصہ مسلسل بڑھ رہاہے۔ اگرچہ اس کی رفتار زیادہ تیز نہیں، بہرحال یہ حقیقت ہے کہ امریکا کے منظرنامے پر گوروں کو حصہ کم ہورہاہے۔
امسال یہ دن 25مئی کو منایاگیا۔ اُس روز جارج فلائیڈ نامی شخص نے 'کپ فوڈز' نامی ایک سٹور سے کچھ سگریٹ خریدے۔ ان کی قیمت 20 ڈالرز تھی۔ جارج نے رقم ادا کی اور اپنی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر جابیٹھا ۔ یہ شام آٹھ بجے سے ایک دومنٹ پہلے کا وقت تھا۔
آٹھ بجے 'کپ فوڈز'سٹور سے دو ملازم تیزی سے اس کے پاس پہنچے اور اسے کہا کہ اس نے جعلی کرنسی دی ہے۔جارج فلائیڈ اور دونوں ملازموں میں کچھ تکرار ہوئی۔انھوں نے جارج سے سگریٹس واپس کرنے کو کہا تاہم جارج نے انکار کردیا۔ آٹھ بج کر ایک منٹ پر ایک ملازم نے پولیس کو فون کردیا کہ
'ایک کسٹمر نے جعلی کرنسی استعمال کی ہے ، وہ شراب کے نشے میں دھت ہے اور اپنے آپ میں بھی نہیں ہے'۔
آٹھ بج کر آٹھ منٹ پر پولیس آن پہنچی، ایک پولیس اہلکار 'تھامس کے لین' نے جارج پر گن تانتے ہوئے ہاتھ کھڑے کرنے کو کہا۔جارج نے حکم کی تعمیل کی، تھامس نے اسے گاڑی سے باہر نکالااور اسے ہتھکڑی لگادی۔سی سی ٹی وی اور کسی شخص کی ریکارڈڈ ویڈیو کے مطابق جارج اس لمحے پرسکون تھا اور اس نے پولیس اہلکار کو ''شکریہ'' بھی کہا۔
آٹھ بج کر تیرہ منٹ پر پولیس افسران نے جارج سے کہا کہ ''آپ اب زیرحراست ہیں''۔ وہ ان کے ساتھ پولیس کارکی طرف چل پڑا تاہم کار کے نزدیک جاکر وہ گرپڑا۔ پھر اس نے پولیس والوں سے کہا کہ اسے بندجگہ سے خوف کا نفسیاتی عارضہ ہے، اس لئے وہ کار میں نہیں بیٹھ سکتا۔ اسی اثنا میں دومزید پولیس اہلکار آئے، انھوں نے جارج کو کھینچ کر گاڑی میں بٹھانا چاہا۔ جارج نے ان سے کہا کہ اسے سانس لینے میں مشکل پیش آرہی ہے۔پولیس اہلکاروں نے اسے اپنی گاڑی میں دھکیلا لیکن وہ بیٹھنا نہیں چاہ رہاتھا۔ اس کے اور پولیس اہلکاروں کے درمیان کشمکش دیکھنے کو ملی۔
اس کے بعد ایک ویڈیو کے مطابق جارج گاڑی سے باہر نیچے سینے کے بل گرا ہوا تھا، اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں۔اس کے بعد ایک ویڈیو میں دیکھاگیا کہ ڈیریک شوون نامی اہلکار نے اپنا گھٹنا جارج کی گردن پر رکھا ہوا تھا جبکہ دیگر دو پولیس اہلکاروں نے بھی اس کے باقی جسم پر اپنے گھٹنوںکا دباؤ ڈالاہوا تھا۔ یادرہے کہ مینیسوٹا پولیس افسران کو 'محکمے کی طاقت کے استعمال' کی پالیسی کے تحت، مشتبہ شخص کی گردن پر اُس وقت تک گھٹنا ٹیکنے کی اجازت ہے، جب تک سانس کی نالی میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔
ویڈیوز کے مطابق جارج کی گردن پولیس اہلکار کے گھٹنے تلے آٹھ منٹ 46 سیکنڈز رہی۔ جارج پانچ منٹ میں16مرتبہ چیخا کہ اس کی سانس رک رہی ہے لیکن پولیس اہلکار نے اس کی ایک نہ سنی، وہ اپنے بائیں گھٹنے سے اس کی گردن کو زیادہ سے زیادہ دبانے کی کوشش کرتا رہا۔ اس دوران قریب کھڑے لوگوں نے بھی پولیس کو ایسا کرنے سے منع کیا لیکن ایک پولیس اہلکار نے ان کی طرف بھی گن تان لی۔ جب اس نے گھٹنا اٹھایا تو جارج ساکت ہوچکاتھا۔ یہ ایک ریاستی ادارے کے اہلکاروں کی درندگی کی بدترین مثال تھی۔جارج فلائیڈ کے پاس کسی قسم کا کوئی اسلحہ نہیں تھا، اس کے ہاتھ ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے، تو اسے ہلاک کرنے کا کیا جواز تھا؟
جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد 'مینیاپولس'، پھر ریاست منی سوٹا اور پھر پورے ملک میں احتجاج شروع ہوگیا۔دوسری طرف ابتدائی طور پر پولیس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کہاگیا کہ جارج نے پولیس اہلکاروں کے ساتھ مزاحمت کی تھی لیکن جب ویڈیوز وائرل ہوئیں کہ جارج کیسے مزاحمت کرسکتاتھا جب کہ اس کے ہاتھ ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے تو پولیس ڈیپارٹمنٹ کو ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔ رات گئے ڈیرک شوون اور دیگر تین پولیس اہلکاروں کو نوکری سے فارغ کردیا۔ ڈیرک شوون پر قتل کا مقدمہ جبکہ ساتھی پولیس اہلکاروں پر اعانت قتل کا مقدمہ درج کیاگیا۔ اس کے بعد اس عوامی احتجاج ختم ہوناچاہئے تھا لیکن مسئلہ ایک قتل کا نہ تھا بلکہ سیاہ فاموں کے خلاف مسلسل ہونے والے نسلی امتیاز کا ہے۔
مینی سوٹا کے رہائشی46 سالہ جارج فلائیڈ کے قتل سے پہلے2013 ء سے2019ء تک امریکی پولیس سات ہزار666افراد کو ہلاک کرچکی ہے۔ امریکا میں کوئی ایسی ریاست نہیں جہاں یہ اس طرح کے واقعات نہ ہوئے ہوں، واضح رہے کہ ان واقعات میں سیاہ فام باشندے سفید فاموں کی نسبت کئی گنا زیادہ امریکی پولیس کی بربریت کا نشانہ بنے۔
امریکی سرکاری ریکارڈ کے مطابق سب سے زیادہ کیلی فورنیا، ٹیکساس اور فلوریڈا میں سیاہ فام پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔کیلی فورنیا میںچھ برسوں کے دوران میں 186سیاہ فام ہلاک کئے گئے جبکہ ٹیکساس میں157، فلوریڈا میں169، جارجیا میں98، جنوبی کیرولینا میں 38، شمالی کیرولینا میں 77، ورجینیا میں 52، میری لینڈ میں 80، نیوجرسی میں 51، پینسیلیوانیا میں 58، نیویارک میں71، اوہیو میں 80، الیونیوئس میں 96، میسوری میں74، اوکلاہاما میں 52، واشنگٹن میں 25، نواڈا میں 21، آریزونا میں 31، نیومیکسیکو میں 4،کینساس میں 11،آرکنساس میں28،میسیسپی میں41،الاباما میں 52،ٹینیسی میں 41، انڈیانا میں 40، کولوریڈا میں 21، مینیسوٹا میں 17،میسوری میں74، میسسپی میں 41،وسکونسن میں 27،مشیگن میں 42، مغربی ورجینیا میں 10سیاہ فام پولیس کی درندگی کا نشانہ بنے۔ دیگر ریاستوں میں بھی ایسے واقعات رونما ہوئے۔
جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد امریکا میں وہ کچھ ہورہاہے جس کا کبھی سوچا نہیں گیاتھا۔اس قتل کے خلاف امریکا کے ساڑھے تین سو شہروں میں احتجاج ہونے لگا ۔ اس احتجاج پر قابو پانے کے لئے تادم تحریر23 ریاستوں میں نیشنل گارڈز کو متعین کیاگیا۔بعض ریاستوں میں کرفیو نافذ کیاگیا۔ وائٹ ہاؤس کے باہر بھی مظاہرین پہنچ گئے اور امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ بھاگ کر بنکر میں جاچھپے۔ جس وقت یہ رپورٹ لکھی جارہی ہے، امریکا میں نسلی امتیار کے خلاف مظاہروں کو دوہفتوں سے زائد عرصہ گزرچکاہے۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ ڈونلڈٹرمپ اور ان کی 'ری پبلیکن پارٹی' کے بیشتر ارکان کے درمیان واضح اختلافات سامنے آئے۔ ٹرمپ اس احتجاج کو کسی بھی قیمت پر ، ہر اندازمیں کچل ڈالنے کے خواہاں تھے لیکن ان کے پارٹی میں بہت سے لوگوں نے نہ صرف احتجاج کی حمایت کی بلکہ مظاہروں میں شرکت بھی کی۔ بعض ری پبلیکن پارٹی کے سینیٹرز بھی شامل تھے۔
امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے دھمکی دی کہ احتجاج کاسلسلہ نہ تھما تو وہ وفاقی فوج کو ریاستوں میںبھیج کر افراتفری کو کچل دیں گے۔ تاہم امریکا کے وزیر دفاع نے مظاہروں کوکچلنے کے لیے فوج بھیجنے کی مخالفت کی ہے۔امریکی وزیردفاع مارک ایسپر نے کہا کہ وہ امریکی عوام کے پرامن مظاہرے کرنے کے حق کا تسلیم کرتے ہیں۔انھوں نے امریکی صدر کے بیانات اور اعمال کا دفاع بھی نہ کیا۔گویا انھوں نے لاتعلقی کا اظہار کیا۔
بحیثیت مجموعی مظاہرے پر امن رہے تاہم کہیںکہیں تشدد اور لوٹ مار کے واقعات رونما ہوئے۔ مظاہروں میں تشدد کا عنصر تب شامل ہوا جب پولیس کی طرف سے وحشت اور بربریت کا سلوک کیا گیا۔ امریکی پولیس نے ہزاروں مظاہرین کو گرفتار کیا۔ وائٹ ہاؤس کے باہر موجود مظاہرین پرکیمیائی گیس پھینکی، مختلف مقامات پرمظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے ضرورت سے زیادہ تشدد کا حربہ اختیار کیا۔ حتیٰ کہ پولیس نے صحافیوں کو بھی نہ بخشا۔ جواب میں مظاہرین نے بھی پولیس پر پتھراؤ کیا، ہاتھا پائی کی، پولیس اہلکاروں کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا۔
امریکا کے باہر کی دنیا میں شمالی امریکا، جنوبی امریکا، یورپ، افریقا، مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے کئی ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ زمبابوے کی حکومت نے امریکی سفیر کو طلب کیا اور جارج فلائیڈ کے قتل پر وضاحت طلب کی۔ جرمنی کی حکومت نے جارج فلائیڈ کی ہلاکت سے سبق سیکھا اور اپنے ملک میں نسلی امتیاز کے اثرات کو مکمل طور پر ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پوری دنیا میں سیاہ فام جہاں بھی ہیں، وہ جارج فلائیڈ کی ہلاکت پر رو رہے ہیں، وہ محسوس کررہے ہیں کہ گورے پولیس افسر کا گھٹنا ان کی گردنوں پربھی ہے۔
انھوں نے اپنے مظاہروں کو ''ہماری گردنوں سے اپنا گھٹنا ہٹاؤ'' کا عنوان دیا۔ دنیا بھر کے سیاہ فاموں کی کامیابی ہے کہ انھوں نے دوسرے رنگ والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا، سفید فاموں نے بھی سیاہ فام کے قتل پر آنسو بہائے۔
سیاہ فاموں کے احتجاج کی موجودہ لہر کے پیچھے ایک مکمل تاریخ ہے ۔گزشتہ پوری صدی کے دوران امریکا نے اپنے آپ کو آزادی اور جمہوریت کے علمبردار عالمی رہنما کے طور پر پیش کیا تاہم جب نسلی امتیاز کی بات آتی ہے تو امریکا تاریخ کی غلط طرف کھڑا نظر آتا ہے۔ مثلاً امریکا نے 80ء کی دہائی تک یورپی نسل پرست نوآبادیوں کے سر پر ہاتھ رکھا۔
ان میں جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت بھی شامل تھی۔ اس سے پہلے امریکا میں ریاستی مشینری نے شہری حقوق کا مطالبہ کرنے والے سیاہ فام مظاہرین پر نہ صرف کتے چھوڑے ، انھیں پانی کے حوضوں میں ڈبویا، ان پر ربر کی گولیاں برسائیں بلکہ ان کے ساتھ اس سے بھی زیادہ ظالمانہ سلوک کیا۔ شہری حقوق کی تحریک کے رہنما مارٹن لوتھر کنگ اپنی تقاریر میں واضح طور پر پولیس کی بربریت پر شدید تنقید کیا کرتے تھے۔ اس بربریت کی ساری تصاویر پوری دنیا تک پھیلیں۔
اس کے ردعمل میں امریکا سے باہر سیاہ فام سرگرم ہوئے۔1964ء میں افریقی یونین نے ایک قرارداد منظور کی جس میں امریکا میں نسلی امتیاز کی شدید مذمت کی گئی۔آزاد ہونے والے افریقی ممالک کے بہت سے مسائل تھے لیکن امریکا کے گورے حاکموں نے انھیں مسائل کا شکار رکھا۔ نتیجتاً آزاد افریقی اقوام نے امریکا، جنوبی افریقا ، زمبابوے اور اقوام امتحدہ میں نسل پرستی کو مسترد کیا۔ افریقی رہنماؤں نے سمجھ لیا کہ عالمی سطح پر سیاہ فاموں کے خلاف نسل پرستی کو مسترد کرنے ہی سے کامیابی ملے گی۔
آج تک تاریخ کے ہرموڑ پر ثابت ہوا کہ امریکا میں گوروں کی مطلق العنانیت قائم ہے۔یہاں سیاہ فام آبادی غربت کی جس سطح پر زندگی بسر کررہے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر11فیصد امریکی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرر ہے ہیں، اگر سیاہ فاموں کی طرف دیکھیں تو وہ27 فیصد غربت کی لکیر کے نیچے دبے ہوئے ہیں، جن میں 38فیصد سیاہ فام بچے بھی شامل ہیں، دوسری طرف بہت سے گورے بچوں کو خبر ہی نہیں ہے کہ غربت کیا ہوتی ہے۔
37فیصد سیاہ فام خواتین ایسی ہیں جن کے شوہر نہیں ہیں، وہ اکیلی مسلسل عذاب کی طرح زندگی گزار رہی ہیں۔24فیصد سیاہ فام مرد اس قدر غربت کے مارے ہوئے ہیں کہ شادی نہیں کرتے۔ ان کے خیال میںشادی کے بعد والی زندگی میں ان کے اخراجات بڑھ جائیں گے۔کس قدر کرب کی بات ہے کہ 65 سال کی عمر سے زائد کے15فیصد مرد اور 20 فیصد عورتیں غربت کی لکیر کی نیچے پڑے کراہ رہی ہیں۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس وقت سیاہ فام باشندے امریکا کی کل آبادی کا15فیصد ہیں یعنی چار کروڑ74 لاکھ ۔ تاہم عام امریکیوں کا خیال ہے کہ وہ 15فیصد نہیں 33 فیصد ہیں۔ وہ یہ خیال اپنے مشاہدے کی بنیاد پر کرتے ہیں کہ انھیں اپنے اردگرد موجود لوگوں میں اتنے فیصد ہی سیاہ فام نظر آتے ہیں۔شاید گورے امریکی اس لئے فکر مند ہیں کہ سیاہ فاموں کا امریکا کی کل آبادی میں حصہ مسلسل بڑھ رہاہے۔ اگرچہ اس کی رفتار زیادہ تیز نہیں، بہرحال یہ حقیقت ہے کہ امریکا کے منظرنامے پر گوروں کو حصہ کم ہورہاہے۔