اک ذرا سوچنے دو۔۔۔۔
جب زمین بنجرہوجائیگی اوراپنی فطری اورقدرتی نمو کی صلاحیت کھو دیگی تب اس کھیت کاکیا ہوگا،جسے ہم اب تک پاکستان کہتے ہیں
ISLAMABAD:
صادق حسین صادق کا ایک شعر ہے:
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہیں تجھے اونچا اڑانے کے لیے
سرسید احمد خان نے بھی اسی بات کو اپنے الفاظ میں یوں کہا تھا کہ اگر آپ کا کوئی حاسد ہے تو سمجھ لیں کہ آپ کوئی بڑا اہم کام کر رہے ہیں۔ یعنی بہ الفاظ دگر یہ کہ مقبولیت اور عزت حاسد بھی پیدا کرتی ہے۔ کامیابی خوش قسمتی ہے، لیکن کامیابی کے ساتھ ساتھ حسد کرنے والے بھی پیدا ہو جاتے ہیں جو ہر جگہ آپ کا راستہ کھوٹا کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ آج کیا ہو رہا ہے، بحیثیت مجموعی ہم سب اسی عذاب سے گزر رہے ہیں۔ خواہ قومی سطح پر ہو یا انفرادی، زندگی کے ہر شعبے میں اپنے سے آگے نکلنے والوں کی راہ کھوٹی کرنے کے لیے مخالفین نے اپنی آستینوں میں ہی نہیں بلکہ اپنے پورے وجود میں چھوٹے چھوٹے زہریلے سانپ پال رکھے ہیں اور انھیں خوب خوب دودھ پلاتے رہتے ہیں تاکہ یہ ان لوگوں کو موقع ملتے ہی ڈس سکیں۔ جن کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ بغیر کسی سیڑھی اور عارضی سہارے کے ان سے بہت آگے نکل گئے اور اپنی منزل بغیر کسی لابنگ کے حاصل کرلی۔
یہی تو ہو رہا ہے، ہر طرف پورا ملک اس کی لپیٹ میں ہے۔ جس نے ظالم جابر حکمران کے آگے سر جھکانے سے انکار کیا۔ ناکامی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے اور جو ان کے حلقہ بگوش ہوتے ہیں وہ اعلیٰ منصب پاتے ہیں۔ ملک اور قوم کی بھلائی کا نام محض کرسی حاصل کرنے اور عوام الناس کے جذبات کے استحصال کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جیوے جیوے اور آوے ہی آوے کے نعرے لگانے والوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ کام محض پیسوں کے لیے کر رہے ہیں اور جو ان کی جیبوں میں ان نعروں کے عوض سکے ڈالتے ہیں وہ بھی جانتے ہیں کہ کل یہ ان کے مخالفین کے لیے بھی اسی جوش و خروش سے نعرے لگا رہے ہوں گے۔ راجستھان کی رودالی کی طرح، جنھیں میت پر بین کرنے کے لیے معاوضے پر لایا جاتا ہے۔ جتنے زیادہ پیسے اتنا ہی زیادہ زوردار ماتم اور ہچکیاں لے لے کر رونا۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ انھیں ایک میت پہ دھماکا دار بین کرنے کے فوراً بعد کسی دوسرے مال دار مرنے والے کی موت پہ بناوٹی آنسو بہاکر مال سمیٹنا ہے۔ بالکل ان پیشہ ور نعرے بازوں کی طرح جن کا دین ایمان صرف پیسہ ہوتا ہے۔
چلیے ان پیشہ وروں کا تو کام ہی مال سمیٹنا ہوتا ہے۔ لیکن آپ انھیں کیا نام دیں گے جو کسی حاکم کی کرسی کے گرد گھیرا ڈال کر اور ہاتھ باندھ کر کھڑے رہتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی وفاداری کا احساس دلانے کے لیے پیش پیش۔۔۔۔ لیکن آنکھیں ایک دوسرے پہ لگی ہوئی کہ جونہی موقع ملے اپنے ہی ساتھی کو پیچھے دھکیل کر خود آگے بڑھ جائیں۔ رفتہ رفتہ اپنی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے ذریعے سب کو پیچھے چھوڑ دیں اور بادشاہ وقت کا قرب حاصل کرلیں، گویا ''گرگ باراں دیدہ'' کی کہاوت ان ہی کے لیے کہی گئی ہے۔ زیادہ پیچھے ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں، صرف پاکستان کی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور ادبی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیجیے، یہی سب نظر آئے گا۔ ایوب خان کی بارگاہ میں حاضر افسران ان کے لیے علیحدہ اخبار چھپوایا کرتے تھے۔ تاکہ سب اچھا ہے کی گردان سے عوام الناس کی گردن کا پھندا زیادہ مضبوط ہوسکے۔
بھٹو اختلاف رائے برداشت نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا وہ خوددار اور مخلص لوگ ان سے دور ہوگئے جو انھیں آئینہ دکھانے کی اور غلط کو غلط کہنے کی ہمت رکھتے تھے۔ پھر کیا ہوا؟ مطلب پرست، سازشی اور خود غرض لوگوں کا ٹولہ ان کے گرد جمع ہوگیا۔ جو ان کی پھانسی کے دن اپنی اپنی خواب گاہوں میں رنگین خوابوں کو حقیقت کا روپ دے رہے تھے اور دوسری شادیوں کی تیاریوں میں مگن تھے۔ بعد کے آنے والوں نے حتیٰ کہ بھٹو کی بیٹی نے بھی کوئی سبق نہ سیکھا، نتیجہ سب نے دیکھ لیا۔ ان سے محبت کا دعویٰ کرنے والے اور ان کے ''بااعتماد'' ساتھی کسی اور کے دسترخوان کی مکھی بن گئے۔۔۔۔ اور آج تک ان کے قاتلوں کو گرفتار نہ کرسکے۔۔۔۔ کیوں؟ جب کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں۔ اقتدار کا دستر خوان یوں بھی بہت قیمتی ہوتا ہے۔ عقل مند اور زمانہ ساز لوگ جانتے ہیں کہ کوؤں کے ایکے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ کسی فاختہ یا بلبل کو اپنی کائیں کائیں سے بھگا دینا اور اپنی جگہ بنا لینا۔
سیاستدانوں اور حکمرانوں کے دسترخوانوں کے خوشہ چینوں کو تو چھوڑیے۔ دوسرے سرکاری اداروں کو دیکھیے۔۔۔ نیب کی فائلیں کرپشن کے کیسوں سے بھری پڑی ہیں اور ان فائلوں سے الماریاں اٹی پڑی ہیں۔۔۔۔ ان میں سابق حکمران، بیوروکریٹ، وردی والے اور بزنس مین سب شامل ہیں۔ فائلیں صرف بلیک میلنگ کے کام آتی ہیں۔ مجرم عالیشان گھروں میں عیش کرتے ہیں کیونکہ انھوں نے چاپلوسی اور خوشامد کے سانپوں سے کام لینا سیکھ جو لیا تھا۔ علمی و ادبی ادارے جنھیں حکومت سے باقاعدہ گرانٹ ملتی ہے، ان کے سربراہ بھی اپنی اپنی جگہ خدا بن بیٹھے ہیں اور اپنی خدائی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے انھوں نے بھی اپنے اطراف نااہل اور کرپٹ لوگوں کا ایک ایسا حلقہ بنا لیا ہے، جو کسی اہل، ایماندار، ذہین اور مخلص انسان کو اس حلقے میں داخل نہیں ہونے دیتا۔ اقتدار کے یہ جھوٹے دیوتا جن کا وجود محض موم کا ہے ان ہی بدفطرت اور بدطینت لوگوں کے طفیل قائم ہے۔ اسی لیے اپنے اقتدار کی مسند پہ کھڑے ہوکر یہ ان حلقہ بگوشوں کے گلوں میں ایوارڈ کی تختیاں اور ہار ڈالتے ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ ہر اس شخص کو جس کو ذرا سا بھی اختیار حاصل ہے اس نے بھی اپنی کرسی سلامت رکھنے کے لیے جھوٹی انا کے غبارے پھلا رکھے ہیں۔ ان غباروں میں ہوا بھی وہی بھرتے ہیں جو خود نااہل ہیں اور ہاتھ اٹھاکر ہر طرح کا بل پاس کردیتے ہیں۔ خواہ اخراجات پانچ ہزار کے ہوں لیکن بل پچاس ہزار کا بڑی آسانی سے پاس ہوجائے گا کیونکہ بقیہ کے 45 ہزار اس کھچڑی میں گئے جو پیاروں کے پیٹ میں گئی۔
بس یہی ہے پاکستان کا آیندہ کا منظرنامہ۔۔۔۔ ہر جگہ سے، ہر ادارے سے اہل اور قابل لوگوں کو نکال کر باہر کرو کہ ان کی کوئی لابی نہیں ہے۔ ہر ادارے میں یہی دستور بن گیا ہے کہ نااہلوں کو بلند مرتبے عطا کرو۔ اسی لیے ہمارا یہ پیارا وطن ایک ایسا لاوارث کھیت بن گیا ہے جس میں جس کا جی چاہتا ہے گھس جاتا ہے۔ جی بھر کے اسے لوٹتا ہے اور اپنے حلقہ بگوشوں کو بھی حصہ دار بناتا ہے۔ جب زمین بنجر ہوجائے گی اور اپنی فطری اور قدرتی نمو کی صلاحیت کھو دے گی تب اس کھیت کا کیا ہوگا، جسے ہم اب تک پاکستان کہتے ہیں۔۔۔۔ یہ ذرا سوچنے دو۔۔۔۔!!