سماجی انتشار اور ہم

سماج میں پھوٹ پڑنے والے انتشار کو فکری سمت مل جائے توانقلاب میں بدل جاتا ہے،وگرنہ یہ خانہ جنگی کی صورت اختیارکرلیتا ہے


عابد میر December 08, 2013
[email protected]

سماج میں پھوٹ پڑنے والے انتشار کو واضح فکری سمت مل جائے تو انتشار، انقلاب میں بدل جاتا ہے، وگرنہ یہ خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلیتا ہے، جس کے نتیجے میں سماجی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے۔لیکن اس فکری سمت کا تعین کرے گا کون؟ ...ظاہر یہ کام اہلِ علم و فکر کا ہی ہے۔ وہی اس کے اہل بھی ہیں اور ذمے دار بھی۔پاکستان میں اس طبقے کو ایک عرصے سے اسکرین کا چسکا لگا دیا گیا ہے، اس لیے ان کی فکر اب بے ثمر ٹاک شوز کے حوالے ہو چکی ہے۔جہاں ایک گھنٹے کی بے نتیجہ گفت گو کو پرائم ٹائم میں تفریح کے بطور پیش کرنا ہوتا ہے۔صد شکر کہ بلوچستان ابھی اس سرکس سے باہر ہے۔ اس لیے یہاں کے اہلِ علم و دانش علم اور قلم سے اپنا رشتہ استوار رکھے ہوئے ہیں اور اپنے سماج سے جڑے ہوئے ہیں۔

سنگت اکیڈمی آف سائنسز بلوچستان کے اہلِ علم و دانش کا ایسا ہی ایک نمائندہ پلیٹ فارم ہے، جس کی بنیاد میں بلوچستان کے نامور ترقی پسند اور روشن فکر احباب کی کاوشیں شاملِ حال رہی ہیں۔پاکستان کے کونے کونے سے بلوچستان آنے والے اہلِ علم وہنر اس کی پوہ و زانت( علم و دانش) کے نام سے معروف فکری نشستوں میں شرکت کر چکے ہیں۔ گزشتہ ماہ (نومبر ) کے اواخر میں اس تنظیم نے اپنے دو سالہ کنونشن کے موقعے پر 'سماجی انتشار: عوامی و تدارک' کے عنوان سے ایک پُر مغز سیمینار کا اہتمام کیا۔جہاں بلوچستان کے نامور اہلِ علم نے اس اہم اور سلگتے ہوئے موضوع پر اظہارِ خیال کیا۔ صرف موضوعات پر ہی ایک نظر ڈالنے سے اس کی سنجیدگی اور اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:

انگریزی ادب کے پروفیسر اور براہوی لسانیات پر دسترس رکھنے والے جاوید اخترنے بتایا کہ ''انارکزم کیا ہے؟'' انھوں نے انارکی اور انارکز م میں فرق بتایا۔ انارکزم کی بنیادی وجوہات بتائیں۔ انارکسٹوں کو انھوں نے انقلاب دشمن قرار دیا۔ اردو اور براہوی کے نامور لکھاری وحید زہیر نے اپنے مخصوص طنزیہ اور پر لطف انداز میں ''سماجی انتشار'' کو موضوعِ ہدف بتایا۔ انھوں نے نہایت ہلکے پھلکے انداز میں سماجی انتشار کے عوامل کی جانب اشارہ کیا اور ان کی بیخ کنی کو بھی لازم قرار دیا۔سنگت اکیڈمی کے نومنتخب سیکریٹری جنرل جنید خان جمالدینی نے ''انتہا پسندی اور انتشار'' کے عالمی تناظر پر بحث کی۔ انھوں نے سرد جنگ کا تذکرہ کیا، بتایا کہ پاکستان نے کیسے طالبان بنائے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ امریکا کا سارا جھگڑا تیل پر ہے۔ گوادر پر اس کی نظریں ہیں۔ ان کے خیال میں توانائی کے ذرائع پر قبضہ کی عالمی طاقتوں کی جنگ ہی ہمارے سماج میں انتہا پسندی اور انتشار کی اصل وجہ ہے۔

ان کے علاوہ شاعرہ جہاں آرا تبسم نے کہا کہ ''اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے!''ان کے خیال میں سماجی انتشار کی اہم وجوہات یہ ہیں کہ سماج میں ہر جا جعلی لوگ قابض ہیں، علم و ادب سے وابستہ حقیقی لوگ گوشہ نشین ہیں، میڈیا غیر سنجیدہ ہے، بازاری ادب،ادبِ عالیہ کہلوا رہا ہے۔ ان کے نزدیک حقیقی اہلِ علم و دانش کی قدر کر کے، علم و ادب کو فروغ دے کر اور اقتدار حقیقی اہلِ فکر کے حوالے کر کے سماجی انتشار پر قابو پایا جا سکتا ہے۔نوجوان کلا خان نے ''شدت پسندی، پاکستان اور چند زمینی حقائق'' پر بات کی۔ انھوں نے شدت پسندی کی وجوہات بتائیں۔ انھوں نے بتایا کہ دنیا سائنس میں کیا کیا ترقی کر رہی ہے، ہماری نسل سلطان راہی اور بدرمنیر کی فلمیں دیکھ کر جوان ہو رہی ہے۔ ٹی وی کے ٹاک شوز پہ مرغے لڑانے والوں کا گماں ہوتا ہے۔ انھوں نے پاکستانی نصاب اور سرد جنگ کے زمانے میں افغان نصاب میں شدت پسندی کے حوالے دیے۔ ان کے نزدیک دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانا بند کر کے اور توسیع پسندانہ سوچ کو ختم کر کے ہی سماجی انتشار پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

کتابوں پر تبصرے کے سیشن میں جناب بیرم غوری نے بلوچستان میں ترقی پسند فکر کی بنیاد رکھنے والوں میں سر فہرست عبداللہ جان جمالدینی کی بلوچستان میں ترقی پسند ادب اور سیاست کی تاریخ پر مبنی کتاب ''لٹ خانہ'' کی دوسری اشاعت پر اظہارِ خیال کیا۔انھوں نے اسے حیات آفریں پھول کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ دس برس بعد یہ کتاب کا ہی نہیں، وابستگانِ علم و ادب کا بھی دوسرا ایڈیشن ہے۔اس سیمینار کے مہمانِ خاص اور بلوچستان کے معروف افسانہ نگار آغا گل نے گفت گو کو یوں سمیٹا کہ ادب اور ادیب کا کام ہی انتشار اور فاصلوں کو سمیٹنا ہے۔

آخر میں بلوچستان سمیت پاکستان کی نامور علمی و ادبی ہستیوں اور فنکاروں کی رحلت پر ان کے احترام میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ایک بین اللسانی مشاعرہ بھی ہوا ،جہاں نوجوان اور سینئر شعرا نے بلوچستان کے تناظر میں اپنا کلام پیش کیا۔

یوں بلوچستان کے تناظر میں یہ یہاں کے اہلِ علم و دانش کا ایک نمائندہ اکٹھ تھا۔ اس کی نمائندگی اور سنجیدگی کا اندازہ اس پلیٹ فارم سے پیش کی گئی قراردادوں سے بھی لگایا جا سکتا ہے:

کانفرنس کے شرکا نے قراردادیں پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ صوبائی اور وفاقی حکمران بلوچستان کی حقیقی متحرک قوتوں سے بات چیت کے لیے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کوآمادہ کریں۔ لاپتہ افراد کو منظر عام پر لاتے ہوئے مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ بند کیاجائے۔ ریاستی اداروں کی سرپرستی میں قائم کیے جانے والے مسلح گروہوںاور ڈیتھ اسکواڈز کا خاتمہ کیاجائے۔ اغوا برائے تاوان میں ملوث گروہوں کی بیخ کنی کی جائے۔ شرکا نے نسلی، لسانی، مذہبی فرقہ وارانہ عصبیت کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں مادری ،قومی زبانوں میں میٹرک تک مفت تعلیم کی فراہمی کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کیے جائیں۔ بلوچستان یونیورسٹی سمیت تمام تعلیمی اداروں کے مالی امور سمیت درپیش مسائل کا مستقل حل تلاش کیاجائے۔ تعلیمی اداروںمیں علمی، ادبی فضا کو ہموار کرنے کے لیے ٹھوس وعملی اقدامات کرتے ہوئے بلوچستان بھر میں ضلعی سطح پر پبلک لائبریریوں کا قیام عمل میں لایاجائے اور ان کو فعال بنانے کے لیے ہرممکن اقدامات کیے جائیں۔

سنگت کانفرنس کے شرکا نے بلوچستان میں حالیہ زلزلے میں ہونے والے انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کااظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ بلوچستان کے زلزلہ متاثرہ علاقوں میں متاثرین کی فوری بحالی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں ۔ بلوچستان کے آثارِ قدیمہ کو محفوظ بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرتے ہوئے نئی آرکیالوجیکل سائٹس پر کام تیز کیاجائے۔ مہرگڑھ کے پس منظر میں معیاری میوزیم کا قیام عمل میں لاتے ہوئے حکومت بلوچستان صوبے میں ثقافت کی ترقی اور ترویج کے لیے فوری طور پر جامع کلچرل پالیسی کا اعلان کرے ۔بلوچ سماج کو دیمک کی طرح چاٹنے والی قبائلی جنگوں کی بیخ کنی کی جائے۔یوں ہر لحاظ سے ایک ڈرے اور سہمے ہوئے گھٹن زدہ ماحول میں یہ ایک پُر اثر اور جاں فزا سرگرمی تھی۔ سوچنے ، سمجھنے اور لکھنے والوں کی ایسی طاقت ور آواز جس کی بازگشت دیر تک یہاں کے علمی ،ادبی، فکری اور سیاسی حلقوں میں گونجتی رہے گی۔

بلوچستان کے اہلِ علم و دانش کی یہ فکری بیداری اور سرگرمی ثابت کرتی ہے کہ بلوچستان اس وقت سماجی انتشار کا شکار سہی لیکن بے سمت نہیں ،اور سماجی انتشار کو جب واضح فکری سمت مل جائے تو انتشار، انقلاب میں بدل سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں