مطلقہ شہر…
اگرچہ بہت سے مسائل موجودہ حکومت کو وراثت میں ملے اور بہت سے ایسے مسائل ہیں جو اس حکومت کے بھی اپنے پیدا کردہ ہیں
WASHINGTON:
'' تم اسلام آباد میں رہتی ہو کیا؟ ''بتول کو اپنا گھر کا پتا سمجھا رہی تھی کہ اس نے عجیب سا سوال کیا، '' میں سمجھی کہ تمہارا علاقہ راولپنڈی میں ہے '' فون پر اس کی ہنسی کی باقاعدہ آواز آئی۔
'' یہ تم نے کیونکر سوچا؟ اسلام آباد ہائی وے پر آتا ہے ہمارا علاقہ اور اسلام آباد کے ٹال پلازہ کے بعد کا علاقہ ہے... کل کو تم کہو گی کہ شاید ہمارا علاقہ روات میں آتا ہے... '' میں نے طنز سے کہا تو وہ پھر ہنسی... جانے بات بے بات اس کی ہنسی کیوں نکل رہی تھی، میں نے جلے دل سے سوچا۔
'' اچھا اچھا ناراض نہ ہو... میں کون سا کچھ کہہ رہی ہوں، صرف پوچھا ہے ! '' اسے کچھ کاغذات مجھے کورئیر سے بھجوانا تھے اور پتا پوچھنے کے بعد اس کی تفتیش بے مقصد تھی۔
وہ کیوں ہنسی تھی؟ مجھے اس کا جواب اگلے ہی دن مل گیا جب میں اپنے گھر سے نکل کر، دس پندرہ منٹ کا سفر کر کے ائیر پورٹ چوک کے سگنل پر رکی، اشارہ کھلا، میری گاڑی حرکت میں آئی، اگلی گاڑیوں کی رفتار مدہم تھی اس لیے چوک میں کھمبے پر لگا وہ بورڈ مجھے واضح نظر آیا جو اس سے قبل شاید کبھی یوں نظر میں نہ آیا تھا... '' آپ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہو رہے ہیں، ٹریفک قوانین کی پاسداری کریں!'' ہیں تو میں کہاں سے آ رہی تھی؟ کہنے کو تو ہماری بستی کے ساتھ اسلام آباد کا دم چھلا بھی ہے۔ دنیا بھر میں شہروں کے منسلکہ اور متعلقہ علاقے پچیس تیس کلومیٹر کے مدار میں اسی شہر کا حصہ ہی کہلاتے ہیں، اسی طرح ہمارے علاقے سمیت اس جیسی ہاؤسنگ اسکیموں کے لیے اسلام آباد کا دم چھلا ہی لگایا جاتا ہے اور یہاں پلاٹوں کی قیمتیں بھی اسی طرح ہیں جیسی اسلام آباد کے کسی اور سیکٹر میں ہو سکتی ہیں...واپسی کے سفر میں بھی ذہن میں بتول کی ہنسی ہی گونج رہی تھی... جونہی میں نے ائیر پورٹ والا چوک پار کیا... مجھے اندازہ ہوا کہ جاتے ہوئے اسی جگہ پر کیوں لکھا نظر آیا تھا کہ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہو رہے ہیں! عین اسی جگہ سے سڑک بوتل کے منہ کی طرح ہو جاتی ہے، دو طرف کی چا ر چار لین فوراً دو دو لین میں بدل جاتی ہیں۔ سڑک کے اوپر markingکی سفید اور پیلی پٹیاں ختم ہو جاتی ہیں... حد رفتار کے بورڈ اور دیگر ٹریفک قوانین کے بورڈ یہاں سے آگے نظر نہیں آتے۔ ائیر پورٹ چوک سے لے کر اسلام آباد کے داخلی مقام تک کم و بیش بیس ہاؤسنگ کالونیاں ہیں، مستقبل کے سارے شہر کا پھیلاؤ اس طرف دیکھا جا سکتا ہے... مگر اس نقطہء آغاز سے لے کر شہر کے اس حصے کے ساتھ متعلقہ نہیں بلکہ ''مطلقہ '' حصے کے طور پر برتاؤ کیا جاتا ہے۔
شہر کا کوئی بھی ترقیاتی کام ہو... اس کا دائرہ زیرو پوائنٹ سے چند کلومیٹر کے مدار میں کیا جاتا ہے اسی لیے شہر کے مضافات اور اہم شاہراہوں سے ہٹ کر ہر ایک راستہ شہر کے حسن پر دھبے کی مانند ہے۔ تمام سڑکوں کی خستہ حالت، صفائی ناپید، پانی کے نکاس کے ناقص انتظام کے باعث ہرسیکٹر ملک کے کسی بھی پسماندہ شہر جیسا نقشہ پیش کرتا ہے۔
کسی غیر ملکی اہم شخصیت کی آمد کی خبر ہو تو ، شاہراہ فیصل کو جھنڈوں سے سجا لیا جاتا ہے، شاہراہ دستور کو چمکا لیا جاتا ہے اور ائیر پورٹ سے وہاں تک کے راستے کو تازہ چونا کر لیا جاتا ہے... یہ بھی ایک دلچسپ سفر ہوتا ہو گا۔ ائیر پورٹ سے ہر شخصیت کو گاڑی کے ذریعے ہی لے کر جایا جا سکتا ہے، ائیر پورٹ سے جو سڑک اسلام آباد کو جاتی ہے وہ جغرافیائی طور پر راولپنڈی میں ہے۔ راولپنڈی... جسے عموما اسلام آباد کا جڑواں شہر کہا جاتا ہے، بے چارہ کمزور جڑواں... جیسے دو جڑواں بچوں میں ایک کسی وجہ سے طبعی طور پر کمزور رہ جاتا ہے، جانے اس سڑک سے گزرتے ہوئے کہ جس کے دو اطراف بد نما بڑھتی ہوئی آبادیاں ، گھٹیا تعمیر کیے گئے پلازے اور ایسی رہائشی اسکیمیں ہیں جن میں infrastructure نام کی کوئی چیز نہیں ۔ میرا خیال ہے کہ ائیر پورٹ سے ایوانوں تک کے سفرمیں شریک سفر، مہمانان گرامی کو کسی نہ کسی طور مصروف رکھتے ہوں گے کہ ان کا دھیان گاڑی سے باہر نہ جائے۔ پردہ نشین گاڑیاں بھی اس کا ایک اہم حل ہیں۔
چند ماہ قبل اسلام آباد میں، '' لین کی پابندی'' کی تحریک زوروں سے چلی تو اس کا دائرہ کار بھی حسن اتفاق سے شاہراہ فیصل اورشاہراہ دستور... غالباً کسی ایک آدھی اور سڑک پر اگر ہوا ہو گا تو اس سے میرا ٹکراؤ کم از کم نہیں ہوا۔ جونہی آپ ان اہم شاہراہوں سے ہٹتے ہیں، آپ ہر قسم کی قانون شکنی کے اہل ہو جاتے ہیں اور ائیر پورٹ سے آگے تو ... راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ اگر اس سڑک پر کوئی حادثہ ہو جائے، ٹرک خراب ہو کر سڑک کے عین بیچوں بیچ عمودی انداز میں کھڑا ہو جائے یا سی این جی کی سپلائی کا دن ہو تو ... ائیر پورٹ چوک سے ڈیفنس تک کا دس منٹ کا سفر با آسانی ایک گھنٹے یا اس سے زائد پر پھیل جاتا ہے۔
کہنے کو اسلام آبا دنیا کے چند ایک منظم شہروں میں سے ہے مگر بد قسمتی سے ایسا نہیں ہے... اس کی تخلیق و تعمیر کے وقت اس بات کو ہرگز ملحوظ نہیں رکھا گیا تھا کہ یہ شہر بھی پاکستان کا حصہ ہے اور اس میں بھی آخر کار پاکستانی عوام نے ہی بسنا ہے جن کا مقصد ایک ہی ہے کہ کسی اور شعبے میں ترقی کریں یا نہ کریں ، آبادی کو بہر حال بڑھنا ہے۔ اس انسانی بڑھوتڑی کے اہم نقطے کو ملحوظ نہ رکھا گیا اور نہ ہی اس بڑھنے والی آبادی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو ، خواہ وہ رہائشی ہو، طبی، تعلیمی، کاروباری، سفری یا خوراک کی۔ پھر ہوا یہ کہ اس شہر کے نواح میں بھی ہر طرف سے سرکاری اور نجی رہائشی کالونیوں کی افزائش ہونے لگی... ان میں سے زیادہ تر غیر قانونی قرار دے دی گئیں کہ وہ پانی کے اہم منبع سے انتہائی قریب تھیں اور ان کی وجہ سے پانی کی آلودگی کا خطرہ تھا۔
یہ غیر قانونی رہائشی علاقے دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں، چونکہ کاغذات میں یہ غیر قانونی ہیں اس لیے یہاں کئی لوگوں کے پاس گیس اور بجلی کے کنکشن نہیں ہیں... اب آپ خود ہی اندازہ کر لیں کہ ان اسکیموں میں جن لوگوں کے پاس ان اہم ضروریات کے لیے کنکشن نہیں ہیں وہ یا تو ان کے بغیر گذارا کر رہے ہیں یا انھوں نے کنڈے لگا رکھے ہیں جن کا بل ہم اور آپ ادا کرتے ہیں۔
ایک ہی رہائشی اسکیم کو غیر قانونی قراردے کر اس میں سے ملک کے ایک اہم سائنسدان تک کا گھر مسمار کر دیا جاتا ہے مگر اسی میں ہزاروں گھر بنے ہوئے ہیں، ان میں لوگ سال ہا سال سے اس کی '' غیر قانونیت'' کے با وصف کیسے رہ رہے ہیں؟ یہاں تک کہ حال کی ایک اہم شخصیت نے وہاں پہاڑی کی چوٹی پر اپنا ''ٹھکانہ'' بنا رکھا ہے۔ تعمیراتی اداروں نے تو اپنی جڑیں اسلام آباد کے ہر چہار اطراف میں پھیلا رکھی ہیں... by hooks or by crooks حاصل کی گئی اراضی کو جانے کس قانون کے تحت ہاؤسنگ کالونیوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے؟ اس پر ہر کس و نا کس کی دو رائے ہیں ۔ کوئی بولتا ہے نہ کوئی کاروائی کرنے کا مجاز ہے کیونکہ ہر کوئی ان کے ساتھ کوئلوں کی دلالی میں شریک ہے... پرانے زمانے میں ڈاکو لوگوں سے رقم لوٹ کر غریبوں کی مدد کیا کرتے تھے... عصر حاضر کا شاید یہ انداز ہے!
اگر چہ بہت سے مسائل ہیں جو موجودہ حکومت کو وراثت میں ملے ہیں اور بہت سے ایسے مسائل ہیں جو اس حکومت کے بھی اپنے پیدا کردہ ہیں جنھوں نے انھیں الجھا رکھا ہے ۔ حکومت ایک بچے کی طرح سہاروں کی طرف دیکھ رہی ہے... مگر اس معاملے میں حکومت اگر آج سے دس سال آگے بھی نہ دیکھے تو اس وقت جو لوگ زندہ ہوں گے وہ اس شہر کا حال دیکھ کر ہمیں بد دعائیں دے رہے ہوں گے!!!
'' تم اسلام آباد میں رہتی ہو کیا؟ ''بتول کو اپنا گھر کا پتا سمجھا رہی تھی کہ اس نے عجیب سا سوال کیا، '' میں سمجھی کہ تمہارا علاقہ راولپنڈی میں ہے '' فون پر اس کی ہنسی کی باقاعدہ آواز آئی۔
'' یہ تم نے کیونکر سوچا؟ اسلام آباد ہائی وے پر آتا ہے ہمارا علاقہ اور اسلام آباد کے ٹال پلازہ کے بعد کا علاقہ ہے... کل کو تم کہو گی کہ شاید ہمارا علاقہ روات میں آتا ہے... '' میں نے طنز سے کہا تو وہ پھر ہنسی... جانے بات بے بات اس کی ہنسی کیوں نکل رہی تھی، میں نے جلے دل سے سوچا۔
'' اچھا اچھا ناراض نہ ہو... میں کون سا کچھ کہہ رہی ہوں، صرف پوچھا ہے ! '' اسے کچھ کاغذات مجھے کورئیر سے بھجوانا تھے اور پتا پوچھنے کے بعد اس کی تفتیش بے مقصد تھی۔
وہ کیوں ہنسی تھی؟ مجھے اس کا جواب اگلے ہی دن مل گیا جب میں اپنے گھر سے نکل کر، دس پندرہ منٹ کا سفر کر کے ائیر پورٹ چوک کے سگنل پر رکی، اشارہ کھلا، میری گاڑی حرکت میں آئی، اگلی گاڑیوں کی رفتار مدہم تھی اس لیے چوک میں کھمبے پر لگا وہ بورڈ مجھے واضح نظر آیا جو اس سے قبل شاید کبھی یوں نظر میں نہ آیا تھا... '' آپ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہو رہے ہیں، ٹریفک قوانین کی پاسداری کریں!'' ہیں تو میں کہاں سے آ رہی تھی؟ کہنے کو تو ہماری بستی کے ساتھ اسلام آباد کا دم چھلا بھی ہے۔ دنیا بھر میں شہروں کے منسلکہ اور متعلقہ علاقے پچیس تیس کلومیٹر کے مدار میں اسی شہر کا حصہ ہی کہلاتے ہیں، اسی طرح ہمارے علاقے سمیت اس جیسی ہاؤسنگ اسکیموں کے لیے اسلام آباد کا دم چھلا ہی لگایا جاتا ہے اور یہاں پلاٹوں کی قیمتیں بھی اسی طرح ہیں جیسی اسلام آباد کے کسی اور سیکٹر میں ہو سکتی ہیں...واپسی کے سفر میں بھی ذہن میں بتول کی ہنسی ہی گونج رہی تھی... جونہی میں نے ائیر پورٹ والا چوک پار کیا... مجھے اندازہ ہوا کہ جاتے ہوئے اسی جگہ پر کیوں لکھا نظر آیا تھا کہ اسلام آباد کی حدود میں داخل ہو رہے ہیں! عین اسی جگہ سے سڑک بوتل کے منہ کی طرح ہو جاتی ہے، دو طرف کی چا ر چار لین فوراً دو دو لین میں بدل جاتی ہیں۔ سڑک کے اوپر markingکی سفید اور پیلی پٹیاں ختم ہو جاتی ہیں... حد رفتار کے بورڈ اور دیگر ٹریفک قوانین کے بورڈ یہاں سے آگے نظر نہیں آتے۔ ائیر پورٹ چوک سے لے کر اسلام آباد کے داخلی مقام تک کم و بیش بیس ہاؤسنگ کالونیاں ہیں، مستقبل کے سارے شہر کا پھیلاؤ اس طرف دیکھا جا سکتا ہے... مگر اس نقطہء آغاز سے لے کر شہر کے اس حصے کے ساتھ متعلقہ نہیں بلکہ ''مطلقہ '' حصے کے طور پر برتاؤ کیا جاتا ہے۔
شہر کا کوئی بھی ترقیاتی کام ہو... اس کا دائرہ زیرو پوائنٹ سے چند کلومیٹر کے مدار میں کیا جاتا ہے اسی لیے شہر کے مضافات اور اہم شاہراہوں سے ہٹ کر ہر ایک راستہ شہر کے حسن پر دھبے کی مانند ہے۔ تمام سڑکوں کی خستہ حالت، صفائی ناپید، پانی کے نکاس کے ناقص انتظام کے باعث ہرسیکٹر ملک کے کسی بھی پسماندہ شہر جیسا نقشہ پیش کرتا ہے۔
کسی غیر ملکی اہم شخصیت کی آمد کی خبر ہو تو ، شاہراہ فیصل کو جھنڈوں سے سجا لیا جاتا ہے، شاہراہ دستور کو چمکا لیا جاتا ہے اور ائیر پورٹ سے وہاں تک کے راستے کو تازہ چونا کر لیا جاتا ہے... یہ بھی ایک دلچسپ سفر ہوتا ہو گا۔ ائیر پورٹ سے ہر شخصیت کو گاڑی کے ذریعے ہی لے کر جایا جا سکتا ہے، ائیر پورٹ سے جو سڑک اسلام آباد کو جاتی ہے وہ جغرافیائی طور پر راولپنڈی میں ہے۔ راولپنڈی... جسے عموما اسلام آباد کا جڑواں شہر کہا جاتا ہے، بے چارہ کمزور جڑواں... جیسے دو جڑواں بچوں میں ایک کسی وجہ سے طبعی طور پر کمزور رہ جاتا ہے، جانے اس سڑک سے گزرتے ہوئے کہ جس کے دو اطراف بد نما بڑھتی ہوئی آبادیاں ، گھٹیا تعمیر کیے گئے پلازے اور ایسی رہائشی اسکیمیں ہیں جن میں infrastructure نام کی کوئی چیز نہیں ۔ میرا خیال ہے کہ ائیر پورٹ سے ایوانوں تک کے سفرمیں شریک سفر، مہمانان گرامی کو کسی نہ کسی طور مصروف رکھتے ہوں گے کہ ان کا دھیان گاڑی سے باہر نہ جائے۔ پردہ نشین گاڑیاں بھی اس کا ایک اہم حل ہیں۔
چند ماہ قبل اسلام آباد میں، '' لین کی پابندی'' کی تحریک زوروں سے چلی تو اس کا دائرہ کار بھی حسن اتفاق سے شاہراہ فیصل اورشاہراہ دستور... غالباً کسی ایک آدھی اور سڑک پر اگر ہوا ہو گا تو اس سے میرا ٹکراؤ کم از کم نہیں ہوا۔ جونہی آپ ان اہم شاہراہوں سے ہٹتے ہیں، آپ ہر قسم کی قانون شکنی کے اہل ہو جاتے ہیں اور ائیر پورٹ سے آگے تو ... راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ اگر اس سڑک پر کوئی حادثہ ہو جائے، ٹرک خراب ہو کر سڑک کے عین بیچوں بیچ عمودی انداز میں کھڑا ہو جائے یا سی این جی کی سپلائی کا دن ہو تو ... ائیر پورٹ چوک سے ڈیفنس تک کا دس منٹ کا سفر با آسانی ایک گھنٹے یا اس سے زائد پر پھیل جاتا ہے۔
کہنے کو اسلام آبا دنیا کے چند ایک منظم شہروں میں سے ہے مگر بد قسمتی سے ایسا نہیں ہے... اس کی تخلیق و تعمیر کے وقت اس بات کو ہرگز ملحوظ نہیں رکھا گیا تھا کہ یہ شہر بھی پاکستان کا حصہ ہے اور اس میں بھی آخر کار پاکستانی عوام نے ہی بسنا ہے جن کا مقصد ایک ہی ہے کہ کسی اور شعبے میں ترقی کریں یا نہ کریں ، آبادی کو بہر حال بڑھنا ہے۔ اس انسانی بڑھوتڑی کے اہم نقطے کو ملحوظ نہ رکھا گیا اور نہ ہی اس بڑھنے والی آبادی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو ، خواہ وہ رہائشی ہو، طبی، تعلیمی، کاروباری، سفری یا خوراک کی۔ پھر ہوا یہ کہ اس شہر کے نواح میں بھی ہر طرف سے سرکاری اور نجی رہائشی کالونیوں کی افزائش ہونے لگی... ان میں سے زیادہ تر غیر قانونی قرار دے دی گئیں کہ وہ پانی کے اہم منبع سے انتہائی قریب تھیں اور ان کی وجہ سے پانی کی آلودگی کا خطرہ تھا۔
یہ غیر قانونی رہائشی علاقے دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں، چونکہ کاغذات میں یہ غیر قانونی ہیں اس لیے یہاں کئی لوگوں کے پاس گیس اور بجلی کے کنکشن نہیں ہیں... اب آپ خود ہی اندازہ کر لیں کہ ان اسکیموں میں جن لوگوں کے پاس ان اہم ضروریات کے لیے کنکشن نہیں ہیں وہ یا تو ان کے بغیر گذارا کر رہے ہیں یا انھوں نے کنڈے لگا رکھے ہیں جن کا بل ہم اور آپ ادا کرتے ہیں۔
ایک ہی رہائشی اسکیم کو غیر قانونی قراردے کر اس میں سے ملک کے ایک اہم سائنسدان تک کا گھر مسمار کر دیا جاتا ہے مگر اسی میں ہزاروں گھر بنے ہوئے ہیں، ان میں لوگ سال ہا سال سے اس کی '' غیر قانونیت'' کے با وصف کیسے رہ رہے ہیں؟ یہاں تک کہ حال کی ایک اہم شخصیت نے وہاں پہاڑی کی چوٹی پر اپنا ''ٹھکانہ'' بنا رکھا ہے۔ تعمیراتی اداروں نے تو اپنی جڑیں اسلام آباد کے ہر چہار اطراف میں پھیلا رکھی ہیں... by hooks or by crooks حاصل کی گئی اراضی کو جانے کس قانون کے تحت ہاؤسنگ کالونیوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے؟ اس پر ہر کس و نا کس کی دو رائے ہیں ۔ کوئی بولتا ہے نہ کوئی کاروائی کرنے کا مجاز ہے کیونکہ ہر کوئی ان کے ساتھ کوئلوں کی دلالی میں شریک ہے... پرانے زمانے میں ڈاکو لوگوں سے رقم لوٹ کر غریبوں کی مدد کیا کرتے تھے... عصر حاضر کا شاید یہ انداز ہے!
اگر چہ بہت سے مسائل ہیں جو موجودہ حکومت کو وراثت میں ملے ہیں اور بہت سے ایسے مسائل ہیں جو اس حکومت کے بھی اپنے پیدا کردہ ہیں جنھوں نے انھیں الجھا رکھا ہے ۔ حکومت ایک بچے کی طرح سہاروں کی طرف دیکھ رہی ہے... مگر اس معاملے میں حکومت اگر آج سے دس سال آگے بھی نہ دیکھے تو اس وقت جو لوگ زندہ ہوں گے وہ اس شہر کا حال دیکھ کر ہمیں بد دعائیں دے رہے ہوں گے!!!