عالمی تبدیلیوں کے اعتبار سے 70ء کی دہائی انتہائی ہنگامہ خیز تھی
اگر اسٹالین کی موت کے بعد کمیونسٹ دنیا کی قیادت چیئرمین مائو کے ہاتھ آتی تو سردجنگ کی صورتحال بہت مختلف ہوتی
( قسط نمبر18)
1970 کو اقوام متحدہ کے قیام کے 25 سال مکمل ہو گئے یہ اقوام متحدہ کے لیے بہرحال کریڈیٹ کی بات تھی کہ نہ صرف ان پچیس برسوں میں اقوام متحدہ نے دنیا کو کسی تیسری عالمی جنگ سے محفوظ رکھا بلکہ کم ازکم دو مرتبہ سوویت یونین (روس) اور امریکہ کے درمیان تنازعات کو نہایت تشویشناک سطح پر کنٹرول کرکے اِن دونوں بڑی عالمی قو توں کے درمیان معاملات کو ٹھنڈا کیا اور 1970 تک سوویت یونین اور امریکہ خطرناک ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکنے اور اپنے ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کرنے پر مذاکرات کر نے پر آمادہ ہوگئے مگر ساتھ ہی ستر کی دہائی میں سرد جنگ کے اور کئی محاذوں پر سوویت یونین اور امریکہ بر طانیہ فرانس جیسی قوتوں کے درمیان تنائو اور کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
مصر کے صدر جمال ناصر کو 1967 کی عرب اسرئیل جنگ میں شکست کا بے حد صدمہ تھا انہوں نے اس شکست کے بعد استعفیٰ دیاتھا مگر عوام کے احتجاج اور شدید دبائو پر استعفیٰ واپس لیا پھر صدر ناصر نے سوویت یونین کی قیادت سے دو ٹوک بات کی اور اسی دبائو کی وجہ سے وہ سوویت یونین سے 600 کلو میٹر دور مارکرنے والے سام میزائل لینے میں کا میاب ہو گئے تھے۔ اُن کی وفات کے تین برس بعد 1973 میں چوتھی عرب اسرائیل جنگ ہوئی جس میں اگرچہ مصر اور شام نے واضح فتح حاصل نہیں کی مگر خصوصاً مصر اچھی پوزیشن میں آگیا تھا۔
جنگ سے ایک سال قبل اسرائیل کے خلاف فلسطینی حریت پسندوں کی تنظیم بلیک ستمبر نے 'جس کے عیسائی سر براہ جارچ ہباش تھے' 1972 میں مغربی جرمنی کے شہر مینونخ میں ہو نے والے اولمپلکس میں 11 اسرائیلی کھلاڑیوں کو یرغمال بنا یا اور بعد میں قتل کردیا تھا اور جنگ کے بعد بھی اس تنظیم کی جانب سے دھمکیاں جاری تھیں۔ پھر 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد تیل پیدا کرنے والے ملکوں نے تیل کو بطور ہتھیار بھی استعمال کیا اور امریکہ پر دبائوڈالا اور پھر1974 میں اسلامی ملکوں کے سربراہان کا یاد گار اور کامیاب اجلاس لاہور میں منقعد ہوا۔
اسلامی دنیا کے اتحاد اور باہمی تعاون کے ساتھ تیل کی قیمتوں میں اضافے سے بڑھنے والی آمدنی سے عرب ملکوں میں تعمیر وترقی کے منصوبے بھی شروع کئے گئے۔ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر نے کی وجہ سے دنیا میں 1930-32 کی عالمی کساد بازاری کے بعد شدید نوعیت کا اقتصادی بحران نمودار ہوا جس کا زیادہ منفی اثر امریکہ، فرانس اور بر طانیہ پر پڑا۔ مغربی جرمنی اور جاپان کی معیشتوں نے ترقی کی ،تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی آمدنیوں میں تیل کی قیمتوں کے بڑھنے سے فوری بہت اضافہ ہوا۔ یہ وہ حالات تھے جو ستر کی دہا ئی کے آغاز پر سامنے آئے جس سے واضح ہو گیا کہ سرد جنگ کے اِن مراحل میں سابق سوویت یونین کو امریکہ کے مقا بلے میں سبقت حاصل ہو رہی تھی۔
1971 میں بنگلہ دیش کے قیام اور بھارت کی جارحیت پر امریکہ خاموش تماشائی بنا رہا لیکن چین جو تھوڑے دن قبل ہی سیکورٹی کونسل کا ویٹو پاور رُکن بنا تھا اُس نے 1974 تک پا کستان کی خاطر دنیا میں ایک بڑی آبادی کے اور اپنے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیااور اس دوران پا کستان نے شملہ معاہدے سمیت پاک بھارت مذاکرات کے دوران عالمی سطح پر بھارت پر دبائو میں اضافہ کیا اور شملہ معاہدے میں کافی بہتر پوزیشن میں آ گیا۔
اس صورتحال سے مشرق وسطٰی ایران سمیت بہت سے ایسے ممالک جو امریکہ کے دوست تھے اور کافی حد تک سرد جنگ میں اُس کے اتحادی تھے محتاط ہو گئے۔ دوسری جانب سوویت یونین جس کا کردار 1973 کی عرب اسرئیل جنگ میں 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے مقابلے میں بہتر تھا مگر اب سوویت یو نین اشتراکی نظرایات کی وجہ سے کنفوژن کا شکار تھا۔ مصر کے صدر جمال ناصر مرحوم نے شروع کے دور میں مقامی اور عالمی سطح پر خود کو اعتدال پسند اور عرب قوم پرست ثابت کر نے کی بھر پور کوشش کی وہ پنڈت جو اہر لال نہر و کے ساتھ غیر جانبدارانہ ممالک کی تنظیم کے بہت متحرک اور پُر جوش حامی تھے مگر جب انہیں نہر سوئز بحران کے بعد اسلحہ کی ضرورت پر امریکہ نے اپنے گروپ میں شامل کرنے کے لیے دبائو ڈالا تو وہ پھر رفتہ رفتہ اپنی غیر جانبدارانہ پوزیشن کو ترک کر گئے اور سوویت یو نین کے قریب چلے گئے تھے۔
1973 کی جنگ کے بعد ایک جانب جارج ہباش کی بلیک ستمبر جیسی انتہا پسند فلسطینی تنظیم فلسطینیوں کو عرب قوم پرستی کی بنیاد پر عیسائی ، مسلمان تفریق سے بالا رکھتے ہو ئے گوریلا جنگ کے ذریعے یہودیوں سے آزادی دلوانا چاہتی تھی تو دوسری جانب لیبیا میں نو جوان صدر کر نل قدافی جو جمال ناصر مرحوم کو اپنا آئیڈیل بنا کرلیبیا میںانقلاب لائے تھے اورلیبیا سے باد شاہت کا خاتمہ کر دیا تھا وہ بھی یہ چاہتے تھے کہ مصر ،شام اور اردن یا عرب خطے کا کو ئی ملک اسرائیل سے کوئی امن مذاکرات نہ کرئے مگر ساتھ ہی سوویت یونین کو یہ کنفوژن تھا کہ یہ تمام عرب ملک مسلم اکثریت کے ممالک ہیں اس لیے یہاں کمیو نزم دیگر غیر مسلم ملکوں کی طرح نہیں آئے گا۔ پھر سوویت یونین بھی اقوام متحدہ کے اُن بنیاد ی رکن ملکوں میں سے اور پانچ ویٹو پاورز میں شامل تھا۔
جنہوں نے اسرائیل کے قیام میں بھر پو ر کردار ادا کیا تھا اورجولائی1948 میں اِن کی حمایت اور منظوری سے اسرائیل وجود میں آیا تھا۔ پھر1949 میں اَن ہی ملکوں کی بھر پور حمایت سے اسرائیل اقوام متحدہ کا رکن بنا تھا اور اس کے بعد سے سوویت یونین ہر سال اپنے ملک سے پانچ ہزار یہودیوں کو اسرائیل جاکر مستقل آباد ہو نے کی اجازت دیتا تھا۔ سوویت یونین کی حمایت سے صدر حافظ الاسد فوجی انقلاب سے برسر اقتدار آگئے تھے اور 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں اُن کا کردار بھی اہم تھا کیونکہ اُس وقت صدر ناصر وفات پا گئے تھے اور اُن کے بعد انور السادات مصر کے صدر بنے تھے جو صدر ناصر کی طرح مقبول نہیں تھے۔ اِس خلا کو عرب قوم پرستی کے نعرے کے ساتھ مقبولیت کی بنیاد پر صدر قدافی ، حافظ الاسد اور بعد کے دنوں میں صدر صدام نے پورا کرنے کی کوشش کی مگر ان لیڈروں کے پاس وہ سیاسی بصیرت نہیں تھی جو اللہ تعالیٰ نے جمال عبدالناصر کر عطا کی تھی۔
جب 1974 میں او آئی سی کے تحت اسلامی سر براہ کانفرنس لاہور میں منعقد ہو ئی تو اس میں شک نہیں کہ اس کے بہت اثرات پوری دنیا پر مر تب ہو ئے۔ یہ اسلامی کانفر نس 1923 میں ترک عثمانیہ خلا فت کے بعد تقریباً 51 سال بعد دنیا کے اکثر اسلامی ملکوں کے درمیان اتحاد اور تعاون کے ساتھ اُن طاقتوں کے خلاف تھی جو اسلامی ملکوں کے خلاف تھیں۔ عالمی سطح پر خارجی اموار پر بہت باریک بینی کے ساتھ نظر رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو اس کے میزبان تھے اس کانفرنس کا کمال یہ تھا کہ اس میں عرب کیمونسٹ اور نیشنلسٹ مزاج رکھنے والے ممالک کے سر بر اہان بھی شریک ہوئے تھے اور عرب دنیا کے بادشاہ اور شیوخ بھی شریک تھے۔
اگر چہ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کی بنیاد پر اس اسلامی سربراہ کانفرنس میں تیل کو اقتصادی اور تجارتی طور پر باہمی اتفاق سے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے معاشی اور اقتصادی طور پر امریکہ ،فرانس،بر طانیہ اوراِن کے قریبی اورحلیف ملکوں کو نقصان ہوا تھا مگر سوویت یونین اور وارسا پیکٹ کے ممالک نظریاتی اور سیاسی طور پر بہت فکر مند تھے۔ یہ تو درست تھا کہ مشرقِ وسطٰی میں اس کانفرنس کی وجہ سے یہ امید پیدا ہو ئی تھی کہ اب وہ عرب ممالک اور ریا ستیں جہاں بادشاہاتیں ہیں انہیں اسلامی اتحاد کی بنیاد پر مستقبل میں باہمی تعاون کے کسی نہ کسی سمجھوتے کی بنیاد پر عرب سوشلسٹ اور نیشنلسٹ ملکوں سے تحفظ کی ضمانت مل جا ئے گی اور پوری اسلامی دنیا میںاسلامی عقائد کی بنیاد پر باہمی اتحاد کی خاطر ایک دوسرے اسلامی آبادی کے ہر ملک پر اقتدار کا احترام کیا جائے گا۔
اس طرح سوویت یونین کا سیاسی کردار مستقبل میں اشتراکی نظرایاتی بنیادوں پر محدود ہو جاتا تھا یعنی تعاون اور اتحاد کی پہلی شرط ہر عرب ملک میں مذہب اسلام ٹھہرتی تھی اور اس کے بعد اگر کو ئی ملک اشتراکیت کو اپنا تا تھا تو وہ اس نظریے کو قدرے ترمیم کے صرف اور صرف اقتصادی ، معاشی اور تجارتی تقاضوں اور ضرورتوں کی وجہ سے اپناتا، جیسے اقوام متحدہ کے قیام سے قبل سے دنیا میں سرمایہ دارانہ معیشت کے حامل سودی نظام سے دنیا کے تقریباً تمام اسلامی ممالک مجبوراً سہی سمجھو تہ کئے ہو ئے ہیں۔ یہ صور ت سوویت یونین کے اشتراکی نظام سے عالمی سیاسی طور پر متصادم تھی لیکن وقت کے تقاضے کے تحت سرد جنگ کے اس دور میں سوویت یو نین کی اعلیٰ قیادت نے مصلحت آمیز خاموشی اختیار کئے رکھی، لیکن وہ اس صورتحال کو بدلنا چاہتے تھے۔
اس موقع پر امریکہ برطانیہ اور فرانس سمیت مغربی اتحادی ممالک نے اور خصوصاً امریکہ کے تھنک ٹینک نے مستقبل قریب کو مد نظر رکھتے ہو ئے عالمی اسلامی اتحاد کو تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی تجارتی پالیسیوں کے مقابلے کو بھی مد نظر رکھا اور سوویت یونین کے سیاسی نظریاتی خو ف کا پوری طرح تجزیہ کرتے ہو ئے سرد جنگ کے تناظر میں بہت دور رس نتائج کی حامل حکمتِ عملی اختیار کی۔ جہاں تک تعلق تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر نے کے تو ڑ کا تھا تو امریکہ نے اس کے تین آپشن رکھے تھے۔
نمبر1 دنیا میں تیز رفتاری سے تیل کے نئے ذخائر تلاش کئے جائیں اور اِن پر تجارتی اقتصادی طور پر ملکیت رکھتے ہو ئے عا لمی مارکیٹ میں تیل کی رسد زیادہ کر کے اس کی قیمت کو نیچے لا یا جائے۔
نمبر 2 ، معدنی تیل کا متبادل ایندھن تلا ش کیا جائے اور دنیا بھر کی انڈسٹری میں معد نی ایندھن کے استعمال کو ختم کر دیا جائے کہ اس کی وجہ سے دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
نمبر3 ، تیل پیدا کرنے والے اہم اور خصوصاً عرب ممالک کے وہ سر بر اہان جنہوں 1973عرب اسرائیل جنگ کے بعد تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے میںاہم کردار ادا کیا ہے اِن کو اقتدار سے ہٹا دیا جائے اور یہاں تیل کی پیداوار پر کنٹرول حاصل کیا جا ئے اور ایسے حقیقی اسلامی اتحاد کو توڑ دیا جا ئے جس کی وجہ سے امریکہ ،بر طانیہ ، فرانس سمیت مغربی سر مایہ دار ممالک کی معیشتوں کو نقصا ن پہنچتا ہے۔
یوں ستر کی دہائی میں سرد جنگ کے حوالے سے اقتصادی ، تجارتی اور سیاسی اعتبار سے عالمی سطح پر کشا کش کی مثلث بنی جس میں سوویت یونین اشتراکی نظام معیشت اور مذہب کی مخالفت کی بنیاد پر ایک جانب تھ۔ 1974 کی اسلامی سربراہ کانفرنس کا جوش و ولولہ ایک آدھ سال رہا جب کہ عملی صورت میں ماسوائے ایک دو ملکوں کے کو ئی اقدامات نہیں کئے گئے، البتہ تیل کی قیمتوں کے بڑھنے کی وجہ سے1973 سے 1979 تک امریکہ،بر طانیہ اور فرانس کو قدرے معاشی بحران کا سامنا رہا۔
جہاں تک اسلامی سربراہان میں سے جو اسلامی اتحاد کے لیے زیادہ متحرک تھے اُن ملکوں میں درپردہ سیاسی تبدیلی کے لیے سازشیں شروع ہو گئیں اور کہیں امریکہ سرگرم عمل رہا اور کہیں سوویت یونین نے خفیہ کا روائیاں کیں۔ مثلث کے تیسرے زاویے کے لحاظ سے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے لیے یہ صورتحال دو طرفہ کھیل کی سی تھی۔ امریکی تھینک ٹینک یہ جان گیا کہ اسلامی اتحاد کا تصور اور اسلامی سر براہ کانفرنس کا ایک مظاہرہ سوویت یونین کے لیے بہت تشویشناک تھا۔ سوویت یونین کے ساتھ نہ صرف مشرقی اور مرکزی یورپی ریاستوں میں مسلمانوں کی خاصی تعداد تھی بلکہ سنٹرل ایشیا کی ریاستیں تو مسلم اکثریت کی ایسی ریاستیں تھیں جن پر روس زارشاہی کے زمانے سے قبضہ تھا اور بعد میں اسٹالن نے یہاں پر بے انتہا ظلم وتشدد کر کے جبراً کیمونزم نافذ کیا تھا۔
یہاں سے ان ریاستوں کی سر حد یں ایران ،افغانستان اور پا کستا ن سے ملتیں ہیں یوں ستر کی دہا ئی میں سرد جنگ کے دوسرے محاذ بھی کھلتے رہے جیسے 17 جولائی 1973 میں جب افغانستان کے باد شاہ محمد ظاہر شاہ بیرونی دورے پر تھے تو سردار دائودخان نے فوج کے تعاون اور سوویت یونین کی حمایت سے ظاہر شاہ کا تحتہ الٹ دیا، اُن کے خاندان کے کئی افراد کو قتل کر دیا اور افغانستان کو جمہوریہ بنا کر خود صدر ہوگئے۔
21 ستمبر کو فلپائن میں صدر فیر ڈینینڈ مارکوس نے مارشل لا نافذ کر دیا،1973 میں چلی میں حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا،1974 میں ایتھو پیا میں قدیم ترین سلنطت کے باد شاہ ہیل سلاسی کا تختہ جنرل ایمن انڈوم اور مینگٹو ہیٹی نے الٹ کر بادشاہت کا خاتمہ کر دیا۔ اسی سال پرتگال میں بھی بغاوت ہوئی،1974 ہی میں بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کر دیا یہ جنوبی ایشیا میں ایک اہم واقعہ تھا کیونکہ یہ پاک بھارت جنگ 1971 کے صرف تین سال بعد ہوا تھا جس پر پا کستان اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی فورمز پر پاکستان نے دفاع کے اعتبار سے تحفظات سے آگاہ کیا اور پھر اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کیا کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن اپنے دفاع کے لیے ضرور ایٹم بم بنائیں گے۔
پا کستان نے اپنے ایٹمی پروگرام پر تیز رفتاری سے کام شروع کر دی۔ 26مارچ 1975 کو سعودی عرب کے بادشاہ ، شاہ فیصل کو قتل کر دیا گیا اس واقع کے تقریباً ساڑھے چار ماہ بعد 15 اگست 1975کو بھارت کے28 ویں یوم آزادی کے دن بھارت کے ہمسایہ اور دوست ملک کے بانی لیڈر شیخ مجیب الرحمن کو اُن کے خاندان کے کئی افراد کے ساتھ فوجیوں کے ایک گروپ نے قتل کردیا۔ پھر بھارت میں سیاسی بحران نمودار ہوا اور حکومت نے 1975 سے1977 تک ایمر جنسی نافذ کردی۔ 1976 میں جارج رافیل نے فوج کی مدد سے ارجنٹائن میں حکو مت کا تحتہ الٹ دیا،1977 میں جنرل ضیا الحق نے پا کستان میں مارشل لا نافذ کر کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کر دیا، اُن کو کچھ عرصہ بعد قتل کے مقدمے میں قید کر دیا اور1979 میں اُنہیں سزائے موت د ے دی گئی۔
جنوری 1978 سے ایران میں شہنشا ہ محمد رضا شاہ پہلوی کے خلاف امام روح اللہ آیت اللہ خمینی کی انقلابی تحریک دیکھتے ہی دیکھتے بھر پو ر عوامی انقلاب میں بدل گئی۔ فروری 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب آگیا اگرچہ پاکستان میں جنرل ضیا الحق نے بھی بظاہر اسلامی نظام حکومت کا نعرہ لگا یا تھا لیکن امام خمینی کا انقلاب عوامی حمایت کی بنیاد پر سوویت یو نین کے 1917 کے انقلاب اور چین کے 1949 کے انقلاب کی طرح بھر پور اور پُر جوش عوامی حمایت کے ساتھ برپا ہوا تھا۔ ایران میں شاہ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ 1976-77 میں شروع ہوا تھا لیکن امریکہ نے ایرانی عوام کے انقلابی مزاج کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ جبکہ سوویت یونین خطے میں اس بدلتی ہو ئی صورتحال سے بہت خوفزدہ ہو گیا اور اس کا اثر یہ ہوا کہ 28 اپریل 1978 کو افغانستان میں صدر سردار دائو خان کی حکومت کا تختہ نور محمد تراکئی اور کرنل قدیر خان نے الٹ دیا اور اِن کو اِن کے خاندان کے افراد کے ساتھ قتل کر دیا اور افغانستان میں پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کی انقلابی حکومت قائم کر کے ملک کو ڈیموکریٹک ( کیمونسٹ)ری پبلک آف افغانستان کا نام دے دیا گیا۔
اس تبدیلی کو سوویت یونین کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس پوری صورتحال پر نظر ڈالیں تو اقوام متحدہ کے 25 سال 1970 میں پورے ہو ئے۔ برطانیہ اور فرانس جو سیکورٹی کونسل کے مستقل ممبر بھی ہیں اقوام متحدہ کے پہلے25 برسوں میں اہم رہے کہ یہ امریکہ کے ساتھ مغربی اتحاد میں تھے اور اِن کی نو آبادیات بھی اہم تھیں جن کے بارے میں اقوام متحدہ کے چارٹر اور ہیومن رائٹس ڈیکلریشن کی بنیاد پر مستقبل میں فیصلے ہو نے تھے اور سرد جنگ میں بھی یہ امریکہ کے قریبی حلیف تھے۔
پھر جہاں تک بر طانیہ کا تعلق تھا توجنگ عظیم دوئم تک دنیا میں سب سے زیادہ نو آبادیات بر طانیہ ہی کی تھیں جنکو بہرحال سرد جنگ کے تناظر میں اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر ہی آزادی دینی تھی اور یہی صورت فرانسسی نو آبادیا ت کی تھی۔ چین اگر چہ 1970 تک اقوام متحدہ کا رکن نہیںتھا مگر ماوزے تنگ کی اہمیت سب پر واضح تھی۔ اقوام متحدہ کے پچیس سال کی تکمیل پر شروع ہونے والی ستر کی دہائی دنیا کی سیا سی بساط پر چالوں کے حوالے سے اہم دہائی تھی اور اس مر حلے پر زیادہ نمایاںامریکہ اور سوویت یونین تھے۔
اگرچہ 1949 میں چین کے انقلا ب اور آزادی کے بعد چین نے ماوزے تنگ کی قیادت میں اشتراکی نظریات کے لیے سوویت یونین کے ہمراہ کوریا اور ویت نام جنگوں میں بہت بڑی قربانیاں دیں، مگر 1970 ہی میں چین نے امریکہ سے مذاکرات کے بعد اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں مستقل نشست حاصل کرنے کے بعد سوویت یونین کی جانب سے ہا تھ کھینچ لیا تھا۔ اس کے بعد چین نے پوری توجہ اپنی تعمیر وترقی پر مرکوز رکھی اور سر د جنگ کے عالمی نوعیت کے معاملات سے عمو ماً خود کو دور رکھا۔ دوسری جانب ستر کی دہائی میں سوویت یونین کے برز نیف1964 سے1984 تک اقتدار میں رہے۔
1967 کی عرب اسرئیل جنگ میں عربوں کو بدترین شکست ہو ئی۔اس جنگ میں امریکہ کی جانب سے اسرا ئیل کی بھر پور مدد عربوں کے سامنے تھی جبکہ اس کے مقابلے میں روس کی طرف سے عربوں کو مایوسی ہو ئی اور عرب نیشنل ازم کو دھچکا لگا، مگر صدر ناصر 1967 کی جنگ کے بعد سوویت یونین کے سامنے فیصلہ کن انداز میں کھڑے ہو ئے تھے اور پھر انہوں نے سوویت یو نین سے سام میزائل حاصل کئے جن کی وجہ سے1973 کی عر ب اسرائیل جنگ میں مصر بہتر پوزیشن میں آگیا تھا مگر 1974 کی اسلامک سربراہ کانفرنس کے بعد سوویت یونین نے ہچکچاہٹ کا رویہ رکھا تھا اور انور لسادات کو امریکہ کے حامیوں نے یہ احسا س دلایا کہ اسرائیل سے مذاکرات ہی مصر کے حق میں بہتر ہیں۔
اس طرح مصر سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان توازن قائم رکھتے ہو ئے پُر امن ماحول میں ترقی کر سکتا ہے یوں مصر کے صدر انور السادات نے اس جانب توجہ دی۔ انور السادات نے اسرائیل مصر تعلقات کی بنیاد پر 1974 سے مذاکرات کے مراحل شروع کئے یہ اُس وقت کے تناظر میں عجیب سی صورتحال تھی۔ ایک جانب اسلامی ممالک کے عوام 1973 کی جنگ کے بعد جذباتی طور پر اپنی فتح کی خوشی محسوس کر رہے تھے تو دوسری طرف عرب نیشنل ازم جس کے تحت اسرائیل کے خلاف عرب عیسائی بھی یہودیوں کے خلاف تھے وہ تذبذب کا شکار تھے اور بلیک ستمبر کے جارج ہباش تو اس صورتحال کی مخالفت کر رہے تھے اور سوویت یونین کے برزنیف کو بھی یہ قبول نہیں تھا۔
مصر کے صدر خود فیصلہ کر چکے تھے ،لیبیا کے صدر کرنل قدافی جو بہر حال عرب اسرائیل جنگ میں ہر طرح کی مدد دیتے رہے تھے وہ اس صورتحال کو بدلنے کے لیے کو ششیں کر رہے تھے۔ یوں دیکھا جائے تو ستر کی دہائی سیاسی طور پر بہت ہی الجھی ہوئی د ہائی تھی، شام ،لیبیا اور عراق بھی اپنے طور پر مصر کے انوارالسادات کی پالیسی کے خلاف تھے۔ سوویت یونین اپنے اشتراکی نظریات کی وجہ سے کسی بھی اسلامی تحریک کو سپورٹ نہیں کر نا چاہتا تھا اور امریکہ ایک چین سے کا میاب مذاکرات کر چکا تھا۔
برصغیر میں بھارت اور بنگلہ دیش میں حالات سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گئے تھ۔1978 میں مصر نے امن معاہدے کیمپ ڈیوڈ پر دستخط کر دئیے اور یہ واقعہ سیاسی لحاظ سے اور سرد جنگ کے اعتبار سے اتنا اہم تھا کہ اس واقعہ کے صرف ڈھائی برس بعد صدر انوار السادات جب مصر کے قومی دن کے موقع پر فوجی پریڈ سے سلامی لے رہے تھے فوجی دستوں نے ہی فائرنگ کر کے اُنہیں قتل کر دیا۔ یوں ستر کی دہائی میں اگر چہ ایران میں امریکہ کو اُس وقت نقصان پہنچا جب شہنہشاہ کا تختہ الٹ دیا گیا اور یہاں امام خمینی کا اسلامی انقلاب آگیا لیکن یہ صورتحال سوویت یونین کے حق میں بھی بہتر نہیں تھی۔
سوویت یونین میں اشتراکی نظام کو پہلی جنگ عظیم میں 1917 میں انقلاب کے ساتھ مہلت ملی تھی کہ اُس وقت دنیا پہلی عالمی جنگ میں پھنسی ہو ئی تھی اس کے بعد اس جنگ ہی کے منفی اثرات تھے جن کے سبب 1930-32 کی عظیم عالمی کساد بازاری کی وجہ سے دنیا بھر میں غربت اور بھوک و افلاس میں اچانک بہت اضافہ ہو گیا اور یہ صورتحال اور ماحول اشتراکی نظام کے لیے بہت ساز گار ہو گیا۔ اسی کسادبازاری میں جرمنی کے ہٹلر کو نازی ازم کی بنیاد پر طاقت ملی اور اس کے نتیجے میں 1939 سے1945 تک دوسری عالمی جنگ رہی اور پھر دوسر ی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سوویت یو نین نے ،اقوام متحدہ کے پہلے پچیس بر سوں میں جو سرد جنگ کے لحاظ سے بھی اہم تھے اسٹالن اور خروشیف کی پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ اور نٹیو کا بہتر انداز سے مقابلہ کیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ برزنیف جو 1964 سے 1984 تک اقتدار میں رہے اِ ن کے دور ِحکومت میں اُن کی پالیسیوں کے لحاظ سے سوویت یونین سمیت وراسا پیکٹ کے ملک کنفیوژن کا شکار رہے ان مراحل پر اُنہیں ساٹھ کی دہائی کے آخر تک چین کی جانب سے تعاون حاصل رہا اور باوجود اس کہ جوزف اسٹالن کے بعد خروشیف اور برزنیف دونوں ہی اپنے سیاسی فکری قدکے لحاظ سے ماوزے تنگ کے مقابلے میں بہت چھوٹے تھے۔
اِن دونوں سویت لیڈروں نے چین اور اس کے بانی لیڈر ماوزے تنگ کو وہ مقام نہیں دیا جو تاریخ نے اُن کو بخشا تھا۔ اگر اسٹالن کی وفات کے بعد دنیا میں کمیونزم کی قیادت وارسا پیکٹ کے ملکوں سمیت چین کے ماوزے تنگ کے پا س آتی تو صورتحال سرد جنگ کے لحاظ سے بہت مختلف ہوتی اور اس مرحلے پر دنیا کے کیمو نسٹ ملکوں میں ایک جمہوری احساس بھی بیدار ہو تا مگر جس طرح سوویت یو نین نے اس پر اجارہ داری قائم رکھی اس کا نقصان سوائے چین کے دنیا کے تمام کیمونسٹ ملکوں کو ہوا۔
جہاں تک تعلق مشرق وسطٰی کا تھا تو عرب دنیا میں اسلامی خلافت کے نام پرترکی کی خلافت عثمانیہ رہی جو بہرحال مزاج کے اعتبار سے باد شاہت تھی اور کسی طرح بھی اسلامی نظام حکومت کی بنیاد پر سماجی معاشرتی عدل و انصاف فراہم نہیں کرتی تھی بلکہ اپنے آخری دور میں تو ترکی کو مرد بیمار کہا جا تا تھا۔ مگر جب اس کی جنگ جرمنی کے اتحاد کے ساتھ بر طانیہ ، فرانس، روس، امریکہ اور دیگر یورپی قوتوں سے ہو ئی تو برصغیر سمیت دنیا کے مسلم عوام جذباتی طور پر خلافت عثمانیہ کے ساتھ تھے مگر بہت کم مسلم رہنما اس کی حمایت میں تھے۔
جب عر ب رہنما تو اپنی اپنی بادشاہتوں کے لا لچ میں خلافت عثمانیہ کے خلاف بر طانیہ کی حمایت میں بر طانوی ایجنٹ لارڈ لا رنس المعروف لارنس آف عریبہ کے منصوبوں کے مطابق کئی من سونے کے عوض ترکی کے خلاف لڑے اور اُس کی شکست میں اہم کر دار ادا کیا تھا۔ اِن عرب رہنمائوں نے اُس وقت ترکی کے خلاف عرب نیشنل ازم قوم پرستی کی بنیاد پر عربوں کو ترکوں سے افضل قرار دیا تھا اور یہ کہا تھا کہ حکمرنی کا حق عربوں کو ہے جن میں بہت سے انبیا کے سمیت نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ عرب ہیں۔
یوں 1918 میں ترکی اور جرمنی کوشکست ہو گئی اور پھر اِن عرب رہنمائوں میں مصر ، سوڈان ، شام ، عراق لیبیا اور دیگر ملکوں کی بادشاہتیں ملیں۔ 1939 سے 1945 تک دوسری جنگ عظیم رہی جن میں بیشتر عرب رہنمائوں اور باد شاہوں نے برطانیہ ، امریکہ کا ساتھ دیا لیکن اس کے بعد 1948 میں اسرائیل کے قیام سے عرب سمیت پوری اسلامی دنیا میں غم غصہ سامنے آیا تو ایک دوسری طرح کا عرب نیشنل ازم مصر میں شاہ فاورق کا تحتہ الٹ کر انقلاب بر پا کر نے کے بعد کرنل جمال ناصر نے معتارف کرایا جو مقبول بھی ہوا۔ اس نیشنل ازم میں اشتراکیت کا تڑکا تھا جو بہرحال عرب سماج میں پور ی طرح ہضم نہیں ہو پایا اس کا اندازہ سوویت یو نین کو بھی تھا اور خرو شیف اور برزینف اچھی طرح جانتے تھے کہ مصر ،شام، عراق، لیبا ، سوڈان کبھی بھی رومانیہ، چیکوسلاوکیہ، ہنگری یا پولینڈ نہیں ہو سکتے اوریہی کنفو ژن تھی جس کی وجہ سے سوویت یونین ستر کی دہائی کے وسط سے سیاسی بوکھلاہٹ کا شکار ہو ا اور آخر بکھر کر رہ گیا۔
(جاری ہے)
1970 کو اقوام متحدہ کے قیام کے 25 سال مکمل ہو گئے یہ اقوام متحدہ کے لیے بہرحال کریڈیٹ کی بات تھی کہ نہ صرف ان پچیس برسوں میں اقوام متحدہ نے دنیا کو کسی تیسری عالمی جنگ سے محفوظ رکھا بلکہ کم ازکم دو مرتبہ سوویت یونین (روس) اور امریکہ کے درمیان تنازعات کو نہایت تشویشناک سطح پر کنٹرول کرکے اِن دونوں بڑی عالمی قو توں کے درمیان معاملات کو ٹھنڈا کیا اور 1970 تک سوویت یونین اور امریکہ خطرناک ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکنے اور اپنے ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کرنے پر مذاکرات کر نے پر آمادہ ہوگئے مگر ساتھ ہی ستر کی دہائی میں سرد جنگ کے اور کئی محاذوں پر سوویت یونین اور امریکہ بر طانیہ فرانس جیسی قوتوں کے درمیان تنائو اور کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
مصر کے صدر جمال ناصر کو 1967 کی عرب اسرئیل جنگ میں شکست کا بے حد صدمہ تھا انہوں نے اس شکست کے بعد استعفیٰ دیاتھا مگر عوام کے احتجاج اور شدید دبائو پر استعفیٰ واپس لیا پھر صدر ناصر نے سوویت یونین کی قیادت سے دو ٹوک بات کی اور اسی دبائو کی وجہ سے وہ سوویت یونین سے 600 کلو میٹر دور مارکرنے والے سام میزائل لینے میں کا میاب ہو گئے تھے۔ اُن کی وفات کے تین برس بعد 1973 میں چوتھی عرب اسرائیل جنگ ہوئی جس میں اگرچہ مصر اور شام نے واضح فتح حاصل نہیں کی مگر خصوصاً مصر اچھی پوزیشن میں آگیا تھا۔
جنگ سے ایک سال قبل اسرائیل کے خلاف فلسطینی حریت پسندوں کی تنظیم بلیک ستمبر نے 'جس کے عیسائی سر براہ جارچ ہباش تھے' 1972 میں مغربی جرمنی کے شہر مینونخ میں ہو نے والے اولمپلکس میں 11 اسرائیلی کھلاڑیوں کو یرغمال بنا یا اور بعد میں قتل کردیا تھا اور جنگ کے بعد بھی اس تنظیم کی جانب سے دھمکیاں جاری تھیں۔ پھر 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد تیل پیدا کرنے والے ملکوں نے تیل کو بطور ہتھیار بھی استعمال کیا اور امریکہ پر دبائوڈالا اور پھر1974 میں اسلامی ملکوں کے سربراہان کا یاد گار اور کامیاب اجلاس لاہور میں منقعد ہوا۔
اسلامی دنیا کے اتحاد اور باہمی تعاون کے ساتھ تیل کی قیمتوں میں اضافے سے بڑھنے والی آمدنی سے عرب ملکوں میں تعمیر وترقی کے منصوبے بھی شروع کئے گئے۔ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر نے کی وجہ سے دنیا میں 1930-32 کی عالمی کساد بازاری کے بعد شدید نوعیت کا اقتصادی بحران نمودار ہوا جس کا زیادہ منفی اثر امریکہ، فرانس اور بر طانیہ پر پڑا۔ مغربی جرمنی اور جاپان کی معیشتوں نے ترقی کی ،تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی آمدنیوں میں تیل کی قیمتوں کے بڑھنے سے فوری بہت اضافہ ہوا۔ یہ وہ حالات تھے جو ستر کی دہا ئی کے آغاز پر سامنے آئے جس سے واضح ہو گیا کہ سرد جنگ کے اِن مراحل میں سابق سوویت یونین کو امریکہ کے مقا بلے میں سبقت حاصل ہو رہی تھی۔
1971 میں بنگلہ دیش کے قیام اور بھارت کی جارحیت پر امریکہ خاموش تماشائی بنا رہا لیکن چین جو تھوڑے دن قبل ہی سیکورٹی کونسل کا ویٹو پاور رُکن بنا تھا اُس نے 1974 تک پا کستان کی خاطر دنیا میں ایک بڑی آبادی کے اور اپنے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیااور اس دوران پا کستان نے شملہ معاہدے سمیت پاک بھارت مذاکرات کے دوران عالمی سطح پر بھارت پر دبائو میں اضافہ کیا اور شملہ معاہدے میں کافی بہتر پوزیشن میں آ گیا۔
اس صورتحال سے مشرق وسطٰی ایران سمیت بہت سے ایسے ممالک جو امریکہ کے دوست تھے اور کافی حد تک سرد جنگ میں اُس کے اتحادی تھے محتاط ہو گئے۔ دوسری جانب سوویت یونین جس کا کردار 1973 کی عرب اسرئیل جنگ میں 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے مقابلے میں بہتر تھا مگر اب سوویت یو نین اشتراکی نظرایات کی وجہ سے کنفوژن کا شکار تھا۔ مصر کے صدر جمال ناصر مرحوم نے شروع کے دور میں مقامی اور عالمی سطح پر خود کو اعتدال پسند اور عرب قوم پرست ثابت کر نے کی بھر پور کوشش کی وہ پنڈت جو اہر لال نہر و کے ساتھ غیر جانبدارانہ ممالک کی تنظیم کے بہت متحرک اور پُر جوش حامی تھے مگر جب انہیں نہر سوئز بحران کے بعد اسلحہ کی ضرورت پر امریکہ نے اپنے گروپ میں شامل کرنے کے لیے دبائو ڈالا تو وہ پھر رفتہ رفتہ اپنی غیر جانبدارانہ پوزیشن کو ترک کر گئے اور سوویت یو نین کے قریب چلے گئے تھے۔
1973 کی جنگ کے بعد ایک جانب جارج ہباش کی بلیک ستمبر جیسی انتہا پسند فلسطینی تنظیم فلسطینیوں کو عرب قوم پرستی کی بنیاد پر عیسائی ، مسلمان تفریق سے بالا رکھتے ہو ئے گوریلا جنگ کے ذریعے یہودیوں سے آزادی دلوانا چاہتی تھی تو دوسری جانب لیبیا میں نو جوان صدر کر نل قدافی جو جمال ناصر مرحوم کو اپنا آئیڈیل بنا کرلیبیا میںانقلاب لائے تھے اورلیبیا سے باد شاہت کا خاتمہ کر دیا تھا وہ بھی یہ چاہتے تھے کہ مصر ،شام اور اردن یا عرب خطے کا کو ئی ملک اسرائیل سے کوئی امن مذاکرات نہ کرئے مگر ساتھ ہی سوویت یونین کو یہ کنفوژن تھا کہ یہ تمام عرب ملک مسلم اکثریت کے ممالک ہیں اس لیے یہاں کمیو نزم دیگر غیر مسلم ملکوں کی طرح نہیں آئے گا۔ پھر سوویت یونین بھی اقوام متحدہ کے اُن بنیاد ی رکن ملکوں میں سے اور پانچ ویٹو پاورز میں شامل تھا۔
جنہوں نے اسرائیل کے قیام میں بھر پو ر کردار ادا کیا تھا اورجولائی1948 میں اِن کی حمایت اور منظوری سے اسرائیل وجود میں آیا تھا۔ پھر1949 میں اَن ہی ملکوں کی بھر پور حمایت سے اسرائیل اقوام متحدہ کا رکن بنا تھا اور اس کے بعد سے سوویت یونین ہر سال اپنے ملک سے پانچ ہزار یہودیوں کو اسرائیل جاکر مستقل آباد ہو نے کی اجازت دیتا تھا۔ سوویت یونین کی حمایت سے صدر حافظ الاسد فوجی انقلاب سے برسر اقتدار آگئے تھے اور 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں اُن کا کردار بھی اہم تھا کیونکہ اُس وقت صدر ناصر وفات پا گئے تھے اور اُن کے بعد انور السادات مصر کے صدر بنے تھے جو صدر ناصر کی طرح مقبول نہیں تھے۔ اِس خلا کو عرب قوم پرستی کے نعرے کے ساتھ مقبولیت کی بنیاد پر صدر قدافی ، حافظ الاسد اور بعد کے دنوں میں صدر صدام نے پورا کرنے کی کوشش کی مگر ان لیڈروں کے پاس وہ سیاسی بصیرت نہیں تھی جو اللہ تعالیٰ نے جمال عبدالناصر کر عطا کی تھی۔
جب 1974 میں او آئی سی کے تحت اسلامی سر براہ کانفرنس لاہور میں منعقد ہو ئی تو اس میں شک نہیں کہ اس کے بہت اثرات پوری دنیا پر مر تب ہو ئے۔ یہ اسلامی کانفر نس 1923 میں ترک عثمانیہ خلا فت کے بعد تقریباً 51 سال بعد دنیا کے اکثر اسلامی ملکوں کے درمیان اتحاد اور تعاون کے ساتھ اُن طاقتوں کے خلاف تھی جو اسلامی ملکوں کے خلاف تھیں۔ عالمی سطح پر خارجی اموار پر بہت باریک بینی کے ساتھ نظر رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو اس کے میزبان تھے اس کانفرنس کا کمال یہ تھا کہ اس میں عرب کیمونسٹ اور نیشنلسٹ مزاج رکھنے والے ممالک کے سر بر اہان بھی شریک ہوئے تھے اور عرب دنیا کے بادشاہ اور شیوخ بھی شریک تھے۔
اگر چہ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کی بنیاد پر اس اسلامی سربراہ کانفرنس میں تیل کو اقتصادی اور تجارتی طور پر باہمی اتفاق سے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے معاشی اور اقتصادی طور پر امریکہ ،فرانس،بر طانیہ اوراِن کے قریبی اورحلیف ملکوں کو نقصان ہوا تھا مگر سوویت یونین اور وارسا پیکٹ کے ممالک نظریاتی اور سیاسی طور پر بہت فکر مند تھے۔ یہ تو درست تھا کہ مشرقِ وسطٰی میں اس کانفرنس کی وجہ سے یہ امید پیدا ہو ئی تھی کہ اب وہ عرب ممالک اور ریا ستیں جہاں بادشاہاتیں ہیں انہیں اسلامی اتحاد کی بنیاد پر مستقبل میں باہمی تعاون کے کسی نہ کسی سمجھوتے کی بنیاد پر عرب سوشلسٹ اور نیشنلسٹ ملکوں سے تحفظ کی ضمانت مل جا ئے گی اور پوری اسلامی دنیا میںاسلامی عقائد کی بنیاد پر باہمی اتحاد کی خاطر ایک دوسرے اسلامی آبادی کے ہر ملک پر اقتدار کا احترام کیا جائے گا۔
اس طرح سوویت یونین کا سیاسی کردار مستقبل میں اشتراکی نظرایاتی بنیادوں پر محدود ہو جاتا تھا یعنی تعاون اور اتحاد کی پہلی شرط ہر عرب ملک میں مذہب اسلام ٹھہرتی تھی اور اس کے بعد اگر کو ئی ملک اشتراکیت کو اپنا تا تھا تو وہ اس نظریے کو قدرے ترمیم کے صرف اور صرف اقتصادی ، معاشی اور تجارتی تقاضوں اور ضرورتوں کی وجہ سے اپناتا، جیسے اقوام متحدہ کے قیام سے قبل سے دنیا میں سرمایہ دارانہ معیشت کے حامل سودی نظام سے دنیا کے تقریباً تمام اسلامی ممالک مجبوراً سہی سمجھو تہ کئے ہو ئے ہیں۔ یہ صور ت سوویت یونین کے اشتراکی نظام سے عالمی سیاسی طور پر متصادم تھی لیکن وقت کے تقاضے کے تحت سرد جنگ کے اس دور میں سوویت یو نین کی اعلیٰ قیادت نے مصلحت آمیز خاموشی اختیار کئے رکھی، لیکن وہ اس صورتحال کو بدلنا چاہتے تھے۔
اس موقع پر امریکہ برطانیہ اور فرانس سمیت مغربی اتحادی ممالک نے اور خصوصاً امریکہ کے تھنک ٹینک نے مستقبل قریب کو مد نظر رکھتے ہو ئے عالمی اسلامی اتحاد کو تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی تجارتی پالیسیوں کے مقابلے کو بھی مد نظر رکھا اور سوویت یونین کے سیاسی نظریاتی خو ف کا پوری طرح تجزیہ کرتے ہو ئے سرد جنگ کے تناظر میں بہت دور رس نتائج کی حامل حکمتِ عملی اختیار کی۔ جہاں تک تعلق تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر نے کے تو ڑ کا تھا تو امریکہ نے اس کے تین آپشن رکھے تھے۔
نمبر1 دنیا میں تیز رفتاری سے تیل کے نئے ذخائر تلاش کئے جائیں اور اِن پر تجارتی اقتصادی طور پر ملکیت رکھتے ہو ئے عا لمی مارکیٹ میں تیل کی رسد زیادہ کر کے اس کی قیمت کو نیچے لا یا جائے۔
نمبر 2 ، معدنی تیل کا متبادل ایندھن تلا ش کیا جائے اور دنیا بھر کی انڈسٹری میں معد نی ایندھن کے استعمال کو ختم کر دیا جائے کہ اس کی وجہ سے دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
نمبر3 ، تیل پیدا کرنے والے اہم اور خصوصاً عرب ممالک کے وہ سر بر اہان جنہوں 1973عرب اسرائیل جنگ کے بعد تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے میںاہم کردار ادا کیا ہے اِن کو اقتدار سے ہٹا دیا جائے اور یہاں تیل کی پیداوار پر کنٹرول حاصل کیا جا ئے اور ایسے حقیقی اسلامی اتحاد کو توڑ دیا جا ئے جس کی وجہ سے امریکہ ،بر طانیہ ، فرانس سمیت مغربی سر مایہ دار ممالک کی معیشتوں کو نقصا ن پہنچتا ہے۔
یوں ستر کی دہائی میں سرد جنگ کے حوالے سے اقتصادی ، تجارتی اور سیاسی اعتبار سے عالمی سطح پر کشا کش کی مثلث بنی جس میں سوویت یونین اشتراکی نظام معیشت اور مذہب کی مخالفت کی بنیاد پر ایک جانب تھ۔ 1974 کی اسلامی سربراہ کانفرنس کا جوش و ولولہ ایک آدھ سال رہا جب کہ عملی صورت میں ماسوائے ایک دو ملکوں کے کو ئی اقدامات نہیں کئے گئے، البتہ تیل کی قیمتوں کے بڑھنے کی وجہ سے1973 سے 1979 تک امریکہ،بر طانیہ اور فرانس کو قدرے معاشی بحران کا سامنا رہا۔
جہاں تک اسلامی سربراہان میں سے جو اسلامی اتحاد کے لیے زیادہ متحرک تھے اُن ملکوں میں درپردہ سیاسی تبدیلی کے لیے سازشیں شروع ہو گئیں اور کہیں امریکہ سرگرم عمل رہا اور کہیں سوویت یونین نے خفیہ کا روائیاں کیں۔ مثلث کے تیسرے زاویے کے لحاظ سے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے لیے یہ صورتحال دو طرفہ کھیل کی سی تھی۔ امریکی تھینک ٹینک یہ جان گیا کہ اسلامی اتحاد کا تصور اور اسلامی سر براہ کانفرنس کا ایک مظاہرہ سوویت یونین کے لیے بہت تشویشناک تھا۔ سوویت یونین کے ساتھ نہ صرف مشرقی اور مرکزی یورپی ریاستوں میں مسلمانوں کی خاصی تعداد تھی بلکہ سنٹرل ایشیا کی ریاستیں تو مسلم اکثریت کی ایسی ریاستیں تھیں جن پر روس زارشاہی کے زمانے سے قبضہ تھا اور بعد میں اسٹالن نے یہاں پر بے انتہا ظلم وتشدد کر کے جبراً کیمونزم نافذ کیا تھا۔
یہاں سے ان ریاستوں کی سر حد یں ایران ،افغانستان اور پا کستا ن سے ملتیں ہیں یوں ستر کی دہا ئی میں سرد جنگ کے دوسرے محاذ بھی کھلتے رہے جیسے 17 جولائی 1973 میں جب افغانستان کے باد شاہ محمد ظاہر شاہ بیرونی دورے پر تھے تو سردار دائودخان نے فوج کے تعاون اور سوویت یونین کی حمایت سے ظاہر شاہ کا تحتہ الٹ دیا، اُن کے خاندان کے کئی افراد کو قتل کر دیا اور افغانستان کو جمہوریہ بنا کر خود صدر ہوگئے۔
21 ستمبر کو فلپائن میں صدر فیر ڈینینڈ مارکوس نے مارشل لا نافذ کر دیا،1973 میں چلی میں حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا،1974 میں ایتھو پیا میں قدیم ترین سلنطت کے باد شاہ ہیل سلاسی کا تختہ جنرل ایمن انڈوم اور مینگٹو ہیٹی نے الٹ کر بادشاہت کا خاتمہ کر دیا۔ اسی سال پرتگال میں بھی بغاوت ہوئی،1974 ہی میں بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کر دیا یہ جنوبی ایشیا میں ایک اہم واقعہ تھا کیونکہ یہ پاک بھارت جنگ 1971 کے صرف تین سال بعد ہوا تھا جس پر پا کستان اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی فورمز پر پاکستان نے دفاع کے اعتبار سے تحفظات سے آگاہ کیا اور پھر اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کیا کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن اپنے دفاع کے لیے ضرور ایٹم بم بنائیں گے۔
پا کستان نے اپنے ایٹمی پروگرام پر تیز رفتاری سے کام شروع کر دی۔ 26مارچ 1975 کو سعودی عرب کے بادشاہ ، شاہ فیصل کو قتل کر دیا گیا اس واقع کے تقریباً ساڑھے چار ماہ بعد 15 اگست 1975کو بھارت کے28 ویں یوم آزادی کے دن بھارت کے ہمسایہ اور دوست ملک کے بانی لیڈر شیخ مجیب الرحمن کو اُن کے خاندان کے کئی افراد کے ساتھ فوجیوں کے ایک گروپ نے قتل کردیا۔ پھر بھارت میں سیاسی بحران نمودار ہوا اور حکومت نے 1975 سے1977 تک ایمر جنسی نافذ کردی۔ 1976 میں جارج رافیل نے فوج کی مدد سے ارجنٹائن میں حکو مت کا تحتہ الٹ دیا،1977 میں جنرل ضیا الحق نے پا کستان میں مارشل لا نافذ کر کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کر دیا، اُن کو کچھ عرصہ بعد قتل کے مقدمے میں قید کر دیا اور1979 میں اُنہیں سزائے موت د ے دی گئی۔
جنوری 1978 سے ایران میں شہنشا ہ محمد رضا شاہ پہلوی کے خلاف امام روح اللہ آیت اللہ خمینی کی انقلابی تحریک دیکھتے ہی دیکھتے بھر پو ر عوامی انقلاب میں بدل گئی۔ فروری 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب آگیا اگرچہ پاکستان میں جنرل ضیا الحق نے بھی بظاہر اسلامی نظام حکومت کا نعرہ لگا یا تھا لیکن امام خمینی کا انقلاب عوامی حمایت کی بنیاد پر سوویت یو نین کے 1917 کے انقلاب اور چین کے 1949 کے انقلاب کی طرح بھر پور اور پُر جوش عوامی حمایت کے ساتھ برپا ہوا تھا۔ ایران میں شاہ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ 1976-77 میں شروع ہوا تھا لیکن امریکہ نے ایرانی عوام کے انقلابی مزاج کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ جبکہ سوویت یونین خطے میں اس بدلتی ہو ئی صورتحال سے بہت خوفزدہ ہو گیا اور اس کا اثر یہ ہوا کہ 28 اپریل 1978 کو افغانستان میں صدر سردار دائو خان کی حکومت کا تختہ نور محمد تراکئی اور کرنل قدیر خان نے الٹ دیا اور اِن کو اِن کے خاندان کے افراد کے ساتھ قتل کر دیا اور افغانستان میں پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کی انقلابی حکومت قائم کر کے ملک کو ڈیموکریٹک ( کیمونسٹ)ری پبلک آف افغانستان کا نام دے دیا گیا۔
اس تبدیلی کو سوویت یونین کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس پوری صورتحال پر نظر ڈالیں تو اقوام متحدہ کے 25 سال 1970 میں پورے ہو ئے۔ برطانیہ اور فرانس جو سیکورٹی کونسل کے مستقل ممبر بھی ہیں اقوام متحدہ کے پہلے25 برسوں میں اہم رہے کہ یہ امریکہ کے ساتھ مغربی اتحاد میں تھے اور اِن کی نو آبادیات بھی اہم تھیں جن کے بارے میں اقوام متحدہ کے چارٹر اور ہیومن رائٹس ڈیکلریشن کی بنیاد پر مستقبل میں فیصلے ہو نے تھے اور سرد جنگ میں بھی یہ امریکہ کے قریبی حلیف تھے۔
پھر جہاں تک بر طانیہ کا تعلق تھا توجنگ عظیم دوئم تک دنیا میں سب سے زیادہ نو آبادیات بر طانیہ ہی کی تھیں جنکو بہرحال سرد جنگ کے تناظر میں اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر ہی آزادی دینی تھی اور یہی صورت فرانسسی نو آبادیا ت کی تھی۔ چین اگر چہ 1970 تک اقوام متحدہ کا رکن نہیںتھا مگر ماوزے تنگ کی اہمیت سب پر واضح تھی۔ اقوام متحدہ کے پچیس سال کی تکمیل پر شروع ہونے والی ستر کی دہائی دنیا کی سیا سی بساط پر چالوں کے حوالے سے اہم دہائی تھی اور اس مر حلے پر زیادہ نمایاںامریکہ اور سوویت یونین تھے۔
اگرچہ 1949 میں چین کے انقلا ب اور آزادی کے بعد چین نے ماوزے تنگ کی قیادت میں اشتراکی نظریات کے لیے سوویت یونین کے ہمراہ کوریا اور ویت نام جنگوں میں بہت بڑی قربانیاں دیں، مگر 1970 ہی میں چین نے امریکہ سے مذاکرات کے بعد اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں مستقل نشست حاصل کرنے کے بعد سوویت یونین کی جانب سے ہا تھ کھینچ لیا تھا۔ اس کے بعد چین نے پوری توجہ اپنی تعمیر وترقی پر مرکوز رکھی اور سر د جنگ کے عالمی نوعیت کے معاملات سے عمو ماً خود کو دور رکھا۔ دوسری جانب ستر کی دہائی میں سوویت یونین کے برز نیف1964 سے1984 تک اقتدار میں رہے۔
1967 کی عرب اسرئیل جنگ میں عربوں کو بدترین شکست ہو ئی۔اس جنگ میں امریکہ کی جانب سے اسرا ئیل کی بھر پور مدد عربوں کے سامنے تھی جبکہ اس کے مقابلے میں روس کی طرف سے عربوں کو مایوسی ہو ئی اور عرب نیشنل ازم کو دھچکا لگا، مگر صدر ناصر 1967 کی جنگ کے بعد سوویت یونین کے سامنے فیصلہ کن انداز میں کھڑے ہو ئے تھے اور پھر انہوں نے سوویت یو نین سے سام میزائل حاصل کئے جن کی وجہ سے1973 کی عر ب اسرائیل جنگ میں مصر بہتر پوزیشن میں آگیا تھا مگر 1974 کی اسلامک سربراہ کانفرنس کے بعد سوویت یونین نے ہچکچاہٹ کا رویہ رکھا تھا اور انور لسادات کو امریکہ کے حامیوں نے یہ احسا س دلایا کہ اسرائیل سے مذاکرات ہی مصر کے حق میں بہتر ہیں۔
اس طرح مصر سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان توازن قائم رکھتے ہو ئے پُر امن ماحول میں ترقی کر سکتا ہے یوں مصر کے صدر انور السادات نے اس جانب توجہ دی۔ انور السادات نے اسرائیل مصر تعلقات کی بنیاد پر 1974 سے مذاکرات کے مراحل شروع کئے یہ اُس وقت کے تناظر میں عجیب سی صورتحال تھی۔ ایک جانب اسلامی ممالک کے عوام 1973 کی جنگ کے بعد جذباتی طور پر اپنی فتح کی خوشی محسوس کر رہے تھے تو دوسری طرف عرب نیشنل ازم جس کے تحت اسرائیل کے خلاف عرب عیسائی بھی یہودیوں کے خلاف تھے وہ تذبذب کا شکار تھے اور بلیک ستمبر کے جارج ہباش تو اس صورتحال کی مخالفت کر رہے تھے اور سوویت یونین کے برزنیف کو بھی یہ قبول نہیں تھا۔
مصر کے صدر خود فیصلہ کر چکے تھے ،لیبیا کے صدر کرنل قدافی جو بہر حال عرب اسرائیل جنگ میں ہر طرح کی مدد دیتے رہے تھے وہ اس صورتحال کو بدلنے کے لیے کو ششیں کر رہے تھے۔ یوں دیکھا جائے تو ستر کی دہائی سیاسی طور پر بہت ہی الجھی ہوئی د ہائی تھی، شام ،لیبیا اور عراق بھی اپنے طور پر مصر کے انوارالسادات کی پالیسی کے خلاف تھے۔ سوویت یونین اپنے اشتراکی نظریات کی وجہ سے کسی بھی اسلامی تحریک کو سپورٹ نہیں کر نا چاہتا تھا اور امریکہ ایک چین سے کا میاب مذاکرات کر چکا تھا۔
برصغیر میں بھارت اور بنگلہ دیش میں حالات سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گئے تھ۔1978 میں مصر نے امن معاہدے کیمپ ڈیوڈ پر دستخط کر دئیے اور یہ واقعہ سیاسی لحاظ سے اور سرد جنگ کے اعتبار سے اتنا اہم تھا کہ اس واقعہ کے صرف ڈھائی برس بعد صدر انوار السادات جب مصر کے قومی دن کے موقع پر فوجی پریڈ سے سلامی لے رہے تھے فوجی دستوں نے ہی فائرنگ کر کے اُنہیں قتل کر دیا۔ یوں ستر کی دہائی میں اگر چہ ایران میں امریکہ کو اُس وقت نقصان پہنچا جب شہنہشاہ کا تختہ الٹ دیا گیا اور یہاں امام خمینی کا اسلامی انقلاب آگیا لیکن یہ صورتحال سوویت یونین کے حق میں بھی بہتر نہیں تھی۔
سوویت یونین میں اشتراکی نظام کو پہلی جنگ عظیم میں 1917 میں انقلاب کے ساتھ مہلت ملی تھی کہ اُس وقت دنیا پہلی عالمی جنگ میں پھنسی ہو ئی تھی اس کے بعد اس جنگ ہی کے منفی اثرات تھے جن کے سبب 1930-32 کی عظیم عالمی کساد بازاری کی وجہ سے دنیا بھر میں غربت اور بھوک و افلاس میں اچانک بہت اضافہ ہو گیا اور یہ صورتحال اور ماحول اشتراکی نظام کے لیے بہت ساز گار ہو گیا۔ اسی کسادبازاری میں جرمنی کے ہٹلر کو نازی ازم کی بنیاد پر طاقت ملی اور اس کے نتیجے میں 1939 سے1945 تک دوسری عالمی جنگ رہی اور پھر دوسر ی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سوویت یو نین نے ،اقوام متحدہ کے پہلے پچیس بر سوں میں جو سرد جنگ کے لحاظ سے بھی اہم تھے اسٹالن اور خروشیف کی پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ اور نٹیو کا بہتر انداز سے مقابلہ کیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ برزنیف جو 1964 سے 1984 تک اقتدار میں رہے اِ ن کے دور ِحکومت میں اُن کی پالیسیوں کے لحاظ سے سوویت یونین سمیت وراسا پیکٹ کے ملک کنفیوژن کا شکار رہے ان مراحل پر اُنہیں ساٹھ کی دہائی کے آخر تک چین کی جانب سے تعاون حاصل رہا اور باوجود اس کہ جوزف اسٹالن کے بعد خروشیف اور برزنیف دونوں ہی اپنے سیاسی فکری قدکے لحاظ سے ماوزے تنگ کے مقابلے میں بہت چھوٹے تھے۔
اِن دونوں سویت لیڈروں نے چین اور اس کے بانی لیڈر ماوزے تنگ کو وہ مقام نہیں دیا جو تاریخ نے اُن کو بخشا تھا۔ اگر اسٹالن کی وفات کے بعد دنیا میں کمیونزم کی قیادت وارسا پیکٹ کے ملکوں سمیت چین کے ماوزے تنگ کے پا س آتی تو صورتحال سرد جنگ کے لحاظ سے بہت مختلف ہوتی اور اس مرحلے پر دنیا کے کیمو نسٹ ملکوں میں ایک جمہوری احساس بھی بیدار ہو تا مگر جس طرح سوویت یو نین نے اس پر اجارہ داری قائم رکھی اس کا نقصان سوائے چین کے دنیا کے تمام کیمونسٹ ملکوں کو ہوا۔
جہاں تک تعلق مشرق وسطٰی کا تھا تو عرب دنیا میں اسلامی خلافت کے نام پرترکی کی خلافت عثمانیہ رہی جو بہرحال مزاج کے اعتبار سے باد شاہت تھی اور کسی طرح بھی اسلامی نظام حکومت کی بنیاد پر سماجی معاشرتی عدل و انصاف فراہم نہیں کرتی تھی بلکہ اپنے آخری دور میں تو ترکی کو مرد بیمار کہا جا تا تھا۔ مگر جب اس کی جنگ جرمنی کے اتحاد کے ساتھ بر طانیہ ، فرانس، روس، امریکہ اور دیگر یورپی قوتوں سے ہو ئی تو برصغیر سمیت دنیا کے مسلم عوام جذباتی طور پر خلافت عثمانیہ کے ساتھ تھے مگر بہت کم مسلم رہنما اس کی حمایت میں تھے۔
جب عر ب رہنما تو اپنی اپنی بادشاہتوں کے لا لچ میں خلافت عثمانیہ کے خلاف بر طانیہ کی حمایت میں بر طانوی ایجنٹ لارڈ لا رنس المعروف لارنس آف عریبہ کے منصوبوں کے مطابق کئی من سونے کے عوض ترکی کے خلاف لڑے اور اُس کی شکست میں اہم کر دار ادا کیا تھا۔ اِن عرب رہنمائوں نے اُس وقت ترکی کے خلاف عرب نیشنل ازم قوم پرستی کی بنیاد پر عربوں کو ترکوں سے افضل قرار دیا تھا اور یہ کہا تھا کہ حکمرنی کا حق عربوں کو ہے جن میں بہت سے انبیا کے سمیت نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ عرب ہیں۔
یوں 1918 میں ترکی اور جرمنی کوشکست ہو گئی اور پھر اِن عرب رہنمائوں میں مصر ، سوڈان ، شام ، عراق لیبیا اور دیگر ملکوں کی بادشاہتیں ملیں۔ 1939 سے 1945 تک دوسری جنگ عظیم رہی جن میں بیشتر عرب رہنمائوں اور باد شاہوں نے برطانیہ ، امریکہ کا ساتھ دیا لیکن اس کے بعد 1948 میں اسرائیل کے قیام سے عرب سمیت پوری اسلامی دنیا میں غم غصہ سامنے آیا تو ایک دوسری طرح کا عرب نیشنل ازم مصر میں شاہ فاورق کا تحتہ الٹ کر انقلاب بر پا کر نے کے بعد کرنل جمال ناصر نے معتارف کرایا جو مقبول بھی ہوا۔ اس نیشنل ازم میں اشتراکیت کا تڑکا تھا جو بہرحال عرب سماج میں پور ی طرح ہضم نہیں ہو پایا اس کا اندازہ سوویت یو نین کو بھی تھا اور خرو شیف اور برزینف اچھی طرح جانتے تھے کہ مصر ،شام، عراق، لیبا ، سوڈان کبھی بھی رومانیہ، چیکوسلاوکیہ، ہنگری یا پولینڈ نہیں ہو سکتے اوریہی کنفو ژن تھی جس کی وجہ سے سوویت یونین ستر کی دہائی کے وسط سے سیاسی بوکھلاہٹ کا شکار ہو ا اور آخر بکھر کر رہ گیا۔
(جاری ہے)