فلائٹ 8303
اس طیارے میں کل 97 مسافر سوار تھے جن میں دوخوش نصیب زندہ سلامت رہے۔
BEIJING:
ہمارے ملک میں حادثات وسانحات کا ایک تسلسل جاری ہے، کبھی سڑکوں پر خوفناک ایکسیڈنٹ رونما ہو جاتے ہیں ،کبھی بلند وبالا رہائشی عمارات اچانک ڈھ جاتی ہیں تو کبھی ٹرینیں باہم ٹکرا جاتی ہیں اور کبھی ان کے ڈبوں میں ایسی خطرناک آگ بھڑک اٹھتی ہے کہ کئی کئی بوگیاں جل کر خاکستر ہو جاتی ہیں جن میں درجنوں مسافر اپنی منزلوں کو پہنچنے کے بجائے دنیا سے ہی کوچ کرجاتے ہیں۔
یہ حادثات تو اپنی جگہ ہوتے ہی رہتے ہیں مگر اب تو ہوائی جہازوں کے حادثات بھی معمول بنتے جا رہے ہیں، ابھی ڈھائی سال کا عرصہ ہی گزرا ہوگا کہ حویلیاں کے مقام پر پی آئی اے کا ایک اے ٹی آر طیارہ گرکر تباہ ہوگیا تھا جس میں 47 مسافر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اسی بدقسمت پرواز میں ملک کی نامورشخصیت جنید جمشید بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ سوار تھے۔
اس طیارے کے گرنے کی اصل وجوہات کا تو ابھی تک پتا نہیں چل سکا ہے البتہ ابتدائی طور پر جو انکوائری ہوئی تھی اس سے پتا چلا تھا کہ طیارے کا انجن پہلے سے خراب تھا مگر اسے کسی طرح پرواز کے قابل بنا لیا گیا تھا، یہ جہاز چترال سے روانہ ہوا تھا اور حویلیاں میں آکر اس کا انجن جواب دے گیا اور یہ قلابازیاں کھاتا ہوا زمین پر آرہا۔ اس حادثے کے بارے میں یہ بھی انکشاف ہوا تھا کہ اسے صرف ایک پائلٹ چلا رہا تھا اور دوسرے پائلٹ کے بجائے اس کی مدد ایک ایئرہوسٹس کررہی تھی۔
کراچی کے علاقے میں 22 مئی تک کسی مسافر طیارے کے گرنے کا کوئی سانحہ رونما نہیں ہوا تھا۔ بدقسمتی سے اس عید سے ٹھیک دو دن پہلے پی آئی اے کی ایئربس 320 جولاہور سے کراچی پہنچی تھی ایئرپورٹ پر اترنے سے پہلے ہی قریب کی آبادی کے مکانوں پرگرکر حادثے کا شکار ہوگئی جس میں لاہور سے کراچی اپنے عزیز رشتے داروں کے ساتھ عید منانے کے لیے آنے والے 95 مسافر اپنے گھروں کو پہنچنے کے بجائے موت کی وادی میں اترگئے۔
اس طیارے میں کل 97 مسافر سوار تھے جن میں دوخوش نصیب زندہ سلامت رہے، ان میں ایک بینک آف پنجاب کے صدر ظفر مسعود ہیں جو معروف اداکار منور سعید کے صاحبزادے ہیں، اس حادثے میں بچنے والے دوسرے خوش نصیب زبیر احمد ہیں۔ ان دونوں خوش نصیبوں کا کہنا ہے کہ کراچی ایئرپورٹ کے قریب پہنچ چکے تھے ہمیں ماڈل کالونی کے مکانات نیچے صاف نظر آرہے تھے دوسری جانب کراچی کی مشہور شارع فیصل پر ٹریفک رواں دواں نظر آ رہا تھا کہ طیارے میں اعلان ہوا کہ ہم ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے والے ہیں۔ چند لمحے بعد جہاز کے رن وے سے رگڑنے کی آواز سنائی دی جس سے لگا کہ جہاز رن وے پر آگیا ہے اور اس کے پہیے رن وے سے ٹچ ہو رہے ہیں۔
جہازکی رفتار بھی آہستہ آہستہ کم ہونے لگی لیکن طیارہ رن وے پر رکنے کے بجائے پھر فضا میں بلند ہو گیا۔ ایک بار پھر جہاز میں رن وے پر اترنے کا اعلان کیا گیا اس وقت جہاز چونکہ مسلسل جھٹکے لے رہا تھا اس لیے مسافر گھبرائے ہوئے تھے اور وہ کلمہ طیبہ کا زوردار آواز سے ورد کررہے تھے اس کے ساتھ ہی جہاز تیزی سے نیچے کی طرف آنے لگا اور پھر کھیل ختم ہوگیا۔ جہاز ماڈل کالونی کے مکانوں پر گرکر پاش پاش ہو گیا تھا۔ زبیر اور ظفر مسعود کا اپنے بارے میں کہنا ہے کہ ان کی سیٹیں معجزاتی طور پر جہاز کے ملبے سے ہٹ کر دورگریں اور اس طرح وہ موت سے محفوظ رہے۔
پاکستان میں فضائی حادثات کی تاریخ کوئی زیادہ طویل نہیں ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کل 12 مسافر طیاروں کے حادثات ہوچکے ہیں جن میں دس پی آئی اے کے اور دو نجی ایئرلائنوں کے طیارے تباہ ہوئے۔ بدقسمتی سے ان تمام حادثات کی تحقیقاتی رپورٹ اب تک عوام کے سامنے نہیں آسکی ہے، اس لیے عوام ابھی تک ان حادثات کے رونما ہونے کی اصل وجوہات سے لاعلم ہیں۔ ماضی کے برعکس موجودہ حکومت کی جانب اس سانحے کی تحقیقاتی رپورٹ جلد ازجلد عوام کے سامنے پیش کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
عوام کا کہنا تھا کہ اس دفعہ کیا واقعی عمران خان کی حکومت چینی اسکینڈل رپورٹ کی طرح اس سانحے کی رپورٹ بھی پبلک کرکے سابقہ حکومتوں سے اپنی انفرادیت قائم رکھے گی اور ایسا ہی ہو گیا ہے حکومت 22 جون کو اس سانحے کی تحقیقاتی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کر رہی ہے۔ وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے اعلان کیا ہے کہ اگر رپورٹ میں سول ایوی ایشن کی غلطی پائی گئی تو وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے۔
دراصل جہاز ساز کمپنی ایئرلائن اور سول ایوی ایشن اتھارٹی اپنی پوزیشن خراب ہونے سے ہمیشہ بچا لیتے ہیں اور جہاز کے کپتان کی غلطی کو حادثے کا سبب قرار دے دیا جاتا ہے اور یوں یہ تینوں متعلقہ ادارے خود کو کسی بھی جواب دہی سے بری الذمہ کرلیتے ہیں لیکن تحریک انصاف کے دور میں ایسی ناانصافی نہیں ہونی چاہیے۔ فرانس سے آئی ایئرپبس کمپنی کی تحقیقاتی ٹیم جائے حادثہ اور رن وے کی مکمل انکوائری کرکے فلائٹ ڈیٹا ریکارڈ اورکاک پٹ وائس ریکارڈ کو اپنے ساتھ فرانس لے گئی تھی جہاں انھیں ڈی کوڈ کرکے تجزیاتی رپورٹ تیارکرکے اسے پی آئی اے کے سربراہ عثمان غنی کے حوالے کردیا گیا تھا جسے وہ اپنے ساتھ اسلام آباد لے آئے تھے۔
اب اس رپورٹ کی روشنی میں حادثے کے رونما ہونے کی اصل وجوہات کو سامنے رکھ کر تفصیلی رپورٹ تیار کی گئی ہے جسے پہلے حکومت کی جانب سے تین مہینے کے اندر عوام کے سامنے پیش کیے جانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ طیارے کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ ایک دن قبل مسقط سے مسافروں کو لے کر آیا تھا پھر دوسرے دن یہ لاہور سے کراچی کے لیے روانہ ہوا تو زندہ بچ جانے والے مسافروں کے مطابق فلائٹ بالکل اسموتھ تھی جہاز میں کسی قسم کی کوئی خرابی نظر نہیں آرہی تھی، لیکن کراچی پہنچنے کے بعد آخرکیا ہوا کہ یہ حادثے سے دوچار ہو گیا۔
ابتدائی انکوائری رپورٹ کے مطابق کراچی ایئرپورٹ کے رن وے کی جو تصاویر لی گئی ہیں ان میں طیارے کے رن وے سے رگڑ کھانے کے واضح شواہد موجود ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ طیارے کے انجن کے رن وے سے رگڑکھانے کی وجہ سے انجن کو جو نقصان پہنچا اس سے پائلٹ بالکل بے خبر تھا ،ساتھ ہی ایئرٹریفک کنٹرولر بھی اسے نہیں دیکھ سکا تاہم انجن کے رن وے سے رگڑنے کے باوجود بھی جہاز پائلٹ کے کنٹرول میں تھا جب ہی اس نے ایئرٹریفک کنٹرولرکو جہاز میں کسی قسم کی خرابی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا وہ مکمل طور پر پراعتماد تھا اور اس کے لہجے میں ذرا بھی گھبراہٹ نہیں تھی۔
بہرحال ماہرین کو یہ بات کھٹک رہی ہے کہ جب طیارہ پہلی دفعہ رن وے پر لینڈ کرنے کے لیے نیچے آیا تھا تو پھر پائلٹ نے اسے کیوں نہیں روکا۔ اگر پہیے کھلنے میں دشواری تھی تو بیلی لینڈنگ بھی ہو سکتی تھی جس سے نقصان تو ہوتا مگر کچھ جانیں ضرور بچائی جاسکتی تھیں۔
اب حادثہ تو ہوگیا مگر اپنے پیچھے بہت سارے سوالات چھوڑگیا ہے سب سے اہم سوال پی آئی اے کی کارکردگی پر ہے۔ پی آئی اے کو اگر سابقہ حکومتوں نے برباد کردیا ہے تو موجودہ حکومت نے اس ادارے کو سدھارنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ بس اب بھی اس کا حال پہلے ہی جیسا ہے اب تو ہم وطن بھی اپنی اس قومی ایئرلائن سے سفرکرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔