شاہ عبداللطیف بھٹائی ہر دور کا شاعر
سندھ میں قرآن پاک کے بعد جو کتاب حفظ کی جاتی ہے تو وہ شاہ جو رسالو ہے جس کے ہزاروں مرد، عورتیں اور بچے حافظ ہیں۔
OTTAWA, CANADA:
راقم الحروف نے بچپن میں فقیروں کو گھروں کے باہر یا ریلوے ٹرین میں، بس اسٹاپ پر اور عوامی اجتماع جیسے میلوں وغیرہ میںبھٹائی کی شاعری سناتے دیکھا حالانکہ یہ فقیر ان پڑھ ہوتے تھے۔
سندھ میں قرآن پاک کے بعد جو کتاب حفظ کی جاتی ہے تو وہ شاہ جو رسالو ہے جس کے ہزاروں مرد، عورتیں اور بچے حافظ ہیں۔ بھٹائی کی شاعری میں قرآن شریف کی کئی آیتیں بھی شامل ہیں جنھیں کہیں عربی زبان میں اور کہیں سندھی میں ترجمے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
بھٹائی 1689 میں ہالا تعلقہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے اور اس گھر کو ہالا حویلی کہا جاتا تھا۔ ان کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد والد حبیب اللہ شاہ کوٹری نام کے گاؤں چلے آئے جو ہالاشہر سے کچھ فاصلے پر تھا۔ بھٹائی جب جوان ہوئے تو ان کے ہاتھ میں تین کتابیں دیکھی گئیں جس میں قرآن شریف، مثنوی رومی اور رسالا شاہ عبدالکریم بلڑی جو ان کے لگڑدادا تھے۔ یہ چیز اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ بھٹائی پڑھے لکھے تھے۔
مرزا مغل بیگ، بھٹائی کے والد حبیب اللہ کے مرید تھے اور جب بھی وہ یا اس کے گھر والے بیمار پڑ جاتے یا کوئی مصیبت آتی تو وہ حبیب اللہ شاہ کو دعا اور تعویذ کے لیے بلاتے تھے۔ ایک مرتبہ اس سلسلے میں بھٹائی کے والد نے انھیں مرزا کے گھر بھیجا کہ وہ مرزا کی بیٹی کی طبیعت دیکھ کر آجائیں اور جب بھٹائی نے ان کی کلائی میں دھاگہ باندھا تو وہ اس پر عاشق ہوگئے۔ بھٹائی نے اپنے والد سے کہہ کر مرزا سے ان کی بیٹی کا رشتہ بھٹائی کے لیے مانگا جس پر مرزا بڑے برہم ہوئے اور ان سے قطع تعلق کیا اور انھیں کافی تکلیفیں دینے لگے۔ لیکن ایک دن جب مرزا کے گھر ڈاکو گھس آئے اور انھوں نے مرزا سمیت سارے مردوں کو مار دیا تو مرزا کی بیوی نے اسے بھٹائی کی بددعا سمجھا اور اپنی بیٹی کا رشتہ انھیں دے دیا۔ بھٹائی کی کوئی اولاد نہیں تھی۔
بھٹائی کو سیر و تفریح اور علاقے گھومنے کا بڑا شوق تھا اس لیے انھوں نے ہندوستان کے کئی شہر گھوم پھر کے دیکھے ، ان میں سندھ اور بلوچستان بھی شامل ہے۔ اس زمانے میں پیدل اور کبھی اونٹ پر جایا کرتے تھے اور گرمی اور سردی کی شدت سے نہیں گھبراتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ جوگیوں کے ساتھ 3 سال تک مختلف علاقے گھومتے رہے۔ بھٹائی کی شاعری میں سندھ اور دوسرے علاقوں کی تاریخ، جیوگرافی، کلچر، زبان وغیرہ ملے گا۔ انھوں نے ہنگلاج، ٹھٹھہ، لکھپت، ہالا، جوناگڑھ، جیسلمیر، گرناڑ، کھمباٹ، مغل بھان، بھویندر، دڑوکا، تھر وغیرہ کے علاوہ کئی چھوٹے بڑے شہر اور گاؤں گھوم کے دیکھے۔ اس دوران وہ لوگوں سے کچہری کرتے، ان کے کلچر، رہن سہن، کھانوں، رسم و رواج اور زبان کے بارے میں معلومات حاصل کرتے تھے۔
دوران سفر وہ جو کچھ بھی دیکھتے اسے واپس آکر لوگوں کی محفلوں میں بیان کرتے اور وہ بھی شاعری میں جسے ان کے مداح لکھ لیتے اور کچھ لوگ یاد کرلیتے۔ انھیںقدرت کے حسین مناظر، ہرے بھرے لہلہاتے کھیت، دریا، پرندے، جانور، پھول، قدرتی نظارے، جھیلیں اور ان میں تیرنے والی مچھلیاں اور اڑتے ہوئے پرندے بے حد پسند تھے۔
بھٹائی کی شاعری میں ہمیں ناانصافی، ظلم و بربریت کے خلاف احتجاج ملتاہے، ان کی شاعری میں ہمیں، خدا کی وحدانیت، محمد مصطفیؐ سے محبت، لوگوں سے پیار اور ہمدردی کے جذبات ملتے ہیں۔بھٹائی اپنے والد کے انتقال کے بعد بھٹ چلے آئے جس کا نام بعد میں بھٹ شاہ ہو گیا جہاں پر ان کا مزار ہے۔ بھٹائی کو اس موسیقی سے لگاؤ تھا جس میں اللہ کی ثنا ہو اور وہ جب وجد میں آتے تو وہ ایسے کلام خود گایا کرتے۔ انھوں نے تمبورا ساز ایجاد کیا جو آج تک ان کے فقیر، ان کے مزار کے سامنے بجایا کرتے ہیں اور وہ کلام بھی گاتے ہیں جو بھٹائی اپنے انداز میں کہتے تھے۔
بھٹائی ایک مرتبہ کراڑ جھیل پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ہاتھ میں ان کے کہے ہوئے اشعار کی کتاب تھی ، جسے انھوں نے جھیل میں پھینک دیا جس پر ان کے چاہنے والے بڑے اداس ہوئے کہ اب کیا ہوگا۔ یہ دیکھ کر بھٹائی نے کہا جاؤ مائی نعمت کے پاس اسے میرے سارے اشعاریاد ہیں۔ جس کے بعد وہ سارے اشعار لکھے گئے جس میں کچھ شاعری دوسروں کی بھی تھی جسے گنج کہتے تھے اور اس میں سے بھٹائی کی شاعری الگ کرکے شاہ جو رسالو ترتیب دیا گیا جسے تمر فقیر کے حوالے کیا گیا کہ وہ اسے سنبھال کر رکھیں۔
بھٹائی نے عورت کو بہادری، وفاداری اور جرأت کا نشان بنا کر پیش کیا ہے جس میں انھوں نے ماضی کی سورمیوں کے نام سے ان پر اشعار کہے ہیں۔ بھٹائی کی شاعری میں لوگوں کو کہا گیا ہے کہ وہ گہری نیند سے بیدار ہوں، محنت کریں، انسانیت سے پیار کریں، اتحاد قائم کریں، اپنے وطن سے محبت کریں اور اللہ سے دعا کرتے رہے کہ وہ پوری دنیا کی ترقی اور خوشحالی کے ساتھ سندھ کو بھی آباد کرے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کا مزار 1754 میں حاکم غلام شاہ کلہوڑو نے بنوایا تھا جسے عیدن نام کے کاریگر نے بنایا تھا جو سکھر کا رہنے والا تھا۔ مزار کا مقبرہ 67 فٹ اونچا ہے، 1835 میں میر نصیر خان تالپر نے اس مزار کی مرمت کروائی تھی جب کہ میاں نور محمد کلہوڑو نے اس سے پہلے مزار کے آگے ایک شاندار کنواں کھدوایا تھا اور اس کے بعد میر محمد خان تالپر نے مزار کا داخل ہونے والا دروازہ چاندی کا لگوایا تھا۔ اس کے علاوہ بھائی خان وسان نے مقبرہ کے اوپر سونے کی نیل بنا کر لگوائی تھی جسے ایک چور نے 1940 میں چرالیا مگر وہ پکڑا گیا اور اسے جیل کے اندر بھٹائی کے عاشق نے قتل کردیا۔ بعد میں بھائی خان کے بیٹے جان محمد وسان نے دوسری سونے کی نیل بنوا کر لگادی۔
شاہ صاحب مغرب کے بعد اپنے فقیروں کو جمع کرکے فکر الٰہی کا ذکر کیا کرتے تھے۔ 1960 میں جب سارے مزاروں کا کنٹرول حکومت نے لے لیا اس میں بھٹائی کے مزار کو بھی محکمہ اوقاف والے سنبھالنے لگے۔ 1990 میں سندھ حکومت نے بھٹائی کے مزار کو قومی Heritage قرار دے کر اسے تاریخی جگہ بنالیا۔ ہر سال 14 صفر کو بھٹائی کا سالانہ عرس منعقد ہوتا ہے جس میں پورے پاکستان کے علاوہ ہندوستان اور دوسرے ممالک سے زائرین شریک ہوتے ہیں۔ اس عرس کا افتتاح گورنر سندھ کرتے ہیں اور اختتامی تقریب میں وزیر اعلیٰ سندھ مہمان خصوصی ہوتے ہیں۔
اس تین روزہ تقریب میں ادبی کانفرنس کا انعقاد ہوتا ہے، رات کو موسیقی کے پروگرام ہوتے ہیں جس میں سندھ کے مشہور گلوکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس موقع پر ایوارڈ فنکاروں اور ادیبوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اوقاف کی طرف سے غریبوں، یتیموں اور بیواؤں میں کپڑے بھی تقسیم کیے جاتے ہیں، تین وقت لنگر کا اہتمام ہوتا ہے۔ ایک ثقافتی گاؤں قائم کیا جاتا ہے، زرعی مصنوعات کی نمائش ہوتی ہے، گھوڑے سواری اور ملھ کے مقابلے بھی ہوتے ہیں۔
بھٹائی بین الاقوامی شاعر تھے جن پر انگریز کی حکومت میں H.T Sorley نے اور کچھ سال پہلے جرمن خاتون اینی میری شمل نے پی ایچ ڈی ڈاکٹری ڈگری حاصل کی ہے۔ بھٹائی کی شاعری کا انگریزی، جرمنی، اردو کے علاوہ کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ ان کی شاعری سادہ، سہل اور عوامی ہے جسے سننے سے ایک وجد سا طاری ہو جاتا ہے۔ بھٹائی کی شاعری گانے کے لیے ہر فنکار کوشش کرتا ہے کیونکہ اسے گا کر وہ عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرلیتا ہے۔