وفاقی بجٹ برائے مالی سال 202021ء
پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے سے قبل ایک شفاف پاکستانی سیاست کی تصویر کشی کی تھی۔
وفاقی حکومت نے جمعے کو34 کھرب 37 ارب روپے خسارے پر مشتمل 71 کھرب37 ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ برائے 2020-21 پارلیمنٹ میں پیش کردیا۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں و پنشن میں سر دست کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔
البتہ نیب اور ایف آئی اے جیسے اداروں کی تنخواہوں میں بھاری اضافہ کی تجویز دی گئی اور ان کی ملازمتوں کو ریگولرائز بھی کیا جائے گا، وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آمدن کا مجموعی تخمینہ63 کھرب14ارب روپے رکھا گیا ہے، محاصل سے آمدن کا تخمینہ36 کھرب99 ارب50 کروڑ روپے ہے، مجموعی اخراجات کا تخمینہ71 کھرب37 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
بجٹ میں پنشن کے لیے چار کھرب75 ارب روپے کے فنڈز مختص کرنے کی تجویز ہے جب کہ وفاقی وزارتوں اور محکموں کے لیے چار کھرب95 ارب روپے کا بجٹ مختص کیے جانے کا امکان ہے، وفاق سبسڈی پر دو کھرب 60 ارب روپے خرچ کرسکتا ہے، گرانٹس کی مد میں8 کھرب 20 ارب روپے جاری ہو سکتے ہیں۔
قبل ازیں وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوا جس میں بجٹ تجاویز کی منظوری دی گئی، مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے بجٹ پر بریفنگ دی، مشیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے آیندہ مالی سال کے بجٹ میں غریب عوام اور تعمیرات کی صنعت کو ریلیف فراہم کیا ہے جب کہ 2900 ارب روپے کے قرضوں کی ادائیگی کی جائے گی، جو حکومت نے گزشتہ سال لیے، انھوں نے کہا کہ اگر مستقبل قریب میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوئی تو لیوی ڈیوٹی میں کمی کی جائے گی۔
اپوزیشن جماعتوں نے بجٹ کو یکسر مسترد کردیا، وفاقی وزیر کی تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان نے مخالفانہ بینر اور پلے کارڈ لہرا دیے، وقفے وقفے سے ایوان ''آٹا چینی چور کی سرکار نہیں چلے گی، ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ مکان کہاں ہیں، پٹرول کی قلت، مزدوروں کا قتل نا منظور، کیسے چلے گا پاکستان چھن گئی روٹی کپڑا اور مکان'' سمیت دیگر نعروں سے گونجتا رہا، اپوزیشن نے بعدازاں ایوان سے واک آؤٹ بھی کیا۔ تاجر برادری اور رہنماؤں کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا، ان کا کہنا تھا کہ کسٹم ڈیوٹی میں کمی اچھا فیصلہ ہے مگر بیروزگاری کے خاتمہ کے لیے بجٹ خاموش ہے جب کہ فری بجٹ کے لیے تاجروں کے مطالبات نہیں مانے گئے، چھوٹے تاجروں کو ریلیف نہیں دیا گیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپوزیشن ارکان کو ایوان کا تقدس برقرار رکھنے کے لیے بار بار انتباہ کیا، شہباز شریف نے کہا کہ بجٹ سے ملک کی معاشی سانسیں رک جائیں گی،بلاول بھٹو نے کہا کہ سب سے بڑے خسارے کا بجٹ پیش کیا گیا، سینیٹر شبلی فراز کے مطابق عمران خان نے عوام کی ہمدردی کا آئینہ دار بجٹ پیش کردیا۔ سرکاری ملازمین کا کہنا تھا کہ بجٹ میں مہنگائی کا ذکر عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔
حماد اظہر نے کہا کہ آیندہ مالی سال کے لیے ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف کم کرکے 3900 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، لاہور، وفاق اور کراچی کے اسپتالوں کے لیے 13 ارب مختص کیے گئے، زراعت ریلیف میں 10 ارب مختص کیے گئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بجلی کا ترسیلی نظام بہتر بنانے کے لیے 80 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جب کہ موسمیاتی تبدیلی کے لیے6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
حماد اظہر نے بتایا کہ کورونا وائرس کے تدارک کے لیے12 سو ارب روپے سے زائد کے پیکیج کی منظوری دی گئی ہے، مجموعی طور پر کورونا وائرس کے حوالے سے 875 ارب روپے کی رقم رکھی گئی، طبی آلات کی خریداری کے لیے71 ارب، غریب خاندانوں کے لیے 150ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
اسٹیشنری، پولیسٹر یارن، انرجی ڈرنکس، سگریٹس اور ڈبل کیبن گاڑیوں سمیت پانچ سو کے لگ بھگ اشیاء مہنگی کر دی گئی ہیں اور انھیں تعیشات یعنی مہنگی ہونے کا نام دیا گیا جب کہ سیمنٹ اور بڑے پیمانے پر صنعتی خام مال سمیت مجموعی طور پر دو ہزار سے زائد اشیاء پر ڈیوٹی و ٹیکسوں میں 45 ارب روپے کا ریلیف دیا گیا ہے۔
انرجی ڈرنکس پر ایکسائز ڈیوٹی 13 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کر دی گئی ہے، الیکٹرانک سگریٹس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے، درآمدی سگریٹ، بیڑی اور سگار میں ایف ای ڈی میں اضافہ کیا گیا ہے۔
وفاقی بجٹ میں آٹو رکشا، موٹر سائیکل رکشہ اور 200 سی سی تک کی موٹر سائیکلوں پر ایڈوانس ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے تاہم ڈبل کیبن گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔ جب کہ بجٹ میں مقامی سطح پر تیار کردہ موبائل فون پر ٹیکس کم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
بجٹ میں حکومت نے بھاری فیسیں وصول کرنے والے تعلیمی اداروں پر 100فیصد سے زائد ٹیکس عائد کردیا۔ 2 لاکھ روپے سے زائد سالانہ فیس وصول کرنے والے تعلیمی اداروں کو 100فیصد زائد ٹیکس دینا پڑے گا۔ جب کہ تاجروں کے لیے شناختی کارڈ کے بغیر خرید و فروخت کی حد50 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے کردی گئی ہے۔ حماد اظہر نے بتایا کہ دفاع کے شعبے کے لیے12 کھرب89 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
بجٹ دستاویز کے مطابق اگلے سال صوبوں کو مجموعی طور پر2 ہزار874 ارب روپے منتقل کیے جانے کا تخمینہ ہے، قابل تقسیم محصولات میں سے پنجاب کو ایک ہزار439 ارب روپے، سندھ کو 742 ارب روپے، خیبرپختونخوا کو 478 ارب روپے، بلوچستان کو265 ارب روپے دیے جانے کا تخمینہ ہے۔ گلگت بلتستان کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے25 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ حماد اظہر نے مزید کہا کہ رواں مالی سال ایف بی آر کے لیے 100ارب روپے مختص تھے، کسانوں کو50 ارب کی رقم دی گئی۔
عوام کے لیے بجٹ ایک حکومتی آئینہ جب کہ معاشی مبصرین اور اپوزیشن کے لیے حکومت کی گزشتہ سال کی اقتصادی پیش رفت یا ناکامیوں کا نوشتہ دیوار جیسا اشاریہ ہے۔ عوام کے لاشعور میں حکومتی دعوے اور وعدے بجٹ دستاویزات میں سمٹ کر آتے ہیں لیکن ان کی حقیقت عوام اپنی زندگیوں پر پڑنے والے مثبت اثرات کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں، وزرا تو سال بھر ٹی وی ٹاکس اور وزیراعظم بنی گالا میں اجلاسوں میں ملک کی تقدیر بدلنے کے فیصلے کرتے رہے، ان کی نیت اور مستقبل کے خوابوں کی صداقت پر کسی کو شک نہیں لیکن ملک کے22 کروڑ عوام ایک بنیادی سوال پر ثابت قدمی سے کھڑے ہیں کہ عمران خان نے قوم سے جو بت شکن وعدے کیے تھے وہ کیا ہوئے؟
مثلاً ایک کروڑ نوکریوں کی خوشخبری،50 لاکھ مکانات کی تعمیر، ڈالروں کی آمد، غیر ملکی سرمایہ کاری کی بارش، کرپشن کا خاتمہ، غربت و افلاس میں کمی، مہنگائی کی روک تھام، تعلیم وصحت کے شعبے میں وزیراعظم کے درجنوں بیانات کی گونج سب کو سنائی دیتی رہی ہے، عملی طور پر دنیا بھی ایک منفرد پاکستان کی منتظر ہے، پاکستان کی ہمہ گیر اقتصادی ترقی اور عوام کی خوشحالی کا ہدف کورونا کی آمد سے پہلے کا ٹارگٹ تھا۔
پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے سے قبل ایک شفاف پاکستانی سیاست کی تصویر کشی کی تھی۔ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں بقول وزیر اعظم عمران کے اپنی باریاں پوری کرچکی تھیں، ان پر ہر قسم کے الزامات لگائے گئے، ان الزامات کا گھناؤنا چکر آج بھی چل رہا ہے اور عوام ایک بند گلی میں پہنچ گئے جہاں کورونا نے ان کے سارے خواب چکنا چور کردیے ہیں۔
بجٹ تقریر کے آغاز پر حماد اظہر نے ایوان کو بتایا کہ 2018 میں ہماری حکومت جب آئی تو ایک معاشی بحران ورثے میں ملا، اس وقت ملکی قرض 5 سال میں دوگنا ہوکر 31ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا تھا، جس پر سود کی رقم کی ادائیگی ناقابل برداشت ہوچکی تھی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب روپے جب کہ تجارتی خسارہ 32 ارب روپے کی حد تک پہنچ چکا تھا اور برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا جب کہ ڈالر کو مصنوعی طریقے سے مستحکم رکھا گیا تھا جس سے برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہوا۔
اسٹیٹ بینک کے ذخائر 18 ارب ڈالر سے کم ہوکر 10ارب ڈالر رہ گئے تھے جس کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب آگیا تھا۔ بجلی کا گردشی قرضہ 1200 ارب روپے کی انتہائی حد تک جا پہنچا تھا۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کردیا گیا تھا۔ ترسیلات زر اور برآمدات بری طرح متاثر ہوئیں اور بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا۔ لیکن کہانی کا یہ ایک سرکاری رخ تھا۔ عوام دوسرا رخ بھی دیکھنا چاہتے ہونگے۔
حقیقت میں قومی بجٹ پیش کرنے کی بس ایک مالیاتی رسم تھی جو پوری کی گئی۔ ملکی معیشت کو جو اضافی صدمے کورونا وائرس کی شکل میں اٹھانے پڑے ان کی داستان دراز بھی ہے اور دلگداز بھی، تاہم گزشتہ برس کے دورانیے میں حکومت نے معاشی سمت سازی میں جس جمود، قوت فیصلہ کے فقدان، بے تدبیری اور سیاسی مہم جوئی کے مظاہرے کیے معاشی مبصرین نے ان کو تضیع اوقات کہا، اس بار بھی بجٹ انقلاب انگیز، گیم چینجر اور سمت کشا نہیں دکھائی دیتا، وہی اعداد وشمار کا روایتی گورکھ دھندا جو آئی ایم ایف کی نظر کرم میں تو رہا مگر عوام کے لائف اسٹائل میں جب تک کسی بریک تھرو کی نوید نہیں دے گا اس کا ہم وطنوں کو رنج ہی رہے گا۔
مہنگائی، بیروزگاری، غربت میں کمی، زندگی کے تحفظ اور ایک درخشندہ اور بیش بہا امکانات سے معمور پاکستان کا خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا، اس کا قوم کو انتظار رہیگا، حکومت کو کورونا کے جبر مسلسل کا علاج ہر قیمت پر ڈھونڈنا ہوگا اور جولائی و اگست تک ہیلتھ سسٹم کو درپیش ہولناک حقائق کا سامنا کرنے کے لیے اسے تیار رہنا چاہیے۔ عوام اب نہیں تو کبھی نہیںNow or Never) (کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔
البتہ نیب اور ایف آئی اے جیسے اداروں کی تنخواہوں میں بھاری اضافہ کی تجویز دی گئی اور ان کی ملازمتوں کو ریگولرائز بھی کیا جائے گا، وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آمدن کا مجموعی تخمینہ63 کھرب14ارب روپے رکھا گیا ہے، محاصل سے آمدن کا تخمینہ36 کھرب99 ارب50 کروڑ روپے ہے، مجموعی اخراجات کا تخمینہ71 کھرب37 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
بجٹ میں پنشن کے لیے چار کھرب75 ارب روپے کے فنڈز مختص کرنے کی تجویز ہے جب کہ وفاقی وزارتوں اور محکموں کے لیے چار کھرب95 ارب روپے کا بجٹ مختص کیے جانے کا امکان ہے، وفاق سبسڈی پر دو کھرب 60 ارب روپے خرچ کرسکتا ہے، گرانٹس کی مد میں8 کھرب 20 ارب روپے جاری ہو سکتے ہیں۔
قبل ازیں وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوا جس میں بجٹ تجاویز کی منظوری دی گئی، مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے بجٹ پر بریفنگ دی، مشیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے آیندہ مالی سال کے بجٹ میں غریب عوام اور تعمیرات کی صنعت کو ریلیف فراہم کیا ہے جب کہ 2900 ارب روپے کے قرضوں کی ادائیگی کی جائے گی، جو حکومت نے گزشتہ سال لیے، انھوں نے کہا کہ اگر مستقبل قریب میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوئی تو لیوی ڈیوٹی میں کمی کی جائے گی۔
اپوزیشن جماعتوں نے بجٹ کو یکسر مسترد کردیا، وفاقی وزیر کی تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان نے مخالفانہ بینر اور پلے کارڈ لہرا دیے، وقفے وقفے سے ایوان ''آٹا چینی چور کی سرکار نہیں چلے گی، ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ مکان کہاں ہیں، پٹرول کی قلت، مزدوروں کا قتل نا منظور، کیسے چلے گا پاکستان چھن گئی روٹی کپڑا اور مکان'' سمیت دیگر نعروں سے گونجتا رہا، اپوزیشن نے بعدازاں ایوان سے واک آؤٹ بھی کیا۔ تاجر برادری اور رہنماؤں کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا، ان کا کہنا تھا کہ کسٹم ڈیوٹی میں کمی اچھا فیصلہ ہے مگر بیروزگاری کے خاتمہ کے لیے بجٹ خاموش ہے جب کہ فری بجٹ کے لیے تاجروں کے مطالبات نہیں مانے گئے، چھوٹے تاجروں کو ریلیف نہیں دیا گیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپوزیشن ارکان کو ایوان کا تقدس برقرار رکھنے کے لیے بار بار انتباہ کیا، شہباز شریف نے کہا کہ بجٹ سے ملک کی معاشی سانسیں رک جائیں گی،بلاول بھٹو نے کہا کہ سب سے بڑے خسارے کا بجٹ پیش کیا گیا، سینیٹر شبلی فراز کے مطابق عمران خان نے عوام کی ہمدردی کا آئینہ دار بجٹ پیش کردیا۔ سرکاری ملازمین کا کہنا تھا کہ بجٹ میں مہنگائی کا ذکر عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔
حماد اظہر نے کہا کہ آیندہ مالی سال کے لیے ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف کم کرکے 3900 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، لاہور، وفاق اور کراچی کے اسپتالوں کے لیے 13 ارب مختص کیے گئے، زراعت ریلیف میں 10 ارب مختص کیے گئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بجلی کا ترسیلی نظام بہتر بنانے کے لیے 80 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جب کہ موسمیاتی تبدیلی کے لیے6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
حماد اظہر نے بتایا کہ کورونا وائرس کے تدارک کے لیے12 سو ارب روپے سے زائد کے پیکیج کی منظوری دی گئی ہے، مجموعی طور پر کورونا وائرس کے حوالے سے 875 ارب روپے کی رقم رکھی گئی، طبی آلات کی خریداری کے لیے71 ارب، غریب خاندانوں کے لیے 150ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
اسٹیشنری، پولیسٹر یارن، انرجی ڈرنکس، سگریٹس اور ڈبل کیبن گاڑیوں سمیت پانچ سو کے لگ بھگ اشیاء مہنگی کر دی گئی ہیں اور انھیں تعیشات یعنی مہنگی ہونے کا نام دیا گیا جب کہ سیمنٹ اور بڑے پیمانے پر صنعتی خام مال سمیت مجموعی طور پر دو ہزار سے زائد اشیاء پر ڈیوٹی و ٹیکسوں میں 45 ارب روپے کا ریلیف دیا گیا ہے۔
انرجی ڈرنکس پر ایکسائز ڈیوٹی 13 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کر دی گئی ہے، الیکٹرانک سگریٹس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے، درآمدی سگریٹ، بیڑی اور سگار میں ایف ای ڈی میں اضافہ کیا گیا ہے۔
وفاقی بجٹ میں آٹو رکشا، موٹر سائیکل رکشہ اور 200 سی سی تک کی موٹر سائیکلوں پر ایڈوانس ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے تاہم ڈبل کیبن گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔ جب کہ بجٹ میں مقامی سطح پر تیار کردہ موبائل فون پر ٹیکس کم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
بجٹ میں حکومت نے بھاری فیسیں وصول کرنے والے تعلیمی اداروں پر 100فیصد سے زائد ٹیکس عائد کردیا۔ 2 لاکھ روپے سے زائد سالانہ فیس وصول کرنے والے تعلیمی اداروں کو 100فیصد زائد ٹیکس دینا پڑے گا۔ جب کہ تاجروں کے لیے شناختی کارڈ کے بغیر خرید و فروخت کی حد50 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے کردی گئی ہے۔ حماد اظہر نے بتایا کہ دفاع کے شعبے کے لیے12 کھرب89 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
بجٹ دستاویز کے مطابق اگلے سال صوبوں کو مجموعی طور پر2 ہزار874 ارب روپے منتقل کیے جانے کا تخمینہ ہے، قابل تقسیم محصولات میں سے پنجاب کو ایک ہزار439 ارب روپے، سندھ کو 742 ارب روپے، خیبرپختونخوا کو 478 ارب روپے، بلوچستان کو265 ارب روپے دیے جانے کا تخمینہ ہے۔ گلگت بلتستان کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے25 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ حماد اظہر نے مزید کہا کہ رواں مالی سال ایف بی آر کے لیے 100ارب روپے مختص تھے، کسانوں کو50 ارب کی رقم دی گئی۔
عوام کے لیے بجٹ ایک حکومتی آئینہ جب کہ معاشی مبصرین اور اپوزیشن کے لیے حکومت کی گزشتہ سال کی اقتصادی پیش رفت یا ناکامیوں کا نوشتہ دیوار جیسا اشاریہ ہے۔ عوام کے لاشعور میں حکومتی دعوے اور وعدے بجٹ دستاویزات میں سمٹ کر آتے ہیں لیکن ان کی حقیقت عوام اپنی زندگیوں پر پڑنے والے مثبت اثرات کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں، وزرا تو سال بھر ٹی وی ٹاکس اور وزیراعظم بنی گالا میں اجلاسوں میں ملک کی تقدیر بدلنے کے فیصلے کرتے رہے، ان کی نیت اور مستقبل کے خوابوں کی صداقت پر کسی کو شک نہیں لیکن ملک کے22 کروڑ عوام ایک بنیادی سوال پر ثابت قدمی سے کھڑے ہیں کہ عمران خان نے قوم سے جو بت شکن وعدے کیے تھے وہ کیا ہوئے؟
مثلاً ایک کروڑ نوکریوں کی خوشخبری،50 لاکھ مکانات کی تعمیر، ڈالروں کی آمد، غیر ملکی سرمایہ کاری کی بارش، کرپشن کا خاتمہ، غربت و افلاس میں کمی، مہنگائی کی روک تھام، تعلیم وصحت کے شعبے میں وزیراعظم کے درجنوں بیانات کی گونج سب کو سنائی دیتی رہی ہے، عملی طور پر دنیا بھی ایک منفرد پاکستان کی منتظر ہے، پاکستان کی ہمہ گیر اقتصادی ترقی اور عوام کی خوشحالی کا ہدف کورونا کی آمد سے پہلے کا ٹارگٹ تھا۔
پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے سے قبل ایک شفاف پاکستانی سیاست کی تصویر کشی کی تھی۔ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں بقول وزیر اعظم عمران کے اپنی باریاں پوری کرچکی تھیں، ان پر ہر قسم کے الزامات لگائے گئے، ان الزامات کا گھناؤنا چکر آج بھی چل رہا ہے اور عوام ایک بند گلی میں پہنچ گئے جہاں کورونا نے ان کے سارے خواب چکنا چور کردیے ہیں۔
بجٹ تقریر کے آغاز پر حماد اظہر نے ایوان کو بتایا کہ 2018 میں ہماری حکومت جب آئی تو ایک معاشی بحران ورثے میں ملا، اس وقت ملکی قرض 5 سال میں دوگنا ہوکر 31ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا تھا، جس پر سود کی رقم کی ادائیگی ناقابل برداشت ہوچکی تھی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب روپے جب کہ تجارتی خسارہ 32 ارب روپے کی حد تک پہنچ چکا تھا اور برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا جب کہ ڈالر کو مصنوعی طریقے سے مستحکم رکھا گیا تھا جس سے برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہوا۔
اسٹیٹ بینک کے ذخائر 18 ارب ڈالر سے کم ہوکر 10ارب ڈالر رہ گئے تھے جس کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب آگیا تھا۔ بجلی کا گردشی قرضہ 1200 ارب روپے کی انتہائی حد تک جا پہنچا تھا۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کردیا گیا تھا۔ ترسیلات زر اور برآمدات بری طرح متاثر ہوئیں اور بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا۔ لیکن کہانی کا یہ ایک سرکاری رخ تھا۔ عوام دوسرا رخ بھی دیکھنا چاہتے ہونگے۔
حقیقت میں قومی بجٹ پیش کرنے کی بس ایک مالیاتی رسم تھی جو پوری کی گئی۔ ملکی معیشت کو جو اضافی صدمے کورونا وائرس کی شکل میں اٹھانے پڑے ان کی داستان دراز بھی ہے اور دلگداز بھی، تاہم گزشتہ برس کے دورانیے میں حکومت نے معاشی سمت سازی میں جس جمود، قوت فیصلہ کے فقدان، بے تدبیری اور سیاسی مہم جوئی کے مظاہرے کیے معاشی مبصرین نے ان کو تضیع اوقات کہا، اس بار بھی بجٹ انقلاب انگیز، گیم چینجر اور سمت کشا نہیں دکھائی دیتا، وہی اعداد وشمار کا روایتی گورکھ دھندا جو آئی ایم ایف کی نظر کرم میں تو رہا مگر عوام کے لائف اسٹائل میں جب تک کسی بریک تھرو کی نوید نہیں دے گا اس کا ہم وطنوں کو رنج ہی رہے گا۔
مہنگائی، بیروزگاری، غربت میں کمی، زندگی کے تحفظ اور ایک درخشندہ اور بیش بہا امکانات سے معمور پاکستان کا خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا، اس کا قوم کو انتظار رہیگا، حکومت کو کورونا کے جبر مسلسل کا علاج ہر قیمت پر ڈھونڈنا ہوگا اور جولائی و اگست تک ہیلتھ سسٹم کو درپیش ہولناک حقائق کا سامنا کرنے کے لیے اسے تیار رہنا چاہیے۔ عوام اب نہیں تو کبھی نہیںNow or Never) (کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔