ہیٹی کے صدر ٹرمپ سے زیادہ دانش مند
دنیا میں ایسی بھی دانشمند حکومتیں تھیں جنھوں نے اس وبا کے خلاف فوری ردعمل دیا یاجنھوں نے زیادہ تاخیرکامظاہرہ نہیں کیا۔
ان دنوں پاکستان مکمل طور پرکورونا وائرس کے چنگل میں پھنس چکا ہے۔ بہت سے لوگوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ اب اس بات کا فیصلہ ہم نہیں کریں گے کہ کورونا کو اپنے ملک سے کب تک ختم کرنا ہے بلکہ یہ فیصلہ کورونا وائرس خود کرے گا کہ اسے یہاں سے کب جانا ہے اور جاتے ہوئے ہماری کوتاہیوں کا کتنا جانی اور مالی تاوان وصول کرنا ہے۔ یہ مایوسی پھیلانے والی بات نہیں، جب تک ہم حقیقت تسلیم نہیں کریں گے اس وقت تک کوئی قابل عمل لائحہ عمل بھی اختیار نہیں کرسکیں گے۔
عالمی ادارہ صحت نے پنجاب حکومت کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کورونا کے پھیلائو کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مناسب وقت پر مؤثر انداز میں لاک ڈائون نہیں کیا گیا اور ان چھ شرائط کو پورا کیے بغیر لاک ڈائون کھول دیا گیا، جن پر عمل درآمدکو ہر قیمت پریقینی بنایا جانا چاہیے تھا۔ عالمی ادارہ صحت نے یہ مشورہ دیا کہ پاکستان میں حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لیے دو ہفتوں کا سخت لاک ڈائون اور اس کے بعد نسبتاً دو ہفتوں کے لیے نرم روش اختیارکی جائے جب تک کورونا وائرس پر قابو نہیں پایا جاتا۔
پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد نے عالمی ادارہ صحت کے تجزیے سے اتفاق کیا ہے اور عندیہ دیا ہے کہ مستقبل میں اس کے مشورے پر عمل کیا جاسکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ وفاقی حکومت عالمی ادارہ صحت کی تجویز فوری طور پر ماننے پر آمادہ نہیں ہے۔ ہماری حکومت کے لیے عالمی ادارے صحت کے مشوروں سے انحراف کرنا اتنا آسان ثابت نہیں ہوگا کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں عالمی سطح پر حکومت کی ساکھ سخت متاثر ہوگی اور اس کی اہلیت پرکئی سوال اٹھ کھڑے ہوں گے۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے سب سے خطرناک یہ بات کہی گئی ہے کہ پاکستان دنیا کے ان 10 سرفہرست ملکوں میں شامل ہوگیا ہے جہاں یہ وبا بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ پاکستان ایشیا اور بحرالکاہل کے ان چھ ملکوں میں شامل ہوچکا ہے جہاں یہ وبا بے قابو ہوتی جارہی ہے۔
کورونا وبا نے پاکستان کوجس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اس کے بعد اب یہ بہت ضروری ہوگیا ہے کہ حکومت فوری طور پر اپنی حکمت عملی پرنظر ثانی کرے اور اس وبا کو مزید بھیانک شکل اختیار نہ کرنے دے۔ وقت ضایع کیے بغیر اسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے لیے زیادہ سے زیادہ گنجائش پیدا کی جائے اور ڈاکٹروں پر پڑنے والے دبائوکو ختم کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔
اسپتالوں میں ڈاکٹر اور طبی عملہ جس تیزی سے اس وائرس میں مبتلا ہو رہا ہے اور اپنی جانیں گنوا رہا ہے اس کے بعد یہ خطرہ پیدا نہ ہوجائے کہ اسپتال، بیڈ اور وینٹی لیٹر تو شاید موجود ہوں لیکن کورونا مریضوں کا علاج اور ان کی دیکھ بھال کرنے کے لیے ڈاکٹر، نرسیں اور دیگر متعلقہ طبی عملہ موجود نہ ہو یا اس کی تعداد ضرورت کے مقابلے میں کہیں ناکافی ہو۔اس نوعیت کی صورت اگر پیدا ہوجاتی ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا نتیجہ کس قدر ہولناک ہوگا۔ اس وقت کسی بحث میں پڑے بغیرہنگامی اقدامات کی ضرورت ناگزیر ہوچکی ہے تاکہ لوگوں کو علاج فراہم کیا جائے اور انھیں موت کے منہ میں جانے سے ہر صورت پر بچایا جائے۔
کورونا کی عالمی وبا دنیا کے ہر ملک پر حملہ آور ہوئی ہے اور ہر ملک کی حکومت نے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے دو میں سے ایک حکمت عملی کا انتخاب کیا ہے۔ امریکا، اٹلی، فرانس، برطانیہ، اسپین، سویڈن اور ہالینڈ سمیت بہت سے ملک ایسے ہیں جن کی حکومتوں نے سخت فیصلہ کرنے میں تذبذب کا مظاہرہ کیا۔ تاہم، تجربے سے ثابت ہوا کہ ان ملکوں کو تاخیرکی قیمت ادا کرنی پڑی۔ یہ رویہ اختیار کرنے والے ملکوں نے اس وبا کی سنگینی سے انکار نہیں کیا تھا بلکہ اس کے پھیلائو کو روکنے کے لیے بروقت اقدامات کرنے میں تاخیرکی تھی لیکن جب صورتحال بے قابوہوگئی تو ان ملکوں نے سخت لاک ڈائون کیا اور بالآخر اس وبا کو مزید پھیلنے سے روک دیا۔
امریکا اور یورپ کے وہ تمام ملک جنھوں نے اپنی معیشت بچانے کے چکر میں لاک ڈائون کرنے سے گریزکیا انھیں بھاری مالی اور جانی قیمت ادا کرنے کے بعد سخت لاک ڈائون کی حکمت عملی اختیار کرنی پڑی جوکامیاب اورکارگر ثابت ہوئی ۔ یہ ملک اب اس وبا سے کافی حد تک باہر نکل آئے ہیں اور وہاں معمول کی سرگرمیاں بھی رفتہ رفتہ بحال ہورہی ہیں۔
دنیا میں کچھ حکومتیں ایسی بھی ہیں جنھوں نے اس مہلک وباء کی سنگینی کو زیادہ اہمیت نہیں دی بلکہ بعض حکومتوںنے تو اس کا مذاق تک اڑایا۔ اس طرح کی حکومتوں میں برازیل سرفہرست ہے جس نے امریکا سے کچھ نہیں سیکھا جس کے نتیجے میں اب تک وہاں مریضوں کی تعداد 7 لاکھ سے تجاوزکرچکی ہے اور تقریباً 40 ہزار لوگ اس وبا کے ہاتھوں زندگی سے محروم ہوچکے ہیں۔ اب ہم آتے ہیں روس کی طرف جس کے سامنے ان یورپی ملکوں کی مثال تھی جہاں یہ وبا تیزی سے بے قابو ہو رہی تھی۔
روس کی حکومت نے اس وائرس کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور اس کا بھاری تاوان ادا کیا۔ اس وبا سے روس میں تقریباً 5 لاکھ افراد بیمار اور 6 ہزار سے زیادہ ہلاک ہوچکے ہیں۔ ترکی کا شمار بھی اسی طرح کے ملکوں میں کیا جاسکتا ہے جہاں کورونا کے معاملے کوکافی حد تک غیرسنجیدگی سے لیا گیا تھا، یہاں بھی پونے دو لاکھ لوگ اس بیماری سے متاثر اور تقریباً 5 ہزار افراد اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
دنیا میں ایسی بھی دانش مند حکومتیں تھیں جنھوں نے اس وبا کے خلاف فوری ردعمل دیا یا جنھوں نے زیادہ تاخیر کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہ وہ حکومتیں ہیں جنھوں نے شہریوں کی زندگی بچانے کو اپنی اولین ترجیح سمجھا۔ ان کی حکمت عملی یہ تھی کہ اس وبا کے پھیلائو کو وقت ضایع کیے بغیر فوراً روکا جائے تاکہ انسانی زندگی اور معیشت دونوں زیادہ نقصان سے محفوظ رہیں۔ یورپ میں اس حوالے سے جرمنی اور آسٹریا نمایاں ہیں جنھوں نے لاک ڈائون کے ذریعے اس بیماری کے پھیلائوکو روک دیا۔
بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں بہت سے غریب اور ترقی پذیر ملکوں کی حکومتوں نے زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کیا۔ اس کی ایک مثال جزائر غرب الہند کے ملک ہیٹی کی ہے جو امریکا کے بہت قریب واقع ہے۔ ایک کروڑ سے زیادہ آبادی والے اس غریب ملک کی حکومت نے کورونا کے پہلے مریض کی تصدیق ہوتے ہی ملک میں گیر سخت لاک ڈائون نافذ کر دیا جب کہ امریکاکی حکومت نے کورونا سے ہونے والی پہلی ہلاکت کے دو ہفتے بعد، لوگوں کو گھروں سے باہر نہ نکلنے کے احکامات صادر کیے۔
یہاں یہ کہنا نامناسب نہ ہوگا کہ ہیٹی کے صدر جووینل موئس صدرٹرمپ سے زیادہ دانش مند اور ذمے دار ثابت ہوئے۔ غریب ملکوں کی حکومتوں کو معلوم تھا کہ ان کے مالی وسائل انتہائی محدود ہیں اور یہ وبا پھیل گئی تو وہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکیں گی۔ لہٰذا عقل سلیم کا تقاضہ یہی ہے کہ لاک ڈائون اور سخت گیر اقدامات کے ذریعے اپنے غریب عوام اور پسماندہ معیشت کو بچالیا جائے۔ جن ترقی یافتہ یا نیم ترقی یافتہ ملکوں نے اس وبا کے خلاف فوری اقدامات کیے وہ آج جان ومال کی بھاری قیمت ادا کیے بغیر خودکوکورونا وائرس سے تقریباً محفوظ کرچکے ہیں۔
ان ملکوں میں چین، کوریا، ہانگ کانگ، جاپان، تھائی لینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، کمبوڈیا، بھوٹان، بہاماس، البانیہ، بوسنیا، کمبوڈیا جیسے ایک نہیں درجنوں ملک شامل ہیں۔ ان ملکوں کی حکومتیں تذبذب، نیم دلی اورگھبراہٹ کا شکارنہیں ہوئیں بلکہ انھوں نے مکمل عزم و اعتماد کے ساتھ اپنے شہریوں کو بچانے کی حکمت عملی اپنائی اور اپنے شہریوں اور معیشتوں دونوں کو بچانے میں کامیاب ہوگئیں۔
ہم نے نہ جانے کیوں ایک ایسی حکمت عملی اختیارکی جس کی وجہ سے ہمارا ملک کورونا وائرس کے پھیلائوکے حوالے سے دنیا کا خطرناک ترین ملک بن گیا اور عالمی درجہ بندی میں ہمارا درجہ 148 جب کہ بنگلہ دیش 84 اور ہندوستان 56درجے پر ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ماضی کو بھول کر آگے بڑھا جائے اور قومی اتفاق رائے پیدا کرکے سخت لاک ڈائون کی حکمت عملی کے ذریعے اس وبا کو شکست دی جائے اور عوام اور معیشت دونوں کو بچا لیا جائے، ہمیں بھی امریکا کے بجائے ہیٹی کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔
عالمی ادارہ صحت نے پنجاب حکومت کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کورونا کے پھیلائو کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مناسب وقت پر مؤثر انداز میں لاک ڈائون نہیں کیا گیا اور ان چھ شرائط کو پورا کیے بغیر لاک ڈائون کھول دیا گیا، جن پر عمل درآمدکو ہر قیمت پریقینی بنایا جانا چاہیے تھا۔ عالمی ادارہ صحت نے یہ مشورہ دیا کہ پاکستان میں حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لیے دو ہفتوں کا سخت لاک ڈائون اور اس کے بعد نسبتاً دو ہفتوں کے لیے نرم روش اختیارکی جائے جب تک کورونا وائرس پر قابو نہیں پایا جاتا۔
پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد نے عالمی ادارہ صحت کے تجزیے سے اتفاق کیا ہے اور عندیہ دیا ہے کہ مستقبل میں اس کے مشورے پر عمل کیا جاسکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ وفاقی حکومت عالمی ادارہ صحت کی تجویز فوری طور پر ماننے پر آمادہ نہیں ہے۔ ہماری حکومت کے لیے عالمی ادارے صحت کے مشوروں سے انحراف کرنا اتنا آسان ثابت نہیں ہوگا کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں عالمی سطح پر حکومت کی ساکھ سخت متاثر ہوگی اور اس کی اہلیت پرکئی سوال اٹھ کھڑے ہوں گے۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے سب سے خطرناک یہ بات کہی گئی ہے کہ پاکستان دنیا کے ان 10 سرفہرست ملکوں میں شامل ہوگیا ہے جہاں یہ وبا بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ پاکستان ایشیا اور بحرالکاہل کے ان چھ ملکوں میں شامل ہوچکا ہے جہاں یہ وبا بے قابو ہوتی جارہی ہے۔
کورونا وبا نے پاکستان کوجس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اس کے بعد اب یہ بہت ضروری ہوگیا ہے کہ حکومت فوری طور پر اپنی حکمت عملی پرنظر ثانی کرے اور اس وبا کو مزید بھیانک شکل اختیار نہ کرنے دے۔ وقت ضایع کیے بغیر اسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے لیے زیادہ سے زیادہ گنجائش پیدا کی جائے اور ڈاکٹروں پر پڑنے والے دبائوکو ختم کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔
اسپتالوں میں ڈاکٹر اور طبی عملہ جس تیزی سے اس وائرس میں مبتلا ہو رہا ہے اور اپنی جانیں گنوا رہا ہے اس کے بعد یہ خطرہ پیدا نہ ہوجائے کہ اسپتال، بیڈ اور وینٹی لیٹر تو شاید موجود ہوں لیکن کورونا مریضوں کا علاج اور ان کی دیکھ بھال کرنے کے لیے ڈاکٹر، نرسیں اور دیگر متعلقہ طبی عملہ موجود نہ ہو یا اس کی تعداد ضرورت کے مقابلے میں کہیں ناکافی ہو۔اس نوعیت کی صورت اگر پیدا ہوجاتی ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا نتیجہ کس قدر ہولناک ہوگا۔ اس وقت کسی بحث میں پڑے بغیرہنگامی اقدامات کی ضرورت ناگزیر ہوچکی ہے تاکہ لوگوں کو علاج فراہم کیا جائے اور انھیں موت کے منہ میں جانے سے ہر صورت پر بچایا جائے۔
کورونا کی عالمی وبا دنیا کے ہر ملک پر حملہ آور ہوئی ہے اور ہر ملک کی حکومت نے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے دو میں سے ایک حکمت عملی کا انتخاب کیا ہے۔ امریکا، اٹلی، فرانس، برطانیہ، اسپین، سویڈن اور ہالینڈ سمیت بہت سے ملک ایسے ہیں جن کی حکومتوں نے سخت فیصلہ کرنے میں تذبذب کا مظاہرہ کیا۔ تاہم، تجربے سے ثابت ہوا کہ ان ملکوں کو تاخیرکی قیمت ادا کرنی پڑی۔ یہ رویہ اختیار کرنے والے ملکوں نے اس وبا کی سنگینی سے انکار نہیں کیا تھا بلکہ اس کے پھیلائو کو روکنے کے لیے بروقت اقدامات کرنے میں تاخیرکی تھی لیکن جب صورتحال بے قابوہوگئی تو ان ملکوں نے سخت لاک ڈائون کیا اور بالآخر اس وبا کو مزید پھیلنے سے روک دیا۔
امریکا اور یورپ کے وہ تمام ملک جنھوں نے اپنی معیشت بچانے کے چکر میں لاک ڈائون کرنے سے گریزکیا انھیں بھاری مالی اور جانی قیمت ادا کرنے کے بعد سخت لاک ڈائون کی حکمت عملی اختیار کرنی پڑی جوکامیاب اورکارگر ثابت ہوئی ۔ یہ ملک اب اس وبا سے کافی حد تک باہر نکل آئے ہیں اور وہاں معمول کی سرگرمیاں بھی رفتہ رفتہ بحال ہورہی ہیں۔
دنیا میں کچھ حکومتیں ایسی بھی ہیں جنھوں نے اس مہلک وباء کی سنگینی کو زیادہ اہمیت نہیں دی بلکہ بعض حکومتوںنے تو اس کا مذاق تک اڑایا۔ اس طرح کی حکومتوں میں برازیل سرفہرست ہے جس نے امریکا سے کچھ نہیں سیکھا جس کے نتیجے میں اب تک وہاں مریضوں کی تعداد 7 لاکھ سے تجاوزکرچکی ہے اور تقریباً 40 ہزار لوگ اس وبا کے ہاتھوں زندگی سے محروم ہوچکے ہیں۔ اب ہم آتے ہیں روس کی طرف جس کے سامنے ان یورپی ملکوں کی مثال تھی جہاں یہ وبا تیزی سے بے قابو ہو رہی تھی۔
روس کی حکومت نے اس وائرس کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور اس کا بھاری تاوان ادا کیا۔ اس وبا سے روس میں تقریباً 5 لاکھ افراد بیمار اور 6 ہزار سے زیادہ ہلاک ہوچکے ہیں۔ ترکی کا شمار بھی اسی طرح کے ملکوں میں کیا جاسکتا ہے جہاں کورونا کے معاملے کوکافی حد تک غیرسنجیدگی سے لیا گیا تھا، یہاں بھی پونے دو لاکھ لوگ اس بیماری سے متاثر اور تقریباً 5 ہزار افراد اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
دنیا میں ایسی بھی دانش مند حکومتیں تھیں جنھوں نے اس وبا کے خلاف فوری ردعمل دیا یا جنھوں نے زیادہ تاخیر کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہ وہ حکومتیں ہیں جنھوں نے شہریوں کی زندگی بچانے کو اپنی اولین ترجیح سمجھا۔ ان کی حکمت عملی یہ تھی کہ اس وبا کے پھیلائو کو وقت ضایع کیے بغیر فوراً روکا جائے تاکہ انسانی زندگی اور معیشت دونوں زیادہ نقصان سے محفوظ رہیں۔ یورپ میں اس حوالے سے جرمنی اور آسٹریا نمایاں ہیں جنھوں نے لاک ڈائون کے ذریعے اس بیماری کے پھیلائوکو روک دیا۔
بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں بہت سے غریب اور ترقی پذیر ملکوں کی حکومتوں نے زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کیا۔ اس کی ایک مثال جزائر غرب الہند کے ملک ہیٹی کی ہے جو امریکا کے بہت قریب واقع ہے۔ ایک کروڑ سے زیادہ آبادی والے اس غریب ملک کی حکومت نے کورونا کے پہلے مریض کی تصدیق ہوتے ہی ملک میں گیر سخت لاک ڈائون نافذ کر دیا جب کہ امریکاکی حکومت نے کورونا سے ہونے والی پہلی ہلاکت کے دو ہفتے بعد، لوگوں کو گھروں سے باہر نہ نکلنے کے احکامات صادر کیے۔
یہاں یہ کہنا نامناسب نہ ہوگا کہ ہیٹی کے صدر جووینل موئس صدرٹرمپ سے زیادہ دانش مند اور ذمے دار ثابت ہوئے۔ غریب ملکوں کی حکومتوں کو معلوم تھا کہ ان کے مالی وسائل انتہائی محدود ہیں اور یہ وبا پھیل گئی تو وہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکیں گی۔ لہٰذا عقل سلیم کا تقاضہ یہی ہے کہ لاک ڈائون اور سخت گیر اقدامات کے ذریعے اپنے غریب عوام اور پسماندہ معیشت کو بچالیا جائے۔ جن ترقی یافتہ یا نیم ترقی یافتہ ملکوں نے اس وبا کے خلاف فوری اقدامات کیے وہ آج جان ومال کی بھاری قیمت ادا کیے بغیر خودکوکورونا وائرس سے تقریباً محفوظ کرچکے ہیں۔
ان ملکوں میں چین، کوریا، ہانگ کانگ، جاپان، تھائی لینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، کمبوڈیا، بھوٹان، بہاماس، البانیہ، بوسنیا، کمبوڈیا جیسے ایک نہیں درجنوں ملک شامل ہیں۔ ان ملکوں کی حکومتیں تذبذب، نیم دلی اورگھبراہٹ کا شکارنہیں ہوئیں بلکہ انھوں نے مکمل عزم و اعتماد کے ساتھ اپنے شہریوں کو بچانے کی حکمت عملی اپنائی اور اپنے شہریوں اور معیشتوں دونوں کو بچانے میں کامیاب ہوگئیں۔
ہم نے نہ جانے کیوں ایک ایسی حکمت عملی اختیارکی جس کی وجہ سے ہمارا ملک کورونا وائرس کے پھیلائوکے حوالے سے دنیا کا خطرناک ترین ملک بن گیا اور عالمی درجہ بندی میں ہمارا درجہ 148 جب کہ بنگلہ دیش 84 اور ہندوستان 56درجے پر ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ماضی کو بھول کر آگے بڑھا جائے اور قومی اتفاق رائے پیدا کرکے سخت لاک ڈائون کی حکمت عملی کے ذریعے اس وبا کو شکست دی جائے اور عوام اور معیشت دونوں کو بچا لیا جائے، ہمیں بھی امریکا کے بجائے ہیٹی کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔