ٹیکسی ڈرائیور کے قتل میں ملوث رینجرز اہلکار بے گناہ قرار

4ماہ کی تاخیر سے غلام رسول کیخلاف جمع کرائے گئے چالان میں واقعے کو حادثاتی اور قتل خطا قرار دیا گیا


Staff Reporter December 08, 2013
مقتول کی بیوہ اور مدعیہ مسماۃ دعا نے 20لاکھ روپے سے زائد رقم وصول کرلی ہے،چالان میں انکشاف۔ فوٹو : ایکسپریس/فائل

پولیس کی جانب سے رینجرز اہلکاروں کو بچانے کا ایک اور واقعہ سامنے آگیا ۔

رینجرز اہلکاروں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے ٹیکسی ڈرائیور کے قتل میں ملوث 3اہلکاروں کو بیگناہ قرار دیدیاگیا، پولیس نے ایک ملزم کے خلاف چالان میں واقعے کو حادثاتی اور قتل خطا قرار دیتے ہوئے 4ماہ تک کورٹ سے باہر معاملہ طے کرنے کے بعد چالان عدالت میں جمع کرادیا، تفصیلات کے مطابق ہفتے کو ٹیکسی ڈرائیور مرید عباس قتل کیس کے مقدمے کے تفتیشی افسر انسپکٹر محمد فرید الدین نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش ہوکر4ماہ کی تاخیر سے مقدمے کا چالان جمع کرادیا، چالان میں جیل نائیک برکت علی، اہلکار وقار احمد اور قدیر عباس کو بیگناہ قرار دیکر ضابطہ فوجداری کی ایکٹ169کے تحت رہا کرنے کی استدعا کی گئی تھی جبکہ ملزم غلام رسول کے خلاف چالان میں کہاگیا ہے کہ16جولائی کو رینجر اہلکاروں نے ٹیکسی ڈرائیور کو روکنے کی کوشش کی تھی۔

لیکن اس کے نہ روکنے پر ٹیکسی کے ٹائر پر گولی ماری تھی جو حادثاتی طور پر مقتول کو لگی تھی جو کہ قتل خطا کے زمرے میں آتا ہے، 3 ملزمان کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد موصول نہیں ہوئے ہیں ، چالان میں اہم انکشاف کرتے ہوئے بتایا گیاکہ مقتول کی بیوہ اور مدعیہ مسماۃ دعا نے 20لاکھ روپے سے زائد رقم وصول کرلی ہے اور اس کے 2بچوں کی کفالت بھی کی جارہی ہے جبکہ اسے ملازمت بھی دلادی ہے گئی ہے، چالان میں مدعیہ کی جانب سے کہا گیاہے کہ وہ مقدمے کی پیروی نہیں کرنا چاہتی اور کسی بھی کورٹ میں پیش نہیں ہوگی، چالان میں 2چشم دید گواہ ایم ایل او سمیت 19گواہوں کا اندراج گیا گیا ہے، فاضل عدالت نے پولیس کی رپورٹ پر 3 اہلکاروں کو رہا کردیا اور ملزم غلام رسول کے پی او آدڑ جاری کرتے ہوئے طلب کرلیا ہے، واضح رہے کہ 16جولائی کوگلستان جوہر کے علاقے میں ٹیکسی ڈرائیور مرید عباس اپنے بیمار بیٹے کی دوا اور افطاری لینے گیا تھا جہاں اسے رینجر اہلکار غلام رسول نے دیگر اہلکاروں کی موجودگی میں فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔



مکینوں اور بیوہ کے احتجاج پر پولیس نے غلام رسول کو گرفتار کیا تھا اور جوڈیشل مجسٹریٹ سے ریمانڈ بھی حاصل کیا تھا، بعدازاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے از خود نوٹس لیا اور رینجرز کے اعلیٰ حکام کو طلب کیا تھا، 26جولائی کو اپنے فیصلے میں ملزمان کی فوری گرفتاری اور مقدمہ انسداد دہشت گردی کی ایکٹ کے تحت درج کرنے کا حکم دیا تھا، رینجر حکام نے بیگناہ قرار دیے جانے والے مذکورہ اہلکاروں کو بھی پولیس کے حوالے کردیا تھا، پولیس نے دوران تفتیش دو چشم دید گواہوں کا بیان اور شناخت پریڈ بھی کرائی تھی، فاضل عدالت نے ملزمان کو27جولائی کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا اور31جولائی کو ملزمان کے خلاف چالان جمع کرانے کا حکم دیا تھا، پولیس اعلیٰ حکام نے مقدمے کی تفتیشی مذکورہ پولیس افسر کو منتقل کردی تھی۔

پولیس افسر نے چالان جمع کرانے میں لیت لعل سے کام لیتا رہا اور مصالحت کرانے میں مصروف رہا بلاآخرا اگست میں مدعیہ کو جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی ارم جہانگیر کے روبرو پیش کیا اور بتایا کہ وہ مصالحت کرنا چاہتی ہے، ملزمان کو اﷲ کے واسطے معاف کررہی ہے جس پر فاضل عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کا ہے اور متعقلہ عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی، اس ناکامی کے بعد چار ماہ تک معاملہ طے کرتا رہا اور معاملہ طلے ہونے کے بعد چار ماہ کی تاخیر سے ایک ملزم کا چالان قتل خطا اورحادثاتی مقدمے میں تبدیل کردیا ہے اور واضح طور پر تحریری کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر انسداد دہشت گردی کی ایکٹ کا اندارج کیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں