ایک گلی کی خاطر ووٹ دینا

اگر ہم نظام میں حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں امیدواروں کو جانچنے کے پیمانے بدلنے ہوں گے


ووٹ دینے کےلیے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر سوچنا چاہیے۔ (فوٹو: فائل)

جمہوری نظام میں ووٹ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ایک ایک ووٹ بہت زیادہ قیمتی ہوتا ہے اور ایک ووٹ ہی قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کےلیے اہم ہے۔ جمہوری نظام میں تو فیصلے فقط اکثریت کی بنا پر ہوتے ہیں۔ یہاں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ اس لیے گنتی میں جس کا پلہ بھاری ہوگیا وہی قوم پر مسلط ہوجاتا ہے۔ کسی کی اہلیت، قابلیت، دیانت اور صداقت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ فقط گنتی میں ووٹ زیادہ ہوجائیں تو انتخابات کے نتائج میں فرق آجاتا ہے۔ لہٰذا ایک ووٹ کی ہیرپھیر پورے انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرنے کےلیے کافی ہوسکتی ہے۔ اس لیے اپنے ووٹ کا درست استعمال قوم کے مستقبل کےلیے بہت ضروری بلکہ شرعی لحاظ سے بھی واجب ہے۔

ووٹ کی شرعی حیثیت کو دیکھا جائے تو علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اس کی شرعی حیثیت سفارش و شہادت کی سی ہے۔ یعنی ووٹ دینا سفارش کرنا ہے کہ میں جس امیدوار کو ووٹ دے رہا ہوں یہ میرے نزدیک اس قابل ہے کہ اسے عوامی نمائندہ بنا کر اسمبلی میں بھیجا جاسکتا ہے اور یہ اہل اور قابل شخص ہے جو عوام کی نمائندگی کا حق ادا کرسکتا ہے۔ یا ووٹ کی حیثیت شہادت اور گواہی کی ہے، یعنی ووٹ دینے والا اپنے امیدوار کے بارے میں یہ گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص جسے میں ووٹ دے رہا ہوں اس میں قانون سازی کی صلاحیتیں موجود ہیں۔ یہ عوامی مسائل حل کرنے اور قوم کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ان دونوں صورتوں میں سفارش اور گواہی کے شرعی احکامات اور وعدے و وعیدیں نافذ ہوں گی۔ یعنی آیات قرآنی اور احادیث میں درست موقع پر سفارش اور سچی گواہی کے جو فضائل بیان ہوئے ہیں وہ درست ووٹ دینے والے کو حاصل ہوں گے، جبکہ غلط جگہ ووٹ دینے والا نااہل کے حق میں سفارش اور جھوٹی گواہی کے بارے میں جو وعیدیں ذکر ہوئی ہیں، ان کا مستحق ٹھہرے گا۔ اس لیے ووٹ کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر اور چھان پھٹک کر کرنا چاہیے کہ کہیں ایسے شخص کو ووٹ نہ دے بیٹھیں جو بعد میں ملک و قوم کےلیے نقصان دہ ثابت ہو اور ہم اس کے تمام غلط کاموں میں برابر کے گناہ گار ٹھہریں۔

ووٹ دینے کےلیے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر سوچنا چاہیے۔ اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کو بڑے بڑے قومی مفادات پر ترجیح دینے سے معاشرے میں تباہی آتی ہے۔ ہم آج ایسے ہی کرتے ہیں کہ اپنے نہایت معمولی کاموں کےلیے نااہل لوگوں سے ووٹ کا وعدہ کر بیٹھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک پر ہمیشہ سے نااہل لوگ مسلط ہوتے آئے ہیں۔ تعلیم یافتہ اور سیاسی شعور میں پختگی رکھنے والے معاشروں میں ووٹ دینے کے معیار مختلف ہوتے ہیں۔ وہ اس شخص کو ووٹ دیتے ہیں جو ان کے ملک و قوم کے مستقبل کےلیے بہترین فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، جسے پالیسی سازی کا علم ہو۔ جو سیاسی شعور رکھتا ہو اور موجودہ حالات پر اس کی گہری نظر ہو۔ لیکن ہمارے معاشرے میں ووٹ دینے کے معیار بہت ہی مختلف بلکہ گھٹیا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

ہم ایک بریانی کی پلیٹ پر ووٹ دے دیتے ہیں۔ ہمیں کوئی امیدوار سائیکل لے دے یا فقط وعدہ ہی کر لے تو ہم ووٹ دے دیتے ہیں۔ ہم ایک ایک ہزار روپے لے کر ووٹ دے دیتے ہیں۔ ہم وڈیروں اور چوہدریوں کے کہنے پر ووٹ دیتے ہیں۔ یہ تو کہیں کہیں ہوتا ہے لیکن گلیاں نالیاں پختہ کرنے پر ووٹ دینے کی وبا تو پورے ملک میں عام ہے۔ اول الذکر میں تو زیادہ تر اَن پڑھ اور دیہاتی کہلانے والے لوگ ملوث ہوتے ہیں، لیکن گلیاں اور نالیاں پختہ کرنے پر تو اچھے اچھے پڑھے لکھے شہری لوگ بھی ووٹ دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جن لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں ان کا کام ہماری گلیاں پختہ کرنا اور ہماری نالیاں بنوانا ہے۔ یہ ووٹ کی انتہائی ناقدری ہے۔

انتخابی امیدواروں کا اصل کام قانون سازی ہوتا ہے کہ وہ انتخابات میں کامیابی کے بعد ملک کے بہتر مستقبل کےلیے فیصلے کریں گے۔ نظام کو درست کرنے کےلیے قانون سازی کریں گے اور ملک و قوم کی ترقی کےلیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے قوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔ تمام شعبہ ہائے زندگی میں قوم کی ترقی و خوشحالی کے ضامن بنیں گے۔ مگر ہم ایک گلی پختہ کرنے یا پختہ کرنے کے فقط وعدے پر ہی نااہل لوگوں کو ووٹ دے دیتے ہیں۔ ہم ان کی صلاحیتوں کو نہیں دیکھتے۔ ہم معمولی معمولی وعدوں پر نااہل امیدواروں کو ووٹ دیتے آئے ہیں۔ جو ایک گلی پختہ کرکے اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر دوبارہ عوام کو دکھائی نہیں دیتے اور عوام بھی ان سے کسی حق کا مطالبہ نہیں کرسکتے۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنے وعدے کے مطابق گلی یا نالی بنوا دی ہوتی ہے، اب ان پر عوام کی کوئی ذمے داری باقی نہیں رہ جاتی۔ ایک گلی بنوا کر بھی یہ عوام پر احسان کرتے ہیں، جو انہیں نہیں بھی چاہتے وہ اپنی گلی پختہ ہوتے دیکھتے ہیں تو سر جھکا کر شرمندگی کے ساتھ ان کے ساتھ تصاویر بنواتے ہیں۔ اور یہ امیدوار گلی پختہ کرکے عوام پر احسان جتا رہے ہوتے ہیں۔

اگر ہم نظام میں حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں امیدواروں کو جانچنے کے پیمانے بدلنے ہوں گے۔ اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اہل اور دیانتدار امیدواروں کو ووٹ دیں گے تو ہمارا کوئی کام بھی نہیں رکے گا۔ دیانتدار امیدوار ہماری تمام ضروریات کا خیال رکھیں گے۔ وہ کوئی کام کریں گے تو عوام پر احسان نہیں جتائیں گے بلکہ اپنا فرض سمجھ کر کریں گے۔

اس لیے خدارا! اپنے اندر سیاسی شعور پیدا کیجئے۔ اپنے ووٹ کی اہمیت کو جانیے اور اتنی معمولی چیزوں پر ووٹ کو فروخت نہ کیجئے۔ دروان انتخابات اپنے پیش نظر نظام کی تبدیلی کی خواہش رکھیں۔ یہی ملک و قوم کے مفاد میں بہتر ہے اور اسی میں ملک و قوم کی ترقی کا راز مضمر ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں